متفرق مضامین

رسو ل اللہﷺ کی ہجرت، جنگوں اور فتح کی قرآنی پیشگوئیاں (قسط اوّل)

(عبدالسمیع خان)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۲۰۲۳ء میں سورۃ الروم میں مذکور پیشگوئی کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد فرمایا:بعض نوجوان اور جوانی میں قدم رکھنے والے بچے بھی پوچھتے ہیں، کئی خط لکھتے ہیں، پچھلے ہفتےبھی بعض خط آئے کہ ہمیں کس طرح پتہ چلے کہ اسلام سچا مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سچے نبی ہیں، باقی نہیں؟یہاں کے ماحول نے ان پر یہ اثر ڈالنا شروع کر دیا ہےکہ ان کو اسلام کی سچائی کے بارے میں شک پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ انہیں اس تاریخ اور غیروں کے اس اظہار سے یقین کر لینا چاہیے اور پھراس زمانے کے بارے میں قرآن کریم میں جو پیشگوئیاں ہیں انہیں بھی دیکھنا چاہیے۔ والدین خود بھی قرآن کریم پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی یہ پیشگوئیاں دکھائیں کہ کس طرح یہ اسلام کی سچائی پر ایک دلیل ہیں۔ اسلام کی سچائی کے ثبوت تو ہزاروں ہیں۔ پس والدین کو بھی اورنوجوانوں کو بھی اپنے علم کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔(الفضل انٹر نیشنل ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۳ء )

قرآن کریم خدائے بزرگ و برتر کا شاہکار کلام ہے جس کے حرف حرف سے خدائی جلووں کا اظہار ہوتا ہے اور ایک ایک سطر کے نیچے الٰہی قدرتوں کے سمندر بہ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سمندر کا تعلق علم غیب سے ہے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر قیامت تک کی پیشگوئیاں اس میں پھیلی پڑی ہیں اور ہر ایک پیشگوئی اپنے وقت پر پوری ہو کر خدا کی ہستی کی دلیل بنتی ہے۔کیونکہ غیب پر صرف وہی قدرت رکھتا ہے اور اپنے ماموروں کو اس سے اطلاع دیتا ہے تاکہ وہ ان کے منجانب اللہ ہونے کی علامت بنے۔

قرآن کریم ۲۳ سال کے عرصہ میں نازل ہوا۔اس کی کئی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآ ن میں بہت سی پیشگوئیاں بیان کی گئی تھیں جو رسول اللہﷺ کی زندگی میں ہی پوری ہو رہی تھیں اور ہر پیشگوئی پوری ہو کر صحابہؓ کے ایمانوں میں اضافہ کرتی تھی۔ قرآن میں اس کا ذکر بھی ہے۔ مثال کے طور پر جب جنگ احزاب میں دشمنوں کے لشکر مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: [وَلَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوۡلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوۡلُہٗ ۫ وَمَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّتَسۡلِیۡمًا](الاحزاب: ۲۳) اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انہوں نے کہا یہی تو ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس نے ان کو نہیں بڑھایا مگر ایمان اور فرمانبرداری میں۔

پس ہر پیشگوئی جو صحابہؓ کو ایمان میں بڑھاتی تھی آج بھی پوری ہو کر اہل ایمان کے یقین میں اضافہ کرتی ہے کہ یہ قرآن خدائے علاّم الغیوب کا کلام ہے۔زیر نظر مضمون میں صرف ان پیشگوئیوں کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا تعلق رسول کریمﷺ کی ہجرت، جنگوں اور فتوحات سے ہے۔اس بارے میں مندرجہ ذیل امور کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

۱۔ قریباً یہ سب آیات اور پیشگوئیاں مکی ہیں یعنی مکہ میں نازل ہوئیں اور اس زمانہ میں نازل ہوئیں جب رسول اللہﷺ اور صحابہؓ کی ہجرت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس دور میں اللہ نے آ پؐ کو یہ خبر دی کہ آپ کو ہجرت کرنی پڑے گی اور جنگیں مسلط کی جائیں گی اور آپ کو وسائل کی کمی کے باوجود فتوحات نصیب ہوں گی۔پھر ان سب پیشگوئیوں کا حرف بہ حرف پورا ہو جانا قرآن کے خدا کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے۔

۲۔ یہ سب پیشگوئیاں اشارات کی شکل میں ہیں اور قرآن پر غور کرنے والے خدا سے علم پا کر ان کو بیان کرتے ہیں۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پیشگوئیوں میں اخفا کا پہلو ہوتا ہے اور ان کے اصل معنی تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب وہ پوری ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے اندازے اور قیاس ہوتے ہیں جو کبھی درست ہوتے ہیں اور کبھی دوسرے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔

۳۔بہت سے امور کے متعلق بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخرت کے بارے میں ہیں اس سے کوئی انکار نہیں مگر ان کا ایک ظہور اس دنیا میں بھی ہوتا ہے اور اگر واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں تو وہ ایک سچی پیشگوئی ہے۔

۴۔قرآن کا یہ اسلوب بھی ہے کہ وہ کئی پیشگوئیاں انبیاء کے واقعات کی شکل میں بیان کرتا ہے۔یہ قصے،کہانیاں نہیں بلکہ مختلف پیرایوں میں رسول اللہﷺ کو آنے والے واقعات کی خبر دی جا رہی تھی جو اپنے وقت پر ظاہر ہوئے۔

۵۔ سنت اللہ کے مطابق ان پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھنے کے لیے احادیث نبویہؐ،صحابہ رسولﷺ،حضرت مسیح موعودؑاور آپؑ کے خلفاء کی تحریرات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔پہلے آیت ہے پھر اس کا ترجمہ ہے اور پھر اس کی مختصر وضاحت لکھی گئی ہے۔ ان سب کی تفاصیل کے لیے اصل کتب دیکھنی چاہئیں۔

۶۔جنگ بدر کو غزواتِ رسولﷺ میں ایک خاص امتیاز حاصل ہے اس لیے جنگ بدر کے متعلق پیشگوئیوں کو الگ بھی بیان کر دیا گیا ہے۔

۷۔ مدینہ ہجرت کے بعد یہود کے متعلق پیشگوئیوں کو الگ درج کیا گیا ہے۔

۸۔رسول کریم ﷺ موعود ادیان عالم تھے۔ اس لیے پہلے صحیفوں میں بھی رسول اللہﷺ کی آمد کی خوشخبریوں کے ساتھ آپ کی ہجرت ،جنگوں اور فتوحات کی پیشگوئیاں موجود ہیں جو قرآ ن کریم سے مطابقت رکھتی ہیں اور پوری ہو کر اپنی اور رسول اللہﷺ کی سچائی ثابت کر چکی ہیں اس لیے مضمون کے آخر پر ان کو بھی درج کر دیا گیا ہے۔

پیشگوئیوں کا سلسلہ

سورت النحل کی آیت نمبر۴۲ہے: وَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا لَـنُبَوِّئَنَّہُمۡ فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً ؕ وَلَاَجۡرُ الۡاٰخِرَۃِ اَکۡبَرُ۔( اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی خاطر ہجرت کی اس کے بعد کہ ان پرظلم کیا گیا ہم ضرور اُنہیں دنیا میں بہترین مقام عطا کریں گے اور آخرت کا اجر تو سب اجروں سے بڑا ہے۔)۔

اس میں ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے پیشگوئی کی گئی ہے کہ ہم مہاجرین کو اس سے بہتر مقام دیں گے۔ چنانچہ مسلمان جہاں بھی گئے ان کو بہتر مقام ملا خواہ وہ حبشہ کی ہجرت ہو یا مدینہ کی جہاں بھی انہوں نے اللہ کے لیے ہجرت کی وہ بہتر ثابت ہوئی۔(تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۱۷۰)

سورت مریم میں عیسائیت کا خاص طور پرذکرکیا گیا ہے۔رسول کریمؐ مکہ میں پیدا ہوئے جہاں عیسائیت کا کوئی خاص زور نہیں تھا سورت مریم رسول اللہﷺ کے دعویٰ نبوت کے چوتھے سال کے آخر یا پانچویں سال کے شروع میں نازل ہوئی۔ اس سے پہلے قرآن کریم نے عیسائیت سے خطاب نہیں کیا۔ لیکن تیسرے سال کے بعد یکدم عیسائیت کو تفصیلی طور پر مخاطب کیا گیا اور سورت مریم میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش، مسیحیوں کے عقائد، دلائل کے ساتھ ان کا رد، اور تفصیل سے عیسائی تاریخ اور مسیح کے متعلق پیشگوئیوں کا ذکر کیا گیا اور کیسی عجیب بات ہے کہ اس کے ۴ یا ۵ ماہ بعد حبشہ کی طرف ہجرت ہو گئی۔ سورت مریم میں عیسائیت کے متعلق تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ اب نہ صرف تم ہجرت کرو گے بلکہ ایک عیسائی ملک میں ہجرت کرو گے۔ اور مسیح کے متعلق تمہارا موقف پوچھا جائے گا۔ اس لiے اس کی تیاری کروائی گئی۔ چنانچہ حضرت جعفرؓ نے نجاشی شاہ حبشہ کے دربار میں سورت مریم کی آیات پڑھ کر ہی اپنا عقیدہ بیان کیا اور نجاشی نے اس کی تصدیق کی اور بالآخر مسلمان بھی ہو گیا۔ (تفسیر کبیر جلد۵صفحہ ۶تا ۷)

سورۃ القمر کی آیت نمبر ۲ ہے: اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانۡشَقَّ الۡقَمَرُ۔(ساعت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ) چاند سے مراد عربوں کی بادشاہت کا دَور ہے اور چاند کی یہ تفسیر بھی خود آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے۔ سورۃ القمر کے آغاز ہی میں یہ خبر دےدی گئی تھی کہ وہ گھڑی آگئی ہے اور اس پر چاند نے دو ٹکڑے ہوکر گواہی دے دی۔ پس اب ہمیشہ کے لیے مشرکین کی بادشاہت کا دَور ختم ہوا اور وہ گھڑی آگئی جو انقلاب کی گھڑی تھی اور جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے ساتھ برپا ہونی تھی۔

سورت طہٰ کی آیت نمبر ۷۸ہے: وَلَقَدۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی ۬ۙ اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡ فَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ یَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَکًا وَّلَا تَخۡشٰی۔( اور یقیناً ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی تھی کہ میرے بندوں کو رات کے وقت لے چل اور ان کے لئے سمندر میں ایسی راہ اختیار کر جو خشک ہو۔ نہ تجھے پکڑے جانے کا خوف ہو گا اور نہ تُو ڈرے گا۔)اس میں ذکر تو موسیٰ کا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا نقشہ کھینچ دیا ہے (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۹۸) موسیٰؑ کی طرح آپ نے بھی رات کے وقت ہجرت شروع کی اور گو سمندر کے راستہ نہیں گئے مگر معمول کا راستہ چھوڑ کر سمندر کے ساتھ ساتھ ویران راستہ اختیار کیا۔

قرآن مجید میں حضرت ایوبؑ کا بھی ذکر ہے جو ایک ظالم بادشاہ کے ماتحت رہتے تھے اور پانی کی بھی کمی تھی۔ خدا نے انہیں ہجرت کا حکم دیا اور ان کی تکالیف دُور کر دیں اور ان کے اہل و عیال اور دوسرے رشتہ دار بھی ان کے پاس پہنچا دیے۔

سورت الانبیاء کی آیات ۸۵،۸۴ ہیں:وَاَیُّوۡبَ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ۔ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَکَشَفۡنَا مَا بِہٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّاٰتَیۡنٰہُ اَہۡلَہٗ وَمِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا۔(اور ایوب کا بھی ذکر کرجب اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ مجھے سخت اذیت پہنچی ہے اور تُو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔پس ہم نے اس کی دعا قبول کرلی اور اس کو جو بھی تکلیف تھی اسے دور کردیا۔ اور ہم نے اُسے اُس کے گھر والے عطا کر دیے اور ان کے ساتھ اور بھی اُن جیسے دیے جو ہماری طرف سے ایک رحمت کے طور پر تھا )حضرت ایوبؑ کے واقعات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ تمہیں بھی یہ مشرکانہ علاقہ اور ظالم حکمران چھوڑ کر ہجرت کرنی ہوگی جہاں پانی ہو گا اور چھوڑی ہوئی بیویوں کے علاوہ دیگر رشتہ دار اور بیویاں بھی مل گئیں۔( تفسیر کبیر جلد۵صفحہ ۵۵۴)

سورت ص کی آیت نمبر ۴۴،۴۳ میں بھی حضرت ایوبؑ کے حوالے سے لکھا ہے: اُرۡکُضۡ بِرِجۡلِکَ ۚ ہٰذَا مُغۡتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ۔ وَوَہَبۡنَا لَہٗۤ اَہۡلَہٗ وَمِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ(ہم نے اسے کہااپنی سواری کو ایڑ لگا۔ یہ قریب ہی نہانے کے لیے ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کے لیے بھی۔ اور پھر ہم نے اسے اس کے اہلِ خانہ اور ان کے علاوہ ان جیسے اور بھی عطا کر دیے۔)

اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی پیشگوئی ہے۔ اپنی سواری کو اس سرزمین کی طرف لے چل جہاں آپ کے لیے آرام کے سامان مہیا ہیں اور اہل و عیال اور احباب اس کی مثل دیے جائیں گے۔ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۴۹۱)

سورۃ النمل کی آیت نمبر ۵۷ہے:فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَخۡرِجُوۡۤا اٰلَ لُوۡطٍ مِّنۡ قَرۡیَتِکُمۡ۔یعنی حضرت لوطؑ کی قوم نے ان کو شہر سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم بھی آپ کو نکال دے گی چنانچہ رسول اللہؐ اور آپؐ کے بہت سے صحابہ مکہ سے نکل گئے۔حضرت لوطؑ کی بیوی پیچھے رہ گئی مگر رسول اللہ کا مقام لوطؑ سے بہت بلند تھا اس لیے آپ کی ازواج بھی بعد میں پہنچ گئیں۔(تفسیر کبیر جلد۷صفحہ۴۰۸)

سورت یوسف مکی سورت ہے۔ اس میں حضرت یوسف کے واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ در اصل یہ پیشگوئیاں ہیں جو رسول کریمﷺ پر آنے والے حالات کی خبر دے رہی تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں ۱۸ پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے اس مضمون سے متعلقہ چند حصے بیان کیے جاتے ہیں۔سورت یوسف کی آیات نمبر۶،۵ ہیں اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوۡکَبًا وَّالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ۔قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقۡصُصۡ رُءۡیَاکَ عَلٰۤی اِخۡوَتِکَ فَیَکِیۡدُوۡا لَکَ کَیۡدًا (جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ! یقیناً میں نے رؤیا میں گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے ہیں۔ اورمیں نے انہیں اپنے لیے سجدہ ریز دیکھا۔اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! اپنی رؤیا اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا ورنہ وہ تیرے خلاف کوئی چال چلیں گے۔)

حضرت یوسف ؑکے خواب سنانے پر حضرت یعقوب ؑنے کہا کہ اس روٴیا کو جب تیرے بھائی سنیں گے تو تیری مخالفت کریں گے اسی طرح ورقہ بن نوفل نے رسول اللہﷺکی وحی سن کر کہا کہ ایک وقت آئے گا کہ تیری قوم تجھے نکال دے گی اور سخت مخالفت کرے گی۔جس طرح حضرت یوسفؑ کو قتل کرنے کے منصوبے کیے گئے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی مشورے اور منصوبے کیے گئے۔

سورت یوسف کی آیت نمبر۱۱ہےوَاَلۡقُوۡہُ فِیۡ غَیٰبَتِ الۡجُبِّ (حضرت یوسف کے بھائیوں نے مشورہ کیا کہ اُسے کسی کنویں کی اوجھل تہوں میں پھینک دو )حضرت یوسف کو کنویں میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کے وقت مکہ سے نکل کر غار ثور میں پناہ لینی پڑی جہاں موت کا خطرہ تھا۔ جس طرح یوسف کے قتل کے بارے میں بعض لوگوں نے مخالفت کی تھی (یوسف آیت ۱۱)اسی طرح رسول کریمؐ کے قتل کے منصوبے میں بھی بعض کفار نے مخالفت کی اورایک دفعہ بڑے لوگوں سے وہ معاہدہ ختم کرا دیا جو شعب ابی طالب میں رسول اللہﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو بھوکا مارنے کے متعلق کیا گیا تھا۔حضرت یوسف کو بھائیوں نے اس لیے نکالا تھا کہ یہ ذلیل ہو جائے گا اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلنا پڑا مگر اللہ نے دونوں کو عزت دی۔ فرق یہ ہے کہ وہ یوسف ؑکی عزت بادشاہ کی طرف سے تھی جب کہ رسول اللہؐ کو اللہ تعالیٰ نے حکومت عطا کی اور خود بادشاہ بنایا۔

سورۃ الشعراء کی آیت نمبر۲۲۸ہے: اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّانۡتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا ؕ وَسَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ۔(سوائے اُن کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کثرت سے اللہ کو یاد کیا اور ظلم کا نشانہ بننے کے بعد اس کا بدلہ لیا۔ اور وہ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس لَوٹنے کے مقام پر لَوٹ جائیں گے) یہ مکی سورت ہے اور اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ ہم اپنے مظلوم بندوں کو دشمن کے مقابلہ کی اجازت دے دیں گےاور پھر ظالم جان لیں گے کہ ان کا انجام کیسا ہے۔ (تفسیر کبیر حضرت مصلح موعود ؓ جلد۷صفحہ ۳۰۹)

سورت النبا کی متعدد آیات سے حضرت مصلح موعودؓ نے پیشگوئیوں کا استنباط کیا ہے۔آیت نمبر۱۸ہے: إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيْقَاتًا (یقیناً فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے )اس میں یوم الفصل سے مراد وہ دن ہے جب کفار کو مکہ سے چلے جانے کا حکم دیا گیا۔ اس کا ذکر سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات میں ہے(تفسیر کبیر جلد۸صفحہ ۲۹) بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ۔فَسِیۡحُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّاعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ۙ وَاَنَّ اللّٰہَ مُخۡزِی الۡکٰفِرِیۡنَ۔( اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری (کا پیغام بھیجا جا رہا) ہے اُن مشرکین کی طرف جن سے تم نے معاہدہ کیا ہے۔ پس چار مہینہ تک تم زمین میں خوب چلو پھرو اور جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکوگے اور یہ کہ یقیناً اللہ کافروں کو رُسوا کردے گا۔)

سورۃ النباء کی آیت نمبر۱۹ہے: یَّوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ فَتَاۡتُوۡنَ اَفۡوَاجًا۔(جس دن صور میں پھونکا جائے گا اور تم فوج در فوج آؤ گے )اس میں نفخ صور سے مراد صلح حدیبیہ کا زمانہ ہےگویا اس نے فتح مکہ کی بنیاد رکھ دی۔(تفسیر کبیر جلد۸صفحہ۳۲)

سورت النبا کی آیت نمبر۲۰ہے :وَّفُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتۡ اَبۡوَابًا (اور آسمان کھول دیا جائے گا پس وہ کئی دروازوں والا ہو جائے گا ) ابواب السماء سے مراد مومنین پر نازل ہونے والی برکتیں اور کفار پر نازل ہونے والے عذاب ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ۳۲)سورۃ النبا کی آیت نمبر۲۱ہے:وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا( اور پہاڑ چلائے جائیں گے اور وہ نشیب کی طرف متحرک ہو جائیں گے ) پہاڑ چلانے سے مراد یہ ہے کہ سرداران قریش گھروں سے نکالے جائیں گے اور سراب کی مانند ہو جائیں گے۔(تفسیر کبیر جلد۸صفحہ۳۲)

سورۃ النبا کی آیت ۳۲ ہے: اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ مَفَازًا۔ (یقیناً متقیوں کے لیے کامیابی مقدرہے۔) یہ سورت ابتدائی دو تین سالوں کی ہے جب مسلمان مکہ میں ماریں کھا رہے تھے۔ان کی تعداد ۴۰سے زیادہ نہیں تھی۔اللہ ان ظلموں کو مٹانے کی خبر دیتا ہے۔ چنانچہ پہلے حبشہ مفاز بنا پھر مدینہ پھر سارا عرب اور پھر ساری وسطی دنیا۔

سورۃ النباء کی آیت ۳۳ ہے:حَدَآئِقَ وَاَعۡنَابًا ۔ (یعنی باغات اور انگور) حدیقہ ایسے باغ کو کہتے ہیں جس کے گرد دیوار ہو۔ ایسے باغات/حدائق مکہ میں نہیں ہوتے مدینہ میں ہوتے ہیں۔پس مفاز کی ایک علامت حدیقہ ہے۔سورۃ النبا کی آیت نمبر۳۴ ہے :وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا۔( اور ہم عمر نوجوان عورتیں )کواعب سے مراد نوجوان عورتیں اور اتراب سے مراد ہم عمر عورتیں۔اس میں مدینہ میں ملنے والی فوز کی علامت بیان ہوئی ہے کواعب میں ان کے دینی معیار کی بلندی اور اتراب میں ان کے قومی معیار کی بلندی کی پیشگوئی ہے۔ (تفسیر کبیر جلد۸صفحہ۴۹۔۵۲)

سورۃ النبا کی آیت نمبر ۳۹ ہے: یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَالۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ( جس دن روح القدس اور فرشتے صف بہ صف کھڑےہوں گے وہ کلام نہیں کریں گے سوائے اس کے جسے رحمان اجازت دے گا اور وہ درست بات کہے گا ) اس میں روح سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ملائکہ سے مراد فرشتہ صفت صحابہؓ ہیں یعنی جب محمد رسول اللہؐ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے نکلیں گے تو فرشتوں اور صحابہ کی فوج آپ کے ہمراہ ہو گی۔اور جب آپ فتح مکہ پر خطاب کریں گے تو آپ کے سامنے سب گنگے ہو جائیں گے اور یہ بھی کہ صحابہ جب بولیں گے تو صحیح اور درست مشورہ دیں گے۔ (تفسیر کبیر جلد۸صفحہ۶۲)

سورۃ النبا کی آیت نمبر ۴۱ ہے: یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا( کافر کہے گا کاش میں خاک ہو چکا ہوتا)اس میں فتح مکہ کے بعد کفار مکہ کی حالت زار کا ذکر ہے۔(تفسیر کبیر جلد۸صفحہ۶۵)

سورۃ النازعات کی آیات ۲ تا ۶یہ ہیں: وَالنّٰزِعٰتِ غَرۡقًا۔وَّالنّٰشِطٰتِ نَشۡطًا۔وَّالسّٰبِحٰتِ سَبۡحًا۔فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا۔فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا ۔(قسم ہے پوری طاقت سے کھینچنے والیوں کی۔اور خوب اچھی طرح گرہ باندھنے والیوں کی اور دور نکل جانے والیوں کی پھر ایک دوسری پر سبقت لے جانے والیوں کی پھر کسی اہم کام کے منصوبے بنانے والیوں کی۔)ان میں مکی زندگی کی حالت میں مسلمانوں کی جنگی صلاحیت اور فتوحات کی خبر دی جا رہی ہے۔ وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا سے مراد مسلمانوں کے وہ گروہ ہیں جو تیر اندازی میں کمال حاصل کریں گے اور استغراق کی کیفیت ان کو مل جائے گی اور وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا وہ دشمنوں کو رسیوں سے باندھیں گے۔ وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا پھر وہ فنون جنگ کے ماہر ہو جائیں گے اور ان کی جنگیں مدینہ سے دُور چلی جائیں گی۔ فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا جنگوں کی لمبائی اور وسعت ان کو نہیں تھکائے گی اور ان کے حوصلے ایک دوسرے سے بڑھتے جائیں گے۔ فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا اور آخر زمام حکومت ان کے ہاتھ میں آ جائے گی۔ (تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ۹۹تا ۱۰۲)سورۃ النازعات کی آیت نمبر۷ہے:يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ (جس دن سخت لرزہ کھانے والی سخت لرزہ کھائے گی )یعنی ایک دن مسلمان جنگ کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ ( ایک پیچھے آنے والی اس کے پیچھے آئے گی )یعنی پھر پے در پے جنگیں ہوں گی۔اور فتح پانے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ (تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۱۱۲)

سورۃ النازعات کی آیت نمبر۱۴۔۱۵ہے: فَاِنَّمَا ہِیَ زَجۡرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔فَاِذَا ہُمۡ بِالسَّاہِرَۃِ۔ ( پس سنو یہ تو یقیناً ایک بڑی ڈانٹ ہو گی تب اچانک وہ ایک کھلے میدان میں ہوں گے) یہ عذابوں کے سلسلے کا پہلا عذاب ہو گا پھر مسلسل انہیں مقابلے پر آنا پڑے گا۔ (تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۱۱۸)

سورۃ النازعات کی آیت نمبر۳۵ ہے: فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّۃُ الۡکُبۡرٰی۔(پس جب سب سے بڑی مصیبت آئے گی )طامہ اس مصیبت کو کہتے ہیں جو سب مصیبتوں پر غالب آ جائے۔یہاں چھوٹی چھوٹی جنگوں کے بعد فتح مکہ مراد ہے۔ (تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۱۳۵)

سورۃ النازعات کی آیت نمبر۴۷ہے:کَاَنَّہُمۡ یَوۡمَ یَرَوۡنَہَا لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا عَشِیَّۃً اَوۡ ضُحٰہَا۔ ( جب وہ اسے دیکھیں گے تو گمان کریں گے کہ گویا وہ ایک شام یا اس کی صبح کے سوا اس دنیا میں نہیں رہے ) جب وہ عذاب آئے گا تو کفار اپنی ساری شان و شوکت بھول جائیں گے اور انہیں اپنی ترقی کا دور یوں معلوم ہو گا جیسے وہ چند گھنٹے کا تھا یعنی اسلام کے مقابلہ میں ان کی تاریخیں اور عظمتیں مٹ جائیں گی۔چنانچہ مؤرخ چند صفحات میں عرب کی ساری تاریخ لکھ دیتے ہیں اور پھر ہزاروں صفحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تاریخ کےلیے وقف کر دیتے ہیں۔اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا گیا کہ یَنْقَطِعُ مِنْ آبَائِکَ وَیُبْدَءُ مِنْکَ…(تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۱۴۳)

سورۃ البقرہ کی آیت ۱۵۱،۱۵۰ میں مکہ کی فتح کی پیشگوئی ہے وَمِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ… وَمِنۡ حَیۡثُ خَرَجۡتَ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَحَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ۔(اور جہاں کہیں سے بھی تو نکلے اپنی توجہ مسجدِ حرام ہی کی طرف پھیر…اور جہاں کہیں سے بھی تو نکلے اپنی توجہ مسجدِ حرام ہی کی طرف پھیر۔ اور جہاں کہیں بھی تم ہو اسی کی جانب اپنی توجہ پھیرو) اس وقت مکہ پر کفار کی حکومت تھی فرمایا تمہارا مکہ سے نکلنا عارضی ہے تم اپنی پوری توجہ مکہ واپسی پر مرکوز رکھو۔(تفسیر کبیر جلد۲ صفحہ۲۶۲)

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر۲۱۳ہے:وَالَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَاللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ میں یوم القیامہ سے مراد فتح مکہ وغیرہ کے واقعات ہیں جب صحابہؓ کو غلبہ ملا اور بغیر حساب رزق ملا۔ یعنی بکریوں کے چرواہے دنیا کے بادشاہ ہو گئے۔ (تفسیر کبیر جلد۸صفحہ ۱۹۱)

سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر۴ہے:لَنۡ تَنۡفَعَکُمۡ اَرۡحَامُکُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ ۚۛ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۚۛ یَفۡصِلُ بَیۡنَکُمۡ۔یوم القیامہ سے مراد فتح مکہ اور بعد کے زمانہ کا وہ فیصلہ کا دن تھا جس نے کافرومومن کو الگ الگ کر دیا۔ (تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۱۹۱)

سورۃ الملک کی آیت نمبر ۱۸ ہے :اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا۔(کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے محفوظ ہو کہ وہ تم پر پتھر برسانے والے جھکڑ چلائے)حَاصِبًا میں غزوہ خندق کی طرف اشارہ ہے جب تیز آندھی آئی۔(حقائق الفرقان۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ۔ جلد ۴صفحہ ۱۷۱)

سورۃ السجدہ کی آیت نمبر۲۲ہے: وَلَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ(اورہم یقیناً انہیں بڑے عذاب سے وَرے چھوٹے عذاب میں سے کچھ چکھائیں گے۔)قیامت کبریٰ کے ثبوت کے لیے اس سے پیشتر ایک اور قیامت خیز واقعہ فتح مکہ وغیرہ کا ہو گا۔ (حقائق الفرقان جلد ۴ صفحہ ۳۰۹)

سورۃ النور کی آیت نمبر۴۲ہے :اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالطَّیۡرُ صٰٓفّٰتٍ(کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی ہے جس کی تسبیح کرتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور پَر پھیلائے ہوئے پرندے بھی )اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ کفار کی لاشوں کو پرندے نوچ کر کھائیں گے۔(حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۲۲۰)

سورۃ الرعد کی آیت ۳۲ میں اہل مکہ کے خلاف چھوٹے چھوٹے لشکروں کو بھیجنے اور بالآخر رسو ل اللہﷺ کے مکہ فتح کرنے کی پیشگوئی ہے۔ وَلَا یَزَالُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا تُصِیۡبُہُمۡ بِمَا صَنَعُوۡا قَارِعَۃٌ اَوۡ تَحُلُّ قَرِیۡبًا مِّنۡ دَارِہِمۡ۔ (اور وہ لوگ جو کافر ہوئے انہیں ان کی کارگزاریوں کے سبب سے دلوں کوکھٹکھٹانے والی ایک آفت پہنچتی رہے گی یا وہ تنبیہ ان کے گھروں کے قریب نازل ہو گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آپہنچے۔ )یاد رہے کہ قارعہ جنگی دستوں کو بھی کہتے ہیں۔(حقائق الفرقان جلد ۲صفحہ ۴۲۲)مراد یہ ہے کہ کفار کو مسلمانوں کے جنگی دستوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔

سورۃ الحج کی آیت نمبر۲ہے:یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ۔( اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً ساعت کا زلزلہ ایک بہت بڑی چیز ہو گی)اس میں قیامت اور زلزلوں کے علاوہ اس قسم کے واقعات کا بھی ذکر ہے جن سے زلزلہ جیسی کیفیات پیدا ہوتی ہوں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓنے اس سے فتح مکہ بھی مراد لی ہے اور اس سورت کا نام بھی سورۃ الحج ہے یعنی ایک عظیم جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے حج ممکن ہو جائے گا۔ (تفسیر کبیر جلد۶ صفحہ ۶)

سورۃ الانفال کی آیت ۳۵ ہے: یَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَمَا کَانُوۡۤا اَوۡلِیَآءَہٗ ؕ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ (وہ حرمت والی مسجد سے لوگوں کو روکتے ہیں حالانکہ وہ اس کے حقیقی والی نہیں۔ اس کے حقیقی والی تو متقیوں کے سوا اور کوئی نہیں ) اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ کعبہ کے متولی کافروں کی بجائے مسلمان ہو جائیں گے۔ (حقائق الفرقان جلد ۲صفحہ ۲۶۳)

سورۃ البلد کی آیت نمبر ۲۔۳ ہے:لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ۔وَاَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ۔(میں کفار کے جھوٹا ہونے کے ثبوت میں مکہ شہر کو پیش کرتا ہوں کہ تو ایک دن پھر اس شہر میں کامیاب طور پر واپس آنے والا ہے) یعنی تو اس شہر سے جا کر پھر واپس اترنے والا ہےگویا ہجرت اور واپسی کی پیشگوئی ہے۔ تیرے لیے اس شہر کو وقتی طور پر حلال کیا جائے گا اور تلوار کے ساتھ فتح کرے گا۔ (تفسیر کبیر جلد۸ زیر آیت)

سورت بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۸۱ ہے: وَقُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّاَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا (اور تُو کہہ اے میرے ربّ! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لئے طاقتور مددگار عطا کر۔) اس میں بھی مکہ میں کامیاب واپسی اور مکہ سے نکلنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور ایسے غلبہ کی دعا ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہو۔(تفسیر کبیر جلد۷صفحہ ۵۵۸)

سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ۲۰۲ اور ۲۰۳ ہے: لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ حَتّٰی یَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ۔فَیَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً وَّہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ۔( وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ درد ناک عذاب کو دیکھ لیں۔ پس وہ ان کے پاس اچانک آجائے گااور وہ کوئی شعور نہ رکھتے ہوں گے۔) اس میں اہل مکہ پر آنے والے اچانک عذاب کے بعد ان کے ایمان لانے کی پیشگوئی ہے چنانچہ فتح مکہ کا واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابوسفیان جیسا جہاندیدہ سردار بھی حیران رہ گیا۔ (تفسیر کبیر جلد۷صفحہ ۲۷۳)

سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر۲تا۴یہ ہیں: وَالضُّحٰی۔ وَالَّیۡلِ اِذَا سَجٰی۔مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی ۔ (قسم ہے دن کی جب وہ خوب روشن ہو جائے اور رات کی جب وہ خوب تاریک ہو جائے تجھے تیرے رب نے نہ چھوڑا ہے اور نہ نفرت کی ہے )یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کی ایک خاص ضحی اور لیل ہے۔ ضحی سے مراد فتح مکہ کی دوپہر اور لیل سے مراد ہجرت کی رات ہے اور ہر دو کی گواہی ہے کہ اللہ ہمہ وقت رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا۔دوسرے معنی یہ ہیں کہ اسلام پر تنزل کے زمانے آتے رہیں گے مگر یہ عارضی ہوں گے اور ہر لیل کے بعد ضحی اور ترقی کا دور آئے گا اور شریعت اسلامیہ دونوں زمانوں میں محفوظ رہے گی۔ (تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۷۲۔۸۶)

سورۃ الفتح کی آیت نمبر۲۸ہے: لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ( یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو اس کی رؤیا حق کے ساتھ پوری کردکھائی کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجدِ حرام میں امن کی حالت میں داخل ہوگے) اس میں مومنوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جو رؤیا دکھائی گئی تھی وہ یقیناً حق کے ساتھ پوری ہوگی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اس پر گواہ ٹھہریں گے کہ وہ مناسکِ حج ادا کرتے ہوئے مکہ معظمہ میں داخل ہوں گے اور مکہ پر یہ غلبہ تمام بنی نوع انسان پر غلبہ کا پیش خیمہ بنے گا۔

سورۃ الحجر کی آیت نمبر ۱۰ہے:اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ۔ (یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر اُتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔)اس میں قرآن کی حفاظت کے ساتھ اسلامی حکومت کی پیشگوئی بھی ہے کیونکہ قرآن مجید ہر قسم کی سیاسی، اقتصادی اور انتظامی تعلیمات کا مجموعہ ہے اور شرعی کلام جب تک اپنے ابتدائی ایام میں ایک حکومت کے ساتھ متعلق نہ ہو اس کی تعلیم کے عملی حصے کی خوبیاں پوری طرح ظاہر نہیں ہو سکتیں۔پس الذکر کی حفاظت کے لیے ایک حاکم قوم کی ضرورت تھی جو اللہ نے غیر معمولی حالات میں عطا کر دی۔(تفسیر کبیر جلد۴صفحہ۲۰)

سورۃ الغاشیہ کی آیت نمبر ۳۹ ہے :هَلْ أَتَاكَ حَدِيْثُ الْغَاشِيَةِ۔ (کیا تجھے مدہوش کر دینے والی ساعت کی خبر پہنچی ہے) غاشیہ کے معنی اس شخص کے بھی ہوتے ہیں جس کے پاس کثرت سے لوگ آئیں۔ اس میں گویا سال وفود کی خبر دی گئی ہے۔(تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۴۴۵)یعنی ۹ ھ کی جب کثرت سےوفود آئے اور اسلام قبول کیا۔

جب سورۃ النصر نازل ہوئی اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ۔ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا۔ (جب اللہ کی مدد اور فتح آئے گی اورتو لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں ) تو صحابہ سمجھ گئے کہ اس میں رسول کریم ؐکی وفات کی خبر ہے۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر۔سورۃ النصر حدیث نمبر ۴۹۷۰)رسول اللہﷺ نے خود حضرت فاطمہؓ کو بلا کر کہا کہ مجھے وفات کی اطلاع دی گئی ہے۔ ( معجم الکبیر طبرانی جلد ۱۱ صفحہ ۳۳۰ حدیث نمبر ۱۱۹۰۷ ) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مسیح کی عمر ۱۲۰ سال تھی اور مجھے لگتا ہے کہ میری عمر ان سے نصف ہو گی۔ ( معجم الکبیر طبرانی جلد ۲۲ صفحہ ۴۱۷حدیث نمبر ۱۰۳۱)سورۃ النصر کی آیت نمبر۴ہے :فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ (پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر اور اس سے مغفرت مانگ )اس میں یہ اشارہ تھا کہ آپ کافروں کے لیے استغفار کریں اور فتح مکہ کے موقع پر ان کو بخش دیں۔(حقائق الفرقان جلد ۴ صفحہ ۵۳۲)

سورۃ الحج کی آیت نمبر ۴۸ ہے: اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ۔حضرت مسیح موعودؑ اس سے دنیا کی عمر کا استدلال کرتے ہیں کہ وہ ۷ ہزار سال ہے۔(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۴۶) نیز قرآن کریم کی سورۃ العصر کے اعداد میں آدم کی پیدائش سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سن وصال تک کا زمانہ بتادیا گیا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورة العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے یعنی تیئیس۲۳ برس کا تمام وکامل زمانہ یہ کل مدت گذشتہ زما نہ کے ساتھ ملاکر ۴۷۳۹برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سے ہیں۔(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ۲۵۱)

جنگ بدر کے متعلق پیشگوئیاں

سور بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۷۷ ہے:وَاِنۡ کَادُوۡا لَیَسۡتَفِزُّوۡنَکَ مِنَ الۡاَرۡضِ لِیُخۡرِجُوۡکَ مِنۡہَا وَاِذًا لَّا یَلۡبَثُوۡنَ خِلٰفَکَ اِلَّا قَلِیۡلًا۔(اور ان سے بعید نہیں تھا کہ وطن سے تیرے پاؤں اُکھاڑ دیتے تاکہ تجھے اُس سے باہر نکال دیں۔ ایسی صورت میں وہ بھی تیرے بعد زیادہ دیر نہ رہ سکتے۔)فرمایا کہ یہ لوگ تجھے مکہ سے نکالنے والے ہیں تیرے بعد یہ لوگ بھی تھوڑی دیر رہیں گے۔ (حقائق الفرقان جلد ۴صفحہ ۲۴۸) چنانچہ ہجرت رسول کے اگلے ہی سال جنگ بدر میں اہل مکہ کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ (حقائق الفرقان جلد ۲صفحہ ۸۵۵)

سورت سبا کی آیت نمبر ۲۷ ہے: یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفۡتَحُ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ (تُو کہہ دے کہ ہمارا ربّ ہمیں اکٹھا کرے گا پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا) اس میں بدر کی پیشگوئی ہے آیت نمبر ۳۰ میں وعدہ کا لفظ ہے:وَیَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ(اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پوراہو گا) اور سورت السجدہ کی آیت نمبر ۲۹ میں واضح فتح کا لفظ ہے یَوۡمَ الۡفَتۡحِ لَا یَنۡفَعُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِیۡمَانُہُمۡ۔ (جن لوگوں نے کفر کیا اُن کا فتح کے دن ایمان لانا اُن کو کوئی فائدہ نہ دے گا) سورت سبا کی آیت ۳۱ ہے: لَكُمْ مِيْعَادُ يَوْمٍ(کہ تمہارے لیے ایک معیّن دن کا وعدہ ہے )اس میں یوم سے مراد ایک سال ہےجیسا کہ یسعیاہ باب ۲۱آیت ۱۷میں ہے۔(حقائق الفرقان جلد۳صفحہ ۳۰۰)

سورت ص کی آیت نمبر۱۲ہے:جُنۡدٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہۡزُوۡمٌ مِّنَ الۡاَحۡزَابِ(اَحزاب میں سے ایک لشکرجو وہاں شکست دیا جانے والا ہے۔ ) اس میں جنگ احزاب کی طرف اشارہ ہے۔ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۴۸۱)بعض علما٫ نے اس سے جنگ بدر بھی مراد لی ہے۔

سورۃ البقرہ کی آیت ۲۱۱ ہے:ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ وَالۡمَلٰٓئِکَۃُ وَقُضِیَ الۡاَمۡرُ (کیا وہ محض یہ انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ بادلوں کے سایوں میں ان کے پاس آئے اور فرشتے بھی اور معاملہ نپٹا دیا جائے۔) اس میں اللہ تعالیٰ کے بادلوں میں آنے اور فرشتوں کے نزول کی پیشگوئی ہے۔ فِیۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ وَالۡمَلٰٓئِکَۃُ اس میں جنگ بدر سے پہلے آنے والی بارش اور جنگ میں فرشتوں کی مدد کا ذکر ہے۔ اور وَقُضِیَ الۡاَمۡرُ کے تحت کفار کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اس کے پورا ہونے کا تذکرہ سورت الانفال کی آیت۱۲ میں ہے: اِذۡ یُغَشِّیۡکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنۡہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ وَیُذۡہِبَ عَنۡکُمۡ رِجۡزَ الشَّیۡطٰنِ وَلِیَرۡبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ وَیُثَبِّتَ بِہِ الۡاَقۡدَامَ(یاد کروجب اللہ اپنی طرف سے تم پر امن دیتے ہوئے اونگھ طاری کر رہا تھااور تمہارے لیے آسمان سے ایک پانی اتار رہا تھا تاکہ وہ تمہیں اُس کے ذریعہ خوب پاک کردے اور شیطان کی پلیدی تم سے دور کر دے اور تاکہ وہ تمہارے دلوں کومضبوطی سے باندھ دے اور اِس سے قدموں کو ثبات بخشے۔)نیز آیت نمبر ۱۰ ہے :اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ(جب تم اپنے ربّ سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری التجا کو قبول کرلیا کہ میں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔) اس میں فرشتوں کے نزول کا ذکر ہے۔

سورۃ الفرقان کی آیت نمبر۲۶ہے:یَوۡمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالۡغَمَامِ وَنُزِّلَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ تَنۡزِیۡلًا۔( اور یاد کروجس دن آسمان بادلوں کی گھن گرج سے پھٹنے لگے گا اور فرشتے جوق در جوق اتارے جائیں گے۔)اس میں کافروں پر آنے والے عذاب کی کئی شکلیں بیان کی گئی ہیں۔ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ۲۴۵)اس میں بھی جنگ بدر کا ذکر ہے جب آسمان سے بادل بھی برسے اور فرشتے بھی نازل ہوئے۔ (تفسیر کبیر جلد۶ صفحہ۴۷۹)

سورۃ القمر کی آیت نمبر ۴۲۔۴۳ میں فرعون پر ہونے والی گرفت کے بعد اگلی آیات میں کفار مکہ پر اس سے بڑھ کر گرفت کا ذکر ہے۔اور بتایا گیا ہے کہ کفار کی طرف سے حملے ہوں گے اور قومیں اکٹھی ہو جائیں گی مگر سب لشکر شکست کھائیں گے اور یہ واقعہ فرعون کی سزا سے زیادہ سخت ہو گا اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ نَحۡنُ جَمِیۡعٌ مُّنۡتَصِرٌسَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَیُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ۔(القمر: ۴۶،۴۵) یعنی ضرور اس انبوہِ کثیر کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔یہ پیشگوئی اول طور پر جنگ بدر اور پھر بعد کی جنگوں میں پوری ہوئی۔ فرعون غرق ہو گیا مگر موسیٰ مصر پر قابض نہ ہو ئےجبکہ محمد رسول اللہ کے نہ صرف دشمن ہلاک ہوئے بلکہ آپ مکہ پر بھی غالب آ گئے۔ (تفسیر کبیر جلد۶صفحہ۴۴۶)یہ مکی سورت ہے اور لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ نے پوچھاکہ الجمع سے کیا مراد ہے۔جب جنگ بدر کا وقت آیا تو رسول اللہﷺ خیمہ میں دعا کرتے رہے اور باہر تشریف لا کر یہ آیت پڑھی۔(المعجم الاوسط جلد۹ صفحہ ۵۸ حدیث نمبر ۹۱۲۱۔صحیح البخاری کتاب الجہاد باب فی درع النبیؐ حدیث نمبر ۲۹۱۵ )حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :معتبر تفسیروں میں لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَیُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ و آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ یہ پیشگوئی کس موقعہ کے متعلق ہے۔ اور پھر جب بدر کی لڑائی میں فتح عظیم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اب معلوم ہوا کہ اسی فتح عظیم کی یہ پیشگوئی خبر دیتی تھی۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۴۹ )

سورت بنی اسرائیل کی آیت ۶۹ہے:اَفَاَمِنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمۡ جَانِبَ الۡبَرِّ اَوۡ یُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ وَکِیۡلًا (پس کیا تم اس بات سے امن میں ہو کہ وہ تمہیں خشک زمین پر لے جاکردھنسا دے یا تم پر تیز جھکّڑ چلائے پھر تم اپنے لئے کوئی کارساز نہ پاؤ۔) فرمایا کہ اللہ سے ڈرو کہ وہ تمہیں خشک زمین پر ذلیل کرے یا تم پر سنگریزے نازل کرے۔اس میں جنگ بدر کی پیشگوئی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی میں کنکر پکڑ کر پھینکے تھے اور وہ تیز آندھی میں بدل گئے۔(تفسیر کبیرجلد ۴صفحہ۳۶۴)

سورۃ النمل کی آیت نمبر ۵۹ہے:وَاَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ۔( اور ہم نے ان پر ایک بارش برسائی۔ پس کتنی بُری ہوتی ہے ڈرائے جانے والوں کی بارش)۔اس میں بدر کے موقع پر ہونے والی بارش کی پیشگوئی ہے۔(تفسیر کبیر جلد۷صفحہ ۴۰۸)

سورۃ النبا کی آیت نمبر ۴۱ ہے:اِنَّاۤ اَنۡذَرۡنٰکُمۡ عَذَابًا قَرِیۡبًا (یقیناً ہم نے تمہیں ایک قریب کے عذاب سے متنبہ کر دیا ہے ) اس میں عذاب قریب سے مراد فتح بدر اور فتح مکہ ہیں۔(تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ۳۱۷)(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button