متفرق مضامین

وقف جدیدکا پس منظرو مقاصد

(م۔ا۔مشتاقؔ)

’’میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے۔ اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں۔ کپڑے بیچنے پڑیں۔ میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا‘‘

اللہ تعالیٰ نے جب مسیح آخرالزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے آسمانِ نو کی بنياد ڈالی تو اسے مسخر کرنے کے سامان بھی کر دیے۔ اور آپؑ کے بعد آپ کے خلفاء نے بھی اس کی بہت ہی احسن رنگ میں تزئین کی۔حالات کے موافق آپؑ کے جانشینوں نے اپنی جماعت کے سامنے وقتاً فوقتاً ایسی تحریکات پیش کیں جنہوں نے اسلام احمدیت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ فرزند ارجمند سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحبؓ جن کو خدا تعالیٰ نے مصلح موعود کا مقام عطافرمایا تھا جب منصب خلافت پر متمکن ہوئے تو جماعت بہت سی مشکلات کا شکار تھی۔بے شمار اندرونی و بیرونی خطرات منڈلا رہے تھے اور دشمن تو درکنار بعض اپنوں نے بھی ارتداد کی راہ اختیار کر لی اور جماعت پر ہنسی ٹھٹھا کی راہ اپنا لی۔ اور یہ ہر دوگروہ اس انتظار میں تھے کہ کب یہ کمزور جماعت اپنی آخری سانسیں لےکر فنا ہو جائے۔مگر بارگاہ ایزدی میں کچھ اَور ہی فیصلے کیے جا چکے تھےاور خدا کی منشا کچھ اَور ہی تھی جس سے نادان دنیا کے کیڑے غافل تھے۔عظیم باپ کے اس عظیم بیٹے نے سوائے خدا کے کسی کی پرواہ نہ کی اور یہ ثابت کر دیا کہ خدا کی تقدیر کس کے ساتھ ہے۔اور دشمن کو بھی یہ باور ہو گیا کہ اس جری اللہ کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں اور اس کو شکست دینا کسی دنیاوی طاقت کے بس کی بات نہیں۔سیدنا حضرت مصلح موعودؓ جب مومنین کی کمزور سی جماعت کو لےکر آگے بڑھے تو خدا کی نصرت اور تائید کی چھاؤں ہمیشہ اس جماعت کے سر پر رہی اور حوادث زمانہ اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکے۔اور یہ جماعت روز بروز ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئی۔

سیدنا حضرت فضل عمرؓ نے تربیتی و تنظیمی لحاظ سے جماعت کو کچھ ایسے مستحکم کیا کہ وہ ننھے پودے سے ایک قدآور درخت کی شکل اختیار کر گئی۔اب جبکہ جماعت برصغیر میں تیزی سے اپنے قدم مضبوط کررہی تھی اور افرادی قوت میں اضافہ ہو رہا تھا تو تربیت کی اشد ضرورت تھی۔ دور دراز علاقوں میں اور نئے آنے والے احمدیوں کو درست اسلامی تعلیمات اور جماعت کے عقائد سے آشنا کرنا اور تبلیغ کے سلسلہ کو مزید وسعت دینا بے حد ضروری تھا۔چنانچہ اس کے لیےخدا تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کے دل میں اسلام کی گذشتہ تاریخ کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایک تحریک پیدا کی جس کا اظہار آپ نے اپنے زمانہ خلافت کے آغاز کے سالوں میں کچھ یوں فرمایا:’’اس وقت جو مسلمانوں کی حالت ہو رہی ہے۔ اور جس طرح وہ محتاج ہیں کہ ان کی دینی تربیت کی جائے۔ اور اسلام جن مشکلات سے گزر رہا ہے۔اور احمدیہ جماعت کا جو فرض ہے…آج میں اس انتظام اور طریق عمل کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ جس کے ذریعہ ہمارا یہ فرض آسانی کے ساتھ پورا ہو سکتا ہے… سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا کیا طریق تھاجس سے تمام دنیا میں اسلام پھیل گیا۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ طریقِ تبلیغ ہمارے صوفیا کرام رضوان اللہ علیہم کا طریق تھا۔ ہندوستان میں اسلام حکومت کے ذریعہ نہیں پھیلا۔ بلکہ حکومت کے آنے سے صدیوں پہلے اسلام ہندوستان میں آچکا تھا۔ حضرت معین الدین چشتی کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ ہوئی۔پھر قطب الدین بختیار کاکی۔ فرید الدین شکر گنج۔نظام الدین صاحب اولیاء یہ لوگ ملک کے مختلف گوشوں میں پھیل گئےاور خدا کے دین کی اشاعت میں مصروف ہوگئے۔ یہ لوگ تنخواہ دار نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔ کچھ حصہ دن میں اپنا کام کرتے تھے اور باقی وقت دین کی اشاعت میں صرف کرتے تھے۔ یہی حال دوسرے ممالک کا ہے وہاں بھی حکومت کے ذریعہ اسلام نہیں پھیلا۔ بلکہ ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ پھیلا ہے۔

پس یہ وہ طریق ہے جس کے ذریعہ اسلام نے دنیا میں ترقی کی تھی۔ اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی پسند فرمایا تھا…یہی وہ روح تھی۔ جس نے اسلام کو ابتداء میں پھیلایا۔ اور یہی وہ روح ہےجو حقیقی اسلام کی روح ہے۔ ابتداء میں تبلیغ کا یہی رنگ تھا۔اور طریق بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ نے اس کو پسند فرمایا ہے۔اور یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعہ ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ پس جب تک کام اس طرح نہیں ہوگا۔وہ کام انجام نہیں پائے گا جو ہمارے پیش نظر ہے۔ پس ہمارے دوست اپنی زندگیاں وقف کریں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍ دسمبر ۱۹۱۷ء مطبوعہ خطبات محمود جلد۵ صفحہ ۶۰۵-۶۱۰)

حضرت مصلح موعودؓ کی یہ خواہش تحریک وقف جدید کی ابتدائی شکل تھی جو وقف جدید کے قیام کے وقت واضح ہوگئی۔حضوؓرکی اس تحریک کے بعد پھر جماعت پر نامساعد حالات آئے اور دشمن نے حسد میں آکر پے درپے حملےکیے اور دعویٰ کیا کہ ہم احمدیت کی آواز قادیان سے باہر نہیں نکلنے دیں گےتب خدا تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کی توجہ ایک اور عظیم الشان تحریک کی جانب مبذول کروائی کہ جس سے احمدیت کا پیغام زمین کے کناروں تک پہنچ سکے۔چنانچہ آپؓ نے تحریک جدید کا قیام فرمایا۔اور اب صدائے حق برصغیر سے نکل کر دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل چکی تھی۔ اور جماعت کے مبلغین دنیا کے کناروں تک جا پہنچے۔

پھر وہ سانحہ برپا ہو ا جس نے برصغیر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ۱۹۴۷ء میں جب برصغیر تقسیم ہوا تو خلافت احمدیہ کو بھی ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنی پڑی۔اسی طرح اَور بھی لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو جن میں احمدیوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی بے سروسامانی کے عالم میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا۔ تب اس خلیفة اللہ جو تین کو چار کرنے والا تھا نے اس نومولود ملک میں احمدیت کے ایک نئےمرکز کا قیام فرمایا اور اس کو ’’ربوہ ‘‘کے نام سے موسوم کیا۔

نئے مرکز کے قیام کے ساتھ اب جبکہ جماعت احمدیہ ترقیات کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکی تھی مخالفین نے بھی اپنی زور آزمائی نئے طور پر شروع کر دی تھی۔ بد قسمتی سے اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس وطن کو کچھ لوگوںنے اپنی ملکیت سمجھ لیا اور ان احمدیوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے جو سب سے زیادہ محب وطن تھےاور جنہوں نے اس مملکت کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ المیہ یہ کہ ان مخالفین میں اکثریت ان طبقات کی تھی جو نہ تو پاکستان بننے کے حق میں تھے اور نہ ہی پاکستان کی ترقی کے خواہاں تھے۔بہر حال ۱۹۵۳ء کا سال مخالفت کا اک طوفان اپنے ساتھ لایا اور مخالفین نے اس خدائی سلسلہ کو نابود کرنے کے لیے ایک بار پھر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ تاہم حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں جماعت احمدیہ نے اس طوفان کا ایسے سامنا کیا کہ دشمن کو اپنی سازشوں میں پوری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

اب جبکہ ایک طرف ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجراحمدیوں نے بھی ملک کے مختلف مقامات پر اپنے مساکن بنائے اور وہیں آباد ہو چکے تھےاور جماعت احمدیہ کسی خوشبو کی مانند پاکستان میں ہر سو پھیل رہی تھی اور جگہ جگہ نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آرہا تھا تو دوسری طرف حضرت مسیح موعودؑکے تربیت یافتہ اصحاب کی تعداد بھی طبعی طور پر رفتہ رفتہ کم ہورہی تھی۔ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی ایسا ذریعہ تربیت کا نکالا جائے کہ آنے والی نسلوں کو سنبھالا جا سکے اور پاکستان کے دُوردراز علاقوں میں بسنے والے احمدیوں کو جماعت کے ساتھ جوڑ کر ان کی بہترین رنگ میں تربیت کی جائے۔

تب خدا تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود ؓکے دل میں اُس خواہش کو دوبارہ اُجاگر کیا جس کا اظہار آپ نے اپنے ۷؍دسمبر ۱۹۱۷ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا۔ اس بار آپؓ نے عید الاضحیہ کے خاص موقعہ پر جماعت کے سامنےاس تحریک کو پیش کیا۔ اور جماعت کے نوجوانوں سے مخاطب ہو کر ان کو صوفیاء کے طرز پر اپنی زندگی وقف کرنے کی تلقین کی۔

اس ضمن میں آپ ؓ نے فرمایاکہ’’میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی ؒ کے نقش قدم پر چلیں توجس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیاں براہِ راست میرے سامنے وقف کریں تاکہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کر سکیں۔ وہ مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں۔ ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے۔ اور آج بھی اس میں چشتیوں کی ضرورت ہے، سہروردیوں کی ضرورت ہے، نقشبندیوں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ لوگ آگے نہ آئےاور حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ، حضرت شہاب الدین صاحب سہروردیؒ اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج جیسے لوگ پیدا نہ ہوئے تو یہ ملک روحانیت کے لحاظ سے اور بھی ویران ہو جائے گا…پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لیے وقف کریں۔‘‘(خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ ۹؍جولائی ۱۹۵۷ء مطبوعہ خطبات محمود جلد ۲ صفحہ۴۰۰-۴۰۱ )

بعد ازاں حضرت مصلح موعود ؓنے اس بابرکت تحریک کی مزید وضاحت ۱۹۵۷ء کے جلسہ سالانہ پر فرمادی اور آپ نے ۲۷؍دسمبر کے خطاب میں اس وقف کو کچھ یوں بیان فرمایا:’’اب میں ایک نئی قسم کے وقف کی تحریک کرتا ہوں۔ میں نے اس سے پہلے ایک خطبہ جمعہ۹؍جولائی ۱۹۵۷ء میں بھی اس کا ذکر کیا تھا …میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لے کر کراچی تک ہمارے معلّمین کا جال پھیلادیا جائے۔ اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو۔ اور اس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہویا دکان کھولی ہوئی ہو۔ اور وہ سارا سال اس علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے۔ اور گویہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میں نے خرچ کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں یا اور غیر ملکوں سے بھی لئے جائیں۔ مگر بہرحال ابتداء دس واقفین سے کی جائے گی۔ اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔…

پس میں جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ جتنی قربانی کر سکیں اس سلسلہ میں کریں۔ اور اپنے نام اس سکیم کے لیے پیش کریں۔اگر ہمیں ہزاروں معلم مل جائیں تو پشاور سے کراچی تک کے علاقہ کو ہم دینی تعلیم کے لحاظ سے سنبھال سکتے ہیں۔ اور ہر سال دس دس بیس بیس ہزار اشخاص کی تعلیم و تربیت ہم کر سکیں گے۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍فروری ۱۹۵۸ء)

پھر۳؍جنوری ۱۹۵۸ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓوقف جدید کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ ہماری جماعت کو یادرکھنا چاہیے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اُس کو اِس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رُشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اور کوئی مقام ایسا نہ رہے جہاں رُشد و اصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دَورہ کرتا ہوا ہر ایک جگہ گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹہ ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا۔ اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑے گا اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب میری اس نئی سکیم پر عمل کیا جائے اور تمام پنجاب میںبلکہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کردیئے جائیں جو اُس علاقہ کے لوگوں کے اندر رہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ ان سے متأثر ہوں۔ وہ اُنہیں پڑھائیں بھی اور رُشد و اصلاح کا کام بھی کریں۔ اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلایا جائے کہ کوئی مچھلی باہر نہ رہے۔ کنڈی ڈالنے سے صرف ایک ہی مچھلی آتی ہے لیکن اگر مہاجال ڈالا جائے تو دریا کی ساری مچھلیاں اُس میں آ جاتی ہیں۔ ہم ابھی تک کنڈیاں ڈالتے رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ایک ایک مچھلی ہی ہمارے ہاتھ میںآتی رہی ہے لیکن اب مہاجال ڈالنے کی ضرورت ہے اور اس کے ذریعہ گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ کے لوگوں تک ہماری آواز پہنچ جائے…پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد اس وقف کی طرف توجہ کرے اور اپنے آپ کو ثواب کا مستحق بنالے۔ یہ مفت کا ثواب ہے جو تمہیں مل رہا ہے۔ اگر تم اسے نہیں لو گے تو یہ تمہاری بجائے دوسروں کو دےدیا جائے گا۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍جنوری ۱۹۵۸ء)

حضرت مصلح موعود ؓکے دل میں خداتعالیٰ نے اس تحریک کے لیے جو جذبہ اور درد ڈالا تھا وہ آپؓ کے ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے جو آپ نے احباب جماعت کے نام لکھے گئے اپنے ایک پیغام میں تحریرفرمائے۔ آپؓ فرماتے ہیں :’’ میں نے اس سال ۲۷؍دسمبر کو ارشاد و اصلاح کی ایک اہم تجویز پیش کی تھی جس کے دو حصے تھے ایک وقف اور ایک چندہ۔ چندہ میں نے کہا تھا گو لازمی نہیں۔ لیکن ہر احمدی کوشش کرے کہ چھ روپے چندہ سالانہ یکمشت یا بارہ اقساط میں دیا کرے۔ ہماری جماعت میں آسانی سے ایک لاکھ آدمی ایسا پیدا ہو سکتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا کریں تو رشد و اصلاح کی تحریک کو ہم بڑی آسانی کے ساتھ ڈھاکہ سے کراچی تک اور کراچی سے ملتان اور لاہور ہوتے ہوئے راولپنڈی کے راستہ سے پشاور اور ہزارہ کی وادیوں میں پھیلا سکتے ہیں…یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے۔ اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں۔ کپڑے بیچنے پڑیں۔ میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا۔ اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے خداتعالیٰ ان لوگوں کو الگ کردے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اُتارے گا۔‘‘(روزنامہ الفضل ۷؍جنوری ۱۹۵۸ء)

وقف جدیدکی اس بابرکت اور انقلابی تحریک میں ایک طرف جہاں وقف زندگی کا مطالبہ تھا تو دوسری طرف مالی قربانی بھی مطلوب تھی تا زیادہ سے زیادہ معلمین کرام تیار کر کے انہیں اس ملک کے طول و عرض میں پھیلا دیا جائے اور رشد و ہدایت کا ایک اعلیٰ سلسلہ جاری رہےجس سے نہ صرف قرآن کریم کی تعلیم عام ہوبلکہ احمدیت کی تبلیغ و اشاعت بھی وسعت اختیار کرے اور یہ پیغام حق زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ چنانچہ جماعت کے مخلصین نے ہمیشہ کی طرح اپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک کہا اور اس تحریک کے لیےبڑھ چڑھ کر خود کو پیش کیا۔ واقفین کی درخواستیں بھی موصول ہوئیں اور چندہ جات کے لیے بھی احباب نے خوب قربانی کے وعدے کیے۔ احباب جماعت کی طرف سے اپنے پیارے امام کے لیے لبیک کی صدائیں سننے کے بعد سیدنا حضرت خلیفةالمسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے تحریک وقف جدید کے باضابطہ اعلان کے ساتھ ہی اس کے عملی کام کا آغاز فرمادیا اور ۹؍جنوری۱۹۵۸ء کو مکرم سید منیر احمد صاحب باہری سابق مجاہد برما کو انچارج وقف جدید مقرر کرتے ہوئے باقاعدہ دفتر کھولنے کی ہدایت فرمائی اور بطور کلرک فضل الرحمٰن صاحب نعیم (ابن عبدالرحمٰن صاحب اتالیق) کی منظوری دی۔ چنانچہ اسی روز وقف جدید کا دفتر، پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے احاطہ میں قائم ہو گیا اور انہوں نے حضور کی براہِ راست نگرانی میں کام شروع کر دیا۔ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۲۰ صفحہ ۲۰)

آج خدا تعالیٰ کے فضل سے جب وقف جدید کے قیام کو نصف سے زیادہ صدی گزر چکی ہے یہ بابرکت تحریک ترقی کی منازل طے کرتی کرتی عالمی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور ایک طرف جہاں تھر پارکر کی پیاسی روحوں کو اسلام کے آب حیا ت سے سیراب کردیا ہے تو دوسری طرف کشمیر اور بلتستان کے سبزہ زار بھی اس کے نور سے منور ہوچکے ہیں۔ایک طرف جہاں بتوں کے پجاریوں کی زبان پر معارفِ قرآنی جاری کردیےہیں تو دوسری طرف دکھی انسانیت کی روحانی و جسمانی بیماریوں کی شفا کا موجب بن رہی ہے۔آج وقف جدید کے نمائندگان اس ملک کے ہر حصّہ میں موجود ہیں اور حضرت مصلح موعودؓ کے مقصد کو پورا کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ خدا تعالیٰ اِن کا حامی و ناصر ہو اور خلیفة المسیح کی تو قعات کے مطابق خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button