متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف

(شہود آصف۔ استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)

غزوہ بنی امر/غزوہ بنو غطفان

فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غَطْفَان کی سرکوبی کے لیے غَطْفَان کے ہاں جس جگہ پڑاؤ کیا اس کا نام ذِی امر تھا… مدینہ سے روانہ ہونے کے بعد صحابہ کرامؓ کو ذُوالْقَصَّہ مقام میں بنو ثعلبہ کا ایک شخص ملا۔ ذُوالْقَصَّہ رَبَذَہ کے راستے پر مدینہ سے چوبیس میل کے فاصلے پر تھا… ابوعمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نجد میں صفر کا پورا مہینہ رہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍ نومبر۲۰۲۳ء)

نجد: نجد سعودی عرب کا وسطی خطہ ہے جو اس وقت عرب کا جغرافیائی مرکز بھی ہے اور جدید آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ یہاں رہتا ہے۔موجودہ دور میں یہ تین انتظامی خطوں میں تقسیم ہے۔سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض بھی اسی خطہ میں ہے۔

نجد کا لفظی مطلب سطح مرتفع ہے۔ نجد کے مغربی طرف حجاز کے پہاڑ ہیں جو جنوب مغرب میں یمن کے پہاڑی سلسلوں تک جاتے ہیں۔ جنوب اور مشرقی اطراف میں صحرا ہے۔عرب میں یہ خطہ اپنے پھلوں کے باغات اور نخلستانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔نجد میں دو بڑی ندیاں ہیں جووادی عرب میں آمد و رفت کے راستوں میں اہمیت کی حامل رہی ہیں۔

نجد کے اکثر قبائل اہل مکہ کے حلیف اور رسول اللہﷺ کے اشد مخالف تھے جن میں غطفان کے قبائل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مدنی دور میں آپﷺ کے اہل نجد کے ساتھ متعدد معرکے ہوئے۔ بئر معونہ کا واقعہ بھی نجد میں پیش آیا۔ رسو ل اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نجد سے ہی مسیلمہ کذاب اسلا م کی مخالفت میں کھڑا ہوا تھا۔

غطفان:نجد کے باسیوں میں سے غطفان قبائل قابل ذکر ہیں۔یہ بدوی قبائل نجد میں وادی الرمہ میں آباد تھے۔ غطفان کی دو بڑی شاخیں تھی۔ ایک اشجع جو مدینہ کے قرب و جوار میں آباد تھے جبکہ دوسری شاخ بغیض تھی جو عبس اور ذیبان میں منقسم تھی۔یہ ربذہ اور شربہ کے ارد گرد آباد تھے۔ یہ قبائل اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے اشد مخالفین میں شامل تھے۔ انہوں نے اہل مکہ اور سُلیم قبائل کے ساتھ مل کر متعدد بار مدینہ پر حملے کرنے کے منصوبے بنائے۔بئر معونہ میں ستر صحابہؓ کو شہیدکیاگیا۔غزوہ ذی امر/غزوہ غطفان کے موقع پر انہی کی دوشاخیں بنو معارب اور بنو ثعلبہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے جمع ہوئیں جس پر رسول اللہ ﷺ نے ان کے علاقہ کی طرف سفر اختیار کیا۔مگر دشمن مقابلہ سے پہلے ہی بھا گ گئے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے قبل ان کا اکثر حصہ مسلمان ہو گیا تھا۔

ذی امر: ذو اَمَر نجد کی وادی الرمہ کے علاقہ النخیل کا ایک پہاڑی درہ ہے۔ جو وادی الحناکیہ کے پڑوس اور نجد کے حصہ القصیم کے دائیں جانب ہے۔ اس جگہ کا مدینہ سے فاصلہ تقریباً ۱۰۰ سے ۱۳۰کلو میٹر ہے۔روایت کے مطابق اس جگہ ایک چشمہ بھی تھا جہاں رسول اللہ ﷺ نے قیام فرمایا۔

ربذة: ربذہ نجد کا ایک قصبہ ہے۔ جومدینہ سے عراق کی طرف جانے والے راستے پر موجود ہے۔یہ مدینہ سے تقریباً ۲۰۰کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ذو القصة:ذو القصہ مدینہ سے ربذہ کی طرف جانے والے راستے پر ایک مقام تھا جس کامدینہ سے فاصلہ ۱۴میل یا۲۴میل تھا۔مجعم البلان کے مطابق یہ زبالہ اور شقوق کے درمیان مقام تھا۔بعض کتب تاریخ کے مطابق ذو القصہ کامدینہ سے ایک ڈاک کا فاصلہ تھا(یعنی اس زمانے میں ایک ڈاکیہ کتنے فاصلے تک ڈاک دے کر آ سکتا تھا)۔یہ فاصلہ ۲۵ سے ۴۰کلومیٹر تک ہو سکتا ہے۔

غزوہ بحران/غزوہ فُرُعْ/غزوہ بنو سُلیم

فرمایا:بحران وادی فُرُعْ کے نواح میں اہلِ حجاز کی ایک معدنیات کی کان ہے اور وادی فُرُعْ مدینہ سے چھیانوے میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

وادی فُرع/بحران: وادی فُرع حجاز کی ایک مشہور وادی ہے جو مکہ سے مدینہ کے درمیان واقع ہے۔جب رسول اللہﷺ نے ہجرت فرمائی تو آپ اس وادی کے قریب سے گزرے۔مدینہ سے اس کا فاصلہ۹۶ میل ہے۔ اس وادی میں دو معروف چشمے بہتے ہیں جو ایک جگہ جا کر مل جاتے ہیں۔ ان سے کھجوروں کے باغات سیراب کیے جاتےہیں۔ اس علاقہ میں سونے اورچاندی کی کانیں بھی ہیں۔بحران وادی فرع کے نواحی علاقہ میں ایک جگہ تھی جہاں رسو ل اللہ ﷺ نے پڑاؤ ڈالا۔

حجاز: حجاز کا لفظی مطلب روک ہے۔ یہ عرب کا مغربی خطہ ہے جو تبوک سے شروع ہو کر یمن تک جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور جدّہ اسی خطہ کے اہم شہر ہیں۔حجاز کے مشرق میں نجد اور مغرب میں بحر احمر ہے۔

بنو سُلیم : بنو سلیم حجاز میں رہنے والا عرب قبیلہ تھا جو کہ اسلام کے اشد مخالفین میں سے ایک تھا۔ ان کا الحاق اہل مکہ کے ساتھ تھا۔ انہوں نے رسول اللہﷺ اور مدینہ پر متعدد بار حملوں کی منصوبہ بندی کی۔ ان کی سرکوبی کے لیے رسول اللہﷺبُحران تشریف لے گئے تھے۔بئر معونہ کے واقعہ میں بھی یہ قبیلہ شامل تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے قبل ان کا اکثر حصہ مسلمان ہو گیا تھا۔

سریہ زید بن حارثہ/سریہ قردہ

القردہ: یہ جگہ بھی نجد میں واقع ہے۔ معجم البلدان کے مطابق القردہ وادی الرمہ میں بنی نعامہ کا ایک چشمہ تھا۔ اس چشمہ کے پاس قریش کے قافلے نے پڑاؤ ڈالا جب ان کو پکڑ لیا گیا۔یہ جگہ مکہ سے عراق جانے والے راستےپر نجد کے علاقہ میں واقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق القردہ یمامہ کے قریب کا ایک چشمہ ہے۔ واللہ اعلم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button