حضرت مصلح موعود ؓ

وقفِ جدید کی تحریک بھی ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے تمہارا فرض ہے کہ اسے کامیاب بنانے کی پوری کوشش کرو

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ہ۱۷؍جنوری۱۹۵۸ء بمقام ربوہ)

حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۷؍ جنوری ۱۹۵۸ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں وقف جدید کی خاطر قربانی کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس تحریک میں ابتدائی طور پر بعض قربانی کرنے والوں کا تذکرہ فرمایا۔ ۳۱؍ دسمبر کو وقف جدید کے سال کے اختتام کی مناسبت سے قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰی ۪ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ(المائدة:۳)اس کے بعد فرمایا: ’’قرآن کریم کی اس آیت میں مومنوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ نیکی کے بارہ میں سارے کے سارے جمع ہو جایا کریں۔ ’’بِرٌّ‘‘ کے معنے اعلیٰ درجہ کی نیکی کے ہوتے ہیں۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی نیکیوں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ چھوٹی نیکیوں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن ہمیشہ کرتے ہی اعلیٰ درجہ کی نیکیاں ہیں اور جب بھی وہ کوئی کام کرتے ہیں مکمل طور پر کرتے ہیں ادھورا نہیں کرتے۔

جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے میں نے گزشتہ جلسہ سالانہ پر وقفِ جدید کی تحریک کی تھی۔ یہ تحریک بھی ایسی ہی ہے کہ اس میں حصہ لینا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰی کے مطابق ہے اور اس میں کسی طرح روک بننا وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ کے ماتحت آتا ہے۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں غالباً لاؤڈ سپیکر کی خرابی کی وجہ سے دوستوں کو آواز پوری طرح سنائی نہیں دی۔ بعد میں اخبار الفضل میں میرا نوٹ چھپا تو اس پر لوگوں نے اس تحریک کی طرف توجہ کی۔ اس کے بعد پھر میرے دوخطبے شائع ہوئے۔ تیسرا خطبہ آج ہو رہا ہے۔ جوں جوں یہ خطبات شائع ہو کر جماعت کو پہنچیں گے اُمید ہے کہ دوستوں میں بیداری پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ چنانچہ جب 3جنوری کو میں نے خطبہ پڑھا تو اُس وقت تک ایک شخص کی طرف سے بھی اس تحریک میں وقف کا وعدہ نہیں آیا تھا اور ایک پیسہ کی بھی آمد نہیں ہوئی تھی مگر آج کی رپورٹ یہ ہے کہ چھتّیس ہزار روپے کے وعدے آچکے ہیں اور ایک سَو پینتیس اشخاص کی طرف سے وقف کی درخواستیں آ چکی ہیں۔ لیکن ان چھتّیس ہزار کے وعدوں میں بھی کچھ غلطی ہے۔ اصل میں وعدوں کی تعداد چالیس ہزار سے کچھ اوپر بنتی ہے۔ بعض رپورٹیں ناقص تھیں اور بعض وعدے ابھی اس رپورٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔ ان سب وعدوں کو ملا کر میرا خیال ہے کہ شاید یہ وعدے پچاس ہزار سے بھی اوپر ہو جائیں۔ پھر شروع میں یہ غلطی بھی ہوئی کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ چھ روپیہ آخری حد ہے۔ اس لیے جو شخص ایک ہزار روپیہ تک بھی اس تحریک میں دے سکتا تھا اُس نے چھ روپیہ کا وعدہ لکھوا دیا حالانکہ یہ ضروری نہیں تھا کہ اس تحریک میں صرف چھ روپیہ دے کر ہی حصہ لیا جائے بلکہ کم از کم چھ روپیہ کی رقم دے کر اس تحریک میں حصہ لیا جا سکتا تھا لیکن جماعت کے دوستوں نے اسے زیادہ سے زیادہ رقم قرار دے لیا اور اس کے مطابق وعدے لکھوانے شروع کر دیئے۔ اب بعض وعدے ایسے آ رہے ہیں جن سے پتا لگتا ہے کہ جماعت کے افراد پر یہ بات واضح ہو گئی ہے اور وہ اسے سمجھ رہے ہیں۔ چنانچہ اب چھ روپیہ سے زیادہ کے وعدے بھی آرہے ہیں لیکن جب یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی تو ایسے دوست بھی نکل آئیں گے جو مثلاً پانچ سَو یا چھ سَو روپیہ سالانہ دے دیں۔ اور پھر اﷲ تعالیٰ اس کو اَور پھیلائے گا تو ایسے مالدار بھی نکلیں گے جو اکیلے ہی اپنی طرف سے اس تحریک میں ہزار، ڈیڑھ ہزار، دوہزار، چارہزار روپیہ بھی دے دیں۔ اِسی طرح امید ہے کہ اگر اس سال پوری کوشش کی جائے تو وعدوں کی تعداد اَسّی ہزار روپیہ تک پہنچ جائے گی اور اگلے سال تو امید ہے کہ یہ رقم بہت زیادہ بڑھ جائے گی لیکن اِس وقت تک صرف چھتّیس ہزار کی آمد ہوئی ہے اور ایک سَو پینتیس افراد کی طرف سے وقف کی درخواستیں آ چکی ہیں۔ گویا وقف زیادہ ہے اور روپیہ تھوڑا ہے حالانکہ پیچھے ایک دَور ایسا آیا ہے کہ خیال آتا تھا کہ وقف کی درخواستیں کم آئی ہیں اور روپیہ زیادہ آیا ہے مگر اب خداتعالیٰ کے فضل سے وقف بڑھ گئے ہیں اور روپیہ کم ہو گیا ہے۔ گویا ہماری مثال ایسی ہے جیسے ڈاکٹرمحمداسماعیل صاحب گوڑیانی جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بارہ حواریوں میں شامل کیا تھا سُنایا کرتے تھے کہ ایک احمدی حافظ تھے۔ انہیں تبلیغ کا بہت جوش تھا۔ وہ ایک دفعہ اُس جگہ سے گزرے جہاں میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرتا تھا اور حافظ صاحب میرے مکان پر ہی ٹھہر گئے۔ کھانا تیار تھا۔ میں نے چاولوں کا ایک تھال حافظ صاحب کے آگے لا کر رکھ دیا۔جب وہ کھا چکے تو میں نے کہا حافظ صاحب! اَور چاول لاؤں؟ وہ کہنے لگے اگر چاول ہیں تو لے آویں۔ پھر میں نے ایک اَور تھال بھر کر اُن کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے اسے بھی ختم کر دیا۔ میں نے کہا حافظ صاحب! اَور چاول لاؤں؟ کہنے لگے ہیں تو لے آئیں۔ میں ایک اَور تھال چاولوں کا لے آیا۔ حافظ صاحب جب وہ بھی کھا چکے تو میں نے کہا حافظ صاحب! اَور چاول لاؤں؟وہ کہنے لگے نہیں تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے کہا حافظ صاحب! آپ کا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ وہ کہنے لگے سُنا ہے بھیرہ میں ایک مشہور طبیب حضرت مولوی نورالدین صاحب ہیں میں اُن سے اپنے ہاضمہ کا علاج کروانے جا رہا ہوں۔ میں نے ہنس کر کہا حافظ صاحب!جب آپ کے ہاضمہ کا علاج ہو جائے تو آپ مہربانی فرما کر واپسی کے وقت اِس طرف سے نہ آئیں بلکہ کسی اَور طرف سے جائیں۔ مجھ غریب کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ہاضمہ درست ہونے پر آپ کی مہمان نوازی کر سکوں۔ جب آپ خراب ہاضمہ میں چاولوں کے چار تھال کھا گئے ہیں تو جب ہاضمہ درست ہو جائے گا تو اُس وقت کیا بنے گا؟

اِسی قسم کا ایک لطیفہ پرانے زمانہ کا بھی مشہور ہے۔ کہتے ہیں کوئی شخص تھا جس کی بھوک بہت بڑھی ہوئی تھی۔ کسی نے اُس کی دعوت کی اور اُس کے سامنے بہت سے نان رکھ دیئے اور خود سالن لینے کے لیے اندر گیا۔ جب واپس آیا تو وہ شخص سارے نان کھا چکا تھا۔ پھر وہ سالن رکھ کر نان لینے کے لیے گیا تو آ کر دیکھا کہ شوربا ختم ہے۔ دوتین دفعہ اُس کے ساتھ یہی حال ہوا۔ وہ نان لا کر رکھ جاتا اور شوربا لینے جاتا تو نان ختم ہو چکے ہوتے اور شوربا رکھ کر نان لینے جاتا تو شوربا ختم ہو چکا ہوتا۔وہی حال ہمارا ہے کہ ایک وقت روپیہ زیادہ تھا اور واقفین کم تھے اور اب روپیہ کم ہے اور واقفین زیادہ ہیں۔

میں نے اپنے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ چودھری ظفراﷲ خان صاحب نے کہا ہے کہ ٹھٹھہ میں میری کچھ زمین ہے میں اُس زمین میں سے دس ایکڑ تبلیغ کے لیے وقف کر دوں گا مگر یہ میری غلطی تھی۔ چودھری صاحب نے بتایا ہے کہ ٹھٹھہ کی زمین ابھی پوری طرح اُن کے قبضہ میں نہیں آئی۔ دوسرے وہ زمین ایسی جگہ ہے جو ایک طرف ہے اور وہاں آبادی کم ہے اس لیے وہاں کسی مبلغ کا رہنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میرا مطلب یہ تھا کہ لابینی (ضلع حیدرآباد) میں جو میری زمین ہے اُس میں سے میں دس ایکڑ اِس غرض کے لیے وقف کر دوں گا۔ میرا بھی منشا ہے کہ میں بھی اپنی زمین میں سے کسی جگہ دس ایکڑ اِس غرض کے لیے وقف کروں۔ اِس طرح یہ دو وقف ہو جاتے ہیں۔ ایک باندھی (سندھ) کے رئیس حاجی عبدالرحمان صاحب ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میری زمین میرے غیراحمدی رشتہ داروں سے مشترک ہے اُس کو تو میں تقسیم نہیں کر سکتا مگر میں یہ کر دوں گا کہ دس ایکڑ زمین خود خرید کر دے دوں۔ اِس طرح تین وقف ہو گئے۔ پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ میرے پاس دو مربع زمین ہے۔ اُس میں سے جتنی زمین کی ضرورت ہو میں دینے کے لیے تیار ہوں۔ ایک اَور دوست نے لکھا ہے کہ مجھے فوجی خدمات کی وجہ سے ایک مربع زمین ملی ہے۔ میں وہ زمین اِس غرض کے لیے وقف کرتا ہوں۔ اس کو تو میں نے لکھا ہے کہ میں اِس طرح ساری زمین لینے اور تمہیں روزی سے محروم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تم اس میں سے دس ایکڑ زمین ہمیں مقاطعہ پر دے دینا۔ اس میں ہم اپنا مبلغ رکھیں گے۔ غرض اب تک پانچ زمینیں بھی آ چکی ہیں۔ ملتان والے بھی کہہ گئے تھے کہ دوتین جگہیں ہمارے ضلع میں بھی مل جائیں گی کیونکہ بہت سے مربعوں والے ہمارے علاقہ میں ہیں اور بڑے بڑے زمیندار ہیں۔ اگر وہ ایک ایک ایکڑ بھی دیں تو کافی جگہیں ہو جائیں گی۔

لیکن بڑی چیز جو اِن علاقوں میں کام دے سکتی ہے وہ دیسی طب ہے۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ ان کے رشتہ کے بھائی (یعنی ماموں کے بیٹے) جو اُن کی زمینوں پر لابینی میں کام کرتے ہیں انہوں نے سُنایا کہ باوجودیکہ لابینی ایک جنگل سا ہے پھر بھی امریکن عیسائی وہاں آ کر رہتے ہیں اور عیسائیت کی تبلیغ کر رہے ہیں اور وہ ایسے لوگوں میں رہتے ہیں کہ گو وہ ہمارے مزارع ہیں لیکن اگر وہ ہمیں بھی بلائیں تو ہم بھی اُن کے گھروں میں نہ جائیں لیکن وہ رات دن وہیں رہتے ہیں اور تبلیغ کرتے ہیں۔ یہی قربانی کی روح ہمیں بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔ اگر اِسی قسم کی قربانی کی روح ہم میں بھی پیدا ہو جائے تو ایک سَوپینتیس واقفین کیا ہماری جماعت میں سے ایک لاکھ پینتیس ہزار واقفین بھی آسانی سے نکل آئیں گے۔ لیکن ضرورت یہ ہے کہ ہم امریکنوں اور انگریزوں جیسی قربانی کرنے لگ جائیں۔

میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ ایک دفعہ ایک انگریز عورت چین میں پادری کے طور پر کام کر رہی تھی۔ چینیوں میں پادریوں کے خلاف بڑا جوش پیدا ہوا اور وہ جوش اب تک بھی ہے۔ ایک دن چینیوں نے اُس عورت پر حملہ کیا اور اُسے قتل کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد کھا گئے۔ جب اِس واقعہ کی اطلاع انگلستان میں پہنچی اور پادریوں کے اخبار نے یہ شائع کیا کہ ہماری ایک مبلغ جو چین میں کام کر رہی تھی اُسے چینیوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا ہے ہمیں اُس کے قائم مقام کی ضرورت ہے تو اُسی دن شام تک دوہزار عورتوں کی طرف سے تار آ گئے کہ ہم اس مبلغ کی جگہ جانے کے لیے تیار ہیں۔

تو جب عیسائیت جو ایک باطل مذہب ہے اُس کی تائید کے لیے لوگوں کے اندر اس قدر جوش پیدا ہو سکتا ہے تو اسلام جو ایک سچا مذہب ہے اس کی تائید کے لیے لوگوں کے اندر کیوں جوش پیدا نہیں ہو سکتا۔یہ محض ہماری غفلت اور کوتاہی ہے کہ لوگوں کے اندر جوش پیدا نہیں کرتے ورنہ جب ان کے اندر جوش پیدا ہو گا تو وہ اِس قدر پھیلے گا کہ زمین و آسمان ہِل جائیں گے اور دنیا میں ہر جگہ اسلام ہی اسلام نظر آئے گا۔ یہ ہماری اپنی کوتاہی ہے کہ ہم لوگوں تک حقیقتِ حال پہنچا نہیں سکے۔ جب ہم ان تک حقیقتِ حال پہنچا دیں گے تو اِنْشَاءَ اللّٰہُ بڑوں اور چھوٹوں سب کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ وہ دین کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں۔ اور پھر جب سارے کے سارے دین کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں گے تو لازمی بات ہے کہ اگر دس لاکھ کی جماعت آگے بڑھے گی اور ان میں سے ہر فرد دس دس افراد کو بھی صداقت پہنچا دے گا تو اگلے سال ایک کروڑ احمدی ہو گا۔اُس سے اگلے سال دس کروڑ احمدی ہو گا اور اُس سے اگلے سال ایک ارب احمدی ہو جائے گا یعنی دنیا کے قریباً سارے ممالک میں احمدیت پھیل جائے گی۔ مگر یہ چیز جوش کا تقاضا کرتی ہے ورنہ ہماری موجودہ جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے اتنی تعداد میں ہے کہ اگر وہ ساری کی ساری اپنا فرض ادا کرے اور دوسروں کے اندر جوش پیدا کر دے تو تھوڑے عرصہ میں ہی دنیا میں صرف احمدی ہی احمدی ہوں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

بکوشید اے جواناں تا بدیں قوّت شود پیدا

بہار و رونق اندر روضۂ ملّت شود پیدا

یعنی اے مسلمان نوجوانو! کوشش کرو تا دینِ اسلام میں بھی قوّت پیدا ہو جائے اور امتِ اسلامیہ کے باغ میں بھی بہار اور رونق نظر آنے لگے۔

اِسی طرح ایک اَور شعر میں فرماتے ہیں کہ

ہر طرف کفرست جوشاں ہمچو افواجِ یزید

دینِ حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین

یعنی میں دیکھ رہا ہوں کہ یزید کی فوجوں کی طرح ہر طرف کفر جوش مار رہا ہے اور اسلام امام زین العابدین کی طرح بیمار اور کمزور ہے۔ امام زین العابدین حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیٹے تھے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت بیمار پڑے تھے۔ جب اُن کی پھوپھی نے آواز دی کہ میرا بھائی خاک و خون میں تڑپ رہا ہے تو یہ اندر سے اُٹھ کر باہر آ گئے اور کہنے لگے میں باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرتا ہوں لیکن خاندان کے بعض افراد آگے آ گئے اور انہوں نے کہا تم بیمار ہو تمہیں باہر نہیں جانا چاہیے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسلام تو آجکل اُسی طرح بیمار ہے جس طرح امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام زین العابدین بیمار تھے اور کفر یزید کی فوجوں کی طرح جو ش مار رہا ہے۔ لیکن ذرا مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو جائے تو دیکھنا کہ اِنْشَاءَ اللّٰہُ تَعَالٰی کفر میدان میں دم توڑ رہا ہو گا اور اسلام کی فوج میں اِس قدر جوش ہو گا کہ اس کی مثال دنیا میں پہلی کسی قوم میں نظر نہیں آئے گی اور ہر جگہ اسلام کا جھنڈا اونچا ہو گا اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوگی‘‘۔(الفضل ۲۱؍ جنوری۱۹۵۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button