خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ احد پر روانگی کے دوران پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ نیز فلسطین کے معصوموں کے لیے دعا کی مکرر تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۸؍دسمبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…نبي کے ليے يہ جائز نہيں کہ ہتھيار لگانے کے بعد اس وقت تک انہيں اتارے جب تک اللہ اس کے اور اس کے دشمنوں کے درميان فيصلہ نہ فرمادے

٭…حضور صلي اللہ عليہ وسلم نے کفار کے بالمقابل يہود کي مدد لينے سے انکار کرتے ہوئے انہيں جنگ ميں شرکت سے روک ديا

٭… فلسطین کے معصوم مسلمانوں کےلیے دعا کی مکرّر تحریک

٭…مسلمان ممالک جب تک ايک ہوکر جنگ بندي کي کوشش نہيں کريں گے، ان متفرق کوششوں کا کوئي فائدہ نہيں

٭…مکرمہ مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مولاناعبد الحکیم اکمل صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ ہالینڈ اور مکرم ماسٹر عبد المجید صاحب (واقفِ زندگی تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ) کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍دسمبر۲۰۲۳ء بمطابق ۸؍ فتح ۱۴۰۲؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۸؍دسمبر۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:گذشتہ خطبے میں جنگِ احد کے متعلق ذکر ہورہا تھا۔ اس حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا ہے وہ مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ بدر کی جنگ کے بعد کفار مکہ نے یہ اعلان کردیا تھا کہ کسی شخص کو اپنے مُردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیں گے ان کی آمد آئندہ جنگ کے لیے محفوظ رکھی جائے گی۔ پس بڑی تیاری کے بعد، تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینے روانہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ آیا ہمیں شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہیے یا باہر نکل کر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تاکہ جنگ کی ابتدا کا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس کا مقابلہ کرسکیں۔ مگر وہ نوجوان مسلمان جو بدر کی جنگ میں شامل نہ ہوسکے تھے اور جن کے دلوں میں خدا کی راہ میں شہادت کی حسرت تھی۔ انہوں نے یہی خواہش کی کہ باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ اس موقعے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک خواب بھی بیان کی جس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند گائیں دیکھیں، جو کہ ذبح کی جارہی تھیں۔ اسی طرح دیکھا کہ آپؐ کی تلوار کا سرا ٹوٹ گیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ آپؐ نے اپنا ہاتھ ایک محفوظ اور مضبوط زرہ کے اندر ڈالا ہے۔ نیز یہ بھی دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہیں۔ صحابہؓ کے استفسار پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مناظر کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ گائیوں کے ذبح ہونے کی تعبیر تو یہ ہے کہ میرے بعض صحابہؓ اس جنگ میں شہید ہوں گے۔ تلوار کا سرا ٹوٹنے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہوگا یا اس مہم میں شاید مجھے ہی کوئی تکلیف پہنچے۔ زرہ میں ہاتھ ڈالنے کی تعبیر یہ ہے کہ ہمارا مدینے میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے۔ مینڈھے پر سوار ہونے کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیں گے۔

جب باہر نکل کر جنگ کرنے کا فیصلہ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓکو تیاری کا حکم دیا اور آپؐ خود بھی جنگ کی تیاری کرنے لگے۔اس وقت حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت اسید بن حضیرؓ نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگوں نے باہر نکل کر لڑنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کی مرضی کے خلاف مجبور کردیا ہے۔ اس لیے اب بھی اس فیصلے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی فیصلہ فرمائیں گے اس میں ہی ہماری بھلائی ہوگی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ نے جنگی لباس پہن رکھا تھا۔ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا مدّعا پیش کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

نبی کے لیے یہ جائز نہیں کہ ہتھیار لگانے کے بعد اس وقت تک انہیں اتارے جب تک اللہ اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ نہ فرمادے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کے ساتھ روانہ ہوتے ہوئے تین نیزے منگوائے اور ان پر تین جھنڈے باندھے۔ قبیلہ اوس کا جھنڈا اسید بن حضیر ؓکو دیا، قبیلہ خزرج کا جھنڈاحباب بن منذر ؓکو دیا اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علیؓ  کو دیا۔ مدینے میں باقی رہنے والے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے ابن ام مکتوم کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ مسلمانوں کے لشکر میں دو گھوڑے اور ایک سَو زرہ پوش تھے۔

راستے میں یہود کا ایک گروہ مسلمانوں کی جانب سے جنگ میں شرکت کے لیے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے بالمقابل یہود کی مدد لینے سے انکار کرتے ہوئے انہیں جنگ میں شرکت سے روک دیا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ سال سے کم عمر لڑکوں کو جنگ میں شرکت سے روکتے ہوئے انہیں بھی واپس بھجوا دیا۔

لشکرِ اسلامی نے جب رات قیام کیا تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ ؓکی قیادت میں پچاس سپاہیوں کو مقرر فرمایا جنہوں نے رات بھر اسلامی لشکر کے ارد گرد پہرہ دیا۔

راستے میں عبد اللہ بن ابی بن سلول اپنے تین سَو ساتھی منافقین کے ساتھ لشکرِ اسلامی سے علیحدہ ہوکر واپس چلا آیا۔ واپسی پر عبد اللہ بن ابی نے کہا کہ آپ نے میری بات نہیں مانی اور لڑکوں کی بات مانی ہے۔ہم کس بنا پر اپنی جانیں دیں۔ عبد اللہ بن ابی کے ساتھ منافقین کے لوٹ جانے کے بعد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود صحابہؓ کی تعداد سات سَو رہ گئی۔

اس موقعے پر انصار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مدینے کے یہود میں سے جو ہمارے حلیف اور حمایتی ہیں کیوں نہ ہم ان سے مدد لے لیں۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں ان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد

صحابہؓ سے تفصیلی خطاب فرمایا جس میں مسلمانوں کے لیے مکمل لائحہ عمل تھا کہ کس طرح دین پر عمل کرنا ہے۔

اس جنگ میں قریش کے ساتھ قبیلہ بنی تہامہ اور قبیلہ بنو کنانہ بھی شامل ہوگئے اور یوں کفار کے لشکر کی تعداد تین ہزار تک جا پہنچی۔ کفار کا تمام لشکر مسلح تھا۔

جنگِ احد کی مزید تفصیل آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک مرتبہ پھر

فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے دعائیں جاری رکھنے کی تحریک

کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ خیال تھا گذشتہ دنوں جنگ بندی کے بعد سے اسرائیل بہت شدت کے ساتھ غزہ کے ہر علاقے پر بمباری کر رہا ہے۔ پھر معصوم بچے اور عورتیں شہید ہورہے ہیں۔ امریکی صدر بھی اب دبے دبے الفاظ میں یہ بیان دے رہے ہیں کہ یہ گولہ باری اب بند ہونی چاہیے۔ امریکی صدر کے یہ الفاظ انسانی ہمدردی کے لیے نہیں ہیں، ہمیں کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ بلکہ اب امریکہ میں انتخابات ہونے والے ہیں، اور نوجوان امریکی یہ ردّعمل دکھا رہے ہیں کہ جنگ بندی ہو، اسی طرح امریکی مسلمان بھی جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پس یہ ووٹ لینے کے لیے بیان دے رہے ہیں ورنہ انہیں فلسطینیوں سے یا مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اسی طرح

مسلمان ممالک جب تک ایک ہوکر جنگ بندی کی کوشش نہیں کریں گے، ان متفرق کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی وحدت پیدا فرمائے۔ آمین

اس ظلم کو روکنے کے لیے

ہمیں دعا کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے علاقے کے سیاست دانوں کو مسلسل توجہ دلاتے رہنا چاہیے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں۔ اسی طرح اپنے اپنے حلقہ احباب میں یہ بات پھیلائیں کہ اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

https://www.alfazl.com/2023/12/08/85273/

خطبے کے آخری حصے میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل دو مرحومین کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے نمازِ ہائے جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

۱۔ مکرمہ مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا عبد الحکیم اکمل صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ ہالینڈ۔مرحومہ گذشتہ دنوں وفات پاگئی تھیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کے خاوند مبلغ سلسلہ تھے۔اپنی ازدواجی زندگی میں کم و بیش پندرہ سال مرحومہ اپنے خاوند کے بیرون ملک ہونے کے باعث ان سے جدا رہیں۔ مرحومہ خلافت سے گہرا تعلق رکھنے والی، صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔

۲۔ ماسٹر عبدالمجید صاحب واقفِ زندگی استاد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ۔ مرحوم ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا آگئے تھے اور وہیں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم صبر و استقلال کے ساتھ وقف نبھانے والے، شاگردوں سے حسنِ سلوک کرنے والے بڑے فرشتہ صفت نیک انسان تھے۔

حضورِ انور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button