خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 8؍ دسمبر 2023ء

غزوۂ احدپرروانگی کے دوران پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ

خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگاکرپھر اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔ پس اب اللہ کا نام لے کر چلو ۔ اوراگرتم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی

خد اکا نبی جب زرہ پہن لیتا ہے تو اتارا نہیں کرتا ۔اب خواہ کچھ ہو ہم آگے ہی جائیں گے۔ اگر تم نے صبر سے کام لیا تو خدا کی نصرت تم کو مل جائے گی

ہم مشرکین کے خلاف اہل کفر کی مدد نہیں لیں گے

آنحضورﷺ کا احد کے دامن میں صحابہؓ سے خطاب

تم جہاد پر صبر کر کے اپنے اعمال کا آغاز کرواور اس کے ذریعہ اللہ کے وعدے کو تلاش کرو

تم پر لازم ہے وہ کام جن کا میں تمہیں حکم دوں، کیونکہ میں تمہاری ہدایت پر حریص ہوں

اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے اس پر بندہ اس کی اطاعت کے ذریعہ ہی قادر ہو سکتا ہے

مومن تمام مومنوں میں ایسے ہے جیسے سر جسم میں ہوتا ہے۔ جب سر میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم اس پر تکلیف دہ ہوتا ہے

یہ باتیں اگر آج مسلمان یاد رکھیں تو کسی دشمن کو ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ ہو

فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی مکرّر تحریک

گذشتہ دنوں جنگ بندی ختم ہونے کے بعد جیسا کہ خیال تھا وہی ہو رہا ہے اور اسرائیلی حکومت پہلے سے بڑھ کر شدت سے غزہ کے ہر علاقے میں اب بمباری اور حملے کر رہی ہے۔پھر معصوم بچے اور شہری شہید ہو رہے ہیں

مسلمان ممالک کی آواز میں کچھ زور تو پیدا ہو رہا ہے لیکن جب تک ایک ہو کر جنگ بندی کی کوشش نہیں کریں گے کوئی فائدہ نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی وحدت پیدا فرمائے

اللہ کرے کہ مسلمان ایک ہو کر دنیا سے ظلم ختم کرنے کا ذریعہ بنیں نہ کہ آپس میں لڑنے کا

اس ظلم کو روکنے کے لیے پہلے بھی مَیں نے جماعتوں کے ذریعہ پیغام بھیجا ہوا ہے کہ ہمیں دعا کے ساتھ اپنے حلقۂ احباب اور اپنے علاقےکے سیاست دانوں کو ظلم ختم کرنے کے لیے آواز اٹھانے کے لیے مسلسل توجہ دلانی چاہیے۔اسی طرح اپنے حلقۂ احباب میں بھی یہ بات پھیلائیں کہ اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ معصوموں کو ظلم سے بچا لے

مکرمہ مسعودہ بیگم اکمل صاحبہ اہلیہ مکرم عبد الحکیم اکمل صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ ہالینڈ اور ماسٹر عبدالمجید صاحب (واقف زندگی ۔استاد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ)کا ذکر خیر اورنماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 8؍ دسمبر2023ء بمطابق 8؍ فتح 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ خطبہ میں

جنگ احد کے بارے میں ذکر

ہو رہا تھا۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مختصر طور پر بیان کیا ہے وہ بیان کرتا ہوں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ

’’کفار کے لشکر نے میدان سے بھاگتے ہوئے‘‘ یعنی بدر کے میدان سے بھاگتے ہوئے بدر کی جنگ کے بعد ’’یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اوراپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے۔ چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد انہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ کسی شخص کو اپنے مُردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیں گے ان کی آمد آئندہ جنگ کے لئے محفوظ رکھی جائے گی۔ چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے مشورہ لیا کہ آیا ہم کو شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر۔ آپؐ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تاکہ جنگ کی ابتداءکا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس کا مقابلہ آسانی سے کر سکیںلیکن وہ نوجوان مسلمان جن کو بدر کی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور جن کے دلوں میں حسرت رہی تھی کہ کاش! ہم کو بھی خدا کی راہ میں شہید ہونے کا موقع ملتا انہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں شہادت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے ان کی بات مان لی۔

مشورہ لیتے وقت آپؐ نے اپنی ایک خواب بھی سنائی۔ فرمایا خواب میں مَیں نے چند گائیں دیکھی ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ میری تلوار کا سرا ٹوٹ گیا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور پھر یہ کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زِرہ کے اندر ڈالا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میں ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہوں۔ صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم )آپؐ نے اِن خوابوں کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپؐ نے فرمایا گائے کے ذبح ہونے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعض صحابہؓ شہید ہوں گے اور تلوار کا سرا ٹوٹنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہو گا یا شاید مجھے ہی اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا مدینہ میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیں گے‘‘ یعنی ان کو ہم زیر کر لیں گے ’’یعنی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مار ا جائے گا۔

گو اس خواب میں مسلمانوں پر یہ واضح کردیا گیا تھا کہ ان کا مدینہ میں رہنا زیادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تھی، الہامی نہیں تھی آپؐ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کے لئے باہر جانے کا فیصلہ کر دیا۔‘‘

( دیباچہ تفسیر القرآن انوارالعلوم جلد20صفحہ 247 – 248)

خوابوں میں اشاروں کا ذکر ہوتا ہے۔

اس خواب کے ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استعارات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’استعارات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاشفات اور خوابوں میں پائے جاتے ہیں وہ حدیثوں کے پڑھنے والوں پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہیں۔ کبھی کشفی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھوں میں دو سونے کے کڑے پہنے ہوئے دکھائی دئے اور ان سے دو کذاب مراد لئے گئے جنہوں نے جھوٹے طور پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رؤیا اور کشف میں گائیاں ذبح ہوتی نظر آئیں اور ان سے مراد وہ صحابہؓ تھے جو جنگ احد میں شہید ہوئے … ایسا ہی بہت سی نظیریں دوسرے انبیاء کے مکاشفات میں پائی جاتی ہیں کہ بظاہر صورت ان پر کچھ ظاہر کیا گیا اور دراصل اس سے مراد کچھ اَور تھا۔ سو انبیاء کے کلمات میں استعارہ اور مجاز کا داخل ہونا کوئی شاذ و نادر امر نہیں ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ133،حاشیہ)

بہرحال

جب جنگ باہر نکل کر کرنے کا فیصلہ ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓکو تیاری کرنے کا حکم دیا اور آپؐ خود بھی جنگ کی تیاری کرنے لگے۔

اس کی تفصیل اس طرح ہے جیساکہ بیان ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب کی بنا پہ شہر سے باہر جا کر لڑنا پسند نہیں آ رہا تھا مگر لوگ جب مستقل طور پر اصرار کرتے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے سے اتفاق فرمایا۔ آپؐ نے جمعہ کی نماز پڑھائی اور لوگوں کے سامنے وعظ فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ پوری تندہی اور ہمت کے ساتھ جنگ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خوشخبری دی کہ اگر لوگوں نے صبر سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ ان کو فتح و کامرانی عطا فرمائے گا۔ پھر آپؐ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جا کر لڑنے کی تیاری کریں۔ لوگ یہ حکم سن کر خوش ہو گئے۔ اس کے بعد آپؐ نے سب کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ اس وقت تک وہ لوگ بھی جمع ہو گئے جو قرب و جوار سے آئے تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓکے ساتھ اپنے گھر میں تشریف لے گئے۔ ان دونوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عمامہ باندھا اور آپؐ کو جنگی لباس پہنایا۔ لوگ آپؐ کے انتظار میں صفیں باندھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت اسید بن حضیرؓنے لوگوں سے کہا کہ تم لوگوں نے باہر نکل کر لڑنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کی مرضی کے خلاف مجبور کر دیا ہے اس لیے اب بھی اس معاملے کو آپؐ کے اوپر چھوڑ دو۔ آپؐ جو بھی حکم دیں گے اور آپؐ کی جو رائے ہو گی ہمارے لیے اس میں بھلائی ہو گی۔ اس لیے آپؐ کی فرمانبرداری کرو۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپؐ نے جنگی لباس پہن رکھا تھا ۔آپؐ نے دوہری زرہ پہن رکھی تھی یعنی ایک کے اوپر دوسری زرہ تھی۔ یہ ذَاتُ الْفُضُول اور فِضَّہ نامی زرہیں تھیں اور ذَاتُ الْفُضُول وہ زرہ تھی جو اس وقت آپؐ کو حضرت سعد بن عُبَادہؓ نے بھیجی تھی جبکہ آپؐ غزوہ بدر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے اور یہی وہ زرہ تھی کہ جب آپؐ کا انتقال ہوا تو یہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اس زرہ کو چھڑا لیا تھا۔یعنی وہ پیسے دے کے اس سے واپس لے لی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلو میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور پشت پر ترکش لگا رکھا تھا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ آپؐ سَکْبْنامی اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے، کمان لٹکائی اور نیزہ ہاتھ میں لیا۔ بہرحال ممکن ہے یہ دونوں باتیں پیش آئی ہوں۔ مختلف لوگوں نے دیکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر سے باہر تشریف لائے آپؐ نے اسلحہ زیب تن فرما رکھا تھا تو آپؐ کو اطلاع دی گئی کہ مالک بن عمرو نجاریؓ فوت ہو گئے ہیں اور ان کی میّت جنازے کی جگہ رکھ دی گئی ہے۔ آپؐ نےجانے سے پہلے ان کا جنازہ پڑھایا ۔ لوگوں نے اس وقت آپؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارا یہ مقصد نہیں تھا کہ ہم آپؐ کی رائے کی مخالفت کریں یا آپؐ کو مجبور کریں، لہٰذا آپؐ جو مناسب سمجھیں اس کے مطابق عمل فرمائیں۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اگر آپؐ شہر سے نکل کر مقابلہ پسند نہیں فرماتے تو یہیں رہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ

نبی کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ ہتھیار لگانے کے بعد اس وقت تک انہیں اتارے جب تک اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ نہ فرما دے۔

ایک روایت میں اس کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ

جب تک وہ جنگ نہ کرے۔

(ماخوذ از سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ298-299دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(سبل الہدیٰ جلد 4 صفحہ 186 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری اور صحابہ ؓکی غلطی کے احساس

کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ

آپؐ اندرون خانہ تشریف لے گئے جہاں حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمر ؓکی مدد سے آپؐ نے عمامہ باندھا اورلباس پہنا۔ پھر ہتھیار لگا کر اللہ کانام لیتے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔ لیکن اتنے عرصہ میں یہ جو نوجوان تھے ان کو بعض صحابہؓ کے کہنے پر اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پراصرار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جب یہ احساس ان کو ہوا تو اکثر ان میں سے پشیمانی کی طرف مائل تھے۔ جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوہتھیار لگائے اور دوہری زرہ اور خود وغیرہ پہنے ہوئے تشریف لاتے دیکھا توان کی ندامت اَور بھی زیادہ ہو گئی اور انہوں نے قریباً ایک زبان ہوکر عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے آپؐ کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر اصرار کیا۔ آپؐ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اسی طرح کارروائی فرمائیں۔ ان شاء اللہ اسی میں برکت ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگاکرپھر اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔ پس اب اللہ کا نام لے کر چلو ۔اوراگرتم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 485-486)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس سلسلہ میں بیان فرمایا ہے کہ

’’جب آپؐ باہر نکلے تو نوجوانوں کو اپنے دلوں میں ندامت محسوس ہوئی اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم)جو آپؐ کا مشورہ ہے وہی صحیح ہے ہمیں مدینہ میں ٹھہر کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ آپؐ نے فرمایا

خد اکا نبی جب زرہ پہن لیتا ہے تو اتارا نہیں کرتا ۔اب خواہ کچھ ہو ہم آگے ہی جائیں گے۔ اگر تم نے صبر سے کام لیا تو خدا کی نصرت تم کو مل جائے گی۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن انوارالعلوم جلد 20صفحہ 248)

بہرحال اسلامی لشکر کی روانگی کی تیاری شروع ہوئی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار کے لشکر کو ساتھ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جزء 3صفحہ 448)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر تین نیزے منگوائے اور ان پر تین جھنڈے باندھے اور قبیلہ اوس کا جھنڈا اُسید بن حضیر ؓکو دیا اور قبیلہ خزرج کا جھنڈا حُبَاب بن مُنْذِرؓ کو دیا اور بعض نے کہا ہے کہ سعد بن عبادہ ؓکو دیا اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی ؓکو دیا اور مدینہ میں باقی رہنے والے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے ابن ام مکتوم ؓکو اپنا نائب مقرر فرمایا۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے سَکْبپر سوار ہوئے ،کمان کو گلے میں ڈالا اور نیزے کو ہاتھ میں لیا۔ روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ احد کے دن مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے تھے۔ ایک گھوڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جس کا نام سَکْبتھا اور دوسرا گھوڑا حضرت ابوبُردہؓ کے پاس تھا جس کا نام مُلَاوِحتھا۔اور مسلمانوں نے بھی ہتھیار سجا رکھے تھے۔ ان میں سو زرہ پوش تھے۔ اور دو سعد یعنی سعد بن مُعاذؓ اور سعد بن عُبادہ ؓآپؐ کے آگے دوڑنے لگے۔ ان دونوں نے زرہ پہنی ہوئی تھی اور لوگ آپؐ کے دائیں اور بائیں تھے۔

جب آپؐ ثنیہ تک پہنچے تو ایک بہت ہتھیار والی فوج دیکھی۔ان کے ہتھیاروں کی جھنکار تھی۔ آپؐ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ صحابہ کرامؓ نے جواب دیا کہ یہ یہود میں سے عبداللہ بن اُبَیکے حلیف ہیں۔ آپؐ نے پوچھا یہود اسلام لے آئے ہیں؟ جواب دیا گیا نہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا

ہم مشرکین کے خلاف اہل کفر کی مدد نہیں لیں گے۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ186 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(الطبقات الکبریٰ جلد 1صفحہ 380 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت )

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی لکھا ہے کہ

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر اسلامی کے لئے تین جھنڈے تیار کروائے۔ قبیلہ اوس کا جھنڈا اُسیدبن الحضیرؓ کے سپرد کیا گیا اورقبیلہ خزرج کاجھنڈا حباب بن منذرؓ کے ہاتھ میں دیا گیا اورمہاجرین کاجھنڈا حضرت علی ؓکودیا گیا۔‘‘ بعد میں یہ جھنڈا حضرت مصعب بن عمیرؓ کو دے دیا گیا ’’اور پھر مدینہ میں عبداللہ بن ام مکتومؓ کوامام الصلوٰة مقرر کرکے آپؐ صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ نماز عصر کے بعد مدینہ سے نکلے۔ قبیلہ اوس اورخزرج کے رؤسا سعد بن معاذؓ اورسعد بن عبادہؓ آپؐ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اورباقی صحابہؓ آپؐ کے دائیں اوربائیں اورپیچھے چل رہے تھے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ486)

(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 398 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور

شیخین کے مقام پر پہنچ کر آپؐ نے پڑاؤ ڈالا۔

یہ مدینہ کے دو پہاڑ تھے۔ یہاں پہنچ کر

آپؐ نے اپنے لشکر کا معائنہ فرمایا اور ان نوجوانوں کو واپس فرما دیا جن کے متعلق آپؐ نے اندازہ لگایا کہ وہ پندرہ سال کی عمر کو نہیں پہنچے یا جو چودہ سال کے ہیں۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ300دارالکتب العلمیۃ بیروت)

( سبل الہدیٰ مترجم جلد 4 صفحہ 175)

امام شافعیؒ نے نقل کیا ہے کہ آپؐ نے چودہ سال کے ان سترہ نوجوانوں کو واپس کر دیا جو آپؐ کے سامنے پیش کیے گئے اور آپؐ کے سامنے پندرہ سال کے لڑکے پیش کیے گئے تو آپؐ نے ان کو اجازت دے دی۔

کم عمری کی وجہ سے جن کو واپس کیا گیا،وہ بچے پُرجوش تھے،ان میں سے بعضوں کے نام بھی روایات میں ملتے ہیں ۔وہ یہ ہیں:عبداللہ بن عمر،زید بن ثابِت ، اسامہ بن زید، زید بن ارقم، بَرَاء بن عازِب، اُسید بن ظُھیر، عَرَابہ بن اوس، ابوسعید خُدری، اَوس بن ثابت ، سعد بن بَحِیرْ، ابن مُعاویہ بَجَلِی، سعید بن حَبْتَہ (حَبْتَہ ان کی والدہ کا نام تھا) سعد بن عُقَیب، زید بن جَارِیہ، جابر بن عبداللہ(یہ جابر بن عبداللہ وہ نہیں ہیں جن سے احادیث مروی ہیں۔ یہ اَور ہیں۔) رافع بن خَدِیج اور سَمُرَہبن جُنْدُب۔

رافع بن خَدِیج کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ تیر انداز ہیں تو ان کو آپؐ نے اجازت دے دی۔ پہلے ان کو کہا واپس جاؤ، جب پتہ لگا کہ یہ اچھا تیر انداز ہے تو پھر آپؐ نے اجازت دے دی۔

اس پر سَمُرہ بن جندب نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع بن خدیج کو اجازت دے دی ہے اور مجھے واپس کر دیا ہے حالانکہ میں کُشتی میں اس کو پچھاڑ سکتا ہوں۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کہ تم دونوں کشتی کرو۔ کشتی میں سَمُرہ نے رافع کو پچھاڑ دیا تو آپؐ نے اس کو بھی اجازت دے دی۔

پھر روایت میں آگے ذکر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے معائنہ سے فارغ ہوئے اور سورج غروب ہو گیا تو حضرت بلالؓ نے مغرب کی اذان دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ پھر عشاء کی اذان دی۔ آپؐ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور یہ رات مقام شیخین پر گزاری اور اس رات پہرے کے لیے محمد بن مسلمہؓ کو نگران بنایا۔ یہ پچاس افراد کے ساتھ لشکر کے ارد گرد چکر لگاتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات ہماری حفاظت میں کون رہے گا ؟یعنی سارے لشکر کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی حفاظت کون کرے گا۔ مراد یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب کون رہے گا تاکہ حفاظت کا صحیح انتظام ہوسکے تو ذکوان بن عبد قیسؓ کھڑے ہوئے۔ اپنی زرہ پہنی اور اپنی چمڑے کی ڈھال پکڑی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دیتے رہے اور آپؐ کے پاس سے ایک گھڑی بھی جدا نہیں ہوئے یعنی ایک لمحے کے لیے بھی جدا نہیں ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سحری کے وقت تک آرام فرماتے رہے۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ187دارالکتب العلمیۃ بیروت)

روایت میں آتا ہے کہ صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ فرشتے حضرت حمزہ ؓکو غسل دے رہے ہیں۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 300 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اس بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ

’’احدکا پہاڑ مدینہ سے شمال کی طرف قریباً تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس کے نصف میں پہنچ کر اس مقام میں جسے شیخین کہتے ہیں آپؐ نے قیام فرمایا اورلشکر اسلامی کاجائزہ لئے جانے کا حکم دیا۔ کم عمر بچے جو جہاد کے شوق میں ساتھ آگئے تھے واپس کئے گئے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر، اسامہ بن زید، ابوسعید خدری وغیرہ سب واپس کئے گئے۔ رافع بن خَدِیج انہیں بچوں کے ہم عمر تھے مگرتیراندازی میں اچھی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ان کے والد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کی سفارش کی کہ ان کو شریک جہاد ہونے کی اجازت دی جاوے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کی طرف نظر اٹھاکردیکھا تو وہ سپاہیوں کی طرح خوب تن کرکھڑے ہوگئے تاکہ چست اورلمبے نظر آئیں۔ چنانچہ ان کا یہ داؤ چل گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ اس پر ایک اَوربچہ سَمُرَہبن جُندب نامی‘‘ جیساکہ ابھی ذکر ہوا ہے ’’جسے واپسی کا حکم مل چکا تھا اپنے باپ کے پاس گیا اور کہا کہ اگررافع کولیا گیا ہے تو مجھے بھی اجازت ملنی چاہئے کیونکہ میں رَافع سے مضبوط ہوں اور اسے کُشتی میں گرا لیتا ہوں۔ باپ کو بیٹے کے اس اخلاص پر بہت خوشی ہوئی اور وہ اسے ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراپنے بیٹے کی خواہش بیان کی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اچھارَافع اورسَمُرہ کی کشتی کرواؤ تاکہ معلوم ہوکہ کون زیادہ مضبوط ہے۔ چنانچہ مقابلہ ہوا اور واقع میں سَمُرہ نے پل بھر میں رافع کواٹھا کردے مارا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سَمُرہ کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمائی اوراس معصوم بچے کا دل خوش ہو گیا۔

اب چونکہ شام ہوچکی تھی اس لئے بلالؓ نے اذان کہی اور سب صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی اور پھر رات کے واسطے مسلمانوں نے یہیں ڈیرے ڈال دیئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے پہرے کے لئے محمد بن مسلمہؓ کومنتظم مقرر فرمایا جنہوں نے پچاس صحابہؓ کی جماعت کے ساتھ رات بھر لشکر اسلامی کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے پہرہ دیا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ486-487)

عبداللہ بن ابی بن سلول پہلے تو ساتھ آیا تھا، لیکن رستے میں واپس چلا گیا تھا ۔

اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ

سحری کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخین کے مقام سے آگے کوچ فرمایا اور مدینہ اور احد کے درمیان میں شَوْطْ نامی ایک مقام پر پہنچ کر نماز کا وقت ہو گیا اور اس جگہ آپؐ نے نماز فجر ادا فرمائی۔ شوط وادی قَنَاۃ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ اسی جگہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنے ساتھی منافقوں سمیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر واپس ہو گیا۔ اس کے ساتھیوں کی تعداد تین سو تھی جو سب منافق تھے۔ واپس ہوتے ہوئے عبداللہ بن اُبَیّکہنے لگا کہ انہوں نے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی بلکہ لڑکوں کی بات مانی ہے۔لڑکوں کی باتوں میں آ گئے جن کی کوئی رائے نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کس بنا پر اپنی جانیں دیں۔ یہ عبداللہ نے کہا۔ اس لیے اے لوگو! واپس لوٹ چلو۔غرض سردار منافقین کے اس حکم پر اس کے منافق ساتھی مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر واپس لوٹ گئے۔ ان کو جاتے دیکھ کر حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللہ بن عمروؓ اس کے پیچھے لپکے۔ یہ بھی عبداللہ بن ابی کی طرح قبیلہ خزرج کے بڑے سردار تھے۔ انہوں نے واپس جانے والوں سے کہا کہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بات تمہارے لیے مناسب ہے کہ تم عین اس وقت اپنے نبی اور اپنی قوم کے ساتھ غداری کرو جبکہ دشمن اپنی پوری قوّت وطاقت کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ تم لوگ جنگ لڑو گے تو ہم تمہارے ساتھ ہی نہ آتے۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ جنگ وغیرہ کچھ نہیں ہو گی۔ اس طرح انہوں نے صاف صاف واپسی کا اعلان کر دیا حالانکہ بڑی تیاری کر کے جنگ کے لیے آئے تھے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے کہا خدا کے دشمنو! اللہ تمہیں ہلاک و برباد کرے۔ جلد ہی اللہ اپنے نبی کو تم سے مستغنی کر دے گا۔

ایک روایت میں ہے کہ علامہ ابن جَوزِیؒ نے یہ لکھا ہے کہ جب قبیلہ بَنُو سَلَمہ اور بنو حارثہ نے عبداللہ بن اُبَیّکوغداری کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے بھی واپس ہونے کا ارادہ کیا۔ یہ دونوں قبیلے لشکر کے دونوں بازوؤں پر تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کو اس گناہ سے بچا لیا اور انہوں نے واپس جانے کا ارادہ ختم کر دیا اس پر خدا تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ

اِذۡ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا وَ اللّٰہُ وَلِیُّہُمَا وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔(آل عمران :123) کہ جب تم میں سے دو گروہوں نے ارادہ کیا کہ وہ بزدلی دکھائیں حالانکہ اللہ دونوں کا ولی تھا اور اللہ ہی پر مومنوں کو توکّل کرنا چاہیے۔

عبداللہ بن اُبَیّ اور اس کے تین سو ساتھیوں کی اس غداری کے بعداب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سات سو آدمی رہ گئے تھے۔

ادھر جب عبداللہ بن اُبَیّواپس ہوا تو

انصار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! کیا یہود میں جو لوگ ہمارے حلیف اور حمایتی ہیں ان سے اس موقع پر مدد نہ لے لیں ؟

ان کی مراد مدینے کے یہودی تھے اور ان میں شاید بنو قریظہ کے یہودی مراد تھے کیونکہ بنو قریظہ کے یہودی حضرت سعد بن معاذؓ کے حلیف تھے اور حضرت سعد بن معاذؓ قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ حضرت سعدؓ کے بارے میں بعض علماء نے کہا ہے کہ انصار میں ان کی حیثیت اور درجہ ایسا ہی تھا جیسا مہاجرین میں حضرت ابوبکرؓ کا تھا۔ غرض انصار کے اس سوال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ فرمایا :

ہمیں ان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ301 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(فرہنگ سیرت صفحہ167 زوار اکیڈمی کراچی)

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی لکھا ہے کہ

’’دوسرے دن یعنی پندرہ شوال تین ہجری مطابق31؍مارچ 624ء بروز ہفتہ سحری کے وقت لشکر اسلامی آگے بڑھا اورراستے میں نماز اداکرتے ہوئے صبح ہوتے ہی احد کے دامن میں پہنچ گیا۔ اس موقعہ پربدباطن عبداللہ بن اُبَیّ بن سلول رئیس المنافقین نے غداری کی اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں کے لشکر سے ہٹ کریہ کہتا ہوا مدینہ کی طرف واپس لوٹ گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی اور ناتجربہ کار نوجوانوں کے کہنے میں آکر باہرنکل آئے ہیں۔ اس لئے میں ان کے ساتھ ہوکر نہیں لڑ سکتا۔ بعض لوگوں نے بطور خود اسے سمجھایا بھی کہ یہ غداری ٹھیک نہیں ہے مگر اس نے ایک نہ سنی اور یہی کہتا گیا کہ یہ کوئی لڑائی ہوتی تومیں بھی شامل ہوتا مگر یہ کوئی لڑائی نہیں ہے بلکہ خود ہلاکت کے منہ میں جانا ہے۔

اب اسلامی لشکر کی تعداد صرف سات سونفوس پر مشتمل تھی جو کفار کے تین ہزار سپاہیوں کے مقابلہ میں ایک چہارم سے بھی کم تھی اورسواری اور سامان حرب کے لحاظ سے بھی اسلامی لشکر قریش کے مقابلہ میں بالکل کمزور اور حقیر تھا کیونکہ مسلمانوں کی فوج میں صرف ایک سو زرہ پوش اور فقط دو گھوڑے تھے۔ اس کے بالمقابل کفار کے لشکر میں سات سوزرہ پوش اور دو سو گھوڑے اور تین ہزار اونٹ تھے۔

اس کمزوری کی حالت میں جسے مسلمان خوب محسوس کرتے تھے عبداللہ بن اُبَی کے تین سو آدمی کی غداری نے بعض کمزوردل مسلمانوں میں ایک بے چینی اور اضطراب کی حالت پیدا کر دی تھی اور ان میں سے بعض متزلزل ہونے لگ گئے۔ چنانچہ جیساکہ قرآن شریف میں بھی اشارہ کیا گیا ہے اسی گھبراہٹ اور اضطراب کی حالت میں مسلمانوں کے دو قبائل بنوحارثہ اور بنوسلمہ نے مدینہ کی طرف واپس لوٹ جانے کا ارادہ بھی کر لیا مگر چونکہ دل میں نور ایمان موجود تھا پھر سنبھل گئے اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی اپنے آقا کے پہلو کو نہ چھوڑا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ487)

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ

’’آپؐ ایک ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور تھوڑے فاصلہ پر جا کر رات بسر کرنے کے لئے ڈیرہ لگا دیا۔ آپؐ کا ہمیشہ طریق تھا کہ آپؐ دشمن کے پاس پہنچ کر اپنے لشکر کو کچھ دیر آرام کرنے کاموقع دیا کرتے تھے تاکہ وہ اپنا سامان وغیرہ تیار کر لیں۔ صبح کی نماز کے وقت جب آپؐ نکلے تو آپؐ کو معلوم ہوا کہ کچھ یہودی بھی اپنے معاہد قبیلوں کی مدد کے بہانہ سے آئے ہیں۔ چونکہ یہود کی ریشہ دوانیوں کا آپؐ کو علم ہو چکا تھا آپؐ نے فرمایا کہ اِن لوگوں کو واپس کر دیا جائے۔ اِس پر عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا رئیس تھا وہ بھی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ اب یہ لڑائی نہیں رہی۔ یہ تو ہلاکت کے منہ میں جانا ہے۔‘‘ عبداللہ بن ابی کے جانے کی ایک یہ بھی وجہ بنی تھی کہ اس نے کہا ان یہودیوں کو کیوں نہیں شامل کرتے۔ یہ تو ہلاکت کے منہ میں جانا ہے ’’کیونکہ خود اپنے مدد گاروں کو لڑائی سے روکا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ

مسلمان صرف سات سو رہ گئے جو تعداد میں کفار کی تعداد سے چوتھے حصہ سے بھی کم تھے اور سامانوں کے لحاظ سے اَور بھی کمزور کیونکہ کفار میں سات سو زِرہ پوش تھا اور مسلمانوں میں صر ف ایک سو زِرہ پوش اور کفار میں دو سو گھوڑ سوا رتھا مگر مسلمانوں کے پا س دو گھوڑے تھے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن،انوارالعلوم جلد20صفحہ 248-249)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے ساتھ جب حرہ بنو حارثہ میں پہنچے تو ایک صحابی کے گھوڑے نے اپنی دم ہلائی تو وہ ان کی تلوار کو جا لگی۔ انہوں نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے جلدی سے اپنی تلوار سونت لی۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیک فال لینا پسند کرتے اور بدشگونی کو ناپسند فرماتے تھے۔ آپؐ نے ان سے فرمایا کہ جس کی وہ تلوار تھی کہ اپنی تلوار کو نیام میں ڈال لو کیونکہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آج ضرور تلواریں سونتی جائیں گی۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جزء 3صفحہ 448-449)

یہی فال نکلتی ہے اس سے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: کون ہے جو ہمیں قریب کے راستے سے دشمن کی طرف لے جائے۔ یعنی ایسے راستے سے جو عام گزرگاہ نہیں ہے۔ اس پر حضرت ابوخَیْثَمَہؓنے کہا کہ یا رسول اللہؐ! میں لے چلوں گا۔ ابن سعد وغیرہ نے ان کا نام ابوحَتْمَہبیان کیا ہے۔ چنانچہ وہ آپؐ کو بنو حارثہ کے محلے اور ان کی زمینوں اور املاک میں سے نکالتے ہوئے مسلمانوں کے ہمراہ لے چلے یہاں تک کہ اُحُد کی گھاٹی میں پہنچ کر آپؐ نے پڑاؤ ڈالا۔

آپؐ نے اس طرح پڑاؤ ڈالا کہ

احد پہاڑ کو اپنی پشت کی طرف کر لیا اور مدینہ کو سامنے کے رخ پر کر لیا۔

(سیرت الحلبیہ جلد2 صفحہ301-302دارالکتب العلمیۃ بیروت)

یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے خطاب فرمایا۔

مسلمانوں نے احد کے دامن میں صف بنائی ۔اور ہفتے کے دن نماز فجر کا وقت قریب ہو گیا اور مسلمان مشرکین کو دیکھ رہے تھے۔ حضرت بلالؓ نے اذان اور اقامت دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو صبح کی نماز پڑھائی۔ محمد بن عمر اسْلَمِیبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا:

اے لوگو! میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں جو مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں وصیت کی ہے۔ اس کی فرمانبرداری کرنے اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنے کی۔

تم آج کے دن اجر و ثواب کی منزل پر ہو۔جس نے اس کو یاد رکھا ،پھر اس نے اس کے لیے اپنے آپ کو صبر اور یقین اور نشاط پر آمادہ کیا۔ (جس دن کے لیے تم آئے ہو آج تمہیں ان ساری باتوں کے لیے صبر کرنا پڑے گا۔)کیونکہ دشمن سے جہاد کرنا سخت مشقت کی چیز ہے۔ بہت تھوڑے لوگ ہیں جو اس پر صبر کر سکتے ہیں ۔سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے کیونکہ اللہ اپنی اطاعت کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور شیطان اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس

تم جہاد پر صبر کر کے اپنے اعمال کا آغاز کرو اور اس کے ذریعہ اللہ کے وعدے کو تلاش کرو۔اور تم پر لازم ہے وہ کام جن کا میں تمہیں حکم دوںکیونکہ میں تمہاری ہدایت پر حریص ہوں۔اور بیشک اختلاف اور جھگڑا عجز و کمزوری کی نشانیاں ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کو پسند نہیں کرتا۔

(کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے) اور اس پر مدد اور کامیابی نہیں عطا کرتا۔

اے لوگو! یہ چیز میرے سینے میں ڈال دی گئی ہے کہ جو حرام کا ارتکاب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے اور اس کے درمیان تفریق کر دیتا ہے۔

(اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا جو حرام کے کام کرتا ہے۔)اور جو اللہ کے لیے اس حرام سے اعراض کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا ۔اور جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ اور فرشتے اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجیں گے ۔اور جو کسی مسلمان یا کافر سے حسن سلوک کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اس کو دنیا میں جلدی ملے گا اور آخرت میں مؤخر کر کے ۔اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اس پر جمعہ لازم ہے سوائے بچے یا عورت یا مریض یا مملوک غلام کے اور جو اس سے استغنا کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے استغنا کرے گا۔ (گویا کہ آپؐ نے پوری نصائح فرما دیں کہ مسلمانوں کو کس طرح رہنا چاہیے۔ شاید اس خواب کی بنا پر آپؐ کو خیال ہوا۔ )

پھر فرمایا: اور اللہ تعالیٰ غنی اور حمید ہے۔اور میں جو اعمال جانتا تھا کہ وہ تمہیں اللہ کے قریب کر دیں گے تو میں نے تمہیں ان کا حکم دے دیا ہے۔ اور میں جو عمل بھی جانتا تھا کہ وہ تمہیں جہنم کے قریب کر دے گا تو میں نے تمہیں اس سے روک دیا ہے۔

اورروح الامین نے میرے دل میں یہ الہام کیا ہے کہ کوئی نفس تب تک نہیں مرے گا جب تک وہ اپنا پورا رزق وصول نہ کر لے۔ اس کے رزق میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اگرچہ وہ رزق اس کو دیر سے ملے۔

(یعنی اللہ تعالیٰ اعمال کا بدلہ دیتا ہے۔ یہاں رزق سے تمام قسم کے رزق مراد ہیں۔) پس تم اپنے ربّ سے ڈرو اور رزق کی تلاش میں اعتدال اختیار کرو۔اور رزق کا تاخیر سے ملنا تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم اس کو اللہ کی معصیت میں تلاش کرو۔ (نیک اعمال، اعلیٰ اخلاق ،پاک رزق کی تلاش میں لگے رہو)کیونکہ

اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے اس پر بندہ اس کی اطاعت کے ذریعہ ہی قادر ہو سکتا ہے۔

تمہارے لیے اللہ تعالیٰ نے حرام اور حلال کو واضح بیان کر دیا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کئی مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے مگر جس کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے وہی جانتا ہے۔ پس جو اس کو چھوڑ دے گا تووہ اپنی عزت و دین کی حفاظت کرے گا اور جو ان میں مبتلا ہو جائے گا (یعنی غلط چیزوں میں جو مبتلا ہو جائے گا )وہ اس چرواہے کی طرح ہو گا جو چراگاہ کے قریب ہو۔ قریب ہے کہ وہ اس میں چلا جائے گا۔ اور ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے۔

سن لو! بیشک اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔

( ان سے بچو جو واضح طور پر حرام ہیں۔)اور

مومن تمام مومنوں میں ایسے ہے جیسے سر جسم میں ہوتا ہے۔ جب سرمیں درد ہوتا ہے تو سارا جسم اس پر تکلیف دہ ہوتا ہے۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ189-190 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

یہ باتیں اگر آج مسلمان یاد رکھیں تو کسی دشمن کو ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ ہو۔

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ بیان فرماتے ہیں: ’’غزوہ احد…دشمن مکے سے چل کر مدینے پہنچے‘‘ غزوہ احد کے دن۔ ’’وہ لڑائی کا سامان جو ابوسفیان شام سے لایا تھا اور جس کی پیش بندی اور دفع دخل کے لئے آنحضرتؐ کو بدر تک سفر کرنا پڑا تھا اور جس میں کفر کی شوکت ٹوٹ گئی تھی اب وہی سامان مسلمانوں کے مقابلے کے لئے جمع کیا گیا۔ قرآن آیت ذیل میں اسے اور اس کے خرچ کرنے والے کی طرف اشارہ کرتاہے اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ لِیَصُدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَسَیُنۡفِقُوۡنَہَا ثُمَّ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ حَسۡرَۃً ۔(انفال :37)اس جنگ میں قریش کے ساتھ قبیلہ بنی تِہَامہ اور بنی کِنَانہ بھی شریک ہو گئے تھے۔ کفار کی فوج کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی اور سب فوج مسلح سات سو ان میں زرہ پوش سوار تھے اور سب کے سب تُلے ہوئے تھے کہ جلد مسلمانوں سے انتقام لیں گے۔ اس چھوٹے چھوٹے قبائل کی مکمل پُرغیض فوج نے بہ سرداری ابوسفیان‘‘ یعنی ابوسفیان کی سرداری میں ’’مدینے کے شمال مشرق میں ایک مختص مقام پر اپنا مورچہ خوب مضبوط کر لیا اور اس میں اور شہر مدینے میں حد فاصل صرف کوہ احد کی گھاٹی رہ گئی۔ اس مقام پر مورچہ باندھ کر کفار نے اہل مدینہ کے کھیتوں اور باغوں کو تباہ کرنا شروع کیا۔ اس پر صحابہؓ کو نہایت غصہ آیا اور حمیت اسلام محرک انتقام ہوئی۔ آنحضرتؐ سے بکمال اصرار دفاع کی درخواست کی۔ آپؐ ہزار آدمیوں کو ساتھ لے کر مقابلے کو مدینے سے باہر نکلے۔ عبداللہ بن ابی ایک سردار جو مدینے میں رہتا تھا اور جو بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھا اب عین معرکۂ جنگ اور اس آڑے وقت میں اپنے تین سو آدمیوں سمیت مسلمانوں سے الگ ہو گیا جس سے مسلمانوں کی جمعیت ہزار سے اب سات سو رہ گئی۔ اس قلیل جمعیت میں کُل دو گھوڑے تھے مگر مجاہدین قدم ہمت برابر آگے بڑھائے چلے جاتے تھے اور نخلہائے خرما میں سے گزر کر‘‘ یعنی کھجوروں کے باغ میں سے گزر کر ’’کوہ احد پر پہنچ گئے۔ لشکر اسلام رات بھر اس پہاڑ کی کھو میں پڑا رہا۔ صبح نماز فجر پڑھ کر میدان میں آ جما۔‘‘

(فصل الخطاب حصہ اوّل صفحہ124-125)

یعنی اس وقت لڑائی شروع ہوئی۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو جائے گی۔

فلسطینیوں کے لیے میں دعاؤں کے لیے کہتا رہتا ہوں۔ دعائیں کرتے رہیں۔

گذشتہ دنوں جنگ بندی ختم ہونے کے بعد جیسا کہ خیال تھا وہی ہو رہا ہے اور اسرائیلی حکومت پہلے سے بڑھ کرشدت سے غزہ کے ہر علاقے میں اب بمباری اور حملے کر رہی ہے۔ معصوم بچے اور شہری پھر شہید ہو رہے ہیں۔

اب تو اس حرکت کے خلاف امریکہ کے ایک کانگریس کے نمائندے نے بھی جو غالباً یہودی ہیں یہ کہا ہے کہ اب بہت ہو گیا ہے۔ امریکہ کو اسے روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امریکہ کے صدر بھی دبے دبے الفاظ میں اب یہ بیان دے رہے ہیں کہ یہ فائرنگ بند ہونی چاہیے، یہ گولہ باری بند ہونی چاہیے جو شمال جنوب میں یکساں ہو رہی ہے۔ پہلے کہتے تھے جنوب کی طرف چلے جاؤ کچھ نہیں ہو گا ۔اب وہاں بھی یہی حال ہے۔ بہرحال

یہ صدر صاحب امریکہ کے جو الفاظ ہیں یہ کسی انسانی ہمدردی کی وجہ سے نہیں ہیں۔کسی غلط فہمی میں ہمیں نہیں رہنا چاہیے بلکہ یہ ان کے اپنے مفاد کی وجہ سے ہے

کہ امریکہ میں انتخاب ہونے والے ہیں اور وہاں کے نوجوان یہ ردّ عمل اب دکھا رہے ہیں کہ جنگ بندی ہو۔ اسی طرح مسلمان بھی جو امریکی شہری ہیں یہ شور مچا رہے ہیں۔ تو

یہ اپنے ووٹ لینے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔

ان کو فلسطینیوں سے یا مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔

پھر

مسلمان ممالک ہیں۔ ان کی آواز میں کچھ زور تو پیدا ہو رہا ہے لیکن جب تک ایک ہو کر جنگ بندی کی کوشش نہیں کریں گے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی وحدت پیدا فرمائے۔

غیر مسلم دنیا کو پتہ ہے کہ مسلمانوں میں وحدت نہیں ہے ۔بلکہ مسلمان مسلمان کو مارنے پہ، قتل کرنے پہ لگا ہوا ہے۔ یمن میں کیا کچھ نہیں ہو رہا ؟اسی طرح دوسرے ممالک ہیں۔ ہزاروں بلکہ بعض جگہ تو لاکھوں بچے اور معصوم ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھوں مَررہے ہیں۔اور یہی چیز غیروں کو جرأت دلا رہی ہے کہ ان پر ظلم بھی کرو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو خود اپنے آپ پہ ظلم کرتے ہیں۔ جب مسلمانوں کو مسلمان کی جان کی فکر نہیں تو دشمن پھر کیوں فکر کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں بڑا سخت انذار فرمایا ہے۔ مسلمان کا مسلمان کو قتل کرنے پر جو انذار فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ وہ جہنمی ہوں گے۔

اللہ کرے کہ مسلمان ایک ہو کر دنیا سے ظلم ختم کرنے کا ذریعہ بنیں نہ کہ آپس میں لڑنے کا۔

یو این نے اپنی آواز میں کچھ بلندی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی آواز کو کون سنتا ہے؟ یہ کہہ تو دیتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے لیکن کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کی بات ماننے والا ہی کوئی نہیں۔جو بڑی طاقتیں ہیں وہ اپنا حق استعمال کر لیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے۔

بہرحال

اس ظلم کو روکنے کے لیے پہلے بھی مَیں نے جماعتوں کے ذریعہ پیغام بھیجا ہوا ہے کہ ہمیں دعا کے ساتھ اپنے حلقۂ احباب اور اپنے علاقےکے سیاست دانوں کو ظلم ختم کرنے کے لیے آواز اٹھانے کے لیے مسلسل توجہ دلانی چاہیے۔اسی طرح اپنے حلقۂ احباب میں یہ بات بھی پھیلائیں کہ اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ معصوموں کو ظلم سے بچا لے۔

نماز کے بعد میں دو

جنازے غائب

بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا

مکرمہ مسعودہ بیگم اکمل صاحبہ

(ہالینڈ)کا ہے ۔یہ مکرم عبدالحکیم اکمل صاحب مرحوم مربی سلسلہ کی اہلیہ تھیں ۔گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے نانا حضرت میاں عبدالصمد صاحبؓ اور پڑنانا حضرت میاں فتح دین صاحبؓ سیکھواں قادیان کے تھے۔ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ مرحومہ طویل عرصہ تک ہالینڈ میں اپنے شوہر کے ساتھ خدمت دین میں مصروف رہیں۔ 1957ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر اکمل صاحب پہلی بار ہالینڈ گئے اور اہلیہ ان کی ساتھ نہیں تھیں۔ یہ 1969ء میں گئیں۔ پھر دوبارہ واپس آئے۔پھر 1986ء میں یہ گئیں۔ اپنی شادی شدہ زندگی میں کم و بیش پندرہ سال یہ اپنے شوہر کی بیرون ملک تعیناتی پر علیحدہ رہی ہیں، تنہا انہوں نے گزارے ہیں۔

ہالینڈ قیام کے دوران ان کی قابل ذکر خدمات میں لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کا قیام خاص طور پہ شامل ہے۔ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کی اوّلین صدر کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔ خلافت سے بہت اخلاص اور وفا کا تعلق تھا۔ متقی، پرہیزگار اور صوم و صلوٰة کی پابند خاتون تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں اور سب ہی کسی نہ کسی طور پر بڑے اخلاص سے جماعت کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے صدر انصاراللہ ہیں اور اب اس سال وہ شاید دوبارہ انصار اللہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے بچے بھی جماعت کی خدمات کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

دوسرا ذکر ہے

ماسٹر عبدالمجید صاحب۔ یہ واقف زندگی

تھے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں استاد تھے۔ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد اب کینیڈا آ گئے تھے۔ وہیں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

ان کے بیٹے مظہر مجید کہتے ہیں کہ والد بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ انتہائی عاجزی اور درویشی سےزندگی بسر کی۔ والدہ بتاتی ہیں کہ شادی سے لے کر وفات تک آپ کو فرشتہ سیرت انسان پایا۔ شادی کے چند سال بعد ایک دن نماز میں اونچی آواز میں رو رو کر دعا کر رہے تھے۔ نماز کے بعد میں نے پوچھا کہ آپ کس چیز کے لیے دعا کر رہے ہیں تو اس پر کہنے لگے کہ میری خواہش ہے کہ میں اپنی زندگی وقف کر کے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں بطور استاد خدمت سرانجام دوں۔ پہلے اپنے علاقے میں کہیں اَور تھے۔ تو میں یہ دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری خواہش کو پورا کرے اور میری بیوی کو بھی اس بات پر راضی کر دے۔ شرح صدر دے دے۔ بہرحال ان کی اہلیہ نے کہا کہ آپ حضرت خلیفة المسیح کو فوری طور پہ وقف زندگی کا خط لکھیں۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے انہوں نے وقف کی یہ درخواست دی، حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ کے زمانے کی بات تھی، جو انہوں نے منظور کر لی اور یہ ربوہ منتقل ہو گئے۔

یہ کہتے ہیں کہ والد صاحب کو ہر ماہ جب تنخواہ ملتی تو سب سے پہلے سیکرٹری مال کے پاس جاتے۔ چندہ ادا کرتے۔ اس کے بعد بچی ہوئی رقم آ کے والدہ کے ہاتھ میں دے دیتے۔ ربوہ آنے کے بعد انتہائی مشکل حالات میں گزارہ کیا اور کبھی شکوہ نہیں کیا۔ کبھی دنیا کی خواہش، چیزوں کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ بہن بھائیوں کو ہمیشہ وقت پر نماز اد ا کرنے اور جماعت اور خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ اس وقت جماعت کے جو مالی حالات تھے وہ بھی ایسے نہیں تھے، کافی تنگی ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود بڑے صبر سے انہوں نے گزارہ کیا۔

جب مَیں سکول میں تھا یہ اس وقت استاد ہو کے آئے تھےاور میں نے ان کو دیکھا ہے، یہ صرف بچے کی باتیں نہیں ہیں کہ بیٹے نے باپ کی تعریف کر دی۔ ان میں واقعی یہ خوبیاں موجود تھیں۔

غیر احمدی بھی ان سے متاثر تھے۔ سکول 73ء میں یا 74ء میں یا شاید اس کے بعد جب سکول قومیائے گئے تو اس وقت پھر یہ سکول میں ہی رہے اور کچھ عرصہ انہوں نے ہائی سکول میں گزارا ۔پھر 1985ء میں جب حکومت نے ان کو ترقی دے کے بطور ہیڈماسٹر اسلامیہ ہائی سکول بھیرہ میں بھیج دیا تو وہاں کا نائب ہیڈماسٹر جو جامع مسجد کا امام بھی تھا اور بظاہر لگتا تھا کہ وہ احمدی ہونے کی وجہ سے ان کی مخالفت کرے گا لیکن آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے وہ آپ کی نہایت عزت کرتا تھا ۔بہت زیادہ عزت کرتا تھا ۔نہایت ادب سے رہتا تھا۔

روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے اس کو دوسرے اساتذہ سے کہتے ہوئے سنا کہ یہ شخص باوجود قادیانی ہونے کے فرشتہ صفت انسان ہے۔ تو اس طرح خاموش تبلیغ بھی یہ کیا کرتے تھے۔ دشمنوں پر بھی اثر ڈالتے تھے۔ اکثر اوقات آپ کے شاگرد آپ سے ملنے آیا کرتے اور کہتے کہ ہم آپ کے شاگرد رہ چکے ہیں۔لیکن آپ سب سے زیادہ فخر ان شاگردوں پر کرتے اور ان کا ذکر کرتے جنہوں نے اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کر دی اور اس بارے میں بڑی خوشی سے بتاتے کہ فلاں واقف زندگی میرے شاگرد رہ چکے ہیں۔ واقفین زندگی کا بہت قدر اور احترام کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل جمعۃ المبارک ۲۹؍ دسمبر ۲۰۲۳ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button