خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ نومبر 2023ء

اگر خدا کی خاص نصرت شامل حال نہ ہوتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیدار مغزی مسلمانوں کو ہر وقت ہوشیار اور چوکس نہ رکھتی اور آپؐ دشمن کی جمعیت کوچھاپہ مارنے سے قبل ہی منتشر کردینے کی تدابیر اختیار نہ کرتے توان دنوںمیں مسلمانوں کی تباہی وبربادی میں کوئی شک نہیں تھا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت البقیع کو مسلمانوں کے قبرستان کے لیے منتخب کر لیا تو اس کے بعد سے آج تک اسے ایک منفرد اور ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے جو ہمیشہ رہے گی

حضرت عثمانؓ بن مظعون پہلے مہاجر تھے جومدینہ میں فوت ہوئے

حضرت عثمان بن مظعونؓ کی وفات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت صدمہ ہوا اورروایت آتی ہے کہ وفات کے بعد آپؐ نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس وقت آپؐ کی آنکھیں پرنم تھیں

بَنَاتُ النبیﷺ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے حضرت امّ کلثوم رضی اللہ عنہ کے نکاح اور پھر اُن کی وفات کا تذکرہ

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام کلثومؓ کی وفات پر فرمایا: اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی بھی عثمان سے کروا دیتا

غزوۂ بنی غطفان، غزوۂ بحران اور سریہ بنو حارثہ سمیت تاریخ اسلام سے سنہ دو اور تین ہجری کے بعض واقعات کا تذکرہ

فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی مکرّر تحریک

اکثر بڑی حکومتیں اور سیاستدان بھی فلسطینیوں کی جانوں کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے۔ ان کے اپنے مفادات ہیں لیکن بہرحال ان لوگوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ایک وقت تک ڈھیل دیتا ہے اور صرف یہی دنیا نہیں ،اگلا جہان بھی ہے

ہمیں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کرتے ہوئے انہیں ان ظلموں سے نجات دلوائے

مکرمہ منصورہ باسمہ صاحبہ اہلیہ حمید الرحمان خان صاحب اور مکرم چودھری رشید احمد صاحب سابق ڈپٹی رجسٹرار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 10؍نومبر2023ء بمطابق 10؍نبوت 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے بدر کے فوری بعدواقعات کا میں ذکر کر رہا تھا۔ اس حوالے سے

دو ہجری کے اہم واقعات

میں سے ایک مدینہ کے قبرستان

جنت البقیع کا قیام

بھی ہے۔ جنت البقیع کی بنیاد اور ابتدا کے بارے میں جو تفصیل ملی ہے وہ اس طرح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں ورود کے بعد وہاں بہت سے قبرستان تھے۔ یہودیوں کے اپنے قبرستان ہوا کرتے تھے جبکہ عربوں کے مختلف قبائل کے اپنے اپنے قبرستان تھے۔ مدینہ طیبہ چونکہ اس وقت مختلف علاقوں میں بٹا ہوا تھا اس لیے ہر قبیلہ اپنے ہی علاقے میں کھلی جگہ پر اپنی میتوں کو دفنا دیتا تھا۔ قبا کا الگ قبرستان تھا جو زیادہ مشہور تھا گو کہ وہاں چھوٹے چھوٹے کئی اَور قبرستان بھی تھے۔ قبیلہ بنو ظفر کا اپنا قبرستان تھا۔ بنو سلمہ کا اپنا الگ قبرستان تھا۔ دیگر قبرستانوں میں بنو ساعدہ کا قبرستان تھا جس کی جگہ بعد میں سوق النبی صلی اللہ علیہ وسلم قائم ہوا۔ جس جگہ پر مسجدنبویؐ تعمیر ہوئی وہاں بھی کھجوروں کے جھنڈ میں چند مشرکین کی قبریں تھیں۔ ان تمام قبرستانوں میں بقیع الغرقد سب سے پرانا اور مشہور قبرستان تھا اور پھر

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمانوں کے قبرستان کے لیے منتخب کر لیا تو اس کے بعد سے آج تک اسے ایک منفرد اور ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے جو ہمیشہ رہے گی۔

حضرت عبید اللہ بن ابی رافعؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جہاں صرف مسلمانوں کی قبریں ہوں اور اس غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف جگہوں کو ملاحظہ بھی فرمایا۔ جا کے دیکھا۔ یہ فخر بقیع الغرقد کے حصہ میں لکھا تھا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس جگہ کو یعنی بقیع الغرقد کو منتخب کر لوں۔ اسے اس دَور میں بقیع الخبخبہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس میں بےشمار غرقد کے درخت اور خود رو جھاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ مچھروں اور دیگر حشرات الارض کی اس جگہ پر بھرمار تھی اور مچھر جب اس جگہ گندگی کی وجہ سے یا جنگل کی وجہ سے اڑتےتھے تو ایسا لگتا تھا کہ دھویں کے بادل چھا گئے ہیں۔ وہاں

سب سے پہلے جن کو دفن کیا گیا وہ حضرت عثمان بن مظعونؓ تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبر کے سرہانے ایک پتھر نشانی کے طور پر رکھ دیا اور فرمایا یہ ہمارے پیشرو ہیں۔ ان کے بعد جب بھی کسی کی فوتیدگی ہوتی تو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے کہ انہیں کہاں دفن کیا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہمارے پیشرو عثمان بن مظعون کے قریب بقیع میں دفن کرو۔ بقیع عربی میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں درختوں کی بہتات ہو۔ بہت زیادہ درخت ہوں۔ بہرحال مدینہ طیبہ میں اس مقام کو بقیع الغرقد کے نام سے جانا جانے لگا کیونکہ وہاں غرقد کے درختوں کی بہتات تھی جیساکہ میں نے بتایا۔ اس کے علاوہ وہاں دیگر خود رو صحرائی جھاڑیاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ اسے جنت البقیع بھی کہا جاتا ہے۔ جنت کا لفظ جو ہے اس کا عربی میں ایک مطلب باغ یا فردوس کے بھی ہیں۔ اس لیے

یہ جگہ زیادہ تر عجمی زائرین میں جنت البقیع کے نام سے جانی جاتی ہے۔

عبدالحمید قادری صاحب ہیں انہوں نے یہ تفصیل لکھی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عرب عموماً اپنے مقابر اور قبرستانوں کو جنت ہی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کا ایک نام مقابر البقیع بھی ہے جو اعرابیوں میں زیادہ مشہور ہے۔

(ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبد الحمید قادری صفحہ 598 مطبوعہ اورینٹل پبلی کیشنز لاہور پاکستان2007ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں جو بیان کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’اسی سال کے آخر میں‘‘ یعنی دو ہجری میں ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کے لیے مدینہ میں ایک مقبرہ تجویز فرما یاجسے جنت البقیع کہتے تھے۔ اس کے بعد صحابہؓ عموماً اسی مقبرہ میں دفن ہوتے تھے۔ سب سے پہلے صحابی جو اس مقبرہ میں دفن ہوئے وہ عثمان بن مظعونؓ تھے۔ عثمان بہت ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے اور نہایت نیک اورعابد اورصوفی منش آدمی تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد ایک دفعہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور! مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تومیں چاہتا ہوں کہ بالکل تارک الدنیا ہوکراوربیوی بچوں سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی زندگی خالصۃً عبادتِ الٰہی کے لیے وقف کردوں۔مگر آپؐ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ بلکہ جولوگ ترکِ دنیا تواختیار نہیں کرتے تھے لیکن روزہ اورنماز کی اس قدر کثرت کرتے تھے کہ اس سے ان کےمتعلقین کے حقوق پراثر پڑتا تھا ان کے متعلق بھی آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ خدا کاحق خدا کو دو۔ بیوی بچوں کا حق بیوی بچوں کو دو۔ مہمان کا حق مہمان کو دواوراپنے نفس کا حق نفس کو دو کیونکہ یہ سب حقوق خدا کے مقررکردہ ہیں اوران کی ادائیگی عبادت میں داخل ہے۔‘‘ ان حقوق کی ادائیگی بھی عبادت میں داخل ہے۔ ’’الغرض آپؐ نے عثمان بن مظعونؓ کوترکِ دنیا کی اجازت نہیں دی اور اسلام میں تبتل اور رہبانیت کوناجائز قرار دے کر اپنی امّت کے لیے افراط وتفریط کے درمیان ایک میانہ روی کا رستہ قائم کر دیا۔ عثمان بن مظعونؓ کی وفات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت صدمہ ہوا اورروایت آتی ہے کہ وفات کے بعد آپؐ نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس وقت آپؐ کی آنکھیں پرنم تھیں۔ ان کے دفنائے جانے کے بعد آپؐ نے ان کی قبر کے سرہانے ایک پتھر بطورعلامت کے نصب کروا دیا اور پھر آپؐ کبھی کبھی جنت البقیع میں جاکر ان کے لیے دعافرمایا کرتے تھے۔

عثمان پہلے مہاجر تھے جومدینہ میں فوت ہوئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینﷺصفحہ 462-463)

اب میں

غزوۂ ذِی اَمْر یا غَزوۂ بنی غَطْفَان کا ذکر

بھی کرتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ غطفان قبیلے کی شاخ بنو ثعلبہ اور بنومُحَارِبْ، ذِی اَمْر مقام پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ غطفان کے علاقے میں ایک بستی ہے۔ ان کا ارادہ یہ ہے کہ ریاستِ مدینہ کے ارد گرد کے علاقوں پر حملہ کریں۔ان سب کی جتھہ بندی کرنے اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے والا بنو محارب کا ایک شخص دُعْثُوربن حارث تھا۔ یہ خبر پاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تیاری کرنے کا حکم دیا اور ساڑھے چار سو صحابہؓ کا لشکر لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ ان کے پاس چند گھوڑے بھی تھے اور مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو اپنا قائمقام مقرر فرمایا۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ290دارالکتب العلمیۃ )

(سبل الھدی والرشاد جلد4 صفحہ176 دارالکتب العلمیۃ)

ماہ ربیع الاول تین ہجری میں غزوۂ غطفان پیش آیا۔ بارہ ربیع الاول کو آپؐ اس غزوہ کے لیے روانہ ہوئے۔ گیارہ دن اہلِ مدینہ کو آپؐ کی جدائی برداشت کرنی پڑی جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوبیس ربیع الاول کو واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غَطْفَان کی سرکوبی کے لیے غَطْفَان کے ہاں جس جگہ پڑاؤ کیا اس کا نام ذِی امر تھا۔ اسی وجہ سے اس غزوہ کو غزوۂ ذی امر اور غطفان قبیلے کی بنا پر اسے غزوۂ بنو غطفان بھی کہاجاتا ہے۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ290دارالکتب العلمیۃ )

(ماخوذ از دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد 6صفحہ 367-368مکتبہ دارالمعارف،لاہور)

مشرکین کی جتھہ بندی کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی تفصیل

میں یوں لکھا ہے کہ مدینہ سے روانہ ہونے کے بعد صحابہ کرامؓ کو ذُوالْقَصَّہمقام میں بنو ثعلبہ کا ایک شخص ملا۔ ذُوالْقَصَّہ رَبَذَہ کے راستے پر مدینہ سے چوبیس میل کے فاصلے پر تھا۔ اس شخص کا نام جبار تھا۔ صحابہ کرامؓ نے اسے گرفتار کر لیا اور اسے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے۔ اس نے کہا یثرب جانا چاہتا ہوں اور اپنے روزگار کی تلاش کے لیے جا رہا ہوں تو اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کے حالات سے آگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی تو وہ فوراً مسلمان ہو گیا۔ جب اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کا علم ہو اکہ آپؐ بنوثعلبہ اور بنو محارب پر چڑھائی کے لیے نکلے ہیں تو اس نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہرگز آپؐ کا سامنا نہیں کریں گے۔ اگر انہیں آپؐ کی آمد کے بارے میں پتہ چل گیا تو وہ فرار ہو کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ جائیں گے۔ مدینہ کے ارد گرد تو بےشک حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن سامنا نہیں کریں گے مسلمانوں کا ۔اور کہا کہ میں بھی آپؐ کے ساتھ چلتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبار کو بلال کے سپرد کر دیا۔ وہ شخص مسلمانوں کو ایک دوسرے راستے سے لے کر چلا اور ان کے علاقے میں لے آیا۔ وہاں موجود لوگوں نے جب اسلامی لشکر آتے دیکھا تو وہ سب نکل بھاگے اور پہاڑوں پر جا چڑھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش قدمی کرتے ہوئے ذی امر نامی چشمہ پر پہنچے۔ وہاں پڑاؤ ڈالا۔ اچانک وہاں بہت تیز بارش شروع ہو گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے کپڑے بھیگ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گیلے کپڑے سوکھنے کے لیے درخت پر ڈال دیے اور خود اس درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ دوسرے صحابہ کرامؓ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ یہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی تھی۔ اس بارے میں لکھا ہے جو تلوار سونتنے والے شخص کا واقعہ آتا ہے۔ یہ لوگ جو پہاڑوں کی چوٹیوں میں چھپ گئے تھے وہ اوپر سے پہاڑوں پر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری نقل و حرکت دیکھ رہے تھے۔ مشرکوں نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ تنہا لیٹے ہوئے دیکھا تو وہ اپنے سردار دُعْثُورکے پاس آئے۔ یہ شخص ان میں سب سے زیادہ بہادر تھا۔ مشرکوں نے اسے کہا کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل تنہا لیٹے ہوئے ہیں۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ ان سے نمٹ لو۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ خود دُعْثُورنے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں تنہا لیٹے ہوئے دیکھا تو اس نے کہا کہ اگر اس وقت بھی میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل نہ کروں تو اللہ خود مجھے ہلاک کر دے۔ بہرحال یہ کہہ کر دُعْثُور تلوار سونتتے ہوئے چلا اور بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے پہنچ کر رکا۔ پھر اچانک اس نے آپؐ کو مخاطب کر کے کہا۔ آج، یا یہ کہا کہ

اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے فرمایا:اللہ مجھے تم سے بچائے گا!

اس پر وہ زمین پر گر گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اس کی تلوار اٹھالی اور اسے فرمایا: اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس پر دعثور نے کہا لَا أَحَدٌ، وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ، وَاللّٰهِ لَا أُ كَثِّرُ عَلَيْكَ جَمْعًا أَبَدًا۔کوئی بھی نہیں۔ مجھے تو اب کوئی نہیں بچا سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ کی قسم !آئندہ میں کبھی آپؐ کے خلاف لوگوں کی جتھہ بندی نہیں کروں گا۔ یہ اس نے عہد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلوار اسی کو عنایت فرما دی اور ایک روایت میں ہے کہ دعثور آپؐ کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرنے لگا۔ اللہ کی قسم! آپؐ احسان کرنے کے معاملے میں مجھ سے بہتر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا کہ أَنَا أَحَقُّ بِذٰلِكَ مِنْكَ۔ میں تم سے اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ احسان کروں اوردُعْثُور اپنی قوم کی طرف لوٹ آیا لیکن اس کا حال ہی بدلہ ہوا تھا اور وہ اپنی قوم کو تبلیغ کر رہا تھا۔دُعْثُورنے واقعہ بیان کیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا، کس طرح میں گر گیا۔وہ گرنے کے واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ کہتا ہے کہ میں نے وہاں ایک دراز قد آدمی کو دیکھا۔ جب میں وہاں تلوار سونت کے کھڑا تھا تو میں نے دیکھا ایک بہت دراز قد آدمی وہاں آیا ہے۔ اس نے میرے سینے کو دھکا دیا تو میں پیٹھ کے بل گر گیا، ہاتھ مارا اس نے تو میں پیٹھ کے بل گر گیا۔ تب میں نے جان لیا کہ یہ کوئی انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی فرشتہ ہے۔ چنانچہ میں نے اسی وقت اقرار کر لیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ کہتا ہے اللہ کی قسم! میں ان کے خلاف کبھی کوئی جنبش نہیں کروں گا۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دینے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائی۔ بہرحال اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے اور کہیں کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔ اس غزوہ کے لیے آپؐ کل گیارہ دن مدینہ سے باہر رہے اور ایک قول کے مطابق پندرہ دن مدینہ سے باہر رہے اور ابوعمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نجد میں صفر کا پورا مہینہ رہے۔بہرحال یہ مختلف روایتیں ہیں لیکن یہ چند دن کا ہی سفر تھا۔

بعض علماء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار سونتنے کا اوپر بیان کردہ واقعہ جو ہے آپؐ پر جو قاتلانہ حملہ تھا ،اس کو غزوۂ ذات الرقاع کا واقعہ قرار دیا ہے اور اسے ایک ہی واقعہ تسلیم کیا ہے لیکن اکثر محققین نے کہا ہے کہ یہ دونوں واقعات دو الگ الگ غزوات کے ہیں۔ غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر حملہ کرنے والے شخص کا نام غورث بھی بیان ہو اہے اور اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور یہ بھی ہے کہ اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ البتہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ کبھی آپؐ کے مقابل پر نہیں آئے گا۔ بخاری کی بھی یہ روایت ہے۔

(ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ290دارالکتب العلمیۃ )

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ176 دارالکتب العلمیۃ )

(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6 صفحہ71 مکتبہ دارالمعارف)

(شرح الزرقانی جلد2 صفحہ381-382 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرقاع حدیث 4136)

اس عرصہ کے واقعات میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ

حضرت رقیہؓ کی وفات

ہوئی اور حضرت ام کلثومؓ کی شادی ہوئی جس کی تفصیل یوں ہے جو عبدُاللّٰہ بن مُکْنِفْ بِن حَارِثَہانصاری نے بیان کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت عثمانؓ کو اپنی بیٹی حضرت رقیہؓ کے پاس چھوڑا۔ وہ بیمار تھیں اور انہوں نے اس روز وفات پائی جس دن حضرت زید بن حارثہؓ مدینہ کی طرف فتح کی خوشخبری لے کر آئے جو اللہ تعالیٰ نے بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کے لیے بدر کے مالِ غنیمت میں حصہ مقرر فرمایا اور آپؐ کا حصہ جنگ بدر میں شامل ہونے والوں کے برابر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کے ساتھ اپنی صاحبزادی حضرت اُمّ کلثومؓ کی شادی کر دی۔

(الطبقات الکبرٰی لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ41،ذکر اسلام عثمان بن عفان،دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء )

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمانؓ سے مسجد کے دروازے پر ملے اور فرمانے لگے کہ عثمان یہ جبرئیل ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ام کلثومؓ کا نکاح رقیہؓ جتنے حق مہر پر اور اس سے تمہارے حسن سلوک پر تمہارے ساتھ کر دیا ہے۔(سنن ابن ماجہ افتتاح الکتاب فضل عثمان رضی اللّٰہ عنہ حدیث نمبر 110)وہی جو رقیہ کا حق مہر تھا اسی پر تمہارے ساتھ نکاح کر دیا ہے۔ یعنی دوسری بیٹی کا نکاح بھی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ حضرت عثمانؓ سے کر دیا جائے۔

حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام کلثومؓ کی شادی حضرت عثمانؓ سے کی تو آپؐ نے حضرت ام ایمنؓ سے فرمایا:میری بیٹی ام کلثومؓ کو تیار کر کے عثمان کے ہاں چھوڑ آؤ اور اس کے سامنے دف بجاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن کے بعد حضرت ام کلثومؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے میری پیاری بیٹی! تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ ام کلثوم نے عرض کیا وہ بہترین شوہر ہیں۔

(سیرۃامیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی،صفحہ41، الفصل الاول، ذوالنورین عثمان بن عفان ؓبین مکة والمدینة، زواجہ من ام کلثوم سنۃ 3ھ، دارالمعرفۃبیروت2006ء)

حضرت ام کلثومؓ حضرت عثمانؓ کے ہاں نو ہجری تک رہیں۔ اس کے بعد وہ بیمار ہو کر وفات پاگئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی قبر کے پاس بیٹھے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ام کلثومؓ کی قبر کے پاس اس حال میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار تھیں۔

(سیرۃامیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی،صفحہ42، المبحث الثالث: ملازمتہ للنبیﷺ فی المدینۃ/ وفاۃ ام کلثوم، دارالمعرفۃبیروت2006ء)

بخاری کی ایک روایت میں اس واقعہ کا یوں ذکر ہوا ہے کہ ہلال نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازے پر موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ آپؐ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من یدخل قبر المرأۃ، حدیث نمبر 1342 )

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام کلثومؓ کی وفات پر فرمایا: اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی بھی عثمان سے کروا دیتا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ41،عثمان بن عفان،دارالکتب العلمیۃ بیروت،1990ء )

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ سے گزرے تو دیکھا کہ حضرت عثمانؓ وہاں بیٹھے تھے اور حضرت ام کلثومؓ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں رو رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپؐ کے دونوں ساتھی یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے عثمان! تم کس وجہ سے رو رہے ہو؟ حضرت عثمانؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ میرا آپؐ سے دامادی کا تعلق ختم ہو گیا ہے۔ دونوں لڑکیاں میرے سے بیاہی گئیں،دونوں فوت ہو گئیں۔ اب دامادی کا تعلق ختم ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ مت رو۔

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میری سو بیٹیاں ہوتیں اور ایک ایک کر کے فوت ہو جاتیں تو میں ہر ایک کے بعد دوسری کو تجھ سے بیاہ دیتا یہاں تک کہ سو میں سے ایک بھی باقی نہ رہتی۔

(کنزالعمال جزء 13 صفحہ 21 کتاب الفضائل،فضائل الصحابۃ، فضائل ذوالنورین عثمان بن عفان حدیث نمبر 36201 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

بہرحال یہ ایک محبت کا اور تعلق کا اظہار تھا جو دونوں طرف سے ہوا۔ حضرت عثمانؓ کو اس بات کا غم کہ اب دامادی کا رشتہ ختم ہو گیا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال دلجوئی فرماتے ہوئے یہ یقین دہانی فرمائی کہ یہ تعلق تو قائم ہے،تم اس بات پر پریشان نہ ہو۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس شادی کا تذکرہ سیرت خاتم النبیینؐ میں یوں فرمایا ہے کہ ’’رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوجہ حضرت عثمانؓ بن عفان… کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری لڑکی ام کلثوم کی شادی جو حضرت فاطمہؓ سے بڑی مگر رقیہ سے چھوٹی تھیں،حضرت عثمانؓ سے کر دی۔ اسی وجہ سے حضرت عثمانؓ کو ’’ذوالنورین‘‘ دو نوروں والا کہتے ہیں۔ ام کلثوم کی یہ دوسری شادی تھی کیونکہ وہ اوران کی بہن رقیہ شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابولہب کے دولڑکوں سے بیاہی گئی تھیں مگر قبل اس کے کہ ان کا رخصتانہ ہوتا مذہبی مخالفت کی بناء پر یہ رشتہ منقطع ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت عثمانؓ سے رقیہ ؓکی شادی کی اوررقیہ کی وفات کے بعد ام کلثومؓ کی شادی کر دی مگر افسوس ہے کہ ان دونوں صاحبزادیوں کی نسل کاسلسلہ نہیں چلا کیونکہ ام کلثوم کے تو کوئی بچہ ہوا ہی نہیں اور رقیہ کا صاحبزادہ عبداللہ چھ سال کاہوکر وفات پا گیا۔ ام کلثومؓ کانکاح ربیع الاول تین ہجری میں ہوا تھا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ﷺ صفحہ 463 – 464)

اس عرصہ کے واقعات میں

غزوۂ بُحْرَان

کا بھی ذکر ہے۔ اس کو غزوہ بُحْرَانکے علاوہ غزوۂ فُرُعاور غزوۂ بَنُوسُلَیمبھی کہا جاتا ہے۔ بحران وادی فُرُعْکے نواح میں اہلِ حجاز کی ایک معدنیات کی کان ہے اور وادی فُرُعْمدینہ سے چھیانوے میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ بنو سلیم کی بھاری تعداد بحران میں جمع ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن ام مکتومؓ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرما کر جبکہ ایک اَور روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کو اپنا نائب مقرر فرما کر تین سو صحابہؓ کا لشکر لے کر بحران کی طرف نکلے تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکلنے کی وجہ ظاہر نہیں کی اور جب اسلامی لشکر بحران سے ایک رات کے فاصلے پر پہنچا تو وہاں انہیں بنو سلیم کا ایک آدمی ملا۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ وہ لوگ منتشر ہو گئے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو ایک صحابی کے سپرد کر دیا اور آگے روانہ ہو گئے یہاں تک کہ بحران پہنچ گئے۔ آپؐ نے وہاں کسی کو نہ پایا کیونکہ سب اپنے اپنے پانی کے مقامات کی طرف منتشر ہو چکے تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹ گئے اور جنگ کی کوئی نوبت نہ آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ کے لیے چھ جمادی الاولیٰ کو مدینہ سے نکلے اور دس راتیں باہر رہنے کے بعد آپؐ سولہ جمادی الاولیٰ کو واپس تشریف لے آئے۔ اس کے برعکس ابنِ اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا چاہتے تھے یہاں تک کہ آپ بحران پہنچ گئے جو حجاز میں وادیٔ فرع کے نواح میں ایک کان ہے۔ پس آپؐ نے وہاں ربیع الآخر اور جمادی الاولیٰ کے دو مہینے قیام فرمایا۔اس کے بعد آپؐ واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ اس دوران کسی لڑائی کی نوبت نہیں آئی۔

(ماخوذ از شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جلد2 صفحہ382-383 دارالکتب العلمیۃ1996ء)

(سیرت ابن ہشام صفحہ513 دارالکتب العلمیۃ 2001ء)

(فرہنگ سیرت صفحہ226 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوۂ بحران کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے کہ ’’ابھی غزوۂ ذی اَمْر پرزیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا یعنی اواخر ربیع الاول تین ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ وحشت ناک اطلاع موصول ہوئی کہ بنوسُلَیم پھر موضع بُحْرَانمیں مدینہ پر اچانک حملہ کرنے کی غرض سے بہت بڑی تعداد میں جمع ہورہے ہیں اوریہ کہ ان کے ساتھ قریش کابھی ایک جتھہ ہے۔ ناچار آپؐ پھرصحابہ کی ایک جماعت کو ساتھ لےکر مدینہ سے نکلے، لیکن حسبِ عادت عرب کے یہ وحشی درندے جواپنے شکار پراچانک اورغفلت کی حالت میں حملہ کرنے کا موقعہ چاہتے تھے آپؐ کی آمد آمد کی خبر پا کر اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کچھ عرصہ وہاں قیام کرکے واپس تشریف لے آئے۔

بنوسلیم اوربنوغطفان کا اس طرح بار بار مدینہ پرحملہ کرنے کے ارادے سے جمع ہونا صاف ظاہر کررہا ہے کہ صحرائے عرب کے یہ وحشی اور جنگجو قبائل اسلام کے سخت جانی دشمن تھے اور دن رات اس فکر میں رہتے تھے کہ کوئی موقعہ ملے تو مسلمانوں کوتباہ وبرباد کر دیں۔ ذرا مسلمانوں کی اس وقت کی نازک حالت کااندازہ لگاؤ کہ ان پر اس زمانہ میں کیسے دن گزر رہے تھے۔ ایک طرف مکہ کے قریش تھے جن کو اسلام کی عداوت اور جنگِ بدر کی انتقامی روح نے اندھا کر رکھا تھا اورانہوں نے خانہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ لپٹ لپٹ کر قسمیں کھائی ہوئی تھیں کہ جب تک مسلمانوں کو ملیا میٹ نہ کر لیں گے چین نہیں لیں گے۔ دوسری طرف صحرائے عرب کے یہ خونخوار درندے تھے جن کو قریش کی انگیخت اور اسلام کی دشمنی نے مسلمانوں کے خون کی پیاس سے بےچین کر رکھا تھا۔ چنانچہ دیکھو کہ بدر کے بعد چندماہ کے اندر اندر آپؐ کو کتنی دفعہ بذاتِ خود ان وحشی قبائل عرب کے خونی ارادوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے سفر کرنا پڑا۔ جیساکہ سرولیم میور نے تصریح کی ہے۔ یہ دن بھی بہت سخت گرمیوں کے دن تھے اورگرمی بھی عرب کے صحرا کی گرمی تھی۔

اگر خدا کی خاص نصرت شامل حال نہ ہوتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیدار مغزی مسلمانوں کو ہر وقت ہوشیار اور چوکس نہ رکھتی اور آپؐ دشمن کی جمعیت کوچھاپہ مارنے سے قبل ہی منتشر کردینے کی تدابیر اختیار نہ کرتے توان دنوںمیں مسلمانوں کی تباہی وبربادی میں کوئی شک نہیں تھا

اور یہ صرف بیرونی خطرات تھے۔ باقی اندرونی خطرات بھی کسی طرح کم نہ تھے۔ خود مدینہ کے اندر مسلمانوں سے ملے جلے رہنے والے منافقین موجود تھے جن کو مارِآستین کہنا یقیناً کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ ان کے علاوہ غدار اور خفیہ سازشوں کے عادی یہودی لوگ تھے جن کی عداوت کی گہرائی اوروسعت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اللہ! اللہ! ان ابتدائی مسلمانوں کے لیے یہ کیسی مصیبت کے دن تھے!! خود ان کی زبان سے سنیے۔ اُبَی بن کَعْب… روایت کرتے ہیں: ’’اس زمانہ میں صحابہؓ کایہ حال تھا کہ وہ ڈر کے مارے راتوں کو ہتھیار لگا لگا کر سوتے تھے اور دن کو بھی ہروقت مسلح رہتے تھے کہ کہیں ان پر کوئی اچانک حملہ نہ ہو جاوے اور وہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھئے ہم اس وقت تک زندہ بھی رہتے ہیں یا نہیں کہ جب ہم امن واطمینان کی زندگی گزاریں گے اورخدا کے سوا ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہو گا۔‘‘

ان الفاظ میں کس مصیبت اورکس بے کسی کااظہار ہے اور امن اور اطمینان کی زندگی کی کتنی تڑپ مخفی ہے۔ اس کااندازہ ہرانصاف پسند شخص خود کرسکتا ہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ﷺ صفحہ 464 – 465)اور یہی آجکل بھی بعض جگہ کے حالات ہیں اور خاص طور پر فلسطینیوں کے بھی۔

ایک

سریہ زید بن حارثہ

تھا جس کی تفصیل میں یہ لکھا ہے کہ بنو سُلَیمکی پسپائی بنو قینقاع کی جلا وطنی، غزوۂ سَوِیقمیں ابوسفیان کا راہِ فرار اور غزوہ بنو غَطْفَانمیں بنو ثَعْلَبَہاور بنو مُحَارِبکی پسپائی، یہ عسکری تگ وتاز یعنی فوجی برتری مدینہ کی ابھرتی ہوئی قوت پر دلالت کر رہی تھی۔ سب سے بڑھ کر غزوۂ بدر میں اہلِ ایمان کی کامیابی اور مشرکین کی ذلت آمیز شکست کی بنا پر اعدائے اسلام اقتصادی مشکلات و مصائب سے بہت پریشان ہوئے کیونکہ مکہ سے شام جانے والی معروف شاہراہ کا گزر مدینہ کے مغرب میں بحیرۂ احمرکے ساتھ ساتھ تھا۔ ابوسفیان کے تجارتی قافلے کو مسلمانوں نے اسی راستے پر روکنے کی کوشش کی تھی۔ مدینہ کے آس پاس کے قبائل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کر چکے تھے۔ اس لیے مشرکینِ مکہ اس راستے کو تجارت کے لیے اختیار کرنے کو کسی طرح بھی تیار نہیں تھے۔ اہلِ اسلام کی طرف سے مشرکین کی معاشی ناکہ بندی کی وجہ سے وہ لوگ انتہائی پریشان ہوئے اور شام کے معروف راستے کو چھوڑ کر نئے راستے کی تلاش میں رہنے لگے۔ ایک روز صَفْوَان بن اُمَیَّہ کفارِ مکہ سے کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں نے ہمارا جینا دشوار کر دیا ہے۔ ہمارے تجارتی مرکز تک جانے سے ہمیں روک دیا ہے۔ اب ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کیا کریں۔ وہ تو ساحل سمندر سے پیچھے ہٹنے کا نام تک نہیں لیتے۔ ساحل کے اکثر رہائش پذیر قبائل نے بھی ان سے مصالحت اور سمجھوتہ کر لیا ہے اور وہ ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ اب ہم جائیں تو کس طرف اور کریں تو کیا کریں۔ یہیں مکہ میں رہے تو ہم اپنا راس المال بھی کھا جائیں گے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے سب کھا جائیں گے۔ اس کے بعد ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا جس کے سہارے ہم زندگی گزار سکیں۔ یہی مال گرمی میں ہم شام اور سردی میں حبشہ کی طرف تجارت کی غرض سے لے جایا کرتے تھے۔ اب کیا ہو گا؟ صَفْوَان بن امیہ کی یہ بات سن کر سب پریشان تھے۔ اَسْوَدْ بن مُطَّلِب نے مشورہ دیا کہ ساحلِ سمندر کا راستہ چھوڑ کر عراق کی طر ف سے شام جایا جا سکتا ہے۔ صَفْوَاننے کہا مجھے تو اس راستے کا بالکل علم نہیں۔ اَبُوزَمْعَہنے کہا کہ میں تجھے ایک ایسے رہبر کے متعلق بتاتا ہوں جسے اس راستے کی مکمل پہچان ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ فُرَات بن حَیَّان عِجْلِیہے۔ وہ اس راستے سے آتا جاتا رہتا ہے اور اسے اس گزرگاہ سے مکمل شناسائی ہے۔ صَفْوَاننے اللہ کی قسم کھا کر کہاکہ بہت خوب۔ مَیں تو یہی چاہ رہا تھا۔ فُرَاتکو بلوایا گیا۔ اس کے آنے پر صَفْوَاننے اسے کہا کہ میں قافلہ تجارت لے کر شام جانا چاہتا ہوں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری تجارت کے حوالے سے ہمیں پریشان کر رکھا ہے کیونکہ ہمارے قافلے انہی کے قریب سے گزرتے ہیں۔ میں عراق کے راستے سے شام جانا چاہتا ہوں۔ فُرَاتنے کہا کہ میں تمہیں عراق کے ایسے راستے سے لے کر جاؤں گا جہاں سے اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل خبر نہ ہو گی۔ یہ بے آب و گیاہ اور غیر آباد راستہ ہے۔ صَفْوَاننے کہا میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ اس کی بیابانی ہمارے لیے کوئی زیادہ پریشانی کا سبب نہیں کیونکہ اب سردی کا موسم ہے اس لیے ہمیں راستے میں پانی کی ضرورت بہت کم ہی پڑے گی جسے ہم برداشت کر لیں گے۔

بہرحال سفر کی تیاری شروع ہو گئی۔ اس کے بعد صَفْوَان بن امیہ نے قافلے کی تیاری کے لیے سب کو کہہ دیا۔ جمع پونجی اپنے ساتھ لی۔ چاندی کے برتن، چاندی کی ڈلیاں اور دیگر سازو سامان بھی ساتھ لے لیا۔ اَبُوزَمْعَہ نے بھی صَفْوَان کو تین سو مثقال سونا اور چاندی کی ڈلیاں تھمائیں تا کہ وہ اس کے لیے خریداری کر سکے۔ ایک مثقال سونا تقریباً سوا چار گرام، 4.37گرام کے برابر ہے۔ بہرحال کافی مقدار میں تھا یہ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ صَفْوَانبہت سا مال لے کر نکلا جس میں چاندی کی ڈلیاں اور چاندی کے برتن تھے جن کا وزن تیس ہزار درہم کی مالیت کا تھا۔ ابوسفیان بن حرب بھی اپنے ساتھ کثیر چاندی لے کر نکلا اور دیگر قریش کے لوگوں نے بھی اپنی اپنی خریداری کے لیے سونا چاندی وغیرہ شرکائے قافلہ کے سپرد کر دیا۔ صَفْوَان اور ابوسفیان کے علاوہ بھی کئی لوگ اس تجارتی قافلے کے ہمراہ ہو لیے جیسے عبدُاللّٰہ بن ابی رَبِیعَہ۔ حُوَیْطِبْ بن عَبْدُالْعُزّٰی وغیرہ۔ یوں فُرات بن حیّان کی رہبری میں براستہ طریق عراق، عراق کے رستے سے شام کی طرف تجارت کے لیے قریش کا یہ قافلہ روانہ ہوا۔

سریہ کی تاریخ اور دیگر نام کے بارے میں آتا ہے کہ یہ سریہ جمادی الْاُخْرٰیتین ہجری میں پیش آیا۔ سریہ کی جگہ کے لحاظ سے اس کارروائی کو سریہ قَرَدَہبھی کہا جاتا ہے۔ قَرَدَہ نجد کے پانیوں میں سے ایک پانی ہے۔ قریش مکہ نے اپنی طرف سے پوری احتیاط سے اس راستے کو اختیار کیا جس کا اوپر تذکرہ ہو چکا ہے۔ ان کی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح بھی اس کی خبر مدینہ نہ پہنچے ورنہ ہمارا اس راستے سے جانا بھی محال ہو جائے گا لیکن اللہ کو کچھ اَور ہی منظور تھا۔ اہل مکہ سے تو یہ خبر چھپ نہ سکتی تھی۔ چنانچہ نُعَیْم بن مسعود اَشْجَعِیکو اس منصوبے کا علم ہو گیا۔ انہی ایام میں اسے کسی کام سے مدینہ جانا پڑا۔ یہ ابھی بے دین اور مشرک تھا۔ اس نے مدینہ میں بَنُو نَضِیرکے سردار کِنَانہ بن ابی حُقَیق کے ہاں قیام کیا۔ اس نے اسے شراب پلائی۔ ایک صحابی سَلِیْط بن نُعمان بن اسلم کا بنو نضیر کے ہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ اس دوران یہ بھی وہاں آ گئے جہاں کِنَانہ بن ابی حُقَیق اور نُعَیْممجلس لگائے بیٹھے تھے۔ نُعَیْمشراب کے نشے میں دھت تھا۔ اس لیے وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا اور نشے میں ہی راز فاش کر دیا۔ اس نے صَفْوَانِبن امیہ کی نگرانی میں عراق کے راستے سے شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلے کے متعلق سب کچھ کہہ دیا۔ سَلِیْط بنِ نُعمان سن کر باہرنکلے اور جا کر یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اطلاع پاتے ہی فوراً تیاری شروع کی اور ایک سو شہ سواروں کا لشکر روانہ کر دیا۔ اس کی سالاری حضرت زید بن حارثہؓ کے سپرد کی۔

حضرت زید بن حارثہؓ کے لیے یہ سب سے پہلا موقع تھا جب انہیں کسی اسلامی لشکر کی سپہ سالاری پر مامور کیا گیا اور وہ اس مہم میں کامیاب ہوئے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ ؓکو سو سواروں کے ساتھ بھیجا۔ وہ ان کی طرف روانہ ہوئے اور قافلے کو جا لیا۔ قافلے والوں میں سےسردار جنگل کی طرف بھاگ گئے۔ صحابہؓ نے ایک یا دو آدمیوں کو قیدی بنایا اور قافلہ کا سامان لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پانچ حصے کیے اور خمس کی مالیت اس وقت بیس ہزار درہم کی قیمت کے برابر ہوئی۔ باقی مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ والوں میں تقسیم فرما دیا۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلد 6 صفحہ395-398مکتبہ دارالمعارف لاہور)

(کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 198 مکتبہ عالم الکتب )

(فرہنگ سیرت صفحہ233 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)

ایک اَور روایت میں ہے کہ حضرت زیدؓ نے نہایت تیزی سے راستہ طے کیا اور ابھی قریش کا قافلہ بالکل بے خبری کے عالم میں قَرَدَہنامی ایک چشمہ پر پڑاؤ ڈالنے کے لیے اتر رہا تھا کہ اسے جا لیا اور اچانک یلغار کر کے پورے قافلے پر قبضہ کر لیا۔ صَفْوَانبن امیہ اور دیگر لوگوں کو بھاگنے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ مسلمانوں نے قافلے کے راہنما فُرَات بن حَیَّانکو اور کہا جاتا ہے کہ مزید دوآدمیوں کو گرفتار کر لیا۔ برتنوں اور چاندی کی بہت بڑی مقدار جو قافلے کے پاس تھی اور جس کا اندازہ ایک لاکھ درہم تھا بطور غنیمت ہاتھ آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس نکال کر مال غنیمت لشکر کے افراد میں تقسیم کر دیا۔ قریش کے رہبر فُرَات بن حیان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کر لیا۔(الرحیق المختوم مترجم صفحہ 337 مکتبہ سلفیّہ)پھر اس کی باقی باتیں ان شاء اللہ آئندہ۔

یہ جو قافلے چلتے تھے ان کو جو روکنا تھا یہ اس لیے تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگوں کی تیاری کے لیے سامان اکٹھا کرتے تھے۔ آج کل کے زمانے میں جس طرح sanctions لگائی جاتی ہیں یہ اسی طرح کی ایک قسم تھی۔ یہ تو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں بلکہ بعض جگہ تو غلط قسم کی لگا دیتے ہیں۔ مثلاً امریکہ نے یوگنڈا پہ sanctions اس لیے لگا دیں کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں LGBTکے خلاف قانون پاس کیا ہے۔ گو یہ نام نہیں لیتے لیکن اصل اندر سے یہی بات ہے۔ تو ان لوگوں کا تو یہ حال ہے۔ اسلام پر انہوں نے کیا اعتراض کرنا ہے۔ بہرحال یہ باتیں ان شاء اللہ آئندہ بھی ہوں گی۔

فلسطین کے مظلوموں کے لیے میں دعا کے لیے دوبارہ کہتا ہوں۔

اب کم از کم اتنا ہوا ہے کہ کچھ غیر مسلم اور بعض سیاستدان ڈرتے ڈرتے ہی کچھ نہ کچھ اس ظلم کے خلاف بولنے لگ گئے ہیں بلکہ اب تو بعض یہودیوں نے بھی اس عمل سے بیزاری کا اظہار کیا ہے اور اسرائیلی حکومت کو کہا ہے کہ ہمیں بدنام کیوں کر رہے ہو۔ تو بہرحال چھوٹی چھوٹی آوازیں کہیں نہ کہیں سے غیروں میں بھی اٹھنے لگ گئی ہیں۔ اب یہ کہتے ہیں کہ چار گھنٹے کے لیے روزانہ جنگ روکیں جس کو pauseکا نام انہوں نے دیا ہے تاکہ فلسطینیوں تک مدد پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس پر کتنا عمل ہوگا اور باقی جو بیس گھنٹے کا وقت ہے اس میں انہوں نے فلسطینیوں پر کتنے ظلم کرنے ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کتنی بمبارمنٹ کریں گے۔

اکثر بڑی حکومتیں اور سیاستدان بھی فلسطینیوں کی جانوں کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے۔ ان کے اپنے مفادات ہیں لیکن بہرحال ان لوگوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ایک وقت تک ڈھیل دیتا ہے اور صرف یہی دنیا نہیں،اگلا جہان بھی ہے۔

یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں اس دنیا میں ہم نے فائدے اٹھا لیے تو سب کچھ حاصل ہو جائے گا۔ اس دنیا میں بھی پکڑ ہو سکتی ہے اور اگلے جہان میں بھی پکڑ ہو گی۔ بہرحال

ہمیں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کرتے ہوئے انہیں ان ظلموں سے نجات دلوائے۔

اس وقت نماز کے بعد میں

جنازے غائب

بھی پڑھاؤں گا۔

پہلا جنازہ،

ایک جنازہ ہے

منصورہ باسمہ صاحبہ کا،جو حمیدالرحمٰن خان صاحب کی اہلیہ تھیں۔

گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یہ نواب عبداللہ خان صاحب اور حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہ ؓ کی پوتی تھیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت بوزینب بیگم صاحبہ کی نواسی تھیں۔ میاں عباس احمد خان صاحب اور امة الباری بیگم صاحبہ کی بیٹی تھیں۔ اللہ کے فضل سے موصیہ بھی تھیں۔ اچھی نیک فطرت خاتون تھیں۔

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ان کے نکاح کا جب اعلان فرمایا تو جو خطبہ دیا اس میں بعض نصائح بھی تھیں۔ اس لیے میں خطبہ کا کچھ حصہ سنا بھی دیتاہوں۔ آپؒ نے فرمایا کہ نکاح کے ساتھ لڑکی اور لڑکے پر ایسی نئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو اس سے قبل ان پر عائد نہیں تھیں۔ فرمایا ایک تو میاں بیوی کی باہمی ذمہ داریاں ہیں یعنی خاوند کی بیوی پر اور بیوی کی خاوند پر اور دوسرے دونوں نے مل کر کچھ ذمہ داریاں نبھانی ہیں جن کا تعلق ان کی اولاد سے ہوتا ہے۔ جہاں تک اولاد سے تعلق ہے کچھ ذمہ داریاں بٹی ہوتی ہیں۔ ماں بچے کو دودھ پلاتی ہے،باپ نہیں پلاتا۔ باپ گھر سے باہر بچے کا خیال رکھتا ہے کہ اس میں آوارگی پیدا نہ ہو۔ عورت کی ذمہ داری گھر کی حدود کے اندر سے تعلق رکھتی ہے۔ بہرحال دونوں اگر اپنے یہ حقوق ادا کریں تو بہت ساری قباحتوں سے آج بھی ہمارے بچے بچ سکتے ہیں۔ پھر آپؒ نے فرمایا کہ جو آیات ہم اس موقع پر پڑھتے ہیں اس قسم کی نئی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک تو ضروری ہے کہ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ (النساء:2) یہاں آیت میں اتَّقُوا اللّٰهَ بھی ہے اور بہت سے contextمیں تقویٰ کا ذکر ہے لیکن اس آیت میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے رب کا تقویٰ۔ اور یہ رب کا تقویٰ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ربوبیت کرنے والا ہے تم دونوں کی ربوبیت کرنے والا ہے۔ اسی طرح تم پر بھی ربوبیت کی ذمہ داریاں کچھ نئی پڑنے والی ہیں اور اسی صورت میں تم ادا کر سکو گے جب تم حقیقی رب،اللہ کا تقویٰ اختیار کروگے۔ دوسرے یہ کہ یہ رشتہ بڑا نازک ہوتا ہے۔ بہت سی غلط فہمیاں، بے احتیاطیوں کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتی ہیں اور اس کے بچاؤ کے لیے ہمیں حکم دیا گیا کہ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا(الاحزاب:71) کہ محض سچ سے یہاں کام نہیں بنے گا بلکہ ایسے بول جن میں کسی قسم کی کجی نہیں ہوگی، سیدھے ہوں گے اس راہ کو اگر تم اختیار کرو گے تو تمہارے درمیان کوئی misunderstanding،کوئی رنجش پیدا نہیں ہوگی۔ اور تیسرے یہ کہ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر:19) تمہارے بڑوں نے مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے تمہاری تربیت کی اور تم نے اپنے مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔ یہ جو مستقبل ہے جس کا تعلق اس تربیت سے ہے جو ماں باپ بچوں کی کرتے ہیں یہ ہر نسل کا علیحدہ مستقبل ہے۔ یہ ایک ہی قسم کا مستقبل نہیں۔ اس واسطے کہ دنیا اور دنیا کا معاشرہ حرکت میں ہے۔ فرمایا اب زمانہ بدل کے کچھ کا کچھ بن گیا ہے۔ وہ انقلاب ِعظیم جس کی ہمیشہ بشارت دی گئی تھی اس کے آثار افق پر ہمیں نظر آ رہے ہیں۔ اس لیے آج باپ کی ذمہ داری مختلف ہے اس ذمہ داری سے جو ہماری ذمہ داری تھی بلکہ زیادہ احتیاط کے ساتھ زیادہ وسعتوں والی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی ذمہ داری اٹھانی ہے تا کہ احمدیت کی تربیت کا، وہ تربیت جس کا تعلق ساری دنیا کے ساتھ ہے بوجھ پڑے آنے والی نسل پر، تو ہر آنے والی نسل اس کو اٹھانے کے لیے تیار ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان چیزوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔

پھر آپؒ نے فرمایا کہ جس نکاح کے لیے میں کھڑا ہوا ہوں ایک عزیزہ بچی کا ہے جو ہمارے چھوٹے پھوپھا نواب عبداللہ خان کی پوتی اور پھوپھی امة الحفیظ بیگم صاحبہ کی پوتی ہے۔ آپؒ نے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چوتھی نسل شروع ہوگئی ہے۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی یہ نواسی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اور اس دوسرے رستے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کا تعلق ہے۔ ذمہ داریاں دوہری ہیں۔ اگر ذمہ داریاں دوہری ہیں، اگر ہمارے لیے بشارات بھی دوہری ہیں تو اس لیے انذار بھی دوہرا ہے۔ اور پھر آپ نے سمجھایا خاندان کے بچوں کو اور بڑوں کو بھی کہ ان کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے کیونکہ اگر دوہری ذمہ داریاں ادا نہیں کریں گے تو پھر دوہرے انذار کو بھی دیکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ خاندان کے بڑے اور بچے اس بات کو سمجھنے والے بھی ہوں۔

پھرآپؒ نے فرمایا کہ میں جب کسی ایسے نکاح کا اعلان کرتا ہوں جس میں بچے اور بچی کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہو رشتے کے لحاظ سے تو میری طبیعت میں فکر بھی پیدا ہوتی ہے اور دعاؤں کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس مقام کو پہچاننے کی توفیق عطا کرے کہ وہ خادم ہونے کے لحاظ سے دوسرے سے مختلف ہیں اور ان کو زیادہ بڑے خادم بن کر دنیا میں اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔

(ماخوذ ازخطبات ناصر جلد دہم صفحہ710تا713 خطبہ نکاح 5؍اکتوبر1981ء)

بہرحال یہ نصیحت والے الفاظ تھے اس لیے میں نے بیان بھی کر دیے۔ عزیزہ باسمہ منصورہ کی ذاتی زندگی کے بارے میں ان کی بیٹی رابعہ نے لکھا کہ بچپن میں ہی اللہ میاں سے ہمارا تعارف کروایا۔ اپنے نصیب کے لیے دعا پر زور دیتیں۔ اکثر کہتیں کہ دعا کیا کرو اللہ تعالیٰ تمہارا اچھے لوگوں سے واسطہ ڈالے اور اس دعا کا مطلب پھر ہمیں بڑے ہو کر سمجھ آیا،بچپن میں تو سمجھ نہیں آتا تھا۔ کہتی ہیں میری امی لوگوں سے بہت پیار کرنے والی تھیں۔ اپنے نفس کی قربانی کر کے لوگوں کا خیال رکھتی تھیں اور یہی حقیقت بھی ہے۔ بظاہر لوگوں کو یہ تاثر ملتا کہ وہ اپنی جان پر خرچ کرنے والی ہیں، لیکن نہیں۔ وہ خود کی قربانی کرتیں اور دوسروں کا خیال رکھتیں۔ مثلاً جلسہ پر لندن بھی آتیں تو غریبوں کے لیے تحفے لے کر جاتیں۔ اپنے لیے کچھ نہ لیتیں۔ ایک لڑکی کو پالا بھی اور اس کی اچھی تربیت کی پھر اس کی شادی بھی کی۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری لڑکیوں کی شادیاں کیں۔ اور گھر میں بھی آنا جانا لوگوں کا رہتا تھا۔ ہمسایوں کو بھی کھانا وغیرہ بھیجتی رہتی تھیں۔ ایک لنگر خانہ ہی چلتا تھا یہاں تک کہ باہر سڑک پر جھاڑو دینے والا آدمی تھا وہ بھی کھانے کے وقت ان کے پاس ہی آ کے کھانا کھایا کرتا تھا۔ بہت سوں کے انہوں نے وظیفے لگائے ہوئے تھے۔ اگر ان کو کہتے کہ اپنے لیے بھی کچھ جمع کریں توکہتی ہیں میں نے کل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ اللہ تعالیٰ میری مالی ضروریات کا مالک ہے۔ واقفِ زندگی کا بہت ادب کرتیں، بہت عزت کرتیں، ان کا خیال رکھتیں۔ جو رشتہ دار واقفین زندگی ہیں ان سے تعلق رکھتیں، دعوت کرتیں اور کہتی ہیں ہمیں بھی کہا کرتی تھیں کہ واقفینِ زندگی تو قربانی کرتے ہیں، ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہر رشتہ بڑی خوبی سے نبھایا۔ ہمیشہ یہ کہتی تھیں کہ میں یہ نہیں سوچتی کہ دوسرے نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میں تو جب بھی ہو، کبھی غلطی ہوتی اور زیادتی ہو بھی جاتی ہے تو معافی مانگنے میں پہل کرتیں۔ ملازم کو بھی ڈانٹتیںتو اس سے بھی معافی مانگ لیتیں اور انعام بھی دیتیں۔

ان کے داماد مرزا تقی الدین کہتے ہیں کہ بڑی چھوٹی عمر میں انہوں نے وصیت بھی کی تھی۔ میں نے بھی دیکھا۔ وصیت فارم دیکھ کے پہلے میں حیران تھاکہ تقریباً چودہ سال کی عمر میں انہوں نے وصیت کر دی تھی۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے بچپن کا خواب سنایا تھا۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ میں اللہ کا پاؤں سختی سے پکڑ کے رو رہی ہوں اور کہتی تھیں کہ جب میں بیدار ہوئی تو میں واقعی رو رہی تھی۔ کہتی ہیں کہ اب تک اللہ تعالیٰ میرے سارے کام پورے کر دیتا ہے۔

یہاں ان کی ایک واقف ہیں روحی شاہ صاحبہ۔ وہ کہتی ہیں کہ دوستی اگر کرتیں تو خوب نبھاتیں۔ بڑی شکرگزار طبیعت کی مالک تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والی، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والی تھیں اور لوگوں سے احسان کا سلوک کرتیں۔ پھر شکر گزاری بہت کرتیں، اتنی زیادہ کہ انسان شرمندہ ہو جاتا۔

ان کی بھاوجہ طاہرہ فاروق صاحبہ کہتی ہیں کہ بھابھی کی بجائے مجھے دوست اور بہن بنا کے رکھا۔ بےلوث محبت کرنے والی کھری شخصیت کی مالک تھیں۔ رشتے نبھانے آتے تھے۔ جو اپنے لیے پسند کرتیں وہی دوسرے کے لیے پسند کرتیں اور کبھی کوئی بات دل میں نہیں رکھتی تھیں۔ صاف، کھری باتیں کہنے والی تھیں۔ نماز، روزہ کی پابند، قرآن کریم کی تلاوت کرنےوالی، خلافت کے ساتھ بےانتہا تعلق اور وابستگی تھی۔ جماعتی کاموں میں جو بھی سپرد کر دیے جاتے دلچسپی لیتیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کے جو خاوند ہیں انہیں بھی صبر اور حوصلہ دے اور بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ دے۔

دوسرا جنازہ

چودھری رشید احمد صاحب

کا ہےجو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں سابق ڈپٹی رجسٹرار تھے۔ آجکل امریکہ میں تھے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔

ان کے بیٹے رفیق طاہر صاحب وہاں لاس اینجلس میں جماعتی خدمت بجا لا رہے ہیں، کہتے ہیں کہ خاندان میں سب سے پہلے احمدیت ان کے بڑے بھائی چودھری برکت علی صاحب سے آئی تھی اور اس کے بعد ان کے والد اور باقی گھر والوں نے بیعت کی سعادت پائی۔ 74ء کے فسادات میں ایک ہجوم نے حالانکہ ان کا گھر یونیورسٹی کے ایریا کے اندر تھا، یونیورسٹی کے کوارٹروں میں تھا، لیکن پھر بھی ہجوم نے حملہ کیا اور گھرلُوٹ کے ان کا سارا سامان نظرِ آتش کر دیا۔ بہرحال وہ تو اس وقت وہاں سے چلے گئے اور جب دو تین مہینے بعد حالات بہتر ہوئے تو یونیورسٹی واپس آئے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ کریسنٹ مل کا مالک جو ہے وہ کہتا ہے کہ میں آپ کا نقصان پورا کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتائیں کہ کتنا نقصان ہوا ہے؟ تو چودھری رشید صاحب نے آسمان کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا کہ بالکل نہیں۔ میں کسی سے نہیں مدد لوں گا۔ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں یہ نقصان برداشت کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں یہ نقصان مجھے ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نقصان کو پورا کرے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے پھر ایسا فضل فرمایا کہ بڑے کم وقت میں سارے نقصان کی تلافی بھی ہو گئی۔ خلافت کے ساتھ بڑا محبت اور اطاعت کا ایک رشتہ تھا۔ احکامات کی لفظ بہ لفظ تکمیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایمانداری اتنی حد تک تھی کہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ممبر تھے۔ بڑا اعزاز ہے یہ بھی۔اور ایک دفعہ میٹنگ تھی ان کو میٹنگ میں جانے کے لیے ٹرین کے کرایہ کے اے سی کے ٹکٹ کے پیسے ملے۔ واپسی پہ ان کے کچھ رشتہ داروں نے کہا کہ ہم نے ساتھ جانا ہے تو انہوں نے اپنا ٹکٹ چینج کروا لیااور سیکنڈ کلاس میں رشتہ داروں کے ساتھ گئے اور باقی پیسے جو تھے وہ حکومت کو واپس کر دیے۔ایک دفعہ یہ وہاں ان کا یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا جو چیئرمین تھا اس کے دفتر میں گئے تو انہوں نے ان کو ملنے کے لیے اپنا کارڈ بھیجا تو ڈائریکٹر صاحب جو تھے وہ خود باہر آ گئے اور اپنے ایک دوست کو جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے کہ یہ وہ شخص ہے جس کی دیانتداری کا میں آپ سے ذکر کر رہا تھا کہ ایسا دیانتدار شخص ہے۔تو انہوں نے وہاں فوراً جماعتی تعارف بھی کروا دیا کہ میں احمدی ہوں۔ یہ ساری جو امانتداری ہے یہ احمدی ہونے کی وجہ سے میرے اندر ہے۔ پس

احمدیوں کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ہمیشہ ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں اور کسی قسم کا کبھی مالی لالچ نہیں کرنا چاہیے۔

چندوں کی ادائیگی اور مالی قربانی میں پیش پیش ہوتے تھے۔ والدین، بہن بھائیوں کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف سے بھی باقاعدگی سےتحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے چندے دیا کرتے تھے۔ بہت پیار کرنے والی شخصیت تھی۔ یونیورسٹی کے سارے طلبہ کو بچوں اور بھائیوں کی طرح رکھا۔ ایک نماز، مغرب کی نماز خاص طور پہ ہم سب اکٹھے ہو کر ان کے گھر میں پڑھا کرتے تھے۔ ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے تھے۔ بڑے قانع انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

(الفضل انٹرنیشنل جمعۃ المبارک یکم دسمبر ۲۰۲۳ء صفحہ ۲ تا ۷)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button