متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)

اے چھاؤں چھاؤں شخص !تری عمر ہو دراز

(جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ سوم)

حضور انور کے حوصلہ کی ایک مثال

۳؍ ستمبر کو حضور انور نے لجنہ اماء اللہ جرمنی سے خطاب فرمایا۔ خطاب سے قبل حضور انور نے اعزاز پانے والی طالبات کو سرٹیفیکیٹس اور ایوارڈز سے نوازا۔ کسی وجہ سے اس پروگرام کے دوران کئی مواقع پر طالبات کو بلانے کے حوالے سے مسائل کاسامنا ہوا۔ یوں ایوارڈز کی اس تقریب میں بہت زیادہ وقت لگا کیونکہ حضور انور کو بار بار غلطیوں کی اصلاح کروانی پڑی اور آپ نے اس بات کی یقین دہانی بھی فرمائی کہ سب کو ٹھیک سرٹیفیکیٹس ملیں۔ جب یہ تقریب ختم ہوئی تو حضور انور نے انتظار فرمایا اور تین مرتبہ استفسار فرمایا کہ کوئی ایسی طالبہ تو نہیں ہے جسے انعام نہ ملا ہو یا غلطی سے کسی اَور کا سرٹیفیکیٹمل گیا ہو۔جب حضور انور کو یقین ہو گیا کہ ہر طالبہ کو ٹھیک انعام مل گیا ہے تو پھر آپ خطاب کے لیے تشریف لائے۔ حضور انور کا ہر لمحہ بہت قیمتی ہوتا ہے پھر بھی آپ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر طالبہ مطمئن ہو۔

شور و غل کی شکایت

لجنہ اماء اللہ سے خطاب کے بعد حضور انور نے مردوں کی طرف تشریف لا کر نماز ظہر اور عصر پڑھائیں۔ نماز عصر کے اختتام کے قریب اونچی آواز میں ایک ایمرجنسی الارم بجا جس کی گونج سارے کمپلیکس میں سنی جا سکتی تھی۔ احمد بھائی نماز میں میرے ساتھ کھڑے تھے اور جونہی الارم بجا تو میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے اپنی نماز کو ختم کر کے فوری طور پر یہ پتا لگانے کی کوشش کی کہ آیا واقعی کوئی خطرہ یا ایمرجنسی تو نہیں؟ جس دوران آپ اورسیکیورٹی ٹیم اس معاملے کی تفتیش کر رہے تھے باقی سب افراد نے حضور انور کی اقتدا میں نماز جاری رکھی۔تیس سیکنڈ کے بعد الارم بند ہو گیا۔ جب حضور انور نے نماز مکمل کر لی تو آپ نے الارم کے بارے میں استفسار فرمایا۔

جواب میں افسر صاحب جلسہ گاہ نے بتایا کہ ہمارے چند ڈیوٹی رضاکاران کے پاس اعلان کرنے کے لیےمیگافونز ہیں۔ان پر ایک الارم کا بٹن ہے جو ایمرجنسی کی صورت میں دبایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بٹن بہت حساس ہوتا ہے اور ہلکا سا دبنے کی صورت میں بج جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی ڈیوٹی پر مامور خادم نے غلطی سے اسے دبا دیا ہے۔یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے فرمایا کہ رضاکاران میں کئی ٹیکنیکل ذہن کے مالک ہیں اورمجھے یقین ہے کہ ان میں سے کوئی اس بات کو یقینی بنا سکتا تھا کہ یہ الارم بٹن حادثاتی طور پر بلا وجہ نہ بجے، جیسا کہ آج ہوا ہے اور اس کی وجہ سے سب کی نماز میں خلل واقع ہوا ہے۔اگر اس بٹن کے گرد عام ٹیپ بھی لگا دی جاتی تو بٹن کےحادثاتی طور پر دبنے سے بچاجا سکتا تھا۔

نماز کی اہمیت

بعد ازاں جب حضور انور واپس اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے جا رہے تھے توآپ نے بعض احمدی احباب کو مختلف نمائشوں کے قریب کھڑے دیکھا جو اس طرح کھڑے تھے کہ حضور انور کا دیدار کرسکیں۔وہ شاید اس خیال میں تھے کہ حضور انور واپسی پر ان کی نمائش کو ملاحظہ فرمانے کے لیے تشریف لائیںگے۔انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کی نمائش کے پاس سے گزرتے ہوئے حضور انور نے وہاں موجود انچارج صاحب سے استفسار فرمایا کہ کیا آپ نے نماز پڑھی ہے یا یہیں رہے ہیں؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ انہوں نے نماز پڑھ لی ہے اور نماز ختم ہوتے ہی بھاگ کر نمائش کی جگہ آ گئے ہیں ۔

حضور انور کے اس تبصرے سے خوب واضح تھا کہ نماز کی اہمیت مقدم ہے اور آپ اس بات کو ناپسندفرماتے ہیںکہ لوگ اس وجہ سے باجماعت نماز میں غفلت کریں کہ انہیں حضور انور کو دیکھنے کے لیے اچھی جگہ مل سکے۔

ایک جذباتی واقعہ

جلسہ کے دوران خاکسار ’القلم پراجیکٹ ‘پر بھی گیا۔ وہاں ایک خاتون امۃ القیوم خان صاحبہ سے ملاقات ہوئی جو اپنی بڑی بیٹی کے ہمراہ تھیں۔ امۃالقیوم صاحبہ اور ان کی صاحبزادی کا تعلق ’ ٹوپی ‘ سے تھا جوشمال مغربی پاکستان کا ایک قصبہ ہے۔ یہاں۱۹۷۴ء میں احمدیت کی شدید مخالفت ہوئی اور انہیں بھی ظلم وتعدی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

امۃ القیوم صاحبہ کی بیٹی کی بینائی بہت زیادہ کمزور تھی۔ان کی بیٹی نے مجھے بتایا کہ ان کو بعض چیزیں بہت زیادہ دھندلی نظر آتی ہیں۔ ان کی والدہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی نظر کی انتہائی کمزوری پاکستان میں ہونے والے ظلم و ستم کا براہ راست نتیجہ ہے۔

موصوفہ نے بتایا کہ۱۹۷۴ء میں مخالفین احمدیت ہمارے قصبہ ٹوپی میں آئے اور ہمارے گھر جلا دیے اور ہمارے رشتہ داروں اور دیگر جاننے والے افراد کو شہید کردیا۔ میری بیٹی کی نظر کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہم سے بائیکاٹ کیا گیا تھا اور رہنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس لیے ہمیں جنگلوں میں وقت گزارنا پڑتا تھا، جو صحت افزا جگہ نہ تھی اور کئی دن ہمیں مناسب کھانا نہ ملتا تھا۔ اچھی خوراک میسرنہ آنے کی وجہ سے میری بیٹی کی بینائی اس قدر کمزور ہو گئی۔

امۃ القیوم صاحبہ نے مزید بتایا کہ جب ان کی بچی چھوٹی تھی تو اس کو کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا تو ہم اسے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو ملانے کے لیے لےگئے۔ حضورؒنے اپنا دست مبارک اس کی آنکھوں پر رکھا اور اس کے لیے دعا کی۔ اس کے بعد کچھ بہتری آئی اور اب وہ دھندلا دیکھ سکتی ہے۔ الحمدللہ

القلم پروجیکٹ میں حصہ لینے کے متعلق موصوفہ نے بتایا کہ آج مجھے القلم پراجیکٹ میں حصہ لینے کی سعادت ملی ہے اور قرآن کریم کی ایک آیت اپنے ہاتھ سے لکھنے کا موقع ملا ہے۔ میں اس خوش نصیبی پر اللہ تعالیٰ کا اتناشکر ادا نہیں کر سکتی جتنا اس کا حق ہے۔میں اسے ۱۹۷۴ء میں اپنی فیملی کی قربانیوں کی ایک بہترین جزا شمار کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کبھی قربانیوں کونہیں بھولتا اور نہ ہی اس کےاجر سے محروم رکھتا ہے۔ مخالفین نے ہمارے گھر تو جلا دیے لیکن وہ کبھی بھی ہمارے ایمان ضائع نہ کر سکے۔

القلم پراجیکٹ میں حصہ لینا

خاکسار کو بھی جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر القلم پراجیکٹ میں حصہ لینے کی توفیق ملی۔ الحمد للہ۔ کچھ عرصے سے میرے دوست عامر سفیر صاحب( چیف ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز) مجھے اس پراجیکٹ میں حصہ لینے کےلیے ترغیب دلا رہے تھےلیکن میں اس لیے پریشان تھا کہ کہیںمیری عربی لکھائی گندی اور غیر معیاری نہ ہو۔

تاہم اس دن خاکسار نے لوگوں کی ایک لمبی قطار دیکھی جو اس میں حصہ لینے کے لیے منتظر تھے اور ان کے واقعات سنے۔مجھے احساس تھا کہ اس بابرکت موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دوں۔ مثال کے طور پر قطار میں کھڑے ایک دوست محمد عامر شرما (عمر ۳۴؍سال )نے مجھے بتایا کہ آج کا دن میری زندگی کے بہترین دنوں میں سے ایک ہے کیونکہ میں ان شاءاللہ، ایک تاریخی اور بابرکت پراجیکٹ کا حصہ بننے جا رہا ہوں۔ میں قرآن کریم کی ایک آیت لکھنے جا رہا ہوں جو ایک منفرداور تاریخی انداز میں لکھی جا رہی ہے۔اگر مجھے دس گھنٹے بھی قطار میں کھڑا رہنا پڑے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایک دن میں اپنے بچوں اور اگلی نسل کو آج کے دن کے بارے بتاؤں گا۔

اس میں حصہ لینے کا ارادہ کر لینے کے بعد مجھے ایک میز پر لے جایا گیا جہاں قرآن کریم کا ایک نسخہ بھی موجود تھا اور بہت سے acid freeکاغذ ات بھی موجود تھے۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ کاغذ عام کاغذوں کی بجائے زیادہ دیر تک محفوظ رہتے ہیں۔حافظ فضل ربی صاحب جو جامعہ احمدیہ یو کے، کے استاد ہیں وہاں ڈیوٹی دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت پچیس لکھنے کا کہاجس کا ترجمہ یوں ہے کہ ’’اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پَرجُھکا دے اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔‘‘

اس آیت کو نقل کر دینے کے بعد حافظ صاحب نے مجھے بتایا کہ آیات کسی خاص ترتیب کے بغیر دی جاتی ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ مجھے بالکل بر موقع اور برمحل آیت دی گئی ہے۔ حافظ صاحب نے بتایا کہ یہ آیت والدین کے لیے ایک دعا ہے اور جب آپ اسے لکھ رہے تھے تو مجھے خیال آیا کہ یہ آپ کے لیے بہت موزوں ہے کیونکہ آپ کی جوانی میں آپ کے والدین وفات پا چکے ہیں۔

جب حافظ صاحب نے یہ الفاظ مجھے کہے تو میں جذبات سے مغلوب ہو گیا۔ دراصل القلم پراجیکٹ میں حصہ لینے کا تجربہ نہایت غیر معمولی تھا اور اس نے مجھ پر ایسا اثرکیا جو میں نے اس سے قبل کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button