متفرق مضامین

گیارہ سالہ قریب المرگ بیٹے کے ساتھ سرزمین افریقہ پر پہنچنے والی ایک بہادر احمدی خاتون

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

سیرالیون تشریف لانے والی پہلی خاتون اور ان کی اس قربانی کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے
کہ سیرالیون کا اس زچہ و بچہ ہسپتال کے حوالہ سے انتخاب شاید اتفاق نہیں ہے بلکہ اسی قربانی کا صلہ ہے

چند دن ہوئے صبح کی سیر کرتے کرتے گورنمنٹ وارف(wharf) پر جا نکلے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں کسی زمانہ میں بڑے بڑے بحری جہاز لنگر انداز ہوتے تھے۔ لیکن اب بھی یہاں سمندری ہواؤں کی سرسراہٹ گزری ہوئی صدی کی تاریخ کو گوش گزار کرتی ہے۔ یہاں کسی زمانہ میں بہت رش ہوا کرتا تھا۔ جس کی ایک جھلک آپ یوٹیوب پر موجود ملکہ برطانیہ کوئین الزبیتھ کی ۱۹۶۱ء میں سیرالیون آمد کی ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اب یہاں صرف سرکاری جہاز ہی لنگرانداز ہوتے ہیں۔

یہ بندرگاہ اس خدائی نشان کی گواہ بھی ہے کہ یہاں حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۲۱ء میں بطور پہلے مبلغ مغربی افریقہ ونمائندہ خلیفة المسیح قدم رکھا اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے دور میں اس تاریک براعظم میں اسلام احمدیت کا سورج افریقہ کے مغرب سے بھی طلوع ہوا اور اسلام احمدیت کا باقاعدہ پیغام اور تبلیغ عمل میں آئی۔ پھر ۱۹۳۷ء میں حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحبؓ پہلے ریذیڈنٹ مشنری کے طور پر تشریف لائے اور اسلام احمدیت کی بنیاد ایسے طور پر مستحکم کی کہ ہم ایک صدی بعد اس کا شیریں پھل کھا رہے ہیں۔

سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کے کئی ابواب ایسے ہیں جو ان سمندری ہواؤں کی طرح خاموش ہیں۔ لیکن بادِ صبا کی ان خاموش صداؤں نے وہ واقعہ گوش گزار کیا جو مکرم مولانا مبارک احمد نذیر صاحب مرحوم کی زبانی کئی بار سوشل میڈیا پر سن چکے ہیں۔ لیکن اصل مقصود وہ واقعہ نہیں بلکہ اس کا دوسرا رُخ ہے۔

ماہِ نومبر ۱۹۴۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی ہدایت پر حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحبؓ مبلغ سیرالیون و رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اپنی اہلیہ آمنہ بیگم اور گیارہ سالہ بیٹے مبارک احمد کے ہمراہ قادیان سے ایک بار پھر مغربی افریقہ روانہ ہوئے۔ قادیان سے سیرالیون تک کا طویل اور کٹھن بحری و بری سفر تھا جس میں تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ نائیجیریا کے شہر لیگوس کی بندرگاہ کا واقعہ ہے۔ یہ ۱۹؍فروری ۱۹۴۶ء کا دن تھا۔ مولانا صاحب اپنی اہلیہ، ایک شدید بیمار بیٹے اور دو مبلغین کے ہمراہ سیرالیون جانے کے لیے جہاز پر سوار ہونے کے لیے موجود تھے۔ بحری جہاز پر سوار ہونے سے پہلے ہر مسافر کا ڈاکٹر سے معائنہ ضروری تھا، تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اس کی صحت اس لمبے بحری سفر کے لیے موزوں ہے۔ ڈاکٹر نے جب ان کے بیٹے کو چیک کیا، اس کا ٹمپریچر لیا اور اس کی حالت دیکھی تو اس نے مولانا صاحب سے کہا کہ میں اس بچے کو سفر کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس سفر میں مر جائے اور جہاز میں ہمارے پاس کولڈ اسٹوریج یعنی سرد خانہ نہیں ہے۔ کچھ بحث و تمحیص کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ میں اسے صرف اس صورت میں لے جانے کی اجازت دے سکتا ہوں جب آپ اس دستاویز پر دستخط کریں کہ جس میں ہمیں اجازت دی جائے کہ اگر وہ جہاز میں ہی مر جائے تو اس کی لاش کو سمندر برد کر دیا جائے۔

یہ سن کر بچے کی ماں کا کلیجہ منہ کو آگیا۔ وہ اپنے اکلوتے بچے کے لیے تڑپ کر اپنے شوہر سے کہنے لگی: اگلاجہاز لے لیں گے۔ جنگ عظیم دوم ختم ہوئی تھی۔ بحری جہازوں کی آمدو رفت میں کمی تھی۔ لیکن اس مجسم توکل علی اللہ اور اطاعت خلافت سے سرشار وجود نے اپنی بیوی اور اس بے چین ماں کو تسلی دی اور کہا:آمنہ فکر نہ کرو۔ مبارک کو کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے دوسرا جہاز کب ملے گا۔ میں ایک مبلغ ہوں۔ مجھے حضرت امیر المومنین نے ایک فرض سونپا ہے۔ پھر حضرت مولانا نے اپنے بچے کا بازو پکڑا اور گرج دار آواز میں ڈاکٹر سے پوچھا: ’’مجھے کہاں پر دستخط کرنے ہیں؟‘‘پھر حضرت مولانا نے فرمایا: اگر وہ مر جائے تو اسے سمندر میں پھینک دو، لیکن اسے کچھ نہیں ہوگا۔ دستخط کرنے کے بعد مولانا صاحب نے بچہ کا ہاتھ پکڑا اور کشتی میں سوار ہوگئے۔

وہ گیارہ سالہ بچہ مولانا مبارک احمد نذیر صاحب تھے۔وہ کہتےتھے کہ ان کے کانوں میں ان کے والد کی یہ آواز آج بھی گونجتی ہے۔ وہ ۸۷سال کی عمر تک زندہ رہے اور اپنی طویل اور مثالی خدمت کے دوران مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمت کرتے رہے۔ اور بوقت وفات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ سے مبارک خراج تحسین وصول کر کے اس معجزہ الٰہی پر مہر صداقت ثبت کر دی۔

مبارک صاحب قادیان سےروانگی سے قبل بھی بیمار ہوئے تھے اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ ازراہِ شفقت ان کے علاج کے لیے ان کے گھر بھی تشریف لائے تھے اور انہی ایام میں حضرت اماں جانؓ بھی باوجود پیرانہ سالی کے دار المسیح سے دارالبرکات تک پیدل تشریف لائیں اور حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کو بطور واقفِ زندگی مبلغ اپنی اولاد میں شمار کیا۔

لیکن یہ کہانی صرف ایسے مکمل نہیں ہوتی۔ اس کہانی کا دوسرا رخ بھی ہےجہاں اس ماں کی قربانی بھی قابلِ تحسین ہے۔ ہندوستان جہاں ماں بننے کی خوشخبری سنتے ہی خاندان والے اس عورت کو ہاتھ کا چھالا بنا لیتے ہیں۔ عمومی طور پر ایک ایک قدم آرام سے اٹھانے، تکلیف دہ کام سے بچنے اور وزن اٹھانے سے پرہیز کرواتے ہیں۔ ایک احمدی ہندوستانی عورت ان نازک ابتدائی ایام میں صرف خدا کی خاطر ایک لمبے پرتکان اور حبس زدہ بحری سفر کا آغاز کرتی ہے۔

کہانی کے اس پہلو کا آغاز ۲۶؍نومبر ۱۹۴۵ء کو قادیان ہندوستان سے شروع ہوتا ہے۔ جنگ عظیم دوم ختم ہوئی تھی۔ دنیا کے حالات آہستہ آہستہ معمول پر آرہے تھے۔ ہندوستان میں بھی تحریک آزادی کا زور تھا۔ ایسے حالات میں حضرت مصلح موعودؓ اور اہل قادیان نے اس قافلہ کو نئے مبلغین کرام سمیت دعاؤں کے سائے تلے قادیان سے رخصت کیا۔ حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ کی نگرانی میں یہ قافلہ قادیان سے بمبئی پہنچا۔پھر یہ خاندان ہوائی جہاز کے ذریعہ جانے کے لیے کراچی گیا۔ لیکن ہوائی جہاز میں جگہ نہ ملی تو واپس بمبئی آکر بحری جہاز کے ذریعہ روانہ ہوئے۔ باقی احباب اس سے قبل ۵؍نومبر ۱۹۴۵ء کو جہاز میں روانہ ہو چکے تھے۔

ہندوستان سے چلنے والا بحری جہاز بحیرہ عرب (Arabian Sea) سے انہیں پہلے پورٹ عدن لے گیا پھر بحیرہ احمر(Red Sea) سے ہوتا ہوا مشرقی افریقہ میں پورٹ سوڈان پر لنگر انداز ہوا۔ جہاں سے طویل زمینی سفر کا آغاز ہوا۔یہ خاندان باقی افراد قافلہ سے سوڈان کے آخری سرحدی شہر الجنینہ میں ملا۔ چھ کَس کا یہ قافلہ فرانسیسی ٹرک پر سوار ہوا۔ یہ ٹرک پیچھے سے کھلے ہوتے تھے۔ جن میں مال مویشی اور بہت سا سازوسامان لدا ہوتا تھا۔ لمبے سفر میں مختلف ٹرک بدلتا یہ غریب الوطن قافلہ نہایت دشوار گزار راستوں، برائے نام اور ناہموار سڑکوں سے ہوتا ہوا، دنیا کے سب سے بڑے لق ودق و بے آب و گیاہ صحرائے اعظم صحارا سے گزرتا ہوا مغربی افریقہ کے ملک نائیجیریا کے شہر سیڈوگری میں داخل ہوا۔ صحرا کے گرم دن اور تاریک و سرد راتیں کس الم سے گزری ہوں گی۔ اس کا اندازہ لگانا ہمارے لیے ناممکن ہے۔ ٹرک کے ذریعہ ہی Jose شہر پہنچے پھر وہاں سے بذریعہ ریل گاڑی لیگوس پہنچے۔ (ایک تقریر میں مولانا مبارک نذیر صاحب کے مطابق چا ڈ کے شہر فورٹ لامین سے بذریعہ ریل گاڑی لیگوس پہنچے)۔ جہاز کے انتظار میں قریباً ہفتہ قیام کے بعد ۱۹؍فروری کو لیگوس کی بندرگاہ پر مذکورہ بالا واقعہ پیش آیا۔

گوگل میپ کے مطابق اس وقت بھی پورٹ سوڈان سے لیگوس تک کا سفر ۴۹۵۱ کلومیٹرہے جبکہ اس روٹ پر اب کئی جگہ سڑک کشادہ اور پختہ ہو چکی ہے۔ اس دشوار گزار رستے میں اس قافلہ نے عجیب و غریب اورقسمہا قسم کے ٹھنڈے، گرم، باسی اور مقامی کھانے کھائے۔ گندا و گدلا پانی پیا جو چمڑے کے مشکیزوں کی وجہ سے سرخ رنگ کا ہو جاتا تھا۔ ایسے سفر میں اس حالت میں ایک حاملہ ماں کو مطلوب غذا کہاں ملی ہوگی۔ اس جان لیوا مشکل و طویل سفر کا ایک گیارہ سالہ بچے پر ایسا اثر ہوا کہ وہ مرنے کے قریب ہوگیا۔ مبارک صاحب کے مطابق انہیں کالا بخار (Blackwater Fever) ہوا تھا جس میں پیشاب میں بھی خون آتا ہے۔

قارئین ذرا اس ماں کا سوچیں جس کی کوکھ میں ایک اور جان پل رہی تھی۔ اپنی تکلیف اور بچے کی بیماری سےسنبھلی نہ ہوگی کہ نائیجیریا سے سیرالیون کا سفر اس ماں پر اور قیامت لیے ہوئے آیاہوگا۔ جب ڈاکٹر نے اس کے گیارہ سالہ بیٹے کو قریب المرگ قرار دے کر ممکنہ طور پر سمندر بُرد کرنے کی دھمکی دی ہوگی۔ اس سراپا متوکل باپ کے ساتھ ساتھ اس ماں نے ان سات دنوں میں اپنے بچوں کی صحت وسلامتی کے لیے کیا کیا دعا نہ کی ہوگی۔ یہ خوف کہ منزل کے قریب پہنچ کر اگلے سات روزہ لمبے سفر کے انجام تک اس کا بچہ بچ بھی پاتا ہے یا نہیں۔ ایک ماں خواہ کتنی بھی مضبوط ہو اولاد کی معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ اپنے بچوں کے کھونے کے ڈر کے باوجود سفر جاری تھا۔ ایک صابر ماں اس تکلیف دہ بحری سفر کے دوران ایک طرف بیمار بچے سے پریشان تو دوسری طرف اس ننھی سی جان سے خود ہلکان تھی جس نے اس دنیا میں آنا تھا۔

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور حضرت خلیفة المسیح کی دعاؤں کا اثر تھا کہ یہ معجزہ پیش آیا کہ تین ماہ کے صبر آزما طویل سفر کے بعد ۲۶؍فروری ۱۹۴۶ء کو یہ قافلہ فری ٹاؤن پہنچا۔ سیرالیون بخیریت پہنچنے پر ان سمندری ہواؤں نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔

فری ٹاؤن سے بذریعہ ٹرین Bo شہر پہنچے۔ جہاں ایک شاندار روایتی استقبال کے ساتھ یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔ بعد ازاں ۱۹؍جون ۱۹۴۶ء کو ان کے ہاں لڑکا متولد ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس بچے کا نام بشارت احمد عطا فرمایا۔ بشارت احمد صاحب کواس وقت جماعت احمدیہ برطانیہ کے پریس سیکشن میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔

یہ بہادر احمدی خاتون ایک بچے کا سر گود میں لیے دوسرے کی زندگی کی دعائیں کرتی رہی ہوں گی۔ اس وقت خدا تعالیٰ کے حضور ان دعاؤں نے نہ صرف بارگاہِ ایزدی میں بپایہ قبولیت جگہ پائی بلکہ ان کی نسل در نسل ان سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ اس تبلیغی جہاد کے مسافر ماں باپ کے دلوں سے نکلی دعاؤں نے عرش الٰہی کو ضرور جنبش دی ہوگی کہ سات دن کے سفر کی ضمانت نہ دینے والے دنیاوی ڈاکٹر کے مقابل اس بچہ نے اپنی زندگی کا ستر بہاروں سے زائد عرصہ دین کی خدمت میں گزار ا اور پھر دنیا کو اپنی تقاریرو لیکچرز میں خدائے واحد و یگانہ کی ہستی کے موجود ہونے کا زندہ ثبوت بتاتا رہا۔

بحر اوقیانوس کے اس وسیع منظر میں پانی کا شور اور ہواؤں کی سرگوشیاں ان رازوں کوبیان کرتے پھرتے ہیں۔ اور ان افضال خداوندی کی عینی شاہد یہ مبشرات ہوائیں آنے والی نسلوں کو بتاتی ہیں کہ جنہوں نے ان اشجار طیبہ کی اصول کو مضبوط کرنے میں اپنا خون اور پسینہ لگایا تھا اب ان اشجار کی آسمانی فروعات اکناف عالم میں پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔

مولانا مبارک احمد نذیر صاحب مرحوم کہتے ہیں کہ ’’میری والدہ ہمارے والد کے لیے ایک سہارے کا ستون تھیں۔ میری والدہ مجھے اورمیرے بڑے بھائی کو چارپائیوں پر ڈال دیتیں اور دعائیں کرتیں۔ وہ خیال کرتیں کہ ہم سوئے ہوئے ہیں لیکن کبھی میں جاگ رہا ہوتا تھا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے۔ وہ دعا کرتیں کہ اے اللہ ان کے والد نہیں اورمیں تنہا ہوں۔ اے اللہ انہیں سیدھے راستے پر ڈال۔ میں انہیں دعا کرتے دیکھتا۔ انہوں نے ہمارا خیال رکھا۔ والد صاحب کے بعد آمدن محدود تھی۔ ہم چھ بھائی تھے۔ لیکن انہوں نے اس بات پر سمجھوتا نہیں کیا کہ ہم میں سے کوئی کالج نہ جائے۔ انہیں نماز میں سستی، کالج یا پڑھائی میں سستی بالکل برداشت نہ تھی۔یہ میری ماں تھیں۔یہی وجہ ہے کہ میرے سارے بھائی نہایت تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹرز ہیں۔سپیشلسٹ ہیں۔

ہمارے پاس جوتے نہیں ہوتے تھے۔ الگ الگ رنگ کے جوتے پہن کر ربوہ میں کالج جاتے۔ کیونکہ ہمارے والد نہیں تھے۔جو کوارٹر ہمیں الاٹ تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ کوارٹر مولانا صاحب کی اہلیہ کے پاس تاوفات رہے گا۔ یہ ان کی شفقت تھی۔جیسے اس انٹرویو کے کیمرا مین کبھی سامنے نہیں آتے اسی طرح ہماری والدہ ہیں جنہوں نے پیچھے رہ کر خدمت کی۔‘‘

ماہِ مئی کے آخر میں صدر لجنہ اماء اللہ یوکے یہاں سیرالیون تشریف لائیں اور انہوں نے لجنہ اماء اللہ یوکے کے تعاون سے بننے والے عائشہ میٹرنٹی ہسپتال کے تعمیری کام کا معائنہ کیا۔ جس کی رپورٹ الفضل میں چھپ چکی ہے۔ مذکورہ بالا واقعات میں مبلغین کی بیگمات میں سے سیرالیون تشریف لانے والی پہلی خاتون اور ان کی اس قربانی کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ سیرالیون کا اس زچہ و بچہ ہسپتال کے حوالہ سے انتخاب شاید اتفاق نہیں ہے بلکہ اسی قربانی کا صلہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان بزرگان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ان کی عظیم خدمات کے سبب جو ترقیات احمدیت کو دنیا کے اس خطے میں عطا ہو رہی ہیں، اللہ ہمیں ان سے حقیقی فیض اٹھانے والا بنائے۔ آمین

(واقعات بحوالہ: تابعین اصحاب احمد جلد چہارم۔ اور ڈاکومنٹری ایم ٹی اے انٹرنیشنل بعنوان Servants of Allah: Maulana Nazir Ahmad Ali Sahib، تقاریر مبارک احمد نذیر صاحب جلسہ سالانہ و اجتماعات بحوالہ یوٹیوب، تصاویر از انٹرنیٹ)

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button