متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ دوم)

(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)

اے چھاؤں چھاؤں شخص !تری عمر ہو دراز

ایک طویل سفر

میں نے کچھ وقت ایک خادم ناصر احمدصاحب کے ساتھ بھی گزارا جن کی عمر ۳۶؍سال تھی۔ انہوں نے مجھے اپنے جرمنی آنے کے سفر کے بارے بتایا۔۲۰۱۳ء میں وہ پاکستان سے تھائی لینڈ گئے جہاں وہ کچھ عرصہ رہے۔ بعد ازاں امسال وہ جرمنی آ گئے اور اسائیلم کر لیا۔ ان کی اہلیہ اور تین چھوٹے بچے جو واقفین نو ہیں ، ابھی تک ربوہ میں ہی ہیں لیکن موصوف انہیں جرمنی بلانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ اس معاملے میں پانچ سے چھ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اگرچہ موصوف فرنکفرٹ سے دُور ایک قصبہ میں رہائش پذیر تھے تاہم حضور انور کے دورہ کے دوران جس قدر ممکن ہو سکتا آپ بیت السبوح میں وقت گزارتے۔

بیت السبوح تک آنے کے لیے اپنے سفر کے متعلق ناصر صاحب نے بتایا کہ حضور انور کے جرمنی تشریف لانے کے اگلے روز آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے لیے سخت بے تاب تھا۔ اس لیے میں نے اپنی جماعت کے دوستوں سے پوچھا کہ کوئی بیت السبوح جا رہا ہے؟ لیکن مجھے کوئی ایسا دوست نہ مل سکا جو مجھے ساتھ لے جا سکے۔ ناصر صاحب نے مزید بتایا کہ میرا حضور انور کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کا مصمّم ارادہ تھا اس لیے میں صبح دس بجے گھر سے نکلا اور ٹرام سٹیشن کی طرف چل پڑا اور وہاں سے ٹرام لی۔ اس کے بعد ایک بس میں سوار ہوا اور پھر ایک دوسری ٹرین کے ذریعہ فرنکفرٹ پہنچا۔ فرنکفرٹ پہنچنے کے بعد ایک اور بس تبدیل کر کے میں دو بجے سے کچھ پہلے نماز ظہر اور عصر کے لیے یہاں پہنچ گیا۔ پھر مجھے حضور انور کی اقتد ا میں نماز ادا کرنے کی سعادت ملی۔ بعد ازاں مسجد سے سوا تین بجے روانہ ہو کر ٹھیک سوا سات بجے اسی طرح سفر کر کے واپس گھر پہنچ گیا۔

ان کی گفتگو سے میں بہت متاثر ہوا کہ حضور انور کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے کے حوالے سے وہ کس قدر مصمّم ارادہ رکھتے تھے۔ موصوف نے مزید بتایا کہ یہ ایک لمبا سفر تھا لیکن اس کا ایک ایک لمحہ کمال کا تھا۔ حضور انور کا دیدار کرنے اور آپ سے ملاقات کرنے کے لیے میں جرمنی آیا تھا اور اگر اب میں ناکام ہو جاتا اور حضور انور کے پیچھے نمازیں ادا نہ کر پاتا تو مجھے شرمساری ہوتی۔

پھر ناصر صاحب نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر مجھے ربوہ میں موجود اپنی اہلیہ اور بچوں کے بارے میں بتایا کہ میرےیہاں آنے پر بہت زیادہ خرچ ہوا ہے اور اب Karlsruhe میں جلسہ سالانہ پر جانے کے لیے بھی بہت خرچ ہوگا۔ اس لیے میں کچھ پریشان تھا۔ اگر میں یہاں نہ آ سکتا تو شاید خود کو معاف نہ کر پاتا مگر ساتھ ساتھ ہمارے ذرائع آمدبھی بہت محدود ہیں۔میں نے اس بات کا ذکر اپنی اہلیہ سے کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ پریشان نہیں ہونا ۔میں نے ان سے وعدہ کر رکھا تھا کہ ربوہ کے جس مکان میں وہ رہائش پذیر ہیں وہاں انہیں UPSلگوا کر دوں گا (تاکہ لائٹ جانے کی صورت میں سہولت رہے) لیکن انہوں نے مجھے کہا کہ وہ رقم میں جلسہ سالانہ کے سفر اور بیت السبوح آنے جانے پر خرچ کر دوں۔انہوں نے مجھے کہا کہ حضور انور سے ملنا، آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرنا اور جلسہ سالانہ جرمنی پر ڈیوٹی دینا زیادہ ضروری ہے۔

ناصر صاحب نے بتایا کہ جب میں پاکستان میں مقیم تھا تو ہم کافی آسودہ حال تھے۔مَیں UNپولیو پراجیکٹ میں کام کر رہا تھا۔لیکن اب حالات کافی ناساز گار ہیں ۔ میری اہلیہ اور بچے زیادہ قربانی دے رہے ہیں۔ میری فیملی دو کمروں کے ایک مکان میں رہ رہی ہے۔میرا بیٹا مدرسۃ الحفظ میں پڑھ رہا ہے اور میری بیوی اس کو گرمی سے بچانے کے لیے اپنے ہاتھ سے پنکھا جھلتی ہے تاکہ بجلی کے بِل کی بچت کر سکے۔

حضور انور سے زندگی میں پہلی ملاقات کے بارے میں موصوف نے بتایا کہ کئی دنوں سے میں سوچ رہا تھا کہ حضور انور کو دیکھنے پر میں آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام پہنچاؤں گا لیکن حضور انور کی مسکراہٹ اور شفقت نے مجھے اس قدر جذبات سے مغلوب کر دیا کہ میں ایسا کرنا بالکل بھول گیا۔مجھے حضور انور کی خدمت میں اپنی مشکلات کا تذکرہ کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آئی کیونکہ میں جان چکا تھا کہ مجھے دیکھتے ہی حضور کو ان مشکلات کا اندازہ ہو گیا تھا جن سے ہم گزر رہے ہیں۔ملاقات کے بعد اب میں بہت پُرسکون ہوں اور مجھےیقین کامل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل وقت میں ہماری مدد فرمائے گا۔ جملہ مشکلات جن کا ہمیں سامنا ہے وہ اس جزا کے سامنے ماند پڑ جاتی ہیں جب میری ملاقات ایک ایسے وجود سے ہوئی جس کو اللہ تعالیٰ پوری دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتا ہے۔

ایک منٹ بھی ضائع نہ کرنا

جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر جلسہ گاہ سے حضور انور کی رہائش چند سو میٹر کی مسافت پر تھی، اس لیے وہاں پہنچنے میں چند منٹ درکار تھے۔ ان چند منٹوں میں بھی حضور انور جلسہ سالانہ کے انتظامات کے بارے میں استفسار فرماتے تھے ۔امیر صاحب یا دیگر عہدیداران میں سے کوئی کسی معاملہ کی بابت حضور انور سے راہنمائی اور ہدایات حاصل کرلیتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک شام جب حضور انور واپس اپنی رہائش گاہ تشریف لے جا رہےتھے توا میر صاحب جرمنی نے حضور انور کو بتایا کہ اگلے روز میڈیا سے تعلق رکھنے والے چند احباب خطبہ جمعہ میں شامل ہوں گے اور بہت سے احباب نے حضور انور کا انٹرویو کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے وہ کل پرچم کشائی اور جمعہ سے بالکل پہلے انٹرویو کر سکتے ہیں۔

بعد ازاں حضور انور کے رہائش گاہ میں داخل ہونے سے چند لمحات قبل پرائیویٹ سیکرٹری مکرم منیر جاوید صاحب نے حضور انور کی خدمت میں دفتری خطوط اور رپورٹس کی فائل پیش کی۔ اس فائل کو اندر لے جانے کی بجائے حضور انور نے وہیں کھڑے کھڑے ملاحظہ فرمایااور ان پر اپنے دست مبارک سے ہدایات تحریر فرمائیں۔ اس کے بعد حضور انور نے مکرم منیر جاوید صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جلسہ کے پروگرام کے مطابق نماز مغرب اور عشاء کا وقت پونے دس بجے رکھا گیا ہے، اسے تبدیل کر کے نو بجے کر دیں۔

حضور انور کی رہائش گاہ پر ایم ٹی اے کا ایک مسئلہ

جمعہ کی شام کو مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور نے واپس اپنی رہائش گاہ تشریف لاتے ہوئے مکرم منیر الدین شمس صاحب ( مینیجنگ ڈائریکٹر ایم ٹی اے انٹرنیشنل) سے گفتگو فرمائی اور بعد ازاں ایم ٹی اے جرمنی کے head سے بھی گفتگو فرمائی۔ حضور انور نے ذکر فرمایا کہ آپ کی رہائش گاہ میں جو ایم ٹی اے لگایا گیا ہے وہ ٹھیک طرح کام نہیں کر رہا ۔ صرف انگریزی اور جرمن زبان میں ترجمہ آرہا ہے جبکہ اگر اردو کا کوئی پروگرام دیکھنا ہوتو براہ راست دیکھنے کی بجائے اس کا ترجمہ سننا پڑتا ہے۔

ایم ٹی اے جرمنی کے head نے جوابا ًعرض کیا کہ حضور کی رہائش گاہ میں کسی اَور نے ٹی وی کیsettingکی ہے اس لیے ہم اس کے ذمہ دار نہیں۔یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے کچھ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا کہ آپ یہاں ایم ٹی اے کےhead ہیں اس لیے آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ آپ کو دوسروں کو الزام نہیں دینا چاہیے۔

یہ حضور انور کی طرف سے ایک اہم پیغام تھاکہ جماعتی خدمت کرنے والوں کو کسی غلطی یا کمزوری پر دوسروں پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیےبلکہ اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور طور پر نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔

حضور انور شاذو نادر ہی کسی کو ڈانٹتے یا سرزنش فرماتے ہیں اور ایسے کبھی کبھار رونما ہونے والے مواقع پر بھی جہاں حضور انور ناراضگی کا اظہار فرماتے ہیں، مَیں نے دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی شخص اپنی غلطی یا کمزوری کا اعتراف کر لے تو حضور انور فوراًہی اس سے درگزر فرما تےہیں۔

یہی میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ چند دن قبل حضور انور نے خاکسار سے ۲۰۰۷ء میں میرے وقف کرنے سے قبل جماعتی خدمت کے حوالے سے میرے ذاتی تجربہ کے بارے میں استفسار فرمایا۔اس پرخاکسار نے عرض کی کہ ایک بار میرے بالا عہدیدار نے مجھے میری ایک غلطی پرسخت ڈانٹ پلائی۔اس وقت میں مقامی عاملہ کا ممبر تھا۔یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ تم نے مقامی عاملہ میں کتنا عرصہ خدمت کی ہے؟ جواب میں خاکسار نے عرض کی کہ شاید ایک سال یا اٹھارہ ماہ۔ پھر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ تمہیں میرے ساتھ کام کرتے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟خاکسار نے عرض کی کہ اللہ کے فضل سے تقریباً نو سال ۔حضور نے فرمایا کہ ان نو سال میں، مَیں نے کتنی بار اپنی آواز بلند کی ہے یا تمہاری سرزنش کی ہے؟ جواب میں خاکسار نے عرض کی کہ کبھی نہیں۔

میرے پاس مسکرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ گذشتہ نو سال میں مجھ سے بے شمار غلطیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن حضور انور نے کبھی غصے کا اظہار نہیں فرمایابلکہ جہاں ضرورت ہوتی ہے حضور انور نہایت محبت اور شفقت سے میری توجہ اس طرف مبذول کروا دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ دیگر تمام ایسے احباب جنہیں حضور انورکی قربت میں کام کرنے کا موقع ملا ہے وہ بھی یہی بتائیں گے۔

حضور انور نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ تم نے مجھے گذشتہ کئی سالوں میں کئی عاملہ میٹنگز میں دیکھا ہو گا ۔جب بھی میں عہدیداران کو کسی شعبے میں کمزوری یا کوتاہی کی طرف توجہ دلاتا ہوںتو کبھی بھی چیختے یا چلاتے ہوئے نہیں کرتا۔

یقیناً حضور انور نے بالکل درست فرمایا۔ بسا اوقات میں ایسی میٹنگز میں ہوتا ہوں جن کی صدارت حضور انور فرماتے ہیں جہاں کئی معاملے پیش کیے جاتے ہیں اور مجھے توقع ہوتی ہے کہ حضور انور مقامی عہدیداران کو ان کی کمزوریوں پر سرزنش کریں گے ۔لیکن حضور انور اس کے برعکس مسکراتے ہوئے محبت کے ساتھ حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ میں کبھی حضرت خلیفۃ المسیح سے زیادہ صبر ، حوصلے اور درگزر کرنے والے وجود سے نہیں ملا۔

حضور انور کی رہائش گاہ میں ایم ٹی اے کے تراجم والے چینل کا جو مسئلہ درپیش تھا، اس حوالے سے اگرچہ ایم ٹی اے کی سینئر انتظامیہ اور کئی ڈائریکٹرز (جن میں خاکسار بھی شامل ہے) جرمنی میں موجود تھے، لیکن افسوس کہ ہم میں سے کسی سے بھی اس مسئلے کو حل کرنا ممکن نہ ہوا۔اگرچہ یہ ایک سادہ سا معاملہ تھا۔بالآخر چوبیس گھنٹے بعد حضور انور نے منیر عودہ صاحب (ڈائریکٹر ایم ٹی اے پروڈکشن)کو بتایا کہ آپ نے خود ہی ٹی وی کی settingsٹھیک کر کے اس مسئلے کو حل فرما لیا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button