حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللَّغْو کے معنی

علامہ فخرالدین رازیؒ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں۔ بہت سے لوگوں نے کہا ہے۔ ایک یہ کہ اللَّغْو میں تمام حرام اور تمام مکروہ شامل ہیں۔ دوسرے یہ کہ اللَّغْو سے مراد صرف ہر حرام ہے۔ تیسرے یہ کہ اللَّغْو کا لفظ خصوصی طور پر قول و کلام میں معصیت پر دلالت کرتا ہے۔ پھر یہ کہ اللَّغْو سے مراد وہ حلال ہے جس کی حاجت نہیں۔ (تفسیر کبیر رازی صفحہ ۷۹ جلد ۲۳)

تو مختلف مفسرین نے جو اس کے مختلف معنی کئے ہیں یعنی حرام چیزیں لغویات میں شامل ہیں، ایک تو اس کی یہ تفسیر ہو گئی جوبڑی واضح ہے۔ مکروہ چیزیں لغویات میں شامل ہیں۔ پھر ایک نے یہ لکھا ہے کہ لغو کا لفظ خاص طور پر بات چیت میں غلط اور گناہ کی باتیں کرنے کو کہتے ہیں۔ اور ایک معنی یہ ہیں کہ ایسا جائز یا حلال کام بھی جس کی کسی مومن کو ضرورت نہیں ہے وہ بھی اگروہ کرتا ہے تو وہ بھی لغویات میں شمار ہوتا ہے۔ تو دیکھیں لغویات سے بچنے کے لئے کس قدر باریکی میں جا کر لوگوں نے اس کے معنے نکالے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ اللَّغْو میں کل باطل، کل معاصی، لغو میں داخل ہیں، تاش، گنجوفہ چوسر سب ممنوع ہیں۔ گپیں ہانکنا، نکتہ چینیاں وغیرہ۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 171)

یعنی ہر قسم کا جھوٹ، غلط اور گناہ کی باتیں، تاش کھیلنا، اس قسم کی اور کھیلیں۔ آجکل دکانوں پر مشینیں پڑی ہوتی ہیں چھوٹے بچوں کو جوئے کی عادت ڈالنے کے لئے، رقم ڈالنے کے بعد بعض نمبروں کی گیمیں ہوتی ہیں کہ یہ ملاؤ، اتنے پیسے ڈالو تو اتنے پیسے نکل آئیں گے تو اس طرح جیتنے سے اتنی بڑی رقم حاصل ہو جائے گی، یہ سب لغو چیزیں ہیں۔ اسی طرح بیٹھ کر مجلسیں جمانا، گپیں ہانکنا، پھر دوسروں پر بیٹھ کے اعتراض وغیرہ کرنا یہ سب ایسی باتیں ہیں جو لغویات میں شامل ہیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍اگست ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍ستمبر ۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button