خلاصہ خطبہ جمعہ

سنہ تین ہجری کے بعض واقعات کا تذکرہ نیز فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی مکرر تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۷؍نومبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…فرات بن حیان کے قبول اسلام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہےاور اس بات پر اس کو رہا کردیا

٭… کعب بن اشرف کی عہد شکنی، فتنہ انگیزی اور اپنے متعلق اُس کی سازش قتل کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے واجب القتل قرار دیا

٭… یہودیوں نے کبھی کعب کے قتل کا مسلمانوں پر الزام قائم نہیں کیا کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے

٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی اپنے وقت پر پوری ہوئی کہ خدا حضرت حسنؓ کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا

٭… فلسطین کے مسلمانوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍نومبر۲۰۲۳ء بمطابق۱۷؍نبوت۱۴۰۲؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۷؍نومبر۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مکرم فیضان راجپوت صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:گذشتہ خطبے کے آخر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ضمن میں جو تاریخ بیان ہورہی تھی اس میں فرات بن حیان کے قبول اسلام کا ذکر ہوا تھااس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ وہ گرفتار ہوکر قیدیوں میں تھا۔ غزوہ بدرکے روز بھی وہ زخمی ہوا تھا لیکن کسی طرح قید سے بھاگ نکلا تھا۔

حضرت ابوبکرؓ اُسے دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اب تو اپنے طرز عمل کو بدلو اور مسلمان ہوجاؤ۔

فرات بن حیان حضرت ابوبکرؓ  کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا اور ایک انصاری دوست کے پاس سے گزرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں مسلمان ہوں۔اُس انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ آپؐ نے اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ اب اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے تو پھر یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہےاور اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رہا کردیا۔

تفصیل ایک یہ بھی ہے کہ حضرت زید بن حارثہ ؓکا ایک سریہ جمادی الآخر ۳؍ ہجری میں قَرَدَہ کے مقام پر بھیجا گیا تھا۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے یوں لکھا ہے کہ بنو سلیم اور بنو غطفان کےحملوں سے کچھ فرصت ملی تو مسلمانوں کو ایک اور خطرہ کے سدباب کے لیے وطن سے نکلنا پڑا۔اب تک قریش اپنی تجارت کے لیےحجاز کے ساحلی راستے سے شام کی طرف جاتے تھے لیکن انہوں نے یہ راستہ ترک کردیا کیونکہ اس علاقہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن چکے تھے۔اس لیے انہوں نے نجدی راستہ اختیار کرلیا جو عراق کو جاتا تھا اور جس کے آس پاس مسلمانوں کے جانی دشمن قبائل سلیم و غطفان آباد تھے۔ چنانچہ

جمادی الآخر کے مہینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع موصول ہوئی کہ قریش کا ایک قافلہ نجدی راستے سے گزرنے والا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کے ملتے ہی زید بن حارثہؓ  کی سرداری میں اپنے اصحاب کا ایک دستہ روانہ فرمادیا۔ زیدؓ نے نہایت ہوشیاری سے اپنے فرض کو ادا کیااور نجد کے مقام قَرَدَہ میں ان کو جادبایا۔ اس اچانک حملے سے گھبرا کر قریش کے لوگ مال و متاع چھوڑ کر بھاگ گئے۔ زیدبن حارثہؓ اور ان کے ساتھی کثیر مالِ غنیمت کے ساتھ بانیل و مرام واپس مدینے آگئے۔

ایک واقعہ کعب بن اشرف کے قتل کا ہے جو مدینے کے سرداروں میں سے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے میں شامل تھا۔

بعد میں اس نے فتنہ پھیلانے کی کوشش کی جس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ بخاری میں درج ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا؟ اُس نے اللہ اور اُس کے رسولؐ کو سخت دکھ دیا ہے۔

محمد بن مسلمہؓ  کھڑے ہوئے اور کہاکہ میں اُسے مارڈالوں گا۔

وہ ایک عذر بنانے کی خاطر کعب کے پاس آئے اور کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے صدقہ مانگتے ہیں اور ہمیں مشقت میں ڈال دیا ہے۔ میں تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم سے اُدھار لوں۔کعب نے کہا کہ وہ دن دُور نہیں جب تم اس شخص سے بیزار ہوکر اُسے چھوڑ دوگے۔محمد بن مسلمہؓ نے کہاکہ ہم نے اُس کی پیروی اختیار کرلی ہے اس لیے ہم اُسے نہیں چھوڑ سکتے۔کعب نے کہا کہ پھر اپنی عورتیں یا بیٹے میرے پاس رہن رکھ دو۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ یہ ناممکن ہے البتہ ہم اپنی زرہیں رہن رکھ سکتے ہیں۔اس پر کعب راضی ہوگیااور محمد بن مسلمہؓ اور اُن کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے آئے۔جب رات ہوئی تو یہ واپس کعب کے مکان پر پہنچے اور اُسے اُس کے گھر سےنکال کر ایک طرف کو لے آئے۔ تھوڑی دیر بعد

محمد بن مسلمہؓ یا ان کے کسی ساتھی نے کسی بہانے سے کعب کے سر پر ہاتھ ڈالا اور نہایت پُھرتی کے ساتھ اُس کو قابو کرکے اُسے قتل کردیا۔

سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ لکھتے ہیں کہ جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو یہودیوں کے ایک وفد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ہمارا سردار اس طرح قتل کردیا گیا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےاجمالاً ان کوکعب کی عہد شکنی، تحریک جنگ،فتنہ انگیزی،فحش گوئی اور اپنے متعلق اُس کی سازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہوگئےاور اُن کی رضا مندی کے ساتھ آئندہ کے لیے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا۔یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہنے اور فتنہ و فساد کے طریقوں سے بچنے کا از سر نو وعدہ کیا۔

تاریخ میں کسی جگہ مذکور نہیں کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کرکے مسلمانوں پر الزام قائم کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔

بعض مؤرخین اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایک ناجائز قتل کروایالیکن واضح ہو کہ یہ ناجائز قتل نہیں تھاکیونکہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقاعدہ امن کا معاہد ہ کرچکا تھااور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا تو درکنار رہا اُس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ بیرونی دشمن کےخلاف مسلمانوں کی امداد کرے گا اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا لیکن اُس نے مسلمانوں سے غداری کی اور مدینہ میں فتنہ و فساد کا بیج بوکر جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی کوشش کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے کیے۔اس کے جرموں کا مجموعہ ایسا تھا کہ اس کے خلاف یہ تعزیری قدم اُٹھایا گیا۔چنانچہ آج کل کے مہذب کہلانے والے ممالک میں بغاوت، عہد شکنی،اشتعال، جنگ اور سازش کے مجرموں کو سزا دی جاتی ہے تو پھر اعتراض کس چیز کا؟پھر آج کل فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اس سے بھی بڑھ کر ہورہا ہے جو کئی لحاظ سے جائز بھی نہیں۔

دوسرا سوال خاموشی سے اس کے قتل کے طریق کا ہے۔ عرب میں اُس وقت ہر شخص اور قبیلہ آزاد اور خود مختار تھا۔ ایسی صورت میں وہ کون سی عدالت تھی جہاں کعب کے خلاف مقدمہ دائر کر کے باقاعدہ قتل کا حکم حاصل کیا جاتا؟

معاہدہ کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اور اُمورِ سیاسی میںجو فیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں۔

پس اگر آپؐ نے ملک کے امن کے مفاد میں کعب کی فتنہ پردازی کی وجہ سے اُسے واجب القتل قرار دیا تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ آپؐ کے فیصلہ پر عدالت اپیل بن کر بیٹھے۔خصوصاً جبکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خو دیہود نے کعب کی اس سزا کو اُس کے جرموں کی روشنی میں واجبی سمجھ کر خاموشی اختیار کی اور اس پر اعتراض نہیں کیا۔

اس عرصہ میں حضرت حفصہؓ  کی دوسری شادی بھی ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمربن خطابؓ کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہؓ تھا۔ وہ ایک مخلص صحابی خنیس بن حذافہ ؓکے عقد میں تھیں جو جنگ بدر سے واپس آکر ایک بیماری سے جانبر نہ ہوسکے اور وفات پاگئے۔اُن کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت عثمان بن عفان ؓاور بعد ازاں حضرت ابوبکرؓ سے ذکر کیا لیکن دونوں نے خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر ؓکو بہت ملال ہوا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کچھ فکر نہ کرو۔ آپؐ حضرت حفصہ ؓکے خاوند کی بے وقت موت کے صدمہ کی وجہ سےجو اُن کو پہنچا تھا اورحضرت عمر ؓسے تعلقات کو مضبوط کرنےاورحضرت حفصہ ؓکے لکھنے پڑھنے کی خصوصیت کی بنا پر دعوت تبلیغ اور تعلیم کا کام وسیع پیمانے پر کرنے کی مصلحت کی وجہ سے حضرت حفصہؓ کے ساتھ شادی کرلینےکا ارادہ کرچکے تھے جس سے ابوبکر ؓو عثمان ؓکو اطلاع تھی اس لیے وہ خاموش رہے۔

شعبان ۳؍ ہجری میں حضرت حفصہ ؓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آکر حرم نبوی ؐمیں داخل ہوگئیں۔اُن کی وفات کم و بیش تریسٹھ سال کی عمر میں ۴۵؍ ہجری میں ہوئی۔

۲؍ ہجری کے واقعات میں حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہ ؓکے نکاح کا ذکر گزر چکا ہے۔ اُن کے ہاں رمضان ۳؍ہجری میں یعنی نکاح کے دس ماہ بعد ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنؓ رکھااور جن کے متعلق ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا کہ

میرا یہ بچہ سیّد یعنی سردار ہے اور ایک وقت آئے گا کہ خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔

چنانچہ اپنے وقت پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔

حضور انور نے خطبہ کے اختتام پر فلسطین کے مسلمانوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک فرمائی۔ مزید تفصیلات کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں

https://www.alfazl.com/2023/11/17/83923/

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button