متفرق مضامین

مدیر جریدہ ’’وفاء العرب‘‘ محمود خیر الدین الحلبی کی قادیان حاضری اور انٹرویو

(عمانوایل حارث)

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق (قسط۲۹)

’’جب میں اس امر کو دیکھتا ہوں کہ قادیان ازمنہ ماضیہ میں ایک چھوٹی سے گمنام بستی تھی اور آج سلسلہ احمدیہ کے ظہور کے باعث مہاجرین ومخلصین کا مسکن بن جانے سے وہ ایک وسیع و وقیع قریباً ۸ ہزار نفوس پر مشتمل شہر نظر آرہا ہے تو میں محو حیرت ہوجاتا ہوں۔‘‘

ملتا ہے کہ دمشق کے ایک مشہور ادیب محمود خیر الدین الحلبی مدیر جریدہ ’’وفاء العرب‘‘ ہندوستان آئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ملاقات اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے قادیان بھی تشریف لائے اور تین دن قیام کیا۔ واپس جا کر انہوں نے اپنے اخبار ’’وفاء العرب‘‘ میں مورخہ ۲۹؍ذی الحج ۱۳۳۹ھ میں ایک مفصل مضمون لکھا جس کا ترجمہ الفضل مورخہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا تھا جو شیخ مبارک احمدصاحب مولوی فاضل نے کیا تھا۔ اس مہمان مدیر موصوف کی گفتگو سوال وجواب کی صورت میں تھی اور بیشتر سوالات ہندو مسلم تنازعہ کے متعلق تھے۔

الغرض مدیر موصوف نے اپنے سفر کے متعلق لکھا: ’’جب میں بخیر و عافیت بمبئی پہنچا تو مجھے استاذ مکرم سید زین العابدین شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ سلسلہ احمدیہ سے ملنے کا اشتیاق اس فطرتی جذبہ محبت کی وجہ سے جو ان کی طبیعت میں ودیعت کیا گیا ہے اور جس کی وجہ سے اکثر مشاہیر بلاداسلامیہ ان کے سلسلہ احباب میں منسلک ہیں، پیدا ہوا۔ پھر حضرت مرزامحمود احمد صاحب خلیفة المسیح کی زیارت کا بھی شوق تھا تا کہ خود آپ سے ملاقات کرکے سلسلہ احمدیہ کے متعلق جو کہ ممالک عربیہ میں بھی کثرت سے اشاعت پذیر ہورہا ہے، کچھ حالات معلوم کر سکوں۔

چنانچہ میں پچاس گھنٹے کے گاڑی کے سفر کے بعد قادیان پہنچا۔اور شاہ صاحب موصوف کے در دولت پر حاضر ہوا۔ آپ نے انتہائی خوش اخلاقی سے اھلاً و سھلاً و مرحبا کہا اور میری رہائش کے لئے انتظام کردیا۔ میں آپ کے پاس تین دن ٹھہرا۔ اور دوران قیام میں استاذ مکرم نے مجھے سلسلہ احمدیہ کے نظم و نسق کے دفاتر اور مدارس علمیہ دکھائے جو انتظام کےلحاظ سے کسی باقاعدہ حکومت کے دفاتر سے کسی طرح کم نہ تھے۔ جب میں اس امر کو دیکھتا ہوں کہ قادیان ازمنہ ماضیہ میں ایک چھوٹی سے گمنام بستی تھی اور آج سلسلہ احمدیہ کے ظہور کے باعث مہاجرین ومخلصین کا مسکن بن جانے سے وہ ایک وسیع و وقیع قریباً ۸ ہزار نفوس پر مشتمل شہر نظر آرہا ہے تو میں محو حیرت ہوجاتا ہوں۔

مجھے استاذ مکرم کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ آج اس سلسلہ کے مبشرین و مبلغین دنیا کے کونہ کونہ میں تبلیغ میں کوشاں ہیں۔ چنانچہ دنیا میں کوئی قابل ذکر مقام ایسا نہیں رہا جس میں لواء احمدیت کے علم بردار نہ ہوں۔ بلاد غربیہ میں بھی عقلمند، تعلیم یافتہ لوگ احمدی مبلغین کے ذریعہ دین حق کی صداقت کے قائل ہوچکے ہیں۔

جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ تمام انجمن ہائے ماتحت کے امراء و سیکرٹری صاحبان اپنی تبلیغی، تنظیمی، تعلیمی کارگزاریوں کی ماہوار اطلاع متعلقہ مرکزی دفاتر میں بھیجتے ہیں جہاں سے نظارت علیا تک پہنچائی جاتی ہیں تو اس جماعت کی تنظیمی مساعی کی قدر میرے دل میں اور بڑھ گئی کیونکہ جماعت کی تنظیم ان امور کی سرانجام دہی کے بغیر ناقص رہ جاتی ہے۔

حضرت اقدس سے ملاقات

میں نے استاذ مکرم سے حضرت خلیفة المسیح کی ملاقات کی خواہش کی۔ چنانچہ آپ نے مناسب انتظام کے بعد مجھے مطلع فرمایا کہ حضرت خلیفة المسیح نے شرف باریابی کی درخواست منظور فرمالی ہے۔ میں وقت معیّنہ پر جب حاضر خدمت ہوا،تو آپ نے اپنی جگہ سے اٹھ کر نہایت خندہ پیشانی اور دلپذیر بشاشت کے ساتھ ملاقات کی۔ اور میر ے بخیر و عافیت پہنچنے پر مبارک باد دی۔

آپ کا رنگ گندمی، قد درمیانہ، آنکھیں سیاہ اور بے حد خوبصورت ہیں جن سے ذکاو ت و ذہانت مترشح ہوتی ہے۔ لغت عربیہ پر آپ پوری طرح عبور رکھتے ہیں۔ اپنوں کی طرح غیروں میں بھی باوجود اختلافات شدیدہ کے محبوب ہیں۔

آپ نے دوران گفتگو میں ملک شام کی اہم سیاسیات کے متعلق دریافت فرمایا۔ جس پر میں نے عرض کیا۔ اگرچہ اہل فرانس شامیوں کو کچھ حقوق دینے کے لئے مستعد نظر آتے ہیں لیکن پھر بھی ملک کی سیاسی حالت کچھ ڈاواں ڈول سی ہی نظرآرہی ہے۔

ہندوستان کی سیاسیات پر گفتگو

فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے میں نے دریافت کیا ہندوستان کی سیاسی شورش کے متعلق جناب کا کیا خیال ہے؟ اور کیا حکومت برطانیہ اس تگ و دو کے بعد آپ کے تمام حقوق دے دے گی؟

اس پر آپ نے فرمایا:یقیناً ایسے حقوق جو طرفین کے لئے مناسب ہوں حکومت کو دینے پڑیں گے۔ حکومت کی یہ زبردست خواہش ہے کہ آپس کی غلط فہمی و عدم اعتمادی کا ازالہ کیا جائے۔ چنانچہ را ہنمایان ملک کی ایک مجلس اس امر کے لئے منعقد کی گئی ہے تاکہ ہندوستانی معاملات اور ملکی مفاد کے متعلق بحث و تمحیص اور پھر تصفیہ کریں جس کا نتیجہ یقیناً مفید ہی ہو گا۔

ہندو مسلم تنازعات

پھر میں نے عرض کیا ہم اکثر ہندو مسلم تنازعات و مناقشات کے متعلق سنتے رہتے ہیں اس باہمی اختلافات کے کیا اسباب ہیں ؟

آپ نے فرمایا:ہندو مسلم معاملہ اس معاملہ سے زیادہ خطرناک ہے جو عہد فرعون میں اقباط اور بنی اسرائیل کے درمیان تھا۔

جب ہم عربی اخبارات میں یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اتحاد و اتفاق کی تلقین کرتے ہیں تو ہمیں حیرانی ہوتی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ وہ ہماری مشکلات و مصائب سے واقف نہیں۔ ورنہ وہ یقیناً ہمارے ساتھ ان حالات میں اظہار ہمدردی اور تعاون کرتے…‘‘

الغرض اس مہمان صحافی نے ہندو مسلم اتحاد، مسلمانوں کے مقاطعہ، ہندؤوں کے عقائد وغیرہ کے حوالہ سے اپنے سوالات جاری رکھے اور آخر پر اس مدیر نے آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ’’ہم آپ کے سلسلہ مؤقرہ کے متعلق اکثر سنا کرتے ہیں لیکن متعدد امور کے متعلق ہمیں کچھ علم نہیں۔ کیا آپ مجھے ایسے حقائق سے مطلع فرمائیں گے جو میں اہل وطن کو ہدیةً پیش کرسکوں؟

اس پر فرمایا :ہماری جماعت شریعت حقہ قرآن اور احادیث نبویؐ پرسختی سے عامل ہے اوران سے سر مو منحرف نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویؐہ ہی حضرت مسیح موعود [علیہ السلام] کے ظہور پر دلائل قاطعہ ہیں۔ آپ ہمارے سامنے ظاہر ہوئے اور حقیقی دین اسلام کی اشاعت فرمائی۔

الحمد للہ کہ اکثر بلادعر بیہ وغربیہ میں سے عقلمند لوگ و علماء ہمارے مبلغین کے ذریعہ اس سلسلہ حقہ میں داخل ہو چکے ہیں۔اور ہمارا مقصد یہی ہے کہ اعدائےاسلام کے شرانگیز پروپیگنڈا کی مدافعت کریں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر تلے ہوئے ہیں اور تمام جہان کو دین واحد پر جمع کر یں۔ ہمارا اور تمام ملت اسلامیہ کا فرض ہے کہ تمام مخالفین اسلام کا مقابلہ کریں۔

جماعت احمدیہ کی تعداد

جب میں نے پوچھا کہ جماعت احمدیہ کی تعداد کتنی ہوگی؟ تو آپ نے فرمایا: صحیح اعداد وشمار تو میں بتانہیں سکتا لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ قریباً سات لاکھ سے زیادہ ہے اور اس وقت بھی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی پذیر ہے۔اور اکثر افراد جماعت احمد یہ اپنی زندگیاں تبلیغ وتبشیر کے لئے وقف کر چکے ہیں۔ ہمیں خدا کے فضل سے امید ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ بلا دعر بیہ وغیرہ میں جماعت احمدیہ کی کثیر تعداد پیدا کرسکیں۔

میں نے عرض کیا۔ آپ کا بلا دشام کے دیکھنے کا بھی کوئی ارادہ ہے؟

آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: کثرت اشغال اور دیگر امور اس میں مانع ہیں۔اگر چہ شامیوں کے حسن اخلاق کا مجھ پر گہرا اثر ہے۔

اس موقع پر ہمارا سلسلہ گفتگو اختتام پذیر ہوا اور میں آپ کی تصریحات کا شکریہ ادا کرتا ہوا آپ سے رخصت ہوا۔ آپ ہندوستان کے اعلیٰ مفکرین اور چوٹی کے راہنماؤں میں سے سمجھے جاتے ہیں۔ ’’اکثر اللّٰہ من امثالہ‘‘۔[اللہ تعالیٰ آپ جیسے اور بھی بکثرت بنائے]

(اخبار الفضل قادیان دارالامان، ۲۰ ا کتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۶۔۷)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button