حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت

اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو دنیا کی حیثیت مچھر کے ایک پَر کے برابر بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر حیثیت ہوتی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو میری نعمت تھی میں مومنوں کو دیتا پھر کافروں کو کیوں دیتا۔ اور ہم ہیں کہ اس کے لئے قضاء میں، تھانوں میں، کچہریوں میں اپنے عزیزوں رشتہ داروں کو گھسیٹتے پھر رہے ہوتے ہیں تو دونوں فریقین کو سوچنا چاہئے۔ کہ کیا احمدی بن کر، اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل کرنے کے بعد کیا یہ معیار ہیں جو ہمارے ہونے چاہئیں یا دنیا سے بے رغبتی۔ مال کا ہونا کوئی جرم نہیں لیکن اس کی ہوس اور حرص اور ہر وقت اس میں ڈوبے رہنا، یہ چیز منع ہے۔ اگر ہمارے میں سے ہر ایک غور سے یہ سوچنا شروع کر دے تو احمدیوں کے تو جھگڑے ختم ہو جائیں جائیدادوں اور مالی امور کے۔پھر ایک روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’دنیا کی آخرت کے مقابلے میں اتنی سی حیثیت ہے جتنی کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے پھر اسے نکال کر دیکھے کہ اس کے ساتھ کتنا پانی لگا ہوا ہے‘‘۔ (ترمذی۔ کتاب الزھد۔ باب ماجاء فی ھوان الدنیا علی اللہ)یہ دنیا کی حیثیت ہے۔ اس دنیا میں ہم جو ہر چیز تلاش کرتے پھرتے ہیں اور آخرت کے متعلق سوچتے بھی نہیں اگر مقابلہ کرنا ہو تو دیکھیں آخرت میں جو جزا یا سزا ملنی ہے یہ اتنی وسیع ہے کہ اس کے لئے آدمی کو ہر وقت فکر رہنی چاہئے۔ جبکہ دنیا جس کی حیثیت ہی کوئی نہیں ایک قطرہ پانی کے برابر بھی حیثیت نہیں سمندر کے مقابلے میں، اس کے پیچھے ہم دوڑتے رہتے ہیں۔ حضرت عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھیجا یعنی حضرت عمروؓ بن عاص کو یہ کہا کہ اپنے ہتھیار لے کر اور زرہ پہن کر میرے پاس آؤ۔ تو کہتے ہیں جب میں مسلّح ہو کر آپؐ کے پاس حاضر ہوا تو اس وقت آپؐ وضو فرما رہے تھے۔ آپؐ نے مجھے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میں تمہیں ایک جنگی مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں اس مہم سے تمہیں اللہ تعالیٰ بخیریت واپس لائے گا اور مال غنیمت دے گا۔ اور میں تمہیں مال کی ایک مقدار بطور انعام دوں گا۔ تو کہتے ہیں کہ میں نے اس پر کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے مال حاصل کرنے کے لئے ہجرت نہیں کی تھی۔ میری ہجرت تو صرف خدا اور اس کے رسولؐ کے لئے ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا مال نیک آدمی کے لئے بہت اچھی چیز ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الامارۃ باب وزق الولاۃ و ھداھم الفصل الثانی)

(خطبہ جمعہ ۷؍مئی ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۱؍مئی۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button