متفرق مضامین

قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے (حصہ دوم۔ آخری)

(فہمیدہ بٹ۔ جرمنی)

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ قناعت نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔

یہ ساری باتیں آپ نے اولاد کو سمجھانی ہیں۔ حرصوں کو کم کرنا ضروری ہے۔ اللہ پر نظر ڈالیں تو پھر حرصیں اور تمنائیں کم ہوجائیں گی۔ پھر زندگی میں جو سکون حا صل ہوگا اس کی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ ‘‘(الفضل۳؍ ستمبر ۱۹۹۸ء)

عقل مند وہ ہے جو دنیاوی امور کی تدبیر قناعت اور تدبر سے کرے اور آخرت کی تدبیر حرص اورجلدی میں کرے۔ دنیا میں قناعت سے بڑی کوئی چیز نہیں جو پریشانیوں اور فکروں سے بے نیاز کر کے غنی کر دیتی ہے۔ جسے پا کر نہ صرف ہم خود پُرسکون رہتے ہیں بلکہ اردگرد کے لوگ بھی پُرسکون رہتے ہیں۔ یہ خوبی بہت کم لوگوں کو عطا ہوتی ہے۔

ہمارے پیارے امام سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے متعدد خطبات میں بدعات اور بد رسوم سے اجتناب کے متعلق پُرحکمت اور بابرکت ارشادات فرمائے ہیں۔ آپ نے شادی کے مہنگے کارڈ سے لے کر شادی بیاہ کی ساری بد رسوم مثلاً جہیز، شادی، ولیمہ کے بھاری اخراجات ، ڈانس، ناچ، شادیوں پر کھانوں کا ضیاع، شادیوں کے موقع پر بے پردگی، فضول خرچی و اسراف، مہندی کی رسم پر ضرورت سے زیادہ خرچ اور اس کو شادی جتنی اہمیت دینا، دکھاوا، نمود و نمائش اور دیگر بیہودہ رسم و رواج کے بارے میں کھول کھول کر وضاحت فرمائی ہے۔ آپ افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اپنے آپ کو معاشرے کے رسم ورواج کے بوجھ تلے نہ لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت میں شامل ہوکر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا وہوس سے باز آجائے گا یعنی کوشش ہوگی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا اور ہوا وہوس سے بھی باز رہوں گا تو قناعت اور شکر پر زور دیں۔ یہ شرط ہر احمدی کے لیے ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب اپنے اپنے وسائل کےلحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مدنظر رکھنا چاہیے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍نومبر ۲۰۰۵ء)

بے جا اسراف ناحق غرور و تکبّر، حرص و ہوس اور لالچ جیسی اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے۔خواہشات کی غلامی نے تمام تر آسائشوں اور وسائل کی دستیابی کے باوجود انسان سے ذہنی سکون اور قلبی اطمینان چھین لیا ہے آج معاشرے میں ڈپریشن اور بے اطمینانی جیسے مسائل کا انبار ہے۔ اس کی وجہ ہماری خود ساختہ تمنائیں، نمود و نمائش، رسم و رواج اورلامحدود خواہشات اور قناعت پسندی کے جذبے کا فقدان ہے۔

حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قناعت کے لیے یہ دعا کیا کرتے تھے:اللّٰهُمَ قَنِّعْنِي بِمَا رَزَقْتَنِي، وَبَارِكْ ليْ فِيهِ، وَاخْلُفْ عَلَيَّ كُلَّ غَائِبَةٍ لِي بِخَيْرٍ(مستدرک حاکم)ترجمہ: اے اللہ جو تو نے مجھے عطا کیا ہےاس پر مجھے قانع کردےاور اس میں میرے لیے برکت ڈال دے اور جو چیز مجھے حاصل نہیں اس میں میرے لیے بہتر قائمقامی فرما۔(ماخوذ از خزینۃ الدعا صفحہ ۱۱۶-۱۱۷)

ہمارے آقا محمد مصطفیٰﷺجو تمام جہانوں کے لیے رحمۃ للعالمین تھے ایک جامع ،مفصل اور بے مثل رشد و ہدایت لے کر آئے جس پر عمل کرتے ہوئے ہم دنیا میں ہی جنت کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بھی ایسے امراء ہیں جو دل کھول کر اپنے ما ل میں سے علاوہ لازمی چندہ جات کے یا دوسرے وعدوں کے جو روٹین کے چندے ہیں یا تحریکات ہیں ان میں ادائیگی کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد مساجد کی تعمیر کے لئے، ہسپتالوں کی تعمیر کے لئے یا دوسرے جماعتی منصوبوں کے لئے چندے دیتے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جن کو دنیا کی حرص نہیں بلکہ حرص ہے توصرف یہ کہ خدا راضی ہو جائے اور اس کی جماعت کے لئے خرچ کرنے کی جتنی زیادہ سے زیادہ توفیق پا سکیں، پائیں۔ اللہ کرے کہ ایسے لوگوں کی تعداد جماعت میں بڑھتی چلی جائے جن میں قناعت بھی ہو، قربانی کی روح بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی حرص بھی ہو۔(جمعہ خطبہ ۳۰؍ اپریل ۲۰۰۴ء)

قناعت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وقت اور پیسے کا صحیح استعمال کر نا سیکھیں۔ آسانیاں پیدا کریں اور بچوں کی تربیت بھی اس رنگ میں کریں کہ وہ زندگی کا صحیح معنوں میں لطف اٹھانے والے ہوں۔ خدا اور اس کے رسول کے احکامات کو اس طرح اپنائیں کہ ہمارا اوڑھنا بچھونا فقط اس کی رضا کے لیے ہو۔ خدا کرے کہ ہم دنیاوی اور اخروی لذتوں سے مستفید ہونے والے بنیں۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button