امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبران جماعت احمدیہ البانیا کی (آن لائن) ملاقات
مورخہ۵؍نومبر۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جماعت احمدیہ البانیاکے ممبران کی آن لائن ملاقات ہوئی۔ حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز سے رونق بخشی جبکہ افراد جماعت نےالبانیا کے دار الحکومت ترانہ(Tirana)میں واقع مسجد بیت الاوّل سے آن لائن شرکت کی۔اس ملاقات کا آغاز تلاوت اور نظم سے ہوا۔
ملاقات کے آغاز میں حضور انور ایدہ الله تعالیٰ نے مسجد بیت الاوّل کی تعمیر کی بابت دریافت فرمایا تو عرض کیا گیا کہ اس کا افتتاح ۲۰۰۳ء میں ہوا تھا۔ حضور انور ایدہ الله تعالیٰ نے فرمایاکہ یہ ایک کشادہ مسجد ہے، لیکن لوگ کم ہیں۔ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں سے بھرنے کی کوشش کریں۔
بعد ازاں حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں مسجد بیت الاوّل کے متعلق ایک ویڈیو پریزنٹیشن (presentation) پیش کی گئی جس میں مسجد اور اس کے احاطے میں موجود عمارات کےمناظر تفصیل سے دکھائے گئے اوربتایا گیا کہ یہ البانیا جماعت کی مسجد ہے جس کا نام حضرت خلیفة المسیح الرّابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیت الاوّل رکھا تھا۔
مزید مناظر دکھاتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ مَردوں کا ہال ہے جس میں ہم اس وقت حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔ اس میں ایک ٹرانسپیرنٹ (transparent)گنبد ہے جس سے مین (main) ہال میں کافی روشنی ہو جاتی ہے۔ اوپر لجنہ کا ہال ہے اور یہ اس وقت ہمارے بالکل اوپر موجود ہے۔ مسجد کے مکمل احاطہ کی بابت بتایا گیا کہ یہ ۳۳۶۷۶؍مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس کے اطراف تقریباً۲۲۰؍زیتون اور مختلف پھلوں کے درخت بھی لگوائے گئےہیں۔
پھر مشن ہاؤس کے مناظر دکھاتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ مشن ہاؤس ہے اور اس کا نام حضرت خلیفة المسیح الرّابع رحمہ الله تعالیٰ نے دار الفلاح رکھا تھا۔ گراؤنڈ فلورمیں بائیں ہاتھ پرلیکچر ہال ہے جہاں پرہمارےاجلاسات وغیرہ ہوتے ہیں۔پھر لائبریری ہے یہاں بیٹھ کے ہمdiscussionsکرتے ہیں۔
پھر پہلی منزل پر جانے کے مناظر دکھاتے ہوئے بتایا گیا کہ یہاں پر دفاتر ہیں اور پہلے ایک کافی بڑا سٹنگ (sitting)روم ہے اور دفاتر ہیں۔
مسجد کے احاطہ میں موجود ایک اَور عمارت کے مناظر دکھاتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ایک چھوٹا سا کوارٹر ہے جوکہ دو کمروں، ایک چھوٹے ہال، کچن اور باتھ روم پر مشتمل ہے۔
مسجد جہاں واقع ہے اس کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ شہر کی داخلی گزرگاہ ہے اور یہاں سے ڈیڑھ دو کلومیٹرمیں آبادی شروع ہو جاتی ہے۔
حضور انور ایدہ الله تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ کیا پبلک ٹرانسپورٹ یہاں آتی ہےاور لوگوں کیaccessہے؟اس پر اثبات میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا گیا کہ اکثر احباب شہر میں ہوتے ہیں توپھر ان کو یہاں پر پبلک ٹرانسپورٹ یا کاروں سے آنا پڑتا ہے۔
ویڈیو پریزنٹیشن کے بعد شاملینِ مجلس کو مختلف موضوعات پر سوالات پوچھنے اور حضور انور سے راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جن احباب نے مقامی زبان میں سوالات کیے ان کا ترجمہ حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا۔
ایک خادم کے جذبات پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا بے حدشکر گزار ہوں اور حضور انور کا بھی کہ ہمیں ملاقات کا شرف عطا کیا ہے۔
ان کی جانب سے سوال کیا گیا کہ البانیا جماعت کی ویب سائٹ(website) پر اور مختلف ملاقاتوں میں مسلمانوں کی طرف سے جو سوال ہمیں آتے ہیں ان میں سے اکثر کالے جادو کے بارے میں ہوتے ہیں۔ وہ یقین سے کہتے ہیں کہ ان پر کسی نے جادو کیا ہے اور اس کو ہم سے پھر دُور کرنے کی بھی درخواست کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہمیں کیا جواب دینا چاہیے؟
اس پرحضور انورنے فرمایاکہ بات یہ ہے کہ یہ تو ساری وہمی چیزیں ہیں۔دماغی سوچ ہے، وہم ہے، لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ انسان کی نفسیات ہے کہ ایک بات اس کو بار بار کہو تو وہ سمجھتا ہے کہ سچی ہے، تو یہی حال ان مسلمانوں کا ہے، یہ کالا جادو ان مسلمانوں پر ہوتا ہے احمدیوں پر کیوں نہیں ہوتا؟ ہمارے پر تو آج تک یہ کالا جادو نہیں ہوا، لوگوں نے بڑی کوششیں بھی کی ہیں۔ اور اگر ان کا بھی ایمان پختہ ہے اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے تو پھر ان پر بھی کوئی اثر نہیں ہو گا۔
تو ایسی حالت میں ایک تو وہموں کو دُور کرنے کے لیے اِستغفار زیادہ کرنا چاہیے اور پھر لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھنا چاہیے۔ اگر کسی نے شرارت سے کوئی ایسی حرکت کی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے شر سے انسان کو بچا کے رکھے۔ پھر جو آخری تین سورتیں ہیں وہ پڑھنی چاہئیں تا کہ اللہ تعالیٰ حاسدوں کے حسد اور ان کے شر سے بچا کے رکھے، شیطان کے شر سے بچا کے رکھے۔
اصل میں تو ان چیزوں کا وجود کوئی نہیں ہے، بعض لوگوں نے بڑے کاروبار بنائے ہوتے ہیں، حضرت خلیفہ اوّل رضی الله تعالیٰ عنہ نے بھی اس کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ ایجنٹ چھوڑے ہوتے ہیں، وہ لوگوں کے گھروں میں بھی چلے جاتے ہیں اور وہاں چھپ کے کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر دیتے ہیں اور پھر اس کے کچھ عرصہ بعد اس بندے کے دماغ میں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ دیکھو تمہارے ساتھ یہ یہ ہوگا اور اس کا علاج یہ ہے کہ تمہارے گھر کے کونے میں فلاں جگہ کوئی چیز چھپی ہوئی ہے اس کو نکالو تو تبھی یہ جادو دُور ہو سکتا ہے اور وہ کیونکہ اس نے پہلے چھپائی ہوتی ہے، وہ آدمی جو گھر کا مالک ہے جا کے دیکھتا ہے تو واقعی وہاں چیز ہوتی ہے۔ تو وہ نکال کے کہتا ہے ہاں! یہ توتم نے بڑی سچی بات کی۔ اس نے کہا پھر اس کا علاج فلاں پیر صاحب کے پاس ہے۔ اس پیر کے پاس جاؤ، اس دعا گو بزرگ کے پاس جاؤ، وہ دعا سے تمہارا کالا جادو دُور کر دے گا۔پھر یہ لوگ چلے جاتے ہیں، وہ پیسے لیتا ہے، اس نے اپنے پیسے کمانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔
حقیقت میں تو ایک ایماندار شخص کے لیے یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام طاقتوں کا مالک ہے اور اللہ تعالیٰ شیطان کے شر سے بھی بچانے والا ہے تو اس کو دعا کرتے رہنا چاہیے اور اس بات پر یقین کرنا چاہیے کہ یہ کالا جادو مجھ پر اثر انداز نہیں ہو گا اور اگر ایمان پختہ ہے توا ثر انداز نہیں ہوتا۔ کسی پختہ ایمان کے شخص کو دیکھ لیں، کسی احمدی کو دیکھ لیں، اس پر کالا جادو اثر نہیں کرتا۔ اثر اسی پر ہوتا ہے جس کا کمزور ایمان ہو، جو اس بات پر یقین رکھتا ہو۔ بعض دفعہ یہ باتیں بچپن سے ہی دماغوں میں ڈالی جاتی ہیں اور نفسیاتی طور پر اتنا اثر ہو جاتا ہے کہ انسان بڑے ہو کر بھی اس کو اپنے ذہن میں بٹھائے رکھتا ہے۔ اس لیے ہم تو اس بات پریقین نہیں کرتے۔
حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ اگر کسی کو کالا جادو کرنا ہے تو مجھ پر کر کے دکھا دے، میں پھر مان جاؤں گا۔
۲۰۲۰ء میں بیعت کرنے والے ایک بتیس سالہ خادم کی جانب سے سوال پیش کیا گیا کہ بعض دفعہ بری خبریں یا کوئی مشکل بات بہت زیادہ محسوس کرتا ہوں، وہ باتیں بھی جن کا میرے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہوتا، بعض دفعہ مجھ پر ان کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس کمزوری کو مَیں کیسے دُور کر سکتا ہوں؟
اس پرحضور انورنے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریںکہ اللہ تعالیٰ مضبوط ایمان دے اور ہر ایک شر سے بچا کے رکھے اور جس طرح پہلے میں نے کہا تھا لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ بھی اس کا ایک علاج ہے۔ نماز میں، سجدے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری گھبراہٹ، میری بے چینی کو دُور کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دعا سکھائی ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میری اس پریشانی کو ڈھانپ لے اور مجھے میری طبیعت میں عمل عطا فرمائے ۔اس طرح کی دعائیں کرو تو اللہ تعالیٰ سنتا ہے ،قبول کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس پریشانی کو دُور بھی کر دیتا ہے۔پھر زیادہ سے زیادہ دُرود شریف پڑھیں اور اِستغفار پڑھیں تو اللہ تعالیٰ پریشانیاں دُور کر دیتا ہے۔
باقی دنیا میں آدمی کی جو زندگی ہے اس میں اتار چڑھاؤ تو آتے رہتے ہیں۔ انسان اچھی خبریں بھی سنتا ہے بری خبریں بھی سنتا ہے، لیکن جب اچھی خبریں سنے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، بری خبریں سنے تو دعا کرے، صدقہ بھی دے۔ صدقہ دینا بھی بہت ضروری ہے، جب آدمی صدقات دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بلاؤں، مشکلوں اور پریشانیوں کو دُور بھی کر دیتا ہے۔ دعا اور صدقات دو ہی کام ہیں جو ہمیں کرنے چاہئیں، اسی کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔
ایک خادم کا سوال پیش کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ میں سیاسی اقتدارکے لیے نہیں آیا اور خلافت کی برکت سے جماعت میں ایک بے مثال روحانی اور structural وحدت قائم ہے جبکہ دوسرے لوگ امام مہدی کے انتظار میں سیاسی اقتدار کے انتظار میں ہیں۔ مسلمانوں کو مستقبل میں ایک ہی ہاتھ پر روحانی طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی طاقت بھی ملے گی یا یہ دونوں الگ الگ امور ہیں؟
اس پرحضور انورنے فرمایاکہ بات یہ ہے کہ مسیح موعودؑ کی بعثت کا مقصد تو ایک روحانی انقلاب پیدا کرنا تھا اور جب روحانی انقلاب آئے گا تو دنیا میں جو حکومتیں ہیں وہ بھی اور اس کے سربراہ بھی اس سے متاثر ہوں گے۔اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو دینِ واحد پر جمع کرو اور اس کا مطلب یہی تھا کہ مسلمانوں کو اگر دینِ واحد پرجمع کر لو گے، ایک چیز بنا دو گے تو ان میں ایک روحانی انقلاب آ جائے گا اور جب یہ روحانی انقلاب آئے گا تو گو دنیاوی حکومتیں ہر ایک کے پاس علیحدہ علیحدہ رہیں تب بھی وہ اس روحانی انقلاب کی وجہ سے بھائی بھائی بن کے رہیں گے۔
قرآن کریم میں جب سورۃ الحجرات میں یہ لکھا ہے کہ اگردو حکومتیں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو اور جب ان میں صلح کروا دو تو وہاں انصاف قائم کرو۔ جب صلح ہو جائے تو پھر انصاف قائم کرو، کسی پر زیادتی نہیں ہونی چاہیے اور اگر کوئی پھر بھی باز نہ آئے تو پھر باقی سب اکٹھے ہو کے اس حکومت یا اس گروپ کو پابند کرو، اس پر حملہ کرو اور ان کو جو اسلام کی اور شریعت کی حدود ہیں ان کے اندر قائم کرو۔ تو یہ مومنوں کے لیے ہے۔ گو دنیا میں ہر جگہ یہ اصول اپلائی ہو سکتا ہے۔ بہرحال یہ اصول بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پتا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ کئی حکومتیں ہوں گی۔اس وقت تو ایک حکومت تھی، زیادہ سے زیادہ قبیلے تھے اور قبیلوں کو اکٹھا کر کے رکھنے کا ایک مقصد تھا، پھر بھی ایک حکومت قائم تھی۔ لیکن بعد میں حکومتیں ہونی تھیں، جب ساروں کو کہا کہ مختلف حکومتیں ہوں گی، اگر کوئی حکومت دوسری حکومت پر زیادتی کرے جو سیاسی لحاظ سے ہو تو باقی اکٹھی ہو کے اس کی زیادتی کو روکیں۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو دنیاوی حکومتیں ہیں وہ مسلمانوں میں علیحدہ علیحدہ رہیں گی لیکن روحانی سربراہ ایک ہی ہو گا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود اور مہدی معہود ہی ہو گا اور اسی بات پر ہم یقین رکھتے ہیں اور یہ نظام خلافت کے تحت تاقیامت چلتا چلا جائے گا اور جب مسیح موعود کو ماننے والی حکومتیں ہوں گی تو آپس میں گو ان کے نظام علیحدہ علیحدہ ہوں گے، ہر علاقے کے لوگ جس طرح قبائلی سردار ہوتے ہیں، علیحدہ علیحدہ قوموں کے بھی سردار ہوں گے، حکومتیں علیحدہ علیحدہ ہوں گی لیکن آپس میں پیار، محبّت اور بھائی چارہ ہو گا، لڑائیاں اور فساد نہیں ہو گا اور اگر ہو گا تو جیسا کہ میں نے بتایا اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن شریف میں حل بھی بتا دیا ہے کہ کس طرح تم نے حل کرنا ہے۔
تو دوسرے مسلمان وہ بے شک مہدی کے انتظار میں رہیں۔ انہوں نے تو ایک خونی مہدی بنایا ہوا ہے جو تلوار سے سب کچھ کرے گا۔ تلوار سے کیا کرنا ہے؟ مسلمانوں کے پاس تو ابھی طاقت بھی نہیں ہے۔ اگر اسلحہ خریدنا چاہتے ہیں تو غیروں سے مانگتے ہیں۔ لڑائی کرنے جاتے ہیں تو بڑی حکومتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔
آج کل اسرائیل اور حماس کی لڑائی ہو رہی ہے تو وہاں اسرائیل ظلم کر رہا ہے۔ مسلمان تو اکٹھے ہو کے اپنے فلسطینیوں کو نہیں بچا پا رہے۔ اس لیے یہ اکٹھے نہیں ہوتے کہ اسی انتظار میں بیٹھے ہیں کہ مہدی آئے گا تو کرے گا۔ لیکن حقیقت میں صرف وہ مہدی آئے گا جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ امن قائم کرنے والا ہو گا اور مسیح اور مہدی ایک ہی ہوں گے، دو شخصیتیں نہیں ہوں گی۔ اور جب وہ ایک ہو گا تو وہ دین کو بھی پھیلائے گا اور امن بھی قائم کرے گا اور پیار اور محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دے گا۔
اس اصول کو اگر مسلمان سمجھ لیں اور اکٹھے ہو جائیں تو جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی پیشگوئی کے مطابق بھیجا ہوا ہے کہ وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡھُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِھِمۡ (الجمعہ:۴) جو تمہارے میں ابھی لوگ شامل نہیں ہوئے وہ تمہاری طرح کے ہی لوگ ہوں گے۔ وہ وہی لوگ ہوں گے جو مسیح موعود اور مہدی موعود کو ماننے والے ہوں گے اور امن اور پیار کی تعلیم دینے والے ہوں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے فرمایا تھا کہ ان لوگوں میں سے ہوں گے، فارسی النسل یا غیر عرب ہوں گے، ان میں سے آئے گا۔ یہ نہیں فرمایا کہ ہاں! اس وقت ایک شخص تو آئے گا جو تمہیں دین پر قائم کرے گا، دوسرا شخص آئے گا جو تلوار سے تمہارے دین کو پھیلائے گا۔ نہیں! تلوار سے تودین پھیلانا ہی نہیں کیونکہ بخاری میں بڑی واضح حدیث ہے کہ جب مسیح موعود کا زمانہ آئے گا وہ یَضَعُ الْحَرْبکرے گا، جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔جب وہ جنگوں کا خاتمہ کرے گا تو ظاہر ہے کہ پھر یہ فساد والی بات تو رہی نہیں اور دعاؤں سے مسئلہ حل ہو گا۔ تو اس لیے اگر دوسرے مسلمان ہیں تو ان کی سمجھ کی کمی ہے اور جن جن کو سمجھ آتی جاتی ہے وہ اسلام اور احمدیت کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں، جس طرح آپ لوگوں نے قبول کیا۔ آپ کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ مسیح اور مہدی ایک شخص ہے تو آپ نے اس کو قبول کر لیا۔ اسی طرح اس پیغام کو آپ نے سمجھا اور قبول کیا تو اس کو دوسروں کو بھی سمجھائیں اور پھیلائیں تاکہ جس طرح آپ کی یہ خواہش ہے کہ مسجد بھر جائے، اس طرح کی ایک مسجد نہیں بلکہ آپ کے ملک میں اس طرح کی کئی مسجدیں بن جائیں اور بھرتی چلی جائیں اور تبلیغ کرنا اور اس کام کو پھیلانا اور اس پیغام کو پھیلانا اور حقیقی اسلام کو دنیا میں قائم کرنا اور اپنے ملک میں قائم کرنا یہ اب آپ کا کام ہے ۔
ایک ناصر نے عرض کیا کہ میرا کوئی سوال تو نہیں ہے لیکن میں حضور سے عاجزانہ درخواست کرتاہوں کہ البانیا جماعت کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں intellectuals میں سے بھی اور ہر قسم کے لوگوں میں سے بھی بہت سارے مخلصین عطا فرمائے تا کہ ہم جماعت کی ترقیات یہاں پر دیکھ سکیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اپنے بھائیوں کے ساتھ سب سے زیادہ ہمدردی تو دوسری قوموں کے بجائے ان کے دل میں پیدا ہو سکتی ہے تو ان کا بھی کام ہے کہ اپنے بھائیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ دعا کریں۔ ان کی قوم ان کے بھائی ہیں اور ان کو تبلیغ بھی کرنی چاہیے، حکمت و دانائی سے پیغام پہنچانا چاہیے اور یہ پہنچاتے رہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ایک وقت ان شاء اللہ تعالیٰ آئے گا کہ ان لوگوں کو مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کے علاوہ چارہ کوئی نہیں ہوگا ۔ کس طرح آئے گا؟ اللہ تعالیٰ کہتا ہےکہ ایسی باتیں بَغْتَةً ہی ہوتی ہیں، اچانک ہوتی ہیں اور وہ اچانک ہی ہوا کرتی ہیں اور ایسے سامان اللہ تعالیٰ پیدا فرما دیتا ہے کہ ہو جائیں گی اور یہی ہمارا ایمان ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا کہ عیسائیت دنیا میں پھیلی اس کو تین سو سال کا عرصہ لگا لیکن میں مسیح موسویؑ کے نقش قدم پر تو آیا ہوں لیکن مسیح محمدیؐ ہوں اور میں نے اسلام کے پیغام اور تبلیغ کو پھیلانا ہے۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ تین سو سال کا عرصہ ابھی نہیں گزرے گا کہ تم دیکھو گے کہ دنیا کی آبادی کی اکثریت اسلام احمدیت میں شامل ہو جائے گی۔ تو وہ اسی طرح ہو گی کہ ہم کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں اور اپنی نسلوں میں بھی یہ روح پیدا کرتے چلے جائیں کہ تم نے کوشش کرتے چلے جانا ہے۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اگر یہ کام کرتی جائے تو ان شاء اللہ یہ تبلیغ کا کام اور اسلام اور احمدیت کے پھیلاؤ کا کام وسیع ہوتا چلا جائے گا۔
اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی بھی تربیت کریں۔ ان کو بھی دین سکھائیں، ان کو بھی اس طرف راغب کریں کہ انہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل بھی کرنا ہے اور پھیلانا بھی ہے اور خود بھی اس بات کی کوشش کریں اور ان شاء اللہ تعالیٰ پھر ہم دیکھیں گے کہ ان کے ملک میں کیونکہ بہت ساری سعید روحیں ہیں، ان کے لوگوں کی فطرت میں بھی نیکی ہے، اس لیے یہ اسلام اور احمدیت قبول کریں گے۔ ان شاء اللہ
دوران ملاقات ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ حدیث میں جمعہ کے روز سورة الکہف کی تلاوت کرنے کی خاص تاکید کیوں کی گئی ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ حدیث میں تو یہ بھی ہے کہ روزانہ اس کی پہلی اور آخری دس آیتیں پڑھنی چاہئیں۔ اس میں کیا تعلیم دی ہوئی ہے؟ شروع کی دس آیتوں میں بھی یہی ہے کہ توحید کا قیام اور تثلیث کا انکار اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر آنے کا انکار اور اس بات پر یقین کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، واحد ہے۔ اسی طرح آخری دس آیتیں ہیں، اس میں بھی یہی تعلیم ہےکہ اللہ تعالیٰ واحد ہے۔
تو اس کے روزانہ پڑھنے کا مقصد ایک تو یہ ہے صبح شام پڑھو کہ تمہارے اندر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا ادراک پیدا ہو اور اس پر قائم ہو اور صرف اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے ہو۔ تثلیث کا انکار کرنے والے ہو اور دنیاوی چیزوں سے دُور ہونے والے ہو۔ یہ اس کی حکمت ہے۔
اگر خاص طور پر سورة الکہف کی پہلی اور آخری دس آیتوں کے مضمون پرغور کریں گی، تو پتا لگ جائے گا کہ اس میں توحید کا قیام، تثلیث کا انکار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑائی بیان کی گئی ہے اور باوجود اس کے کہ آپؐ بشر رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بشر رسول ہونے کے باوجود ان کو بتا دو کہ میرے پر اللہ تعالیٰ نے وحی کی ہے اور میرے پر اتری ہوئی وحی وہ وحی ہے جو تمہاری روحانی بیماریوں کا بھی علاج ہے اور ہر قسم کے نظام کو صحیح چلانے کا بھی علاج ہے۔ اس لیے اس وحی پر غور کرو اور وہ وحی کیا ہے؟ پورا قرآن کریم ہے، اس پر غور کرنا ہوگا۔ تویہ توجہ دلانے کے لیے ہے۔
توصرف جمعہ کو نہ پڑھا کریں، جب موقع ملے، عام دنوں میں بھی یہ پڑھنی چاہیے تا کہ وحدانیت پربھی قائم رہیں، اللہ تعالیٰ پر ایمان میں بھی بڑھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان میں بھی بڑھیں اور شرک سے بھی بچنے کی کوشش ہو اور تثلیث کا بھی انکار ہو اور اسلام کی تبلیغ کو بھی دنیا میں پھیلانے کا ذریعہ بنیں اور اس کے لیے دعائیں بھی کریں۔
ایک بارہ سالہ طفل نے سوال کیا کہ ہم ان لوگوں یا اماموں کے پیچھے جو احمدی نہیں ہیں نماز کیوں نہیں پڑھ سکتے؟
اس پرحضور انورنے فرمایاکہ پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔پھر یوں ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو پتا لگا کہ بعض غیراحمدی مولوی، مُلاّں کہتے ہیں کہ احمدی کے پیچھے نماز گناہ ہے، جائز نہیں ہے۔تو انہوں نے پہلے یہ بند کیا اور اپنے لوگوں کو کہا کہ کسی احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اب انہوں نے کہہ دیا کہ نماز نہیں پڑھنی تو ہم نے بھی ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی۔ بلکہ ہم ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ہم نے تو اس زمانے کے امام کو مانا ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور جس کے بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا۔
پس جو امام اللہ تعالیٰ کی طر ف سے آیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آیا، اگر اس کے ماننے والوں کے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے تو یہ جو لوگوں کے بنائے ہوئے امام ہیں ان کے پیچھے ہم کیوں نماز پڑھیں؟ اس لیے ہم ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے امام کو نہیں مانا تو ہم ان کے بنائے ہوئے امام کو کیوں مانیں؟ ان کا جو امام ہے وہ ان کا بنایا ہوا ہے، بندوں نے اپنا امام بنایاہے، کھڑے ہو جاؤ نماز پڑھا دو امام بن گیا۔ لیکن ہمارا امام اللہ میاں نے مسیح موعودؑ کو بنایا ہے اور اس کے بعد پھر اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ہمارے باقی امام بنے جوہمیں مسجدوں میں نماز پڑھاتے ہیں۔
اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم احمدی امام بن کے غیراحمدیوں کو لیڈکر سکتے ہیں لیکن غیر احمدیوں کے پیچھے نہیں چل سکتے کیونکہ ہم ان سے ایک قدم آگے ہیں۔ ہم نے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہر نبی کو مانا اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آنے والےمسیح موعود کو مانا اور اس کو امام بنایا تو ہم نے تو امام مان لیا۔ کہتے ہیں امام مہدی نے آنا ہے، امام مہدی کون ہے؟ ہدایت دینے والا۔ تو جب ہدایت والے ہم ہوئے تو پھر ان غیر ہدایت یافتہ لوگوں کے پیچھے ہم کیوں چلیں؟
ایک ممبر جماعت نے ذکر کیا کہ البانیا جماعت کا جلسہ سالانہ ان کی موجودہ مسجد میں منعقد ہوتا ہے، جس میں مردوں کے لیے الگ جگہ اور مشن ہاؤس کے ہال میں لجنہ کے بیٹھنے کی الگ جگہ ہوتی ہے۔موصوف نے استفسار کیا کہ کیا مسجد کے ایریامیں کارپٹ بچھانا، اسمبلی ہال میں جوتوں کی اجازت دینا اور نماز کی جگہ پہنچنے سے قبل لوگوں کا جوتے اتار دینا ممکن ہے؟
اس پرحضور انور نے وضاحت فرمائی کہ اس پورے ایریا (area) کو مسجد سمجھا جاتا ہے، خواہ نماز کے لیے کارپٹ (carpet)کی صفیں لگائی جائیں، پورا ہال اپنا تقدس برقرار رکھتا ہے۔ غیر معمولی حالات میں کوئی شخص بعض کاموں کے لیے فرش پرcovering بچھا سکتا ہےحالانکہ اس کی اجازت محدود حد تک ہے۔ تاہم اس جگہ کے تقدس کا احترام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ اب بھی مسجد کا ایک حصہ ہی ہے۔
اس طرح کے فنکشنز (functions)میں مہمان اپنے جوتوں کو ڈسپوزیبل اوور شو کور(disposable overshoe covers) سے ڈھانپ سکتے ہیں اور اگر وہ جلسہ میں شرکت کر رہے ہیں تو کرسیوں پر بیٹھ سکتے ہیں، تاہم احمدی مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے جوتے اتار کر مسجد کے تقدس کو برقرار رکھنا چاہیے۔ حضورِ انور نے مزید تاکید فرمائی کہ ایسی صورتوں میں بھی شیٹ بچھانا یا عارضی coveringکرنا بہتر ہے اور مسجد کے فلورکو صاف رکھا جائے۔
حضور نے پھردریافت فرمایا کہ کیا یہ انتظام احمدیوں کے لیے کیا جا تا ہے یا ان مہمانوں کے لیے جو تقریبات کے لیے مسجد میں آتے ہیں؟ جواب میں سائل نے تصدیق کی کہ یہ مہمانوں کے لیے ہوتا ہے۔
حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ نے وضاحت کی کہ ایسی صورتوں میں فلورپر ایک چادر پھیلائی جائے یا جوتوں کو ڈھانپنے کے لیےڈسپوزیبل اوورشو کور استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ حضورِ انور نے تذکرہ فرمایا کہ بعض غیر معمولی حالات میں ایسا کیا جا سکتا ہےاور بتایا کہ برلن مسجد کے افتتاح کے موقع پر ایک تقریب منعقد ہوئی تھی اور wall to wall فرش پر شیٹ بچھائی گئی تھی، تاہم حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ اسے معمول نہیں بننا چاہیے۔
ملاقات کے دوران ایک صف اوّل کےناصرنےحضرت خلیفۃ المسیح سے اپنی والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ میں شاید یہاں پر سب سے زیادہ عمر رسیدہ ہوں اور کئی دفعہ حضور سے ملاقات کر چکاہوں، مجھے حضور سے ملنے کا شرف ملا ہے، اِمسال بھی میں نے حضور سے ملاقات کے لیے جلسہ جرمنی میں شرکت کا ارادہ کیا تھا لیکن بعض رکاوٹوں کی وجہ سے نہ جا سکا۔ اس آن لائن ملاقات کے تناظر میں مزید عرض کیا کہ اگرچہ فزیکلی(physically) ممکن نہیں ہے مگرپھر بھی میں چاہتا ہوں کہ حضور کو اپنے گلے لگا لوں! فرط جذبات میں موصوف نے اپنا سوال مکمل کرنے کے بعد نیز مکمل جواب سننے کے دوران بڑی عاجزی سے مسلسل اپنے ہاتھ اور بازو معانقہ کےانداز میں حضور انور کی جانب پھیلائے رکھے۔
اس پر حضور انورنےبڑے پُر شفقت انداز میں فرمایاکہ یہ تو ہوائی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش پوری کرے ویسے بھی ہم ملیں اور فزیکلی (physically) بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے، ایک دوسرے سے ملنے کا سامان اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے اور ہماری نیک خواہشات اور ایک دوسرے کے لیے دعائیں اللہ تعالیٰ پوری کرے۔ بایں ہمہ حضور انور ایدہ الله تعالیٰ نے موصوف کوالسلام علیکم و رحمۃ الله کا تحفہ پیش کرکے جزاک الله کہا۔
اس پر موصوف نے مزید کچھ عرض کرنے کی اجازت لیتے ہوئے اظہار کیا کہ میں نے اپنا سر آپ کی خدمت میں جھکا کے رکھا تھا اور آپ نے دعاکی تھی اور آپ کی دعائیں میرےنواسوں کے حق میں پوری ہوئی ہیں، اس کا میں بے حد شکر گزار ہوں۔حضورِ انور نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور آئندہ بھی فضل فرماتا چلا جائے۔
اسی طرح موصوف نے عرض کیا کہ نہایت عاجزانہ درخواست ہے کہ حضور بنفس نفیس بھی یہاں تشریف لائیں اور ہم آپ کا بہت دل سے استقبال کریں گے، جس طرح آج یہ سورج اس مسجدپر یہاں چمک رہا ہے آپ کی آمد پر یہ روحانی روشنی سے چمک اٹھے گا۔
اس پرحضور انورنے فرمایاکہ ان شاء اللہ تعالیٰ کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔ یہ بھی دعا کریں، مَیں بھی دعا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا فرمائے، سامان پیدا فرمائے جو اس طرح فزیکلی (physically) آنے کے سامان ہو جائیں۔
موصوف نے آخر پر دوبارہ اپنی پُر خلوص محبّت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ پھر سے آپ کو میں گلے لگاتا ہوں۔انہوں نے اپنے ہاتھ اور بازو حضور کی جانب بڑھائے تو پیارے سعید آقا نے انتہائی تبسم اور شفقت سے فرمایا جزاک اللہ۔ السلام علیکم۔ اللہ حافظ۔
ایک خادم کی جانب سے سوال کیا گیا کہ ہمیں کیا ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے کہ یہاں اس بڑی مسجد میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خاص طور پر نوجوانوں کو ہم اکٹھا کر سکیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ بات یہ ہے کہ آج کل دنیا میں عمومی طور پر اللہ تعالیٰ اور روحانیت سے دُوری کا رجحان ہے تو ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ پہلے لوگوں کو قریب لائیں، اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کرنے کی طرف لوگوں کو توجہ دلائیں اور اس کے لیے جو تجربہ کار لوگ ہیں، پرانے احمدی ہو چکے ہیں جنہیں احمدیت میں دس سے بیس سال ہو گئے، ان کو چاہیے کہ اپنے تجربات لوگوں کے سامنے بیان کریں، اپنی دعاؤں کی قبولیت کے تجربات بیان کریں۔ پھر تاریخ اسلام میں سے، تاریخ احمدیت میں سے اور جو میں مختلف لوگوں کے ایمان افروز واقعات سناتا رہتا ہوں ان کو نوجوانوں کو بیان کریں تا کہ ان کے ایمان میں پختگی پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ پر یقین کامل پیدا ہو اور جب یہ ہو گا تو وہ پھر مسجد میں عبادت کے لیے بھی آئیں گے اور خود بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس کے علاوہ بعض دنیاوی ایکٹوٹیز (activities)ہیں مثلاً اگر یہاں کوئی ملٹی پرپزہال ہے تو اس ہال میں تھوڑے بہت انڈور گیمز (Indoor Games)کا بھی انتظام کر لیں تا کہ ایک دو نمازیں تو لوگ یہیں آ کے پڑھ لیں۔
اسی طرح نوجوانوں اور نومبائعین کے ذہنوں میں جو سوال اٹھتے ہیں ان کو صرف ایک دفعہ بیعت کرا کے یا نظام میں شامل کر کے چھوڑ نہ دیا کریں بلکہ نوجوانوں، نومبائعین، بچوں کے لیے بھی ایسے پروگرام کریں جوinteractiveپروگرام ہوں بجائے وفات مسیح، الله تعالیٰ کی existence یا اس طرح کے مختلف ٹاپک(topic) پر تقریر کرنے کے کہ یہ بھی کریں، لیکن اس کے ساتھ زیادہ وقتinteractive پروگرام ہونا چاہیے۔جو سوال جواب ہوں، ان سے لوگوں کی، نوجوانوں کی اورنئے آنے والوں کی بھی دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور جب دلچسپی پیداہو اور اس کے تسلی بخش جواب مل جائیں تو پھر ان میں ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ تو نوجوانوں اور نومبائعین کو قریب لانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔
دوسرے یہ کہ اپنی اخلاقی حالتوں کو اتنا بہتر کرلیں کہ آپ کا نمونہ، پرانے احمدی جن کو آٹھ دس سال گزر گئے ان کا نمونہ دیکھ کے لوگ خود بخود متاثرہونا شروع ہو جائیں اور قریب آنے کی کوشش کریں۔ جب وہ آپ کے قریب آئیں گے تو اردو میں محاورہ ہے کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کے خربوزہ رنگ پکڑتاہے تو استفادہ کریں گے۔ اسی طرح مومن کی نشانی بھی یہی ہے کہ ایک دوسرے سے جب قربت حاصل ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنوں کی مجلس میں بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جن سے لوگ فائدہ ہی اٹھاتے ہیں نقصان نہیں اٹھاتے۔ اس بات کی طرف زیادہ توجہ کریں۔
ایک سوال کیا گیا کہ فلسطین یا یوکرین یا چاہے اسرائیل میں معصوم بچے اور لوگ مر رہے ہیں ان کے لیے جو پُرامن احتجاج ہوتا ہے، کیا ہم اس میں حصہ لے سکتے ہیں؟
اس پرحضور انورنےراہنمائی فرمائی کہ بالکل لے سکتے ہیں۔لیکن بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ جو احتجاج آرگنائز کرنے والے ہوتے ہیں وہ بعض دفعہfanaticقسم کے لوگ ہوتے ہیں جو اس پُرامن احتجاج کو شدت پسندی میں بدل دیتے ہیں، توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔آپ یہاں ان کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور احتجاج کرتے کرتے اپنے ملک کی پراپرٹی کو نقصان پہنچانے لگ جائیں، سڑکوں کے پول توڑنے لگ جائیں، لائٹیں توڑنے لگ جائیں یا بورڈ توڑنے لگ جائیں یا آگیں لگانے لگ جائیں۔یہ چیزیں غلط ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس کے حق میں بورڈ اٹھا کے پُرامن احتجاج ہے وہ آپ کر سکتے ہیں۔ اس میں حصہ لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں جو بھی احمدی ہیں، یہاں مختلف ملکوں کی جو ایمبیسیز (embassies)ہیں ان کے ایمبیسیڈرز(ambassadors)، سفیروں کو بھی خط لکھیں، اپنے سیاستدانوں کو بھی خط لکھیں کہ فلسطین کے لیے یا مظلوموں کے لیے جو دنیا میں ظلم کی چکّی میں پس رہے ہیں، ان کو کوشش کرنی چاہیے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے اور ہماری یہ خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو۔ تو یہ پیغام اگر ہر احمدی کی طرف سے اپنے اپنے حلقے کے سیاستدانوں اور ایمبیسیڈرز (ambassadors) کو بھی چلا جائے تو اس کا بھی اچھا اثر پڑے گا اور یہ بھی خاموش احتجاج کا ایک حصہ ہی ہے۔
حضور انورایدہ الله تعالیٰ نے ملاقات کے آخر پر سب شاملین کو اللہ حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم کہا اور ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔