از افاضاتِ خلفائے احمدیت

نماز: کامیابی اور نجات کا ذریعہ

نمازوں کو باقاعدگی سے اور بالالتزام پڑھنے کے بارے میں نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجلس میں فرمایا کہ’’نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو‘‘۔ فرمایا کہ’’بعض لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ نمازیں معاف نہیں ہوتیں یہاں تک کہ پیغمبروں تک کو معاف نہیں ہوئیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نئی جماعت آئی۔ انہوں نے نماز کی معافی چاہی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں۔ اس لئے اس بات کو خوب یاد رکھو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اپنے عمل کر لو۔‘‘ فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ آسمان اور زمین اس کے امر سے قائم رہ سکتے ہیں۔‘‘ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو تو تبھی زمین و آسمان قائم ہیں ورنہ نہیں۔ فرمایا کہ ’’بعض دفعہ وہ لوگ جن کی طبائع طبیعیات کی طرف مائل ہیں کہا کرتے ہیں کہ نیچری مذہب قابلِ اِتّباع ہے کیونکہ اگر حفظ صحت کے اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو تقویٰ اور طہارت سے کیا فائدہ ہوگا‘‘؟ (اپنے اپنے فلسفے لوگوں نے گھڑے ہوئے ہیں۔) آپؑ فرماتے ہیں کہ’’سو واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے یہ بھی ایک نشان ہے کہ بعض وقت ادویات بیکار رہ جاتی ہیں اور حفظ صحت کے اسباب بھی کسی کام نہیں آ سکتے۔ نہ دوا کام آسکتی ہے، نہ طبیبِ حاذق۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا امَر ہو تو الٹا سیدھا ہو جایا کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 263۔ ایڈیشن 1984ء )

پس اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا جائے اور اس کے لئے بہترین ذریعہ اس کی عبادت اور عبادتوں میں نماز کی ادائیگی ہے۔

پھر نماز کی حقیقت اور اہمیت اور انسان کو اس کی ضرورت اور نماز کی کیا کیفیت ہونی چاہئے؟ ان باتوں کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک موقع پر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’نماز کیا ہے؟‘‘ فرمایا کہ’’یہ ایک خاص دعا ہے۔ مگر لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں۔ نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے۔ اس کے غناءِ ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا، تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہے۔ بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے‘‘۔ (نمازوں کے ذریعہ سے جو اس کی حاجات ہیں پوری ہوتی ہیں۔ جو اس کا مقصدِ زندگی ہے وہ پورا ہوتا ہے، وہ اپنے مطلب کو پہنچتا ہے۔) فرمایا کہ ’’مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آجکل عبادات اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے۔ اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہو رہی ہے اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہئے وہ مزا نہیں آتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذّت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھاہو‘‘ (ہر چیز میں لذت رکھی ہے اور انسان اس میں ایک خاص قسم کا حظ محسوس کرتا ہے)۔ فرمایا کہ’’جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیز کا مزا نہیں اٹھا سکتا اور وہ اسے تلخ یا بالکل پھیکا سمجھتا ہے‘‘۔ (مریض ہیں۔ ان کے منہ بدمزہ ہو جاتے ہیں۔ زبان بک بکی ہو جاتی ہے تو ان کو کسی چیز کا مزا نہیں آتا۔ اکثر مریضوں سے ہم یہی دیکھتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’اسی طرح وہ لوگ جو عبادت الٰہی میں حظ اور لذت نہیں پاتے ان کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہئے‘‘۔ (جن کو نماز میں حظ نہیں آتا تو اس کا مطلب ہے وہ بھی بیمار ہیں۔) فرمایا’’کیونکہ جیسا مَیں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذّت نہ رکھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس عبادت میں اس کے لئے لذّت اور سرور نہ ہو۔ لذّت اور سرور تو ہے مگر اس سے حظ اٹھانے والا بھی تو ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذّاریات:57)۔ اب انسان جبکہ عبادت ہی کے لئے پیدا ہوا ہے (تو پھر) ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سرور بھی درجہ غایت کا رکھا ہو۔‘‘ (عبادت میں اعلیٰ درجے کی لذت اور سرور بھی ہونا چاہئے۔ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے صرف پیدا کیا اور اس کا کوئی مقصدنہیں یا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے یا اس میں سرور نہیں حاصل ہو رہا تو کس طرح انسان وہ کام کر سکتا ہے۔) فرمایا ’’اس بات کو ہم اپنے روزمرّہ کے مشاہدے اور تجربے سے خوب سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لئے پیدا ہوئی ہیں‘‘۔ (کھانے پینے کی تمام چیزیں انسان کے لئے پیدا ہوئی ہیں) ’’تو کیا ان سے وہ ایک لذت اور حظ نہیں پاتا؟ کیا اس ذائقہ، مزے اور احساس کے لئے اس کے منہ میں زبان موجودنہیں؟ کیا وہ خوبصورت اشیاء دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات، (پودے ہوں، پھل ہوں، پہاڑ ہوں، خوبصورت چیزیں ہوں) حیوانات ہوں یا انسان حظ نہیں پاتا‘‘؟ (ان کو دیکھ کر یقیناً اس سے وہ لطف اندوز ہوتا ہے)۔ فرمایا کہ ’’کیا دل خوش کُن اور سریلی آوازوں سے اس کے کان محظوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اَور بھی اس امر کے اثبات کے لئے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذت نہیں۔‘‘ آگے آپؑ فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے عورت اور مرد کو جوڑا پیدا کیا اور مرد کو رغبت دی ہے۔ اب اس میں زبردستی نہیں کی بلکہ ایک لذّت بھی دکھلائی ہے۔ اگر محض توالد و تناسل ہی مقصود بالذات ہوتا تو مطلب پورا نہ ہو سکتا۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خوب سمجھ لو کہ عبادت بھی کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں۔ اس میں بھی ایک لذت اور سرور ہے اور یہ لذت اور سرور دنیا کی تمام لذّتوں اور تمام حظوظ ِنفس سے بالا تر اور بلند ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ’’جیسے ایک مریض کسی عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذا کی لذت سے محروم ہے اسی طرح، پر ہاں ٹھیک ایسا ہی وہ کمبخت انسان ہے جو عبادت الٰہی سے لذت نہیں پاسکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 159-160، ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button