دادی جان کا آنگن

حضرت عیسیٰ علیہ السلام

محمود: سکول میں کرسمس کی چھٹیاں ہوگئی ہیں۔

احمد: لیکن ہوم ورک بھی تو خوب ملا ہے۔

گڑیا: دادی جان میں نے پوچھنا تھا کہ ہم تو نبیوں کی سالگرہ نہیں مناتے تو حضرت عیسیٰؑ کی سالگرہ کیوں منائی جاتی ہے؟

دادی جان: جی بیٹا میں نے آپ کو تفصیل سے بتا دیا تھاکہ ہم کیوں سالگرہ نہیں مناتے اور کرسمس حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کا دن بھی نہیں۔ یہ تو ایک تہوار ہے۔

احمد: اچھا تو پھر حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے اس کا کیا تعلق ہے ؟

دادی جان: چلیں آج میں حضرت عیسیٰؑ کی کہانی سناتی ہوں!

احمد: جی ٹھیک ہے دادی جان!

دادی جان: حضرت عیسیٰؑ حضرت مریمؑ کے بیٹے تھے اور ان کی پیدائش معجزانہ طور پر ہوئی۔ ان کی پیدائش میں معجزہ یہ تھا کہ آپ کے والد نہیں تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے متعلق عام طورپر کہا جاتا ہے کہ 25؍دسمبر کو ہوئی۔ لیکن یہ درست نہیں۔ قرآن کریم کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے وقت چشمے جاری تھے اور کھجور پکی ہوئی تھی اور بائبل کے مطابق بھی اس وقت مردم شماری جاری تھی۔ اور لوگ گھر سے باہر سوتے تھے اور ویسے بھی جو تصاویر حضرت عیسیٰ اور حضرت مریمؑ کی پیش کی جاتی ہیں ان میں بچہ کھلی جگہ پر ایک پالنے میں رکھا ہواہے۔ اور دسمبر کے مہینہ میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ جیسے آج 24؍دسمبرہے اور آج بیت لحم میں 4 ڈگری درجہ حرارت ہے۔ تو اس طرح بھی 25؍دسمبر تاریخ پیدائش نہیں بنتی۔

محمود: تو اس کےبعد کیا ہوا دادی جان!

دادی جان: حضرت عیسیٰؑ کے بچپن کے متعلق زیادہ واقعات نہیں ملتے۔ کیونکہ اپنی معجزانہ پیدائش کی وجہ سے ان کی والدہ اور ان کے شوہریوسف بیت المقدس سے دور بیت لحم ہجرت کر گئے اور وہاں سے ناصرت (ناصرہ)چلے گئے اوروہاں لمبا عرصہ رہے۔ حضرت عیسیٰؑ اپنے والدین کے بہت فرمانبردار تھے اور اس فرمانبرداری کا بائبل اور قرآن کریم دونوں نے خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ وَبَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ(مریم:33)اور بائبل میں قریباً ایسے ہی الفاظ آئے ہیں کہ وہ اپنے والدین کا فرمانبردار تھا۔(لوقا 2:51)

آپؑ ناصرہ میں تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے مقام پر سرفراز کیا۔ناصرہ کے لوگوں نے آپ کی بات نہیں سنی۔ آپؑ نے مختلف شہروں میں پیغام حق پہنچایا۔ اس وقت کے لوگوں کےدل بہت سخت ہوچکے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے آخری تنبیہ کی تھی۔ حضرت عیسیٰؑ نے انہیں بہت سے معجزات دکھائے۔ تھوڑے سے کھانے کو زیادہ کیا۔ دعا کے ذریعہ بیماروں کو شفایابی دلائی۔ حضرت عیسیٰؑ نےواضح طور پر فرمایا کہ وہ صرف بنی اسرائیل کی طرف نبی بن کر آئے ہیں۔ بالآخر آپ یروشلم پہنچ کر پیغامِ توحید پہنچانے لگے۔ جب یہودی علماء نے محسوس کیا کہ لوگ کثرت سے حضرت عیسیٰؑ کی طرف مائل ہو رہے ہیں تو انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کے خلاف بغاوت اور نئے دین کا الزام لگا کر پہلے اپنے بڑے عالم کے سامنے پیش کیا اور ان کے دلائل کو بڑی بے شرمی سے رد کیا۔ انہیں مکے اور تھپڑ مار کر کہتے کہ اگر ا للہ کے نبی ہو تو بتاؤکہ کس نے مارا۔ پھر اگلےروز انہیں پیلاطوس کے دربار میں پیش کیا۔ پیلاطوس ان علما ءکی چال کو سمجھ گیا اور اس نے کسی قسم کے فیصلہ سے گریز کیا۔ تاہم ان علماء کے دباؤ اور قیصر کے پاس شکایت کیے جانے کا سن کر اس نے اپنے ہاتھ دھو کر حضرت عیسیٰؑ کے متعلق انہیں کہا کہ جو وہ کرنا چاہتے ہیں کرلیں وہ بری الذمہ ہے۔ تب ان لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کو کانٹوں کا تاج پہنایا۔ ان پر تھوکتے رہے۔ اور انہیں ان کی صلیب اٹھانے کوکہا۔ پھر شہر کی گلیوں سے ہوتے ہوئے وہ صلیب دیے جانے والی جگہ پہنچے۔ اور ان کے بازوؤں اور پیروں میں کیل ٹھونک کر انہیں صلیب پر لٹکا دیا۔ اس تکلیف سے وہ بے ہوش ہوگئے۔ پھر اس وقت انہوں نے تکلیف میں دعا کی اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ کہ اے اللہ! تو نے مجھے اکیلا کیوں چھوڑ دیا۔

محمود: پھر اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کو بچایا؟

دادی جان: اس وقت ایک خوفناک زلزلہ آیا۔ آندھی اور طوفان کے سبب پہرے داروں نے جلد ہی انہیں صلیب سے اتار لیا۔ حضرت عیسیٰؑ قریباً تین گھنٹے صلیب پر رہے۔ اس کے بعد ان کے زخموں پر مرہمِ عیسیٰ لگا کر کفن میں لپیٹ کر ایک قبر نما غار میں رکھ دیا گیا۔ پھر وہ بنی اسرائیل کے دوسرے قبائل کی کھوج میں مشرق کی جانب ہجرت کر گئے۔ جانے سے قبل وہ اپنے حواریوں سے بھی ملے اور انہیں اپنی تعلیم پر عمل جاری رکھنے کی تعلیم دی۔

محمود: پھر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کیا سزا دی؟

دادی جان: اللہ تعالیٰ نے ان سے نبوت کا انعام واپس لے لیا۔ کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی جانب سے آخری وارننگ تھی۔

گڑیا: پھر حضرت عیسیٰؑ کشمیر چلے گئے تھے ناں! سری نگر کے محلہ خانیار میں ان کی قبر ہے۔

دادی جان: جی بالکل! حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ حضرت عیسیٰؑ کشمیر میں ہجرت کر کے آگئے تھے۔ اور راستے میں بسے ہوئے بنی اسرائیل کے قبائل کو پیغام حق پہنچایا اور بالآخر یہاں کشمیر میں وفات پائی۔ جب عیسائی مذہب پھیلا تو بعد میں کسی نے 25؍دسمبر کو آپ کا یوم پیدائش قرار دے کر تہوار جاری کر دیا۔

احمد: تو اس کا مطلب ہواکہ کرسمس حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش کا دن نہیں ہے۔

دادی جان: جی ایسا ہی ہے۔ اب عصر کا وقت ہوگیا ہے۔ چلیں نماز کے لیے آجائیں۔

محمود کمرے سے باہر بھاگتے ہوئے کہتا ہے کہ سب سے پہلے میں وضو کروں گا۔

(درثمین احمد۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button