متفرق مضامین

اس کے نصیب پوچھ کسی خوش نصیب سے

(محمد انیس دیال گڑھی۔جرمنی)

۲۰۰۵ء کے جلسہ سالانہ قادیان کی یاد آج بھی میرے لیے ایک قیمتی سرمائے سےکم نہیں اور یہ ایسی یاد نہیں جو لذّتِ خوابِ سحر کی طرح اُڑ جائے اور نقش ونگار ِطاقِ نسیاں ہوجائے۔ اس یاد کا ہرلمحہ لوح ذہن پر نقش ہے اور اس یاد کی پتیاں ابھی تک سوکھی نہیں بلکہ دل ودماغ میں ہر طرف ترو تازہ بکھری پڑی ہیں اور روح کو معطر رکھے ہوئے ہیں۔

ہر سال یورپ اور دیگر ممالک سے بہت سے لوگ قادیان جلسہ پر جاتے ہیں مگر ۲۰۰۵ء میں جانے والوں کا غیرمعمولی جو ش وخروش دیکھ کر حیرت ہوئی، اس جوش وخروش اور جانے والوں کی تعداد میں روز بروزا ضافہ ہورہا تھا۔ کہیں سے یہ نوید ملی کہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی اس سال قادیان تشریف لے جا رہے ہیں۔ دیارِ مسیح ؑکا جلسہ اور خلیفۃ المسیح کی شرکت، دل مچلنے لگا۔ لوگوں کی تیاری اور میری بے قراری میں دن بدن اضافہ ہورہا تھا۔ آج تک قادیان کے گلی کوچوں کی خاک دیکھنی نصیب نہ ہوئی تھی اور ۱۹۹۱ء کے جلسہ میں شامل نہ ہوسکنے کا احساسِ محرومی کا زخم ابھی تک بھرا نہ تھا۔ ۲۰۰۵ء میں یہ زخم پھر ہرا ہو گیا۔ قادیان جانے والے جب اپنی خوش نصیبی کا ذکر کرتے تو ان کی خوش قسمتی پرجہاں رشک آتا وہیں اپنی محرومی اور بے بسی پر افسوس بھی ہوتا۔ سال کے آخرتک کمپنی کی طرف سے دی گئی سالانہ چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں، اس قدر قلیل وقت میں بھارت کا ویزہ ملنے کی اُمیدبھی بہت کم تھی لیکن تمام نااُمیدیوں کے باوجود شاخِ دعا ہری رہی جسے آنکھ کے پانی سے سیراب کرنے کا ارادہ کیا اور ساتھ ہی حضورانور کی خدمت ِاقدس میں فوراً دعائیہ فیکس کردی اوردرخواست دعا ان الفاظ میں کی کہ…حضوردعا کریں کہ معجزانہ طور پر میرا پروگرام بن جائے… فیکس کرنے کی دیر تھی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے شعر والا معاملہ ہوا کہ

غیب سے فضل کے سامان ہوئے جاتے ہیں

مرحلے سارے ہی آسان ہوئے جاتے ہیں

گویا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا سے میرے حق میں فیصلہ ہوگیا اور مجھے یہ نہیں کہنا پڑا کہ

میرے مجیب ! میری فغاں کا جواب لا

فیکٹری والوں نے چند چھٹیاں دینےکی حامی بھردی۔ ویزہ حاصل کرنےکے لیے بھارت کے قونصل خانہ پہنچا تو پچھلے پہر ویزا ہاتھ میں تھا۔ ٹکٹ بھی مل گئی،الحمدللہ۔ گُلِ مراد کِھل اُٹھا بلکہ جھولی دامنِ باغباں کی طرح پھولوں اور پھلوں سے لدی نظر آنے لگی اور پھر وہ بابرکت اور بامراد دن آگیا کہ

’دن گنے جاتے تھے ’جس‘ دن کےلیے ‘

۲۵؍دسمبر ۲۰۰۵ء کی شام کو ایک اَور دیوانہ قادیان کی فضا میں داخل ہورہا تھا جو اپنی خوش قسمتی پرنازاں و حیراں اوراللہ تعالیٰ کے افضال کے نزول پرجذبات تشکر کے ساتھ ان گلیوں میں قدم رکھ رہا تھا جہاں مسیح پاک کے قدم پڑے۔ جس خاک نے مسیح موعود علیہ السلام کے قدم چومے اور دم بدم چومے۔ جس کی فضائوں میں مسیح پاکؑ کی معطّر اور مبارک سانسوں کی خوشبو رچی بسی تھی۔ اس زمین کو خدا نے اپنےمسیحا کے لیے چن لیا تھا اور بے شمار برکتوں سے نوازا۔

؎یہ وہ زمین تھی جو آسماں سے اُتری تھی

میں اس بستی میں موجود تھا جہاں اِس دَور کا سورج طلوع ہوا جہاں وہ ہستی پیدا ہوئی جسے خدا نے اپنے قرب سے فیضیاب کیا۔ اوراُس پیارے وجود نے نہ صرف خود کو اپنےپیارے خداکی محبت میں فنا کر دیابلکہ اس کی مخلوق کو اس سے ملانے کے لیے ہر ممکن تدبیر کی۔صبح و شام یہی ایک دُھن تھی کہ لوگ اپنے پیارے خدا کو پہچانیں اور اس سے محبت کریں تا کہ خدا بھی ان سے محبت کرے اور خدا کی یہ محبت وہ ساری دنیا میں بانٹیں اور ساری دنیا خدا کے نورسے جگمگا اُٹھےاور دنیا امن و محبت کا گہوارہ بن جائے۔یہیں سے اَمن وآشتی کا پیغام دنیا کےکونےکونے تک پہنچا اور ساتھ ہی وہ بابرکت نظام، جلسہ اور لنگر بھی۔

وہ ہستی جس نے اپنی دعاؤں سے عرش پر ایک شور برپا کردیا۔اور اس کی گریہ وزاری،آہ وبکا اور نالہ وفغاں کو سن کر خدا بھی عرش سے زمین کے فرش پر اُتر آیا اور اس بیقرار دل کو تسلی دی کہ میں تیری دِلی مرادیں پوری کروں گا۔ اس کی مراد کیا تھی یہی کہ

دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعفِ دینِ مصطفےٰ

مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب وکامگار

فرمایا:

میرے آنسو اس غم دلسوز سے تھمتے نہیں

دیں کا گھر ویران ہے اور دنیا کے ہیں عالی منار

فرمایا:

یا الٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا

اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار

اسلام کے لیے اس بے قرار اور مضطر دل کی پکار سنی گئی اور پھر اس کی دعاؤں سے

؎جو دورتھا خزاں کا وہ بدلا بہار سے

اس مبارک زمین پر قدم رکھتے ہوئے ایک لمحے میں ہزاروں خیالات میرے دل میں آئے او رگزر گئے اور کئی کیفیات دل پر وارد ہوئیں۔ ہزارہا سوالات دل ودماغ میں اُبھرے اور بغیر جواب کے ڈوب گئے۔

کیا میں اس قابل ہوں کہ اس زمین پر قدم رکھوں؟ یہ مٹی تو آنکھوں سے لگانے کے قابل ہے یہ وہ مٹی ہے جہاں وہ مبارک قدم پڑے تھے۔ہمیں اگر شرک کے خلاف باربار تعلیم نہ دی جاتی اور اس شدّت سے نہ دی جاتی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء عظام نے دی تو نہ جانے میرے جیسا شخص وہاں کیسی کیسی حرکتیں کرتا۔

بہشتی مقبرہ قادیان جانے کا وقت آیا تو یہ وقت مجھ پر سب سے مشکل اور کڑا وقت تھا۔ اندرداخل ہونے سے قبل ہی عجیب حالت تھی اپنے گناہ،غلطیاں اور کوتاہیاں سوال بن کر نگاہوں میں پھرنے لگے اور سوالات کے یہ نشتر میرے دل کو چھلنی کیے جا رہے تھے۔ کہاں آگئے ہو تم ؟ تمہارا یہاں کیا کام ؟اور اب تم کہاں جارہے ہو؟کیا تم مزارِ اقدس پر جانےکی جسارت کرنا چاہ رہے ہو؟کیا تم نے اپنی حیثیت اور اپنی اندرونی حالت پر غور کیا ہے ؟کیا کروگے تم وہاں؟ کیا تم اس قابل ہو؟

خدا کے بندے تو پروانہ وار اور دیوانہ وار اشتیاق اور جذبات میں بے اختیار و بے قرار چلےجارہے تھے مگر مجھ گناہ گار کے قدم تھے کہ منوں بوجھل ہورہے تھے، پاؤں اُٹھانا مشکل ہورہا تھا،انہی جذبات وخیالات میں لوگوں کے اژدھام اور ہجوم میں چلا جارہا تھا اور لوگوں کا یہی سیلاب مجھے بہالے گیا اور میں اچانک سیدنا وامامنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر کھڑا تھا۔ مجھے اپنےجسم کی حالت کا تو اندازہ نہیں مگر سوچوں کے اندر ایک زلزلہ تھا۔ ایک زلزلہ جو میری ہستی کو ہلائےجارہا تھا۔ نہ معلوم کب تک یہ حالت رہی۔ پھر لوگوں کی دبی دبی سسکیوں اور کانپتے لبوں سے نکلتا درود وسلام سن کر کچھ ہوش آئی مگر صرف اتنی کہ اگر آہی گئے ہو تو سلام تو عرض کرو اور پھر دعا کرو۔ہاں دعا کرو۔

دعا اور میں ؟ اور پھر مزار مسیح پر اس ہستی کےلیے ؟ دل پھر بہکا۔مضمون کا یہ حصہ میں یہیں ختم کرتا ہوں کہ ایک لمبی جنگ تھی میرےا ور میرے نفس کے درمیان۔ کیسے کیسے خیال آئے اور گزرگئے میں نے وہاں کیا کیا؟ یا مجھ سےکیا سرزد ہوا ؟یہ سب ناقابل بیان ہے اور دل بتانا بھی نہیں چاہتا۔ بعد کے دنوں میں یہ حالت کسی حد تک بہتر ہوگئی۔ یہ بھی اُس ہستی کی قوت قدسی کا فیضان ہے اور

؎ یک قطرۂ ز بحر کمالِ محمدؐ است

مزار مسیح ؑ کے احاطہ سے باہر نکلا تو اچانک دوسری قبروں کےکتبوں پر نظر پڑی تو پھر دیوانگی کا ایک حملہ ہوا۔مسیح پاک کے سچے مطیع اورصدیق اب بھی ایسے ہی قریب تھے جیسے دنیا میں۔ حضرت حکیم الامتؓ جیسا نابغہ روزگار یہاں مدفون ہے تو حضرت مولوی عبد الکریمؓ جیسا مسلمانوں کا لیڈر بھی۔ سامنے حضرت سید سرورشاہ صاحب رضی اللہ عنہ محو ِخواب تھےجن کے ایک سجدے کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ اس قدر لمبا ہوتا تھا کہ مجھ جیسوں کی طاقتِ برداشت سے باہر تھا۔پوچھا جاتا تو فرماتے میں نے تو صرف تین دفعہ ہی سبحان ربی الاعلیٰ کہا ہے ان کا کہنا صرف کہناہی نہ تھا وہ اُس عالم سے ہوکر آتے تھے کہ

اُس رخ کو دیکھنا ہی تو ہے اصل مدعا

ایک طرف حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ آسودۂ خاک ہیں تو دوسری جگہ ان کا دوست حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ۔ یہاں حضرت عبد اللہ سنوری صاحبؓ محو خواب ہیں تو وہاں حضرت چودھری نصراللہ خان صاحبؓ ابدی سکون میں محو استراحت ہیں۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ جیسا بزرگ بھی یہاں دفن ہے تو آپ کی بزرگ اولاد میں سے حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ بھی اسی جنت میں پنہاں ہیں۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ جیسا امیر مگر دل کا غریب اور پھرحضرت چودھری نصراللہ خان صاحب کی بزرگ اہلیہ۔ کیسے کیسے ہیرے اس مٹی میں مدفون ہیں۔ قبروں میں پڑے عرش نشین۔ ایک سےایک بڑھ کر اور ایک قبر سے وابستہ کئی کئی زندہ نشان۔ ہر کتبہ دیکھ کر کئی واقعات بجلی کےکوندے کی طرح لپکتے اور دماغ کےپردے پر فلم کی طرح چلنے شروع ہوجاتے۔

حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ جیسے غریب،بے نفس اور محبت کےپتلے کا واقعہ یاد آیا۔ کسی کو حضور علیہ السلام کی خدمت اقدس میں پاوٴنڈ پیش کرتے دیکھ کر اس غریب کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ پاؤنڈ پیش کرے حالانکہ وہ پہلے ہی ایسی کرنسی پیش کررہا تھا جس کا کوئی مول نہ تھا وہ تو پہلے ہی سب کچھ مسیح اقدس کے قدموں میں ڈال دیتا تھا سوائے دال روٹی کے مگر یہ جو پگلا دل ہے اس میں اگر کوئی خواہش آجائے جو محبوب سے تعلق رکھتی ہو تو پھر یہ کرواکے چھوڑتا ہے۔ بس دل میں آگئی اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب نےمزید پیٹ کاٹ کر رقم پس انداز کرنا شروع کردی اور جب کچھ پاؤنڈ جمع ہوگئے تو محبوب چل بسا۔ کیا قیامت گزر ی ہوگی اس دل پر ایک نہیں کئی قیامتیں ٹوٹی تھیں اُن عاشقوں پر اور ان کا حال ’’مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ‘‘ والا ہی تھا اب کچھ بھی ہوجاتا ان کو اس کی پروا ہی کیا تھی۔

حضرت منشی ظفراحمد صاحبؓ کی قربانیاں یاد آئیں کیا لوگ تھے وہ؟ ا ن کی محبتیں بھی عجیب اور ان کی ناراضگیاں بھی عجیب۔ اپنے نہایت ہی پیارے اور ہم وطن، ہم پیالہ وہم نوالہ سے صرف اس وجہ سے ناراض ہوگئے کہ مرشد کی خواہش اکیلے ہی پوری کردی اور مجھے حصہ دار نہیں بنایا۔ بلکہ مجھے بتایا تک نہیں۔ مگر اس نے کہاں بتانا تھا وہ تو خدا نے اس کی مخفی قربانی اپنے مسیح علیہ السلام کی زبان سے ظاہر کردی ورنہ وہ تو اس راز میں ہی مست تھا۔

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی باتیں یاد آئیں۔ حضرت عبد اللہ سنوری صاحبؓ کی خوش بختی پر رشک آیا۔حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کی والدہ محترمہ کے واقعات اور روٴیا وکشوف یاد آئے اور عورت ہونے کے باوجود ان کی جرأت ایمانی اور استقامت سوچ کر اپنے آپ پرشرم آئی۔

؎تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگرتم کیا ہو

کس کس کا ذکر کروں اورکون کون سا واقعہ یاد کروں ہر قبر پر یہی حالت تھی

یاد آئی جب اُن کی گھٹا کی طرح

ذکر ان کا چلا نم ہوا کی طرح

بجلیاں دل پہ کڑکیں بلا کی طرح

رُت بنی خوب آہ و فغاں کے لیے

لوگوں کے ہجوم اورکثرت کااحساس نہ ہوتا تو میں پھوٹ پھوٹ کر روتا۔ لوگوں کے چہروں کی طرف دیکھتا تووہاں بھی وہی کیفیت نظر آتی۔ لگتا تھا کہ سب لوگ بچوں کی طرح بلک بلک کررونے لگیں گے۔

بے صدا جن کی آنکھوں کا کرب و بلا

کربلا ہے دل عاشقاں کے لیے

کہنے کو تو یہ ایک قبرستان ہے مگر میرےجیسے کو زندگی بخشتا ہے۔ صرف بہشتی مقبرہ کی داستان ہی اتنی لمبی ہے کہ

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے

دارالمسیح۔ منارۃ المسیح۔ مسجد اقصیٰ۔ مسجد مبارک۔ بیت الدعا۔ بیت الفکر۔ احمدیہ چوک۔ قادیان کی گلیاں اور محلے۔ یہ ساری جگہیں مبارک اور شعائر اللہ میں سے ہیں۔ ان پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور لکھی جائیں گی مگر رندوں کی تشنگی دور ہوگی نہ پروانوں کی دیوانگی۔ ایک ایک ذرّہ چومنے اور آنکھوں سے لگانے کے لائق ہے مگر یہ ہمت کس کو ہے۔

قادیان کے جلسے کا بھی اپنا رنگ اور اپناماحول تھا جو برقی لہروں کی طرح ہردل پر اثر انداز تھا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تقاریر کے دوران تو عجیب محبت، وارفتگی اور ربودگی کاعالم ہوتا تھا۔ حضورکےدیدار کی تڑپ اور گفتار کی آرزو۔کچھ ٹکٹکی لگائے،پلک جھپکے بغیر نرگس کی آنکھ سے نظارہ کررہے ہیں تو کسی کو نظارہ کی تاب ہی نہیں۔بس سرنیچے کیے گوش برآواز ہیں اور ایک ایک لفظ کو روح میں اُترتا محسوس کررہے ہیں۔ کچھ استغراق کے عالم میں ہیں کچھ آنسو بہارہے ہیں تو کچھ جوش میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کررہے ہیں۔

یہ بزم محبت ہے اس بزم محبت میں

دیوانے بھی شیدائی فرزانے بھی شیدائی

انڈیا کے دُوردراز کے علاقوں سے آئے ہوئے لوگ جو مختلف رنگ ونسل کے تھے اور مختلف بولیاں بولنے والے۔ پنجابی بھی اور بنگالی بھی،آسام کے لوگ بھی اور سکم کے رہنے والے بھی۔ بہار کے بھی اور یوپی کے بھی۔ کیرالہ اورکشمیر کےلوگ تو کثرت سے تھے اوراکثر ڈیوٹیاں بھی ان کے سپرد تھیں۔ ڈیوٹی پر مستعد اور خلوص و محبت سے لبریز۔ میٹھے اور پیارے لہجے والے۔ ہندوستان کے لوگوں کے علاوہ یورپ، پاکستان، امریکہ اور کینیڈا سے آئے ہوئے لوگ۔ چین، جاپان، انڈونیشیا اور جزائر کے رہنے والے۔ عرب کے صلحاء اور افریقہ سے آئی ہوئی نیک روحیں۔ یہ سارے پروانے شمع کے طواف میں قادیان میں جمع تھے اور یک زبان ہوکر زبان حال سے حضرت مصلح موعودؓ کایہ شعر اَلاپ رہے تھے اورمیں بگوش ہوش اسے سن رہا تھا کہ

ایشیا و یورپ و امریکہ و افریقہ سب

دیکھ ڈالے پر کہاں وہ رنگ ہائے قادیاں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button