بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر۶۵)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…کیا مسیح موعودؑ کے بعد کوئی اَور مسیح بھی آ سکتا ہے؟

٭…قرآن کریم کے ذریعہ سے ہی توحید کی تکمیل ہوئی؟

٭…چاشت کی نماز کے متعلق راہنمائی

سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب بتا دیا گیا تھا کہ آپ ہی وہ مسیح موعود ہیں جس نے آناتھا تو پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ ممکن ہے کہ میرے بعد کوئی اَور مسیح ابن مریم بھی آوے اور بعض احادیث کی رُو سے وہ موعود بھی ہو۔ ایسا فرمانے میں کیا حکمت ہو سکتی ہے؟ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ قرآن مجید سے پہلے صحیفوں میں توحید کا مضمون اس طرح واضح نہیں ہے جس طرح قرآن مجید اس کی وضاحت کرتاہے۔ حالانکہ تمام مذاہب میں توحید کی تعلیم دی گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور غیر مبدّل ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۵؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب:دنیا کی ہدایت اور اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نبی یا مصلح کا مبعوث ہونا اس کی ایک ایسی نعمت ہے، جس کا دنیا میں کوئی بدل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نےدنیا کی ہدایت کے لیے جب بھی کسی نبی یا مصلح کی ضرورت محسوس کی تو انسانیت پر رحم کرتے ہوئے اسےدنیا کی ہدایت کے لیے ضرور مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے جاری ہے جوکبھی منقطع نہیں ہو سکتی۔ نام نہاد ملاؤں نے خاتم النبیین کی غلط تشریح کرکے نبوت جیسی نعمت سے امت مسلمہ کو محروم کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ بھی قرآن کریم اور آنحضورﷺ کی تعلیمات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس سنت کو معطل قرار دے کیونکہ قرآن و سنت میں امکان نبوت کی بندش کی کوئی نص موجود نہیں۔

پس باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بار بار یہ بشارت دی کہ آخرین میں دنیا کی ہدایت اور دین اسلام کی تجدید کے لیے جس مسیح محمدی نے مبعوث ہونا تھا وہ آپ ہی ہیں۔ نیز دنیا کے اس سات ہزارسالہ دور کے آخری ہزار سال کے لیے آپ ہی مسیح موعود، امام اورخاتم الخلفاء ہیں اور اس آخری ہزار سال میں کسی دوسرے مسیح کے قدم رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نہ کوئی احاطہ کر سکتا ہے اور نہ اسے روک سکتا ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کرنے کے لیے اس امر کی بھی پوری طرح وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جب ضرورت سمجھے گا مثیل مسیح مبعوث کر سکتا ہے تا آپ کے متبعین بھی نام نہاد ملاؤں کی طرح امکان نبوت کے انکاری نہ ہو جائیں۔

چنانچہ قرآن کریم کی مختلف آیات، احادیث نبویہﷺ اور دیگر مذاہب کی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئےآپ نے انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہونے اوراس کے پانچویں ہزار سال میں آنحضورﷺ کے مبعوث ہونے کا ذکر کرنے کےبعد فرمایا:’’ اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں۔ اس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں۔‘‘ (لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۱۸۶)

فرمایا:’’چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح۔ مگر وہ جو اس کے لیے بطورِ ظل کے ہو۔ کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدّد صدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۸)

حضور علیہ السلام مجدد الف آخر بھی ہیں۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حضورﷺ کی بشارتوں کے تحت آپ کے ذریعہ جاری ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ میں آنے والے آپ کے خلفاءآپ کی پیروی اور اتباع کی برکت سے اپنے اپنے وقت کے مجدّد بھی ہوں گے، اس لئے آپ کی پیروی اور اتباع سے باہر اب کسی مجدد کا آنا بھی محال ہے۔ حضور علیہ السلام اپنے بعدآنے والے مثیل مسیح کے آنے کے امکان کا اظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہمارے بعد کوئی اَور بھی مسیح کا مثیل بن کر آوے کیونکہ نبیوں کے مثیل ہمیشہ دنیا میں ہوتے رہتے ہیں بلکہ خدائے تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذُریّت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی وہ آسمان سے اُترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کردے گا اور وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا اور اُن کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا۔ ‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۱۸۰،۱۷۹)

فرمایا: ’’اس عاجز کی طرف سے بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مسیحیت کا میرے وجود پر ہی خاتمہ ہے اورآئندہ کوئی مسیح نہیں آئے گا بلکہ میں تو مانتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ ایک کیا دس ہزا ر سےبھی زیادہ مسیح آسکتا ہے۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۲۵۱)

اسی مضمون کو ایک اور انداز میں بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:’’عیسیٰ ؑابن مریم نے ایک سو بیس برس عمر پائی اور پھر فوت ہو کر اپنے خدا کو جا ملا اور دوسرے عالم میں پہنچ کر یحییٰ ؑ کا ہم نشین ہوا کیونکہ اس کے واقعہ اور یحییٰ نبی کے واقعہ کو باہم مشابہت تھی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ نیک انسان تھا مگر اسے خدا کہنا کفر ہے۔ لاکھوں انسان دنیا میں ایسے گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ خدا کسی کے برگزیدہ کرنے میں کبھی نہیں تھکا اور نہ تھکے گا۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۹)

پس یہ اس سلسلہ کا وہ آخری ہزار سال ہے جس میں خدا تعالیٰ نےآنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاتم الخلفاء کے طور پر مبعوث فرمایا۔ آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے یہی مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چونکہ یہ آخری ہزار سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت احمدیہ حقہّ اسلامیہ کا دور ہے اس لئے اگر کسی وقت دنیا کی اصلاح کے لیے کسی مصلح کی ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے متبعین میں سے کسی ایسے شخص کو دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑا کرے گا جو وقت کا خلیفہ ہو گا لیکن خلیفہ سے بڑھ کرآپ کا مثیل اور مصلح ہونے کا مقام بھی اسے عطا ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جانے والی بشارتوں کےعین مطابق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس مقام پر فائز فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس موعود خلافت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:پھر صرف خلافت کا سوال نہیں بلکہ ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے۔ الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے۔ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں۔ یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیابلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ خلیفہ اوّل کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا۔ پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔ میں مأمور نہیں مگر میری آواز خداتعالیٰ کی آواز ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خداتعالیٰ کے حضور سُرخرو ہو جائے۔جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز روز نہیں آتے۔ ( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء، خطابات شوریٰ جلد دوم صفحہ ۱۸)

پس ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی موعود مسیح ہیں جن کی آمد کی پیش خبریاں صحف سابقہ میں موجود ہیں اور اس کے ساتھ ہم یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ جب وہ چاہے دنیا کی ہدایت کے لیے کسی مصلح کو مبعوث کر سکتا ہے۔ لیکن دنیا کا یہ سات ہزار سالہ دور چونکہ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کا دور کہلاتا ہے اس لیے اس سات ہزار سالہ دور میں آپﷺ کے ذریعہ جو شریعت مکمل ہو گئی تھی، اس کی تجدید کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کےایک امتی کو جوآپ کے عشق اور آپ کی غلامی میں سب سے آگے نکل گیا دین محمدی کی خدمت کے لیے چنا۔ اوراگر آئندہ ضرورت پڑی تو ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ کے اس غلام صادق اور مسیح محمدی کے متبعین میں سے کسی کو موعود خلیفہ کے طور پر اس دین کی خدمت کے لیے چنے گا جو آپ کا خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ مثیل مسیح کے مقام پر بھی فائز ہو گا۔ جیسا کہ حضرت فضل عمر بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے وجود باجود کے ذریعہ ایک مرتبہ پہلے یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے۔

آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ توحید کی تعلیم کی تکمیل قرآن کریم کے ذریعہ ہی ہوئی ہے۔ پہلی کتب میں توحید کی تعلیم موجود تو تھی لیکن وہ اُس زمانہ کے انسان کے عقل و شعور کے مطابق تھی۔ لیکن جب دین کامل ہوا تو توحید کی بھی وہ تعلیم دی گئی جو ہر لحاظ سے اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ نیز جس کثرت اور تکرار کے ساتھ قرآن کریم نے توحید کا اعلان فرمایا ہے اس کثرت سے پہلی کتب میں توحید کی تعلیم نہیں دی گئی۔ پھرقرآن کریم میں مختلف انداز میں توحید کی تعلیم کا ذکر ہے جبکہ پہلی کتب میں ایسا نہیں کیا گیا۔ علاوہ ازیں جس شان اور جس قطعیت کے ساتھ قرآن کریم نے توحید کی تعلیم کو بیان فرمایا ہے کسی مذہب میں اسے اس طرح بیان نہیں کیاگیا۔ چنانچہ سورۃ الاخلاص جسے آنحضورﷺ نے قرآن کریم کا تیسرا حصہ قرار دیا (بخاری کتاب فضائل القرآن بَاب فَضْلِ قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ) خدا تعالیٰ کی توحید کی تعلیم پر مبنی نہایت جامع سورت ہے۔

دین اسلام میں دی جانے والی توحید کی تعلیم کے کمال کو بیان کرتے ہوئے سورۃ الاخلاص کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:توریت میں خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کہیں پورے طور پرذکر نہیں۔ اگر توریت میں کوئی ایسی سورۃ ہوتی جیسا کہ قرآن شریف میں قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌاللّٰهُ الصَّمَدُلَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْوَ لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔ (الاخلاص:۲ تا۵)ہے تو شاید عیسائی اس مخلوق پرستی کی بلا سے رک جاتے۔ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۸۴)

پھر اسلام نے خدا تعالیٰ کے ذاتی نام ’’اللہ‘‘سے مخلوق کو متعارف کروایا اور یہ نام توحید کی جڑھ ہے جو ہر قسم کی صفات الہٰیہ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:قرآن کی اصطلاح کی رُو سے اللہ اُس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حُسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی مَنقصت اُس کی ذات میں نہ ہو۔ قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اِس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کاملہ اس میں پائی جائیں۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۴۷)

فرمایا:اللہ جس کا ترجمہ ہے وہ معبود۔ یعنی وہ ذات جو غیر مدرک اور فوق العقول اور وراء الوراء اور دقیق در دقیق ہے جس کی طرف ہر ایک چیز عابدانہ رنگ میں یعنی عشقی فنا کی حالت میں جو نظری فنا ہے یا حقیقی فنا کی حالت میں جو موت ہے رجوع کر رہی ہے۔ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۶۸)

فرمایا: قرآن شریف جس خدا کو منوانا چاہتا ہے وہ تمام نقائص سے منزہ اور تمام صفات کاملہ سے موصوف ہے۔ کیونکہ اللہ کا لفظ اسی ہستی پر بولا جاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو ہی نہیںسکتا۔ اور کمال دو قسم کے ہوتے ہیں یا بلحاظ حُسن کے یا بلحاظ احسان کے۔ پس وہ دونوں قسم کے کمال اس لفظ میں پائے جاتے ہیں۔ دوسری قوموں نے جو لفظ خدا تعالیٰ کے لیے تجویز کئے ہیں وہ ایسے جامع نہیں ہیں۔ اور یہی لفظ اللہ کا دوسرے باطل مذاہب کے معبودوں کی ہستی اور ان کی صفات کے مسئلہ کی پوری تردید کرتا ہے۔(الحکم نمبر ۱۷، جلد ۷، مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲)

پھر سورت فاتحہ قرآن کریم کی ایک ایسی سورت ہے جسے آنحضورﷺ نے اُم الکتاب اور اُم القرآن قرار دیا ہے(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ بَاب فَاتِحَةِ الْكِتَابِ) اس میں توحید کی جیسی جامع تعلیم پائی جاتی ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں تلاش کرنا عبث ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:سورۃ الفاتحہ پر جو قرآن شریف کا باریک نقشہ ہے، اور اُم الکتاب بھی جس کا نام ہے خوب غور کرو کہ اس میں اجمال کے ساتھ قرآن کریم کے تمام معارف درج ہیں۔ چنانچہ الحمد للہ سے اس کو شروع کیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ تمام محامد اللہ ہی کے لیے ہیں اس میں یہ تعلیم ہے کہ تمام منافع اور تمدنی زندگی کی ساری بہبودگیاں اللہ ہی کی طرف سے آتی ہیں کیونکہ ہر قسم کی ستائش کا سزا وار جب کہ وہی ہے تو معطی حقیقی بھی وہی ہو سکتا ہے۔ ورنہ لازم آئے گا کہ کسی قسم کی تعریف و ستائش کا مستحق وہ نہیں بھی ہے،جو کفر کی بات ہے۔ پس الحمد للہ میں کیسی توحید کی جامع تعلیم پائی جاتی ہے جو انسان کو دنیا کی تمام چیزوں کی عبودیت اور بالذات نفع رساں نہ ہونے کی طرف لے جاتی ہے اور واضح اور بیّن طور پر یہ ذہن نشین کرتی ہے کہ ہر نفع اور سود حقیقی اور ذاتی طور پر خدا تعالیٰ کی ہی طرف سے آتا ہے کیونکہ تمام محامد اُسی کے لیے سزاوار ہیں۔ پس ہر نفع اور سود میں خدا تعالیٰ ہی کو مقدم کرو۔ اس کے سوا کوئی کام آنے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے اگر خلاف ہو تو اولاد بھی دشمن ہو سکتی ہے اور ہو جاتی ہے۔ (الحکم نمبر ۳۲، جلد ۵؍مؤرخہ ۳۱؍اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۱)

پس اسلام نے توحید کی تعلیم کی جس معراج اور اس کی جن تفصیلات کو اپنے متبعین کے لیے بیان کیا ہے، جنہیں قرٓان کریم میں بھی مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے اور آنحضورﷺ نے بھی اسے مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و تقاریر میں اسے خوب کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ان کا پہلی شریعتوں میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔

سوال: کراچی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ چاشت کی نماز پڑھنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ صبح کی نماز کے بعد جب سورج نیزہ برابر نکل آئے تو دو رکعت نماز پڑھنی ہوتی ہے اور دو رکعت نماز تب پڑھی جاتی ہے، جب سورج اچھی طرح نکل آئے۔ مجھے پہلی دو رکعات کے وقت کا پتہ نہیں چلتا لہٰذامیں بعد والی دو رکعات پڑھ لیتی ہوں۔ کیا یہ طریق درست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: نماز فجر کی ادائیگی اور سورج نکلنے کے بعد نماز ظہر سے پہلے پہلے نماز اشراق، نماز ضحی اور صلوٰۃ الاوابین کے نام سے مختلف نفلی نمازوں کا ذکراحادیث میں ملتا ہے۔یہ فرض نمازیں نہیں بلکہ جیسا کہ بتایا کہ نفلی نمازیں ہیں، اس لیے ان میں سے جو نماز کوئی پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے۔ اور اگر کوئی یہ نمازیں نہ پڑھ سکے تو اس پر گناہ کوئی نہیں ہے۔

جہاں تک ان نفلی نمازوں کے وقت کی بات ہے تو نماز فجر کے بعد سورج نکلنے پر دو رکعت نفل نماز پڑھنے کے بارے میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا،جس شخص نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور پھر وہیں بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتا رہا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ پھر اس نے دو رکعات نماز ادا کی تو اسے ایک حج اور عمرہ کا پورا پورا ثواب ملے گا۔(ترمذی کتاب الجمعۃ بَاب ذِكْرِ مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الْجُلُوسِ فِي الْمَسْجِدِ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ)

علماء و فقہاء اس نماز کو نماز اشراق یا پہلی نماز ضحی کہتے ہیں۔ اور اس کے وقت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ نماز اس وقت پڑھی جائے گی جب نیزہ کے برابر سورج طلوع ہو جائے۔ (تحفۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی کتاب الجمعۃ)

نیزہ کے برابر سورج طلوع ہونے کا مطلب ہے کہ جب سورج کی پیلاہٹ دور ہو جائے اور نماز پڑھنے کے لیے جو ممنوع وقت ہے وہ ختم ہو جائے یعنی گھڑی کے اعتبار سے سورج نکلنے کے قریباً آدھا گھنٹہ بعد یہ وقت شروع ہو جاتا ہے۔

چاشت کی نماز کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا مَنْ حَافَظَ عَلَى شُفْعَةِ الضُّحَى غُفِرَ لَهُ ذُنُوبُهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ۔(ترمذی کتاب الصلوٰۃ بَاب مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ الضُّحَى) یعنی جس نے چاشت کی دو رکعتیں ہمیشہ پڑھیں اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے خواہ وہ سمندر کی جھاگ کی طرح ہی کیوں نہ ہوں۔

علماء و فقہاء کے نزدیک اس نماز کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج کی گرمی میں ایسی شدت آ جائے کہ اس سے ریت اتنی گرم ہوجائے جس سے اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ارقم ؓکی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا صلوٰۃ الاوابین کا وقت وہ ہے جب(سورج کی تپش سے ریت اتنی گرم ہوجائے کہ اس پر چلنے والے) اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔ (صحیح مسلم كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا بَاب صَلَاةِ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ)

اس حدیث کی بنا پر چاشت کی نماز یا صلوٰۃ الضحیٰ کو صلوٰۃ الاوابین(یعنی خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والوں کی نماز) بھی کہا جاتا ہے۔ بہر حال اس نماز کا وقت طلوع آفتاب سے زوال آفتاب کے درمیانی وقت پر شروع ہوتا ہے۔ گھڑی کے لحاظ سے یہ وقت ہمارے یہاں اسلام آباد یوکے میں قریباً پونے دس بجے بنے گا۔(کیونکہ آج طلوع آفتاب ۶:۱۵ پر تھا اور زوال آفتاب ۱۳:۰۴ پر تھا) پس چاشت یا ضحی یا صلوٰۃ الاوابین کا وقت آجکل پونے دس بجے شروع ہوتا ہے اور سورج کے سر پر آنے سے پہلے تک رہتا ہے۔ اور جب سورج عین سر پر آجائے تو اس وقت حضورﷺ نےجمعہ کے دن کے علاوہ باقی دنوں میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ بَاب الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الزَّوَالِ)

پس اشراق کی نماز آپ سورج نکلنے کے آدھا گھنٹہ بعد تک پڑھ سکتی ہیں اور چاشت کی نماز آپ سورج نکلنے اور اس کے ڈھلنے کے درمیانی وقت میں پڑھ سکتی ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button