حضرت مصلح موعود ؓ

قرآنِ کریم پڑھنے کی ہدایت (قسط اوّل)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۸؍مارچ ۱۹۱۹ء)

۱۹۱۹ء کےاس خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے قرآن کریم کو رضائے باری تعالیٰ حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔نیز آپؓ نے بتایا ہے کہ قرآن کریم کے معارف لا متناہی ہیں۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے فضل سے اپنی رضا مندی حاصل کرنے کا طریق بتا دیا ہے۔ اب خود اس کے لئے کوئی نصاب تیار کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ضرورت ہے کہ لوگوں سے معلوم کریں۔

تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:دُنیا میں بہترین چیزوں میں سے اور نہایت ہی کارآمد اشیاء میں سے ایک ہدایت ہے۔ صراط مستقیم کی ہدایت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ کون سا کام ہے جو بغیر صحیح ذرائع کے ہو سکتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔خواہ کام چھوٹے سے چھوٹا کیوں نہ ہو بغیر صحیح ذرائع کے انجام نہیں پاسکتا۔ مثلاً روٹی کھانا بلحاظ اس کے کہ انسان اس کے کھانے کے لئے ہر روز مجبور ہے کس قدر چھوٹا کام ہے مگر غور کرو جب تک انسان لقمہ منہ میں نہیں ڈالے گا کیسے کھائے گا۔ بات تو معمولی سی ہے مگر ہو گی اسی طریق سے جو خدا نے اس کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ اسی طرح علم ہے

علم کے سیکھنے کے لئے قواعد ہیں۔ اگر ان قواعد کو استعمال نہ کیا جائے تو کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا۔

بہت لوگ ہیں جو راتوں کو جاگتے اور پڑھتے ہیں مگر جس طریق سے یا جن کتابوں کے پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے ان کو نہیں پڑھتے اس لئے علوم میں ترقی نہیں کر سکتے۔ بعض لڑکے ہر وقت کتاب ہاتھ میں لئے نظر آتے ہیں مگر جب امتحان ہوتاہے تو فیل ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ تو بڑی محنت کرنے والے طالبعلم تھے پھر کیوں فیل ہوئے مگر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کتاب کے ساتھ ناول بھی رکھتے ہیں۔ جب پڑھنے بیٹھے تو کہا چلو دو ایک صفحہ اس کے بھی پڑھ لیں۔ اسی طرح دو دو صفحہ میں ان کا سال تمام ہو جاتا ہے اور وہ امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

تو جب تک صحیح ذرائع نہ ہوں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ جو بڑے بڑے امور ہیں ان کے لئے اس سے بھی زیادہ صحیح ذرائع کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔

پس جب تک صراط مستقیم کی ہدایت نہ ہو کچھ بھی نہیں حاصل ہو سکتا۔ کجا یہ کہ تقویٰ و طہارت نصیب ہو۔

یہ تو بڑی باتیں ہیں ان کے لئے تو اَور زیادہ صراط مستقیم کی ہدایت اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے لئے خود صراط مستقیم انسان نہیں تجویز کر سکتا۔ دُنیا میں اور علوم کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ ایک کے لئے دوسرا ذریعہ بن جائے اور دوسرا اسے کوئی مفید بات بتاوے۔ خود ان علوم میں بھی۔ انسان اپنے لئے آپ طریق ایجاد نہیں کر سکتا۔ مثلاً جو انسان عربی یا انگریزی پڑھنا چاہے وہ خود کہاں انگریزی کا کورس یا عربی کا نصاب تجویز کر سکتا ہے۔ دوسرے جنہوں نے ان علوم کو پڑھا ہوا ہوتا ہے وہ کچھ بتا دیتے ہیں۔ تو ان علوم میں ایک انسان دوسرے کے لئے ذریعہ ہدایت ہو سکتا ہے، لیکن

خدا کی رضا انسان نہ خود معلوم کر سکتا ہے اور نہ دوسرا انسان اس کے حاصل کرنے کا بطور خود طریق بتا سکتا ہے۔

یہ تو خدا کی رضا ہے مَیں کہتا ہوں انسان انسان کی رضا خود نہیں معلوم کر سکتا جب تک وہ خود نہ بتائے۔ بہت دفعہ جب بچہ روتا ہے تو ماں چُپ کرانے کے لئے اسے پانی دیتی ہے۔ اس پر چُپ نہیں ہوتا تو دودھ دیتی ہے اس کو بھی جھٹک دیتا ہے۔ تو کوئی اَور چیز دیتی ہے مگر پھر بھی وہ خاموش نہیں ہوتا۔ روتے روتے سو جاتا ہے۔ یا ایسا ہوتا ہے کہ بیسیوں غلطیوں کے بعد کچھ پتہ لگتا ہے کہ فلاں وجہ سے روتا ہے۔

پس جب اپنے ہم جنس کا عندیہ معلوم کرنا آسان نہیں تو خدا تعالیٰ کی رضا کا از خود معلوم کرنا ممکن نہیں۔ ہاں جب خدا تعالیٰ بتادے کہ میرا یہ منشاء اور یہ عندیہ ہے تو پتہ لگتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنی رضا مندی کو بتا دیاہے اور وہ قرآن کریم میں مسطور ہے اور جیسے

ہر چیز کے حصول کے لئے صراطِ مستقیم کی ضرورت ہے ویسے ہی خدا کی رضا کے حصول کے لئے بھی ہے

قرآن کریم کے ابتدا میں ہی انسان ہدایت طلب کرتا ہے اور کہتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ وہ خدا سے سیدھے رستہ کی ہدایت چاہتا ہے۔ جھٹ اس کو جواب ملتا ہے الٓمّٓ۔ذٰلِكَ الْكِتٰبُ۔کہ یہ رستہ ہے۔

پس اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے فضل سے اپنی رضا مندی حاصل کرنے کا طریق بتا دیا ہے۔ اب خود اس کے لئے کوئی نصاب تیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور نہ ضرورت ہے کہ لوگوں سے معلوم کریں۔ ہاں ضرورت ہے کہ ان اشارات اور رموز کو جو اس رستہ میں موجود ہیں دوسرے واقفوں سے سمجھ لیں۔ اب رستہ کے متعلق یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ کس رستہ پر چلیں۔ اب تو اس رستہ کے حالات دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآن کریم میں وہ ذریعہ موجود ہے جس سے ہم اﷲ تعالیٰ کو پاسکتے ہیں اور اس کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں۔

اور یہ وہ چیز ہے جس سے ہمیں تمام قربِ الٰہی کی راہیں معلوم ہو سکتی ہیں۔ پس یہی ایک ذریعہ ہے جس سے خدا ملتا ہے اور اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں ہے جس پر قدم مار کر ہم خدا تک پہنچ سکیں۔

یہ سچ ہے کہ خدا تک پہنچنے کے کئی رستہ ہیں کیونکہ خدا لا محدود ہے اور وہ چونکہ لامحدود ہے اس لئے اس کے پانے کے رستہ بھی غیر محدود ہی ہیں۔ پھر اس کا عرفان بھی غیرمحدود ہے۔ اس لئے اس کے لئے کوشش بھی غیر محدود کی ہی ضرورت ہے۔

ایک چھوٹی سی چیز کا نظر آسانی سے احاطہ کر لیتی ہے لیکن جو چیز بڑی ہو اس کا احاطہ نظر جھٹ پٹ نہیں کرسکے گی

بلکہ اس کے لئے بڑی کوشش اور سعی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک وسیع سمندر ہے اس کے لئے نظر کو بہت زیادہ وسیع کرنا پڑے گا اور بڑی کوشش اور محنت کے بعد اس کا احاطہ ہوسکے گا۔ پس جوچیز غیر محدود ہو اس کے حاصل کرنے کے لئے غیرمحدود وقت اور غیرمحدود کوشش کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کی معرفت کی کوئی حد بندی نہیں ہے اس لئے اس کے لئے جس قدر کوشش کی ضرورت ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتی اور جس قدر ذرائع اس کے حصول کے ہیں وہ سب قرآن کریم میں درج ہیں۔ اس کے باہر کوئی نہیں ہے مگر افسوس کہ بہت ہیں جو ادھر توجہ نہیں کرتے۔ زید وبکر کے اقوال کی طرف توجہ کرتے ہیں مگر قرآن کی طرف توجہ نہیں کرتے۔

مَیں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ اپنی کوششوں کو قرآن کریم سمجھنے میں صرف کریں۔ کبھی نہ سمجھو کہ تم نے قرآن کریم کو سمجھ لیا۔

وہ لوگ جھوٹے ہیں، غلط کہتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے قرآن کو پڑھ لیا اور اس کے معارف پر احاطہ کر لیا۔ اب اُنہیں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بالکل غلط ہے قرآن کو کوئی ایسا نہیں پڑھ سکتا کہ پھر اسے پڑھنے کی ضرورت نہ رہے۔ کیونکہ جتنا کوئی اس کو پڑھتا ہے اُتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ قرآن محدود نہیں ہے کہ اس کو کوئی پڑھ لے ہاں اس کے الفاظ محدود ہیں۔ یہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے الفاظ کو پڑھ لیا۔ مگر قرآن کو نہیں پڑھ لیا۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھ لیا تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے ال سے لے کر وَلَا الضَّآلِّیْن تک کے حروف و الفاظ کو پڑھ لیا۔ باقی رہا یہ کہ اس کے اندر جو علوم اور حکمتیں اور معارف ہیں وہ بھی اس نے ختم کر لئے۔ یہ درست نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ

ان تمام علوم کو جو اس کے اندر ہیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ختم نہیں کر سکے۔ مسیح موعودؑ بھی ختم نہیں کر سکے۔

اگر اُنہوں نے ختم کر لیا ہوتا تو کیا ضرورت تھی کہ ہر نماز میں یہ پڑھتے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ وہ جُوں جُوں پڑھتے تھے اسی قدر اس کے معارف و مطالب اور وسیع ہوتے چلے جاتے تھے۔ اگر ان پر اس کے علوم ختم ہو گئے تھے۔ تو اس دُعا کے پڑھنے کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ کھائی ہوئی روٹی کو دوبارہ کھایا جاتا اور نہ پئے ہوئے پانی کو دوبارہ پیا جاتا ہے۔ ہر بار نئی روٹی کھائی اور نیا پانی پیا جاتا ہے۔ اسی طرح قرآن جو روحانی غذا ہے۔ یہ بھی ہر بار نیا ہوتا ہے۔

اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے ایک دفعہ پڑھ کر مثلاً سورۃ فاتحہ کے تمام مطالب کا احاطہ کر لیا ہے اور اس کے لئے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں تو وہ غلط کہتا ہے۔

یاد رکھو کہ ہر ایک کلام کے متعلق یہ بات ہے کہ جوں جوں انسان اس کے متعلق مشق کرتا ہے اس کا دماغ جِلا پاتا جاتا ہے۔ پس اسی طرح جب انسان قرآن کے علوم پر غور کرتا ہے تو ہر دفعہ نئے علوم اس کو عطا ہوتے ہیں۔ اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے قرآن کے علوم کو ختم کر لیا۔ حتّٰی کہ سب سے بڑے قرآن کے جاننے والے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپؐ نے قرآن کے علوم کو ختم کر لیا۔ کیا جو لوگ جنّت میں داخل ہو گئے ان کے لئے مدارج ختم ہو گئے؟ نہیں۔ ان کے مدارج بھی ترقی کر رہے ہیں۔ آنحضرتؐ کے مدارج میں بھی ترقی ہو رہی ہے۔ اگر آپؐ کے مدارج ختم ہو جاتے تو یہ درود کیوں سکھایا جاتا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْراھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اور پھر اگر آپؐ کے لئے تمام ترقیات ختم ہو گئی تھیں تو یہ دُعا سکھانے کی کیا ضرورت تھی۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ مومن یہ اسی لئے پڑھتا ہے تاکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جس قدر مدارج حاصل ہو چکے ہیں ان میں اور زیادتی ہو۔ پس آپ کے مدارج بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے آپ پر بھی علوم ختم نہیں ہوئے۔

جن معنوں میں قرآن کا ختم ہو جانا کہا جاتا ہے اس کا یہی مطلب کہ حروف و الفاظ کو ختم کر لیا۔ یہ مت کہو اور ہر گز مت سمجھو کہ قرآنی علوم کو ختم کر لیا۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button