از افاضاتِ خلفائے احمدیت

باہمی امن، محبت اور رحم کا فروغ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم مارچ۲۰۱۳ء)

مومن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے اُس کی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، یہی ایک مومن کی نشانی ہے۔ پس یہ خشیت اور برے حساب کا خوف ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخلوق کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے دامن گیر ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہی مومن کی نشانی ہے۔ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ اُس سے ناراض ہو، اُس کو دھتکار دے۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے بلکہ ایک حقیقی مومن نہ بھی ہو، تھوڑا سا بھی ایمان ہو تو وہ یہی چاہتا ہے لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ہیں جو قرآنِ کریم پڑھتے ہیں، اُس کا ترجمہ بھی پڑھتے ہیں، خدا تعالیٰ کے خوف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ کبھی یہ پسندنہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھتکارے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُن کو حقیقی رنگ میں جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ تضاد ہے جو دنیا میں اکثر مسلمانوں کی اکثریت میں نظر آتا ہے۔ ایک خواہش اور دعویٰ کے باوجودنظر آتا ہے۔ اور احمدیوں کے بارے میں بھی ہم سو فیصدنہیں کہہ سکتے کہ وہ اس تعریف کے اندر آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مومن کی بتائی ہے۔ پس ہمیں بھی اس بارے میں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔

اس وقت مَیں صرف مسلمانوں کے اوصاف میں سے بھی صرف ایک وصف کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح ارشاد ہے کہ مسلمان کی کیا خصوصیت ہے اور اس میں یہ ہونا چاہئے۔ مومن کی خصوصیت میں سے یہ ایک بہت بڑی خصوصیت ہے جو بیان فرمائی گئی ہے۔

اس کے بارے میں پہلے میں عمومی طور پر مسلمان ممالک کے حوالے سے کچھ کہوں گا جہاں علماء اور حکمرانوں نے اسلام اور ایمان کے نام پر اس فرض یا خصوصیت کی پامالی شروع کی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومنین کی یہ نشانی ہے کہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ(الفتح: 30) آپس میں بے انتہا رحم، ملاطفت اور نرمی کرنے والے ہیں۔ اس حکم کی یا مومنین کی نشانی کی، جیسا کہ مَیں نے کہا، مذہب اور اسلام کے نام پر جس طرح پامالی ہو رہی ہے وہ کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ تقریباً تمام مسلم دنیا میں یہی چیز ہمیں نظر آتی ہے۔ کہیں کم ہے کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے کہ ہر ایک کے ذاتی مفادات اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش پر حاوی ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی حالت دیکھ لیں۔ درجنوں روزانہ قتل ہو رہے ہیں۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ اگر گزشتہ چند سالوں کی قتل و غارت کی تعداد جو آپس کی لڑائیوں اور حملوں کی وجہ سے ہوئی ہے ان کو جمع کیا جائے تو ہزاروں میں ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت میرے پاس اس کے حقیقی اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن اخباروں سے پڑھنے سے پتہ لگتا ہے کہ روزانہ درجنوں میں قتل ہو رہے ہیں۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہر سال خود کش بموں سے سینکڑوں بلکہ شاید سینکڑوں سے بھی تعداد آگے نکلے۔ ہزاروں میں پہنچ گئی ہے۔ لوگ مارے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ خدا کے نام پر اور دین کے نام پر ہو رہا ہے۔ کیونکہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ(الفتح: 30) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک خصوصیت بھی بتائی ہے کہ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ (سورۃ الفتح: 30) کہ کفار کے خلاف جوش رکھتے ہیں، اُن کے لئے سختی ہے۔ اس لئے علماء سمجھتے ہیں کہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی کافر بنا کر اُس کے خلاف جو چاہے کر لو۔ ہمیں لائسنس مل گیا۔ جب ایسی سوچ ہو جائے، ایسے معیار ہو جائیں تو کفر کے فتوے لگانے والے خود اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں کے مطابق کفر کے فتوے کے نیچے آ جاتے ہیں۔ بہر حال پاکستان میں اس لحاظ سے ابھی بظاہر امن کی حالت ہے کہ حکومت اور عوام کی لڑائی نہیں ہے لیکن جن ملکوں میں جنگ کی حالت ہے وہاں جہاں دشمن فوجوں نے بھی ظلم و بربریّت کی ہے، وہاں خود مسلمان بھی مسلمان کو مار رہے ہیں۔ مثلاً افغانستان کا جائزہ لیں تو وہاں مسلمانوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور خود کش حملے یا عام حملے شروع کئے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں کہا جاتا ہے گزشتہ دس سال میں اس وجہ سے تقریباً پچاس ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ ان میں غیر ملکی فوجی کم ہیں جو مرے بلکہ فوجی چاہے وہ افغانی بھی ہوں کم ہیں۔ شہریوں کی موتوں کی تعداد زیادہ ہے جو معصوم گھروں میں بیٹھے یا بازاروں میں پھرتے اپنے ہی لوگوں کی بربریّت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ شام میں، سیریا (Syria) میں تو خالصۃً مسلمان ہی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور کہا جاتا ہے (یہ بڑا محتاط اندازہ ہے) کہ ستّر ہزار لوگ اب تک مارے جا چکے ہیں۔ اکثریت معصوم شہریوں کی ہے۔ مصر میں انقلاب لانے کے بہانے ہزاروں قتل کئے گئے، لیبیا میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور ابھی تک مارے جا رہے ہیں۔ عراق میں ۲۰۰۳ء سے اب تک کہا جاتا ہے کہ چھ لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد بھی ابھی تک خود کش حملوں کے ذریعہ سے عراق میں مارے جا رہے ہیں۔ یا ویسے بھی آپس میں لڑائی سے مارے جا رہے ہیں۔ اب اخباروں میں یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ مسلمان ممالک، باہر کی دوسری حکومتیں بھی طاغوتی اور شیطانی طاقتوں یا قوتوں کا آلۂ کار بن کر آپس میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ مثلاً دو دن پہلے شام کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی کہ سعودی عرب یورپ کے ایک ملک سے اسلحہ لے کر شام میں جو مخالفین کا حکومت مخالف گروپ ہے، اُس کو سپلائی کر رہا ہے اور ان لوگوں میں شدت پسند لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر ان کو حکومت مل گئی تو عوام مزید ظلم کی چکّی میں پسیں گے۔ مصر میں بھی آجکل لوگ یہ نظارے دیکھ رہے ہیں۔ نہ صرف ملک کے عوام بلکہ علاقے کا امن بھی برباد ہو گا۔ اور یہی نہیں بلکہ پھر یہ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ (سورۃ الفتح: 30) کے نام پر دنیا کا امن بھی برباد کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر مسلمان ممالک کسی ملک میں ظلم ہوتا دیکھ رہے ہیں تو صحیح اسلامی طریق تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم بات چیت کے ذریعہ سے غیروں کو بیچ میں ڈالے بغیر امن اور عوام کے حقوق کی کوشش کرتی اور یہ کر سکتی تھی۔ اگر شام میں پہلے علوی سُنّیوں پر ظلم کر رہے تھے تو اب اُس کا الٹ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے مسلمان ملکوں کے آپس میں دو بلاک بھی بن رہے ہیں جو خطے کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔ اب اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو اس کی ابتدا مشرقی ممالک سے ہی ہو گی جو گزشتہ جنگوں کی طرح یورپ سے نہیں ہو گی۔ پس مسلمان ملکوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے۔ کاش کہ یہ لوگ اور حکومتیں بھی اور علماء بھی اور سیاستدان بھی قرآنِ کریم کے اس حکم پر عمل کرنے والے ہوتے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ(الحجرات: 11)کہ مومن تو بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button