الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ (اُمِّ وسیم)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرم سیّد کمال یوسف صاحب کے قلم سے حضرت سیّدہ عزیزہ بیگم صاحبہ حرم حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔ اپنے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب درویش قادیان و ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام نامی خاص سے ’’اُمّ وسیم‘‘کہلاتی تھیں۔ آپ حضرت سیٹھ محمد ابوبکر یوسف صاحبؓ متوطن جدّہ عرب اور الحاج حضرت عائشہ بیگمؓ کی بیٹی تھیں۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ایک خاص منشا مبارکہ اور مقاصد عالیہ کی تکمیل اور تعمیل کی نیت سے حضرت مصلح موعودؓ نے اس خاندان سے تعلق استوار کرنے سے پہلے خدا کے حضور راہ نمائی کے لیے جب دعا اور استخارہ کا مسنون طریق اختیار فرمایا اور اس کے نتیجہ میں نہ صرف آپؓ ہی کو رؤیائے صالحہ میں اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ کے بابرکت ہونے کی بشارت عطا فرمائی بلکہ حضرت اُمّ المومنینؓ کو بھی آسمانی نوید سے نوازا گیا۔ چنانچہ یکم فروری 1926ءکو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا نکاح حضرت مولانا محمدسرورشاہ صاحبؓ نے پڑھا۔

اس رشتے کے پس منظر کو بیان کرنے اور بعض ضروری امور کی وضاحت کے لیے ’’چند ضروری باتیں‘‘کے عنوان سے حضرت مصلح موعودؓ کا ایک بیان اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان 29؍جنوری 1926ء میں شائع ہوا جس میں حضورؓ تحریر فرماتے ہیں کہ 1914ء میں جب میری شادی امۃالحی مرحومہ سے ہوئی تھی اس وقت مکرمی ابوبکر صاحب جمال یوسف تاجر جدہ نے مجھے لکھا تھا کہ ’جب سے میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے میری خواہش تھی کہ میں اس کی شادی آپ سے کروں لیکن اس خیال سے کہ شاید آپ کو نکاح ثانی پسند نہ ہو خاموش تھا لیکن اب جبکہ آپ نے دوسری شادی کرلی ہے مَیں اس خواہش کا اظہار کر دیتا ہوں۔‘ مَیں نے انہیں تو کوئی جواب نہ دیا لیکن چونکہ میرا ہوش سنبھالتے ہی یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو کہ مسلمانوں کی دوسری زبان عربی ہونی چاہیے پورا کرنے کا یہ بہترین طریق ہے کہ عربی بولنے والی عورتوں سے شادی کی جائے تا بچوں میں عربی کا چرچا ہو اس لیے میں نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ میں اس جگہ ممکن ہوا تو شادی کروں گا اور اس کا اظہار بھی کرتا رہا جس کی اطلاع انہیں بھی ملتی رہی۔ 1924ء میں سیٹھ صاحب قادیان تشریف لے آئے اور گو میرے حالات اس وقت شادی کے متقاضی نہ تھے مگر چونکہ ایک رنگ کا وعدہ ہوچکا تھا میں نے حافظ روشن علی صاحب کی معرفت اس مسئلہ کو طے کرنا چاہا۔ معاملہ ایک حد تک طے ہو چکا تھا کہ امۃالحی صاحبہ کی طبیعت یکدم زیادہ بگڑگئی اور دوچار دن میں فوت ہوگئیں۔اس سے بات درمیان میں رہ گئی۔ لیکن اس دوران میں مَیں نے بعض خوابیں دیکھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس جگہ شادی ہونی مقدّر ہے مگر خوابیں چونکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں مَیں نے خیال نہ کیا لیکن جلسہ کے قریب جبکہ پہلے خیال کو مَیں قطعی طور پر دل سے نکال چکا تھا مَیں نے پھر اسی قسم کی رؤیا دیکھی اور ادھر والدہ صاحبہ (حضرت اماںجانؓ)نے جو اُن دنوں شملہ میں تھیں اس قسم کی رؤیادیکھی جس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ خداتعالیٰ کے نزدیک یہ شادی مقدّر ہے لیکن تب بھی مَیں نے کوئی زیادہ توجہ نہ کی۔ لیکن جلسہ کے موقع پر اور اس کے بعد چند اَور لوگوں نے جن کوکچھ بھی اس امر کی واقفیت نہ تھی ایسی رؤیا سنائیں جن سے اس امر کا اظہار ہوتا تھا اس لیے میں نے استخارہ کرکے دوستوں سے مشورہ کیا اور اکثر دوستوں نے یہی مشورہ دیا کہ مجھے پچھلے وعدوں اور خوابوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ شادی بھی کرلینی چاہیے۔ چونکہ خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قضائے الٰہی یہی ہے اور مَیں خداتعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ رضائے الٰہی بھی یہی ہو اس لیے میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ مَیں اس جگہ نکاح کرلوں۔ سیٹھ صاحب مذکور نہایت مخلص آدمی ہیں اور ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے یہ سامان کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس رشتہ میں کوئی ایسا فائدہ ہو جو اس وقت مجھے نظر نہیں آتا اور آئندہ ظاہر ہو۔وَاللّٰہ اَعۡلَمُ

حضورؓ نے مزید فرمایا کہ سردست تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سیٹھ صاحب کے اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے متواتر اَور کئی آدمیوں کو رؤیا کے ذریعہ سے اس امر کے منشائے الٰہی ہو نے کا علم دیا ہے۔سیٹھ صاحب کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یکمشت جو بڑی سے بڑی رقم سلسلہ کو ملی ہے وہ انہی کی ہے۔انہوں نے سترہ ہزار روپیہ 1918ء میں سلسلہ کی مدد کے لیے دیا تھا۔ غرض کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ ان کے اخلاص کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کرانے کے لیے خوابوں کا ایسا سلسلہ شروع کردیا کہ جس سے میری توجہ مجبوراً پھر اس امر کی طرف پھرگئی۔

حضورؓ نے اس رشتہ کے سلسلہ میں جن احباب سے مشورہ لیا اُن میں سے بعض نے لوگوں کے معترض ہو نے کے اندیشہ کا ذکر کیا۔ اس بارے میں حضورؓ فرماتے ہیں کہ جن دوستوں سے مَیں نے مشورہ کیا ہے ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ اعتراض کریں کہ اس رشتہ کی کیا ضرورت تھی؟ مَیں سمجھتا ہوں اعتراض یا دشمن کرسکتا ہے یا دوست۔دشمن کے اعتراض کی توکچھ پروا ہی نہیں، وہ کیا رسول کریمﷺ پر اعتراض نہیں کرتا؟ باقی رہے دوست سو دوستوں کو مَیں ایسا نہیں سمجھتا کہ وہ اس کام پر جورؤیا کی بِنا پر کیا جاتا ہے اعتراض کریں۔ چار شادیوں تک تو شریعت نے خود اجازت دی ہے۔ اور مجھے خداتعالیٰ نے بچپن سے ہی ایسی زندگی میں سے گزارا ہے کہ اعتراضوں کی، جب وہ بےہودہ ہوں، پروا ہی نہیں۔میرا جسم اعتراضوں کی کثرت سے اعتراضوں کی برداشت کے لیے اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ اب اس پر کوئی اعتراض اثر نہیں کرتا۔ نہ لوگوں کی رضا سے میں خوش ہوتا ہوں نہ ان کی ناراضگی سے ناراض۔مجھے تو صرف خداتعالیٰ کی رضا بس ہے اور اس کی رضا کو پورا کرنے کے لیے دشمن تو الگ رہے اپنے دوستوں سے بھی مجھے الگ ہونا پڑے تو مجھے ایک ذرّہ بھر بھی ملال نہ ہو۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت اُمّ وسیم صاحبہ خاکسار کی بڑی پھوپھی تھیں۔ اس عاجز کو براہ راست سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی زیر کفالت اور آپ موصوفہ کے زیر سایہ عطوفت 1954ء تا 1956ء کے دوران قصر خلافت میں مربیانہ شفقتوں اور بےشمار عنایتوں سے لطف اندوز ہونے کی سعادت حاصل رہی۔ خاکسارجامعۃالمبشرین ربوہ میں زیرتعلیم تھاتوآپ کا مشفقانہ اصرار تھا کہ خاکسار ہاسٹل چھوڑ کر آپ کے ہاں قیام پذیر ہو۔ آپ کا یہ ایسا احسان تھا کہ آپ کے گھر میں قیام کی برکت سے خدا کے فضل سے تمام نمازیں حضرت مصلح موعودؓ کی امامت میں مسجد مبارک میں پڑھنے کی توفیق ملتی رہی اور یہ ایک نعمت غیرمترقبہ تھی۔

جامعۃالمبشرین سے فارغ ہوکر ظہر کی نماز سے قبل گھر (قصر خلافت) آنا ہوتا تو نماز ظہر کا وقت اتنا قریب ہوتا کہ کھانے میں ذرا سی تاخیر سے بھی ظہر کی باجماعت نماز سے محروم ہونے کا دھڑکا لگا رہتا۔خاکسار کو یاد نہیں کہ خاکسار کے تقریباً اڑھائی سال کے قیام کے عرصہ میں کبھی ایک دفعہ بھی ایسا ہو اہو کہ خاکسار کو ظہر کی نماز باجماعت نہ ملی ہو یا اس سے پہلے ظہرانہ بروقت نہ ملا ہو۔ حضرت اُمّ وسیم صاحبہ خاکسار کی نمازباجماعت کا اس قدر خیال رکھتیں کہ خاکسار کے گھر میں قدم رکھتے ہی ملازمہ کو آواز لگاتیں کہ جلد کھانا نکال لاؤ کہیں نماز میں تاخیر نہ ہو جائے۔

آپ کی یہ عادت بھی تھی کہ جب خاکسار عصر کی نماز کے بعد گھر حاضر ہوتا تو آپ بلاناغہ فرماتیں کہ فلاں فلاں صحابہ کرامؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر میری طرف سے دعا کی درخواست کرکے آؤ۔ربوہ میں مقیم تمام صحابہ کرامؓ کے اسماءگرامی اور جائے رہائش آپ کو ازبر تھے۔ موصوفہ کا یہ احسان تھا کہ خاکسار کو کئی بزرگ صحابہ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔

اُس زمانہ کی اہم دعاؤں میں ایک خاص دعا تو حضرت مصلح موعودؓ کی صحت وسلامتی کے لیے ہوتی۔ اس کے علاوہ موصوفہ اپنی ذات کے لیے جو خاص دعا کیا کرتیں اور اس دعا کا بہت تکرار کرتیں وہ یہ ہوتی کہ آپ کی وفات آپ کے شوہر نامدار کی زندگی میں ہو۔ اور آپ کو اپنی اس دعا کے قبول ہونے کا اس قدر یقین تھا کہ اکثر فرمایا کرتیں کہ ’ہم تو چراغ سحری ہیں۔‘ بہر حال خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اورآپ کی وفات حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی میں ہوئی۔

آپ اگرچہ ایک عرصہ سے ذیابیطس کے مرض میںمبتلا تھیں اور روزانہ آپ کو انسولین کا ٹیکہ لگتا تھا تاہم جس روز آپ کے ہاں سیدنا حضور اقدسؓ کی باری ہوتی اس دن بڑی مستعدی اور لگاؤ اور خاص اہتمام سے گھر کی ہر خدمت میں جتی رہتیں۔آپ کو اپنی بزرگ والدہ ماجدہ کی، جو کئی سال سے معذور ہوکر بستر علالت سے لگی رہیں اور آپ کے پاس ہی رہتی تھیں، کی خدمت کی توفیق بھی ملی۔ ایسے ہی اپنے والد بزرگوار کی آخری علالت کے ایام میں بھی خدمت کی توفیق ملی جو آپ ہی کے گھر آگئے تھے۔

آپ کے فرزند اکبر محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب جو مرکز قادیان کے مقدّس تبرّکات کی حفاظت پر خادمانہ زندگی گذارتے رہے۔ ان کی تقریباً سولہ سالہ جدائی کو آپ محسوس تو کرتی ہوں گی مگر زبان سے اس کا اظہار بہت کم کرتی تھیں۔

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی عائلی زندگی مطالباتِ تحریک جدید کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔جس طرح حضورؓ بنفس نفیس بظاہر سفیدپوشی کے بھرم رکھتے ہوئے کفایت شعاری میں ساری جماعت کے لیے نمونہ تھے۔ویسے ہی آپؓ کے تمام اہل بیت خورونوش، لباس، رہن سہن کے اہتمام میں غیرمعمولی تکلّفات سے مبرا اور سادہ شعار تھے۔حضرت اُمّ وسیم صاحبہ کی کفالت میں ربوہ میں ایک تو آپ کی بزرگ والدہ ماجدہ تھیں۔ پھر آپ کے چھوٹے صاحبزادے مرزا نعیم احمد افسر امانت تحریک جدید تھے۔خاکسار کے علاوہ ایک مستقل ملازمہ تھیں۔ جب آپ کی والدہ ماجدہ مستقلاً صاحب فراش ہوگئیں تو اُن کے لیے علیحدہ سے ایک مزید ملازمہ رکھنی پڑی اس طرح ہم کُل چھ افراد تھے (بار ی سے حضرت مصلح موعودؓ بھی رونق افروز ہوتے)۔ ان چھ افراد کے جملہ اخراجات کے لیے حضرت سیدیؓ کی جیب خاص سے 130؍روپے کے لگ بھگ نَپاتُلا بجٹ ملتا۔خدا کے فضل سے اس رقم میں ایسی برکت تھی کہ نہ صرف یہ کہ باحسن ساری ضروریاتِ زندگی پوری ہوجاتیں بلکہ مہمان نوازی، غریب پروری وغیرہ کے علاوہ جماعت کی تمام مالی تحریکات میں بھی حصہ لینے کی توفیق ملتی۔

گھر میں صرف ٹین کا ایک بڑا ٹرنک تھا جس میں ہم سب کے پہننے کے کپڑے بآسانی سما جاتے پھر بھی مزید کی گنجائش رہتی۔اس کے علاوہ ٹین کی ایک بڑی پیٹی میں موسم سرما کے لیے بستر ہوتے۔

آپ قمیص کے ساتھ ہمیشہ تنگ پائجامہ پہنتی تھیں۔ ربوہ میں گھر سے باہرپیدل تو شاذہی جانا ہوتا۔ اگر کہیں جاتیں تو ان کا نقاب اوڑھنے کا طریق عرب خواتین کی طرح کا ہوتا جس سے صاف ظاہر ہوتا کہ یہ ہندوستان کی کوئی خاتون نہیں ہیں۔ سنگھار،پٹی کے تکلّفات بھی نہیں تھے۔ صرف ٹیلکم پاؤڈر تھا جو ربوہ میں عام ملتا تھا اور گاہے گاہے استعمال میں رہتا۔ شادی بیاہ پر لپ اسٹک لگالیتیں۔سادہ سی انگوٹھی پہنتی تھیں۔کوئی اَور زیور خاکسار نے نہیں دیکھا۔ خوشبو کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے اپنے تیارکردہ عطریات آپ کے استعمال میں رہتے۔گرمیوں میں چھت کے پنکھے کی سہولت تھی۔ بیٹھک میں ایک سادہ سا صوفہ سیٹ تھا جو کراچی کے کسی فرنیچر کے تاجر نے ہدیتہ دیا ہوا تھا۔ آپ کے اپنے کمرہ میں نہ کوئی ٹی وی تھا اور نہ کوئی ریڈیو۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button