حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش اور دنیاوی لہو و لعب اور تفاخُر سے بچنا

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍مئی ۲۰۱۷ء)

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰٮہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (الحدید:21) اس کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو! جان لو کہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل ہے اور دل بہلاوا ہے اور زینت حاصل کرنے اور آپس میں فخر کرنے اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں بڑائی جتانے کا ذریعہ ہے۔ اس کی حالت بادل سے پیدا ہونے والی کھیتی کی سی ہے جس کا اُگنا زمیندار کو بہت پسند آتا ہے اور وہ خوب لہلہاتی ہے مگر آخر تُو اس کو زرد حالت میں دیکھتا ہے پھر اس کے بعد وہ گلا ہوا چُورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں ایسے دنیاداروں کے لئے سخت عذاب مقرر ہے اور بعض کے لئے اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضائے الٰہی مقرر ہے اور ورلی زندگی صرف ایک دھوکے کا فائدہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ اس طرف توجہ دلائی ہے بلکہ تنبیہ کی ہے کہ اس دنیا کی ظاہری زندگی اور اس کی آسانیاں، اس کی آسائشیں، اس کا مال و متاع یہ سب عارضی چیزیں ہیں اور ان کی حیثیت کھیل کود اور دل بہلاوے کے سامان سے زیادہ کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے غافل اور اپنی زندگی کے مقصد سے غافل انسان تو ان چیزوں اور ان باتوں کی طرف جھک سکتا ہے جو دنیا داری کی باتیں ہیں لیکن ایک مومن جس کے اعلیٰ مقاصد ہیں اور ہونے چاہئیں وہ ان باتوں سے بہت بلند ہے اور بلند ہو کر سوچتا ہے۔ اور اعلیٰ مقاصد کو اور اللہ تعالیٰ کے قُرب اور اس کے پیار کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم جو اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آئے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود کی جماعت میں شامل ہونے اور آپ کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں ہماری سوچ یقیناً بہت بلند ہونی چاہئے۔ ہم جو احمدی کہلاتے ہیں حقیقی احمدی اُسی وقت بن سکتے ہیں جب ہم عارضی اور دنیاوی خواہشات اور لذّات کو اپنا مقصدنہ بنائیں بلکہ دنیا جو آجکل ان لذّات میں گرفتار ہے اور قدم قدم پر شیطان نے اپنے ایسے اڈے بنائے ہوئے ہیں جو ہر شخص کو جو اس دنیا میں رہتا ہے اپنی طرف متوجّہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اس سے پوری کوشش کر کے ہمیں بچنا چاہئے۔ ہمارا مقصد دنیاوی دولت کے حصول کے لئے اور دنیاوی لذات سے فائدہ اٹھانا کبھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ان چیزوں کا انجام اچھا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دنیاوی چیزوں کی مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے یہ پھلنے پھولنے والی فصل کی طرح ہیں مگر آخر کو سوکھ کر چُورا ہو جاتی ہیں اور تیز ہوائیں اس کو اڑا کر لے جاتی ہیں۔ اسی طرح دنیاداروں کا انجام ہوتا ہے۔ نہ ان کے اموال کی کثرت، ان کے مال و دولت ان کے کام آتے ہیں۔ نہ ان کی اولادیں ان کے کام آتی ہیں۔ بعض تو اس دنیا میں ہی اپنے مال و اولاد سے محروم ہو جاتے ہیں اور اگر کسی کا ظاہری انجام دنیاوی لحاظ سے بہتر لگتا بھی ہے تو آخرت میں جو اُن کا حساب کتاب ہونا ہے وہ صرف دنیاوی لہو و لعب میں پڑنے کی وجہ سے اور خدا تعالیٰ اور دین کا خانہ خالی چھوڑنے اور خالی ہونے کی وجہ سے اور اس کی طرف زیادہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے انہیں عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ ہاں بعض کی بعض نیکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ کر ان سے مغفرت کا سلوک فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اس کے تحت بعض لوگ اپنی بعض نیکیوں کی وجہ سے اس کی رضا، رضائے الٰہی حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے، اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم یہ یاد رکھو کہ اس زندگی کو سب کچھ نہ سمجھو۔ اصل زندگی مرنے کے بعد کی زندگی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، انجام بخیر کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے حکموں پر چلنا ضروری ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلے تو نہ صرف انجام بخیر ہوتا ہے بلکہ یہ دنیا بھی اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا کہ تم اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی دنیاوی نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ لیکن اللہ تعالیٰ یہ ضرور فرماتا ہے کہ ان دنیاوی چیزوں کے حصول میں اتنا نہ ڈوب جاؤ کہ تمہیں دینی فرائض اور اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ ہی نہ رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں وہ دنیا کو ترک کرتے ہیں۔ اس سے یہ مراد ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود اور غایت نہیں ٹھہراتے‘‘۔ (صرف دنیا ہی ان کے مدّنظر نہیں ہوتی۔ اور جب یہ نہیں ہوتا تو فرمایا کہ) ’’اور دنیا ان کی خادم اور غلام ہو جاتی ہے‘‘اور پھر فرماتے ہیں۔ ’’جو لوگ برخلاف اِس کے دنیا کو اپنا اصل مقصود ٹھہراتے ہیں خواہ وہ دنیا کو کسی قدر بھی حاصل کرلیں مگر آخر ذلیل ہوتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 7صفحہ 317۔ ایڈیشن 1984ء)

یہ بات جو آپ نے فرمائی یہ صرف اس زمانے کی یا پرانی بات نہیں ہے بلکہ آجکل بھی جبکہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کا مالی نظام بڑا مستحکم ہے اور نہ صرف یہ بلکہ بڑے بڑے بینک بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود یہ ہوتا ہے کہ بینکوں کے سہارے کاروبار اور تجارت کرنے والے اپنے کاروباروں اور تجارتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بینک بھی انتہائی نقصان پر جانا شروع ہو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں روز خبریں آ رہی ہوتی ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button