متفرق مضامین

اوصافِ قرآن مجید (قسط دوم۔آخری)

(امۃ الباری ناصر)

۵۔

کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ

وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا

یکتا :yaktaa

منفرد، واحد، اکیلا، یگانہ Matchless, unique

قرآن پاک تو نور ہی نورہے۔ دنیا میں کوئی اتنی خوب صورت چیز نہیں ملتی جس کی مثال سے قرآن مجید کے حسن کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے۔ کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے۔ وہ تو ہر خوبی میں منفرد ہے بے مثال ہے اس جیسا اور کوئی نہیں۔

۶۔

پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں

پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا

عصا :asaa

سونٹا Staff, rod اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب حضرت موسیٰؑ کا عصا فرعون کے ساحروں کے سانپوں کےمقابل اژدہا بن گیا اور جھوٹ کو غلط ثابت کردیا تھا۔

۷۔

ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور

ایسا چمکا ہے کہ صد نَیّرِ بیضا نکلا

نیر بیضا :nayyer-e-baizaa

چمکدار سورج :Bright Sun

اگر کسی کو قرآن پاک کا نور نظر نہیں آتا تو یہ اس کی بینائی کا قصور ہے۔ ورنہ قرآن پاک تو ایسا روشن ہے جیسے سو سورج ایک ساتھ چمک رہے ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن مجید سے عشق تھا۔ اللہ تعالیٰ نےآپؑ کو قرآنی علوم خود سکھا کر بھیجا تھا تاکہ ایمان جو ثریا ستارے کی طرح دور چلا گیا تھا اور قرآن جو مہجور ہو گیا تھا پھر سے زندہ ہو۔ آپؑ نے قرآن کریم کا حسن دکھانے کے لیے اردو عربی فارسی میں نظم اور نثر کی صورت میں محاسن قرآن پربے شمار لکھا۔ زمانے کی گرد صاف کی اور اس پیاری کتاب کی اہمیت اور چمک دکھائی۔ باقی کتابوں کے مقابلے میں اس کی ابدی سچائیاں ثابت کیں، قرآن کا حسن نکھر کر سامنے آیا اور ایسا چمکا جیسے ایک ساتھ سو سورج روشنی پھیلا رہے ہوں۔

۸۔

زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں

جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اَعمیٰ نکلا

اعمیٰ: A‘maa اندھا :Blind

اس دنیا میں ایسے لوگوں کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے۔ جن کے دل قرآن مجید کے نور کی موجودگی میں بھی حق دیکھنے سے محروم رہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کی بلند شان اور عالی مقام دنیا کو دکھایا۔ اس کا علم و عرفان بیان فرمایا۔ اس کے حسن و خوبی کا ہر پہلو لوگوں کے سامنے لائے۔ خود اس سے اتنا پیار کیا جیسے یہی کعبہ ہو اور آپؑ اس کے گرد گھومتے رہتے ہوں۔ جس قدر محبت سے آپؑ نے قرآن پاک کو ان گنت دفعہ پڑھا شاید ہی کسی نے پڑھا اور سمجھا سمجھایا ہو۔

۹۔

جلنےسے آگے ہی یہ لوگ تو جل جاتے ہیں

جن کی ہر بات فقط جھوٹ کا پتلا نکلا

پُتلا: putlaa کٹھ پُتلی، گڈا، بُت A puppet

ایسے لوگ جو ہر بات میں صرف جھوٹ بولتے ہیں۔ جب بات کرتے ہیں جھوٹ کا ایک بت بنایا ہوتا ہے۔جھوٹ کی سزا تو آگ ہوتی ہے مگر یہ جھوٹے لوگ آگ میں پھینکے جانے سے پہلے ہی حسد اور دشمنی کی آگ میں جل جاتے ہیں۔

جب سے انسان پیدا ہؤا ہے خیر اور شر کے سلسلے جاری ہیں۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کا حکم مانا مقرب ٹھہرے۔ابلیس نے انکار کیا اور راندۂ درگاہ مردود ٹھہرا۔ جس سے اس کے دل میں جلن نفرت حسداور انتقام کی آگ بھڑکنے لگی۔ شیطانی مزاج رکھنے والے اپنا ہی دل جلاتے ہیں۔ اپنی طاقتیں اچھائی کو روکنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی تو مفروضوں خیالی چیزوں کذب اور بناوٹی باتوں پر بنیاد یں کھڑی کرکے جھوٹی عمارتیں بناتے ہیں۔ نتیجہ صرف ذلت رسوائی ناکامی اوربدنامی ہوتا ہے۔ جلنا ان کی قسمت میں لکھا گیا ہے۔ وہ ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جن کے ساتھ اللہ قادر و توانا کی تائید ہوتی ہے۔ وہ ان کا ہر وار سہ کر بھی انہیں بڑی ہمدردی سے راہِ حق کی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’اس تاریکی کے زمانے کا نور میں ہی ہوں۔جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئےہیں۔‘‘(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ۱۳)

یہ نظم درست تلفظ تحت اللفظ میں سنیے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button