حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اپنے ہر معاملے میں معاشرے میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍اگست ۲۰۱۷ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرض وصول کرنے والوں کو قرض دینے والے سے نرمی کا سلوک کرنے پر ثواب کی خوشخبری دی ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی سے قرض کی رقم لینی ہو اور وہ اس کو مقررہ میعاد گزرنے کے بعد مہلت دیتا ہے تو ہر وہ دن جو مہلت کا گزرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ ہو گا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الصدقات باب انظار المعسر حدیث 2418)۔

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا کہ صدقہ و خیرات تمہاری بلاؤں اور مشکلات کو اور مصیبتوں کو دُور کرتے ہیں۔ (کنز العمال جلد 6صفحہ 148 حدیث 15978مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

پس کیا ہی اعلیٰ سودا ہے کہ اپنے بھائی کو سہولت دینا ثواب کا مستحق بھی بنا رہا ہے اور بہت سی بلاؤں اور مشکلوں سے بھی ہمیں بچا رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ تھوڑی سی بھی نیکی کو اجر کے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اگر ہم قرآن کریم کی اس سنہری ہدایت کو یاد رکھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سامنے رکھیں تو ایک پُر امن معاشرے کا قیام عمل میں آئے۔ بے چینیاں پھر نہ پھیلیں۔ کبھی رنجشیں لمبی نہ چلتی چلی جائیں۔ فیصلوں پر عمل درآمد کرانے والے اداروں کا بھی حرج نہ ہو۔ وہ ان جھگڑوں کو نپٹانے کی بجائے کسی تعمیری کام کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ قضا کا بھی حرج نہ ہو گو قضا اسی مقصد کے لئے بنائی گئی ہے کہ فیصلے ہوں لیکن اگر فیصلوں کو ماننے میں دونوں فریق نرمی کا رویّہ رکھیں تو بلا وجہ کا حرج نہ ہو۔ اور بعض دفعہ ایک ہی معاملے کے لمبا چلنے کی وجہ سے بعض دوسرے معاملات متاثر ہوتے ہیں وہ متاثر نہ ہوں اور خود فریقین کو جو قضا میں آنے یا عدالتوں میں جانے اور وکیل کرنے کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں ان سے بھی بچت ہو جائے۔ بعض دفعہ تو ایسے ضدی ہوتے ہیں کہ وہ اپنا نقصان برداشت کر لیتے ہیں لیکن یہی چاہتے ہیں کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہو اور اس کے لئے جہاں تک جایا جا سکتا ہے جایاجائے۔ اور پھر جیساکہ مَیں نے کہا کہ بعض لوگ، بعض فریق مجھے بھی لکھتے ہیں کہ اب آپ اس معاملے کو دیکھیں۔ سو اگر ضدّیں نہ ہوں، اَنائیں نہ ہوں تو پھر میرا وقت بھی ان فضولیات میں ضائع ہونے سے بچ جائے۔ میں بعض دفعہ معاملات دیکھنے کے بعد جب فریقین کو جواب دیتا ہوں لیکن اگر ان کی مرضی کا جواب نہیں ہوتا تو پھر بھی وہ اپنی بات پر، ضد پر قائم رہتے ہیں، اڑے رہتے ہیں کہ نہیں ہم ہی ٹھیک ہیں اور یہی ضد ہوتی ہے کہ فیصلہ بھی ہمارے حق میں ہو اور سہولت بھی ہم نے دوسرے فریق کو کوئی نہیں دینی۔ میرے واضح طور پر لکھنے کے باوجود بعض دفعہ نہایت ڈھٹائی سے تیسرے چوتھے مہینے خط لکھ جاتے ہیں کہ ہم نے اپنے معاملے کے بارے میں لکھا تھا اور ہم حق پر ہیں اس دفعہ فیصلہ کو دوبارہ دیکھا جائے اور ہمیں ہمارا حق دلوایا جائے۔

مَیں یہ نہیں کہتا کہ قضا کے فیصلے سو فیصد درست ہوتے ہیں لیکن اَسّی پچاسی فیصد بہرحال درست ہوتے ہیں اور جو شواہد اور ثبوت پیش کئے جاتے ہیں ان کی روشنی میں وہ صحیح ہوتے ہیں۔ اگر غلط بھی ہوتے ہیں تو نیّت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی طرف سے نیک نیتی سے یہ لوگ فیصلے کرتے ہیں۔ پس اگر ایک فریق کے خیال میں اس کا حق بنتا ہے لیکن فیصلہ اس کے خلاف ہو جاتا ہے تو اس پر قضا پر یا قاضی پر الزام نہیں لگانا چاہئے۔ بعض لوگوں کو یہ الزام لگانے کی عادت بھی پڑ جاتی ہے۔ انہوں نے حقائق کے مطابق ہی فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ اگر کسی فیصلہ میں کوئی ابہام ہو یا دوسرےفریق کے خیال میں اس فیصلہ میں ابہام ہے تو اس فریق کی درخواست پر بعض دفعہ مَیں بھی فائل منگوا کر دیکھ لیتا ہوں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اکثر فیصلے صحیح ہوتے ہیں اور صرف بدظنیوں کی وجہ سے شکوک و شبہات دل میں پیدا کئے جاتے ہیں۔ پس بدظنیوں سے بچنا چاہئے۔ بدظنی پھر ایک اور برائی کا راستہ کھول دیتی ہے۔

قضا کے معاملات براہ راست لین دین کے ہوں، کاروباری ہوں یا عائلی ہوں، ہر معاملے میں وہ براہ راست یا بالواسطہ مالی لین دین کا معاملہ بن جاتا ہے۔ کہیں حق مہر کی ادائیگی ہے۔ کہیں سامان کی ادائیگی ہے میاں بیوی کے جھگڑوں میں اور لین دین کے معاملوں میں تو اکثر دفعہ مالی معاملات ہی ہوتے ہیں۔ تو بہرحال مالی معاملات ہر جھگڑے میں کسی نہ کسی ذریعہ سے involve ہو جاتے ہیں اور سہولت دینے والا جو اصول ہے کہ سہولت دی جائے یہ ہر جگہ کچھ نہ کچھ حد تک ضرور چلتا ہے۔ عائلی معاملات میں بھی نقد رقم کا مطالبہ، لین دین کے معاملات میں بھی اکثر رقم کا مطالبہ ہوتا ہے۔ عائلی معاملات میں مثلاً جیسا کہ میں نے کہا حق مہر کی ادائیگی ہے۔ یہ بھی یقیناً ایک قرض ہے جو خاوند کے ذمہ ہے۔ لیکن بسا اوقات لڑکی والے لڑکے کی حیثیت سے زیادہ حق مہر بھی رکھوا لیتے ہیں۔ ایک طرف تو لڑکا پابند ہے کہ قرض کو ادا کرے۔ حق مہر ایک قرض ہے۔ دوسری طرف لڑکی والے بھی زیادتی کر جاتے ہیں کہ حق مہر زیادہ رکھوا لیتے ہیں تا کہ کسی طرح لڑکے کو باندھ لیا جائے جو لڑکے کے لئے ادا کرنا مشکل ہوتا ہے اور صرف مشکل نہیں ہوتا بلکہ دوسرا فریق اس کو ادا کرنے کی توفیق ہی نہیں رکھتا۔ اگر قضا لڑکے کے حالات کو دیکھ کر حق مہر کم کر دے تو اس پر بھی فریق ثانی کو اعتراض شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح براہ راست قرض کے لین دین کے معاملات ہیں۔ ان میں اگر قضا حالات دیکھ کر قسطیں مقرر کر دے تو اس پر بھی دوسرے فریق کو اعتراض ہو جاتا ہے۔

ہم احمدی ایک پُر امن معاشرے کے بارے میں جب دنیا کو کہتے ہیں تو ہمیں بھی اپنے ہر معاملے میں معاشرے میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ صحابہ آپس کے معاملات میں کیسے رویّے رکھتے تھے اس کی ایک جھلک ایک واقعہ سے ملتی ہے۔

حضرت ابو قتادۃ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مسلمان کے ذمّہان کا کچھ قرض تھا۔ جب بھی یہ اس کے پاس قرض کا تقاضا کرنے جاتے تو وہ چھپ جایا کرتا تھا۔ ایک دن یہ گئے تو اس کے بیٹے سے پتا چلا کہ وہ گھر میں ہی ہے۔ انہوں نے باہر سے آواز دی اور کہا کہ مجھے پتا چل گیا ہے کہ تم گھر میں ہی ہو۔ اس لئے اب چھپنا بے فائدہ ہے۔ باہر آؤ اور مجھ سے بات کرو۔ جب وہ شخص باہر آیا تو انہوں نے اس سے چھپنے کی وجہ معلوم کی تو اس نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میں آجکل بہت زیادہ تنگ دست ہوں۔ میرے مالی حالات بڑے بُرے ہیں۔ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ عیالدار ہوں۔ بچے بہت ہیں۔ ان کے بھی اخراجات پورے کرنے ہیں۔ اس پر ابوقتادۃ نے کہا کہ واقعی ایسا ہے جیسا تم کہہ رہے ہو؟ تو اس نے کہا کہ خدا کی قسم میرا یہی حال ہے۔ اس پر انہوں نے اس کا سارا قرض معاف کر دیا۔ (صحیح مسلم کتاب المساقاۃ باب فضل انظارالمعسر حدیث 4000)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button