الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت سیّدہ امۃالحی صاحبہؓ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ سیّدہ شمیم شیخ صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ امۃالحی صاحبہؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی دوسری حرم محترم حضرت سیّدہ امۃالحی صاحبہؓ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی صاحبزادی اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ آف لدھیانہ (جن کے مکان پر حضرت مسیح موعودؑ نے پہلی بیعت لی تھی )کی نوا سی تھیں۔

آپؓ یکم اگست1901ءکو پیدا ہوئیں۔ حضرت مولانا سیّد سرور شاہ صا حبؓ نے ایک ہزار روپےحق مہر پر 31؍مئی1914ء کو آپؓ کا نکاح پڑھایا۔ آپؓ کی طرف سے آپؓ کے بھائی عبدالحئی صا حب ولی تھے۔ 10؍دسمبر1924ء کو صرف 23 سال کی عمر میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپؓ کی وفات کے بعد مختلف مواقع پر آپؓ کا ذکرخیر فرمایا۔ ان ارشادات کے حوالے سے حضرت سیّدہ کی پاکیزہ زندگی اور سیرت کومضمون نگار نے قلمبند کیا ہے۔

٭…حضورؓ فرماتے ہیں کہ امۃالحی اپنی ذات میں بھی نہایت اچھی بیوی تھی مگر ان میں ایک خاص بات بھی تھی ان کی شکل اپنے والد، میرے محسن، میرے پیارے استاد حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے بہت ملتی تھی۔ نسوانی نقش جس حد تک مردانہ خوبصورتی کو ظاہر کر سکتے ہیں اس حد تک وہ اپنے والد کی یاد دلاتی تھیں۔ میرے لیے وہ یاد نہایت پیاری اور وہ شباہت نہایت محبوب تھی پھر ان کا علمی مشغلہ، وہ بیماری اور کمزوری میں عورتوں کو پڑھانا، وہ علمی ترقی کا شوق نہایت درجہ تک جاذب ِقلب تھا۔

٭…حضرت سیّدہؓ کو اپنے والد محترم سے ورثہ میں ہی دین کی خدمت اور قرآنِ کریم کا عشق ملاتھا۔ انہی جذبوں نے آپؓ کو عورتوں میں قرآن کریم سکھانے، پڑھانے اور عورتوں کی تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کمربستہ کیا اور حضرت فضل عمرؓ سے شادی کا سبب بھی آ پؓ کا تعلیمی رجحان ہوا۔ حضورؓ فرماتے ہیں: عورتوں پر خصوصیت سے میری اس بیوی کا احسان ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد میرا منشاء نہیں تھا کہ مَیں عورتوں میں درس دیا کروں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت ہی بڑی ہمت کا کام ہے کہ ایسے عظیم الشان وا لد کی وفات کے تیسرے روز ہی امۃالحی نے مجھ کو رقعہ لکھاکہ مولوی صا حب مرحوم اپنی زندگی میں ہمیشہ عورتوں میں قرآن کریم کادرس دیا کرتے تھے اب آپ کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے حضرت مولوی صاحب نے اپنی آخری ساعت میں مجھے نصیحت فرمائی کہ میرے مرنے کے بعد میاں سے کہہ دینا کہ وہ عورتوں میں درس دیا کریں اس لیے مَیں اپنے والدصاحب کی وصیت آپ تک پہنچاتی ہوں۔ وہ کام جو میر ے وا لد صاحب کیا کرتے تھے اب آپ اس کام کو جا ری رکھیں۔ وہ رقعہ ہی تھا جس کی بِنا پر میں نے عورتوں میں درس دینا شروع کیا۔ اگر اس درس کی وجہ سے کو ئی فا ئدہ عورتوں کو پہنچا ہو تو یقیناً اس ثواب کی مستحق بھی مر حومہ ہی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ عورتوں میں خطبہ لیکچرز اور سو سائٹیاں اور ہر ایک خیال جو عورتوں کے متعلق ہوسکتا ہے اس کی محرّک وہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے تمام افراد سے ہی ان کو ایسی محبت تھی جو اَور عورتوں میں بہت کم پائی جا تی ہے۔مجھ پر تو ان کا اتنا حق ہے کہ میں کسی طرح اس حق سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ان کا اخلاص اور ان کی محبت ساری جماعت کی عورتوں کے لیے بلکہ بہت سے مردوں کے لیے بھی قا بل رشک ہے۔

٭…حضور ؓنے اپنی شادی کی غرض اور حضرت سیّدہؓ کے دینی شوق کاذکر کرتے ہو ئے فرما یاکہ مَیں نے ان سے جب شادی کی اس وقت میری نیت بطور احسان کے تھی کہ ان کے ذریعے بآسانی عورتوں میں تعلیم دے سکوں گا۔ اس لیے میںنے ارادہ کیا کہ فوراً ان کو تعلیم دوں مگر وہ اس شوق میں مجھ سے بھی آگے بڑھی ہو ئی نکلیں۔ ابتداءً مَیں کبھی سبقوں میں ناغے بھی کر دیتا تھا مگر وہ کہہ کر اور زور دے کر اپنی تعلیم کو جاری رکھتی تھیں اور اس میں انہوں نے بہت ترقی کی۔وہ قرآن شریف کا ترجمہ اچھی طرح پڑھا لیتی تھیں۔ بلوغ المرام پڑھاتی تھیں، اسی طرح اَور دینی کتب لڑکیوں کو پڑھاتی تھیں اور وفات سے چار پانچ روز ہی پہلے مجھ سے مشورہ کر رہی تھیں کہ لڑکیوں کو مشکوٰۃ پڑھانی ہے۔ تو تعلیم کی یہ خوا ہش جو اُن میں تھی وہ دیگر عورتوں میں نظر نہیں آتی۔

٭…اس رشتہ کی کا میابی اور اس کے نتیجہ میں حا صل ہونے والے انعا مات و برکا ت کا ذکر حضورؓ یوںفرماتے ہیں: مَیں نہیں جا نتا تھا یہ میری نیک نیتی اور اپنے استاد اور آقا کی خواہش کو پورا کرنے کی آرزو ایسے اعلیٰ درجہ کے پھل لا ئے گی اور میرے لیے اس سے ایسے را حت کے سا مان پیدا ہوں گے۔ میں نے عمر بھر کو ئی ایسی کا میاب اور خوش کرنے والی شادی نہیں دیکھی جیسی میری یہ شا دی تھی۔

٭…آپؓ کے ایمان و تقویٰ کا ذکر کرتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ رو حیں ایک دوسرے سے وابستہ اور پیوستہ ہو تی ہیں یعنی بعض کا بعض سے تعلق ہو تا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ میری روح کو امۃالحی کی روح سے ایک پیوستگی حاصل تھی۔ ان کے اندر ایک ایسا ایمان تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر، ایک ایسا یقین تھا اسلام کی صداقت پر جو ایمان اور یقین بہت کم عورتوں میںپایا جا تا ہے ان کے اندر ایک یقین اور وثوق تھا تمام سلسلہ کے کاموں کے متعلق۔مَیں نے ہمیشہ ان کے ایمان کو خلافت کے متعلق ایسا مضبوط پایا کہ بہت کم مردوں میں ایسا ہوتا ہے۔ ان کی دین سے محبت، ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت، ان کی وہ حالتِ ایمان جو دین کے دوسرے شعبوں کے ساتھ تھی میرے حساس قلب کو متا ثر کیے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔

٭…آپؓ کی وفات سے حضورؓ کو بہت صدمہ پہنچا۔ آپؓ نے فرمایا: میرے اپنے خیال اور ارادہ میں جس ہستی کے اوپر میرا ہاتھ تھا اور جس پر مجھے بڑی امیدیں تھیں وہ ہستی مجھ سے جدا ہو گئی ہے اس وجہ سے مجھے غم ہے ورنہ ایسے انسان کی مو ت پربھلا کیا غم ہو سکتا ہے جس کے لیے اس قدر دعاؤں کا موقع ملا اور جس کے لیے آ خری حد تک جو تیمارداری ممکن تھی اور میری برداشت کے اندر تھی وہ کی اور اپنی محبت کے اظہار کے لیے دل پر پتھر رکھ کر وہ کا م کیے جو دوسروں کے لیے کرنے ناممکن ہیں۔مَیں نے بھی اس کے لیے بہت دعائیں کیں اور جماعت نے بھی دعا ئیں کیں،پھر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئیں، بھلا اتنی خو ش نصیبی کس کو نصیب ہے! اس کی وفات کے متعلق تو مجھے پہلے سے ہی اطلا ع ہو گئی تھی۔تین سا ل ہوئے کہ مَیں نے خواب دیکھا کہ وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس آئی ہے اور السلام علیکم کہہ کر کہنے لگی ’میں جا تی ہوں‘ اور اس کے بعد جلدی جلدی گھر سے نکل گئی۔ مَیں نے میر محمداسماعیل صا حبؓ کو اس کے پیچھے روانہ کیا تو انہوں نے واپس آکر بتا یا کہ وہ بہشتی مقبرہ کی طرف چلی گئی ہیں۔ پھر مبارکہ بیگم نے بتایا کہ ایک دفعہ امۃالحی نے ایک مصرعہ کہا جس کا مفہوم غا لباً یہ تھا ؎

اے بلبل بو ستان تُو خاموش کیوں ہے

اور مجھ سے کہا کہ مَیں جب فوت ہو جاؤں گی تو آپ اس پر مصرعے لگانا۔ مبارکہ کہتی ہیںکہ مَیں نے کہا کہ نہیں مَیںآپ سے پہلے فوت ہوں گی۔میری وفات پرآپ نے اس پر مصرعے جوڑنے ہوں گے۔تو امۃالحی نے کہا نہیں، مَیں نارا ض ہوجاؤں گی اگر آپ نے پھر ایسا کہا۔ مَیں پہلے وفات پاؤں گی، میری وفات پر اس مصرعہ پر ضرور مصرعے لگانے ہوں گے۔

مرحومہ فوت ہو گئیں اور میرے دل کا ایک کونہ خالی ہوگیا۔ اللہ کے فضل ہوں اس قدر اِ س کے والد پر اور اِس مرحومہ پر، ہاں اِس قدر کہ وہ دونوں حیران ہوکر اپنے ربّ سے پو چھیں کہ آج کیا ہے کہ تیری رحمت کا دروازہ اس رنگ میں ہم پر کھل رہا ہے اور ان کا ربّ ان کو بتائے کہ میرے بندے محمودؔ نے اپنا ٹوٹا ہوا دل اور اشک بار آنکھیں میرے قدموں پر رکھ کر مجھ سے درخواست کی ہے کہ مَیں تم پر خاص درود بھیجوں اور یہ اسی درود کی ضیاباریاں ہیں جوتم پر نازل ہو رہی ہیں۔

٭…حضرت سیّدہ امۃالحی صاحبہؓ اور حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ کی خصوصیات کو حضورؓ نے ایک بار یوں بیان فرمایا: امۃالحی کی مثال ایسی تھی جیسے کوئی پھولوں سے خو شبو جمع کرتا ہوا چلا جائے۔ سا رہ بیگم کی مثا ل ایسی تھی جیسے کوئی صبر سے انتظار کرے اور جب پھولوں میں بیج آجا ئیں تو وہ ان بیجوں کو جمع کرے تاکہ انہیں دوسرے باغیچوں میںبوکر نئے پھول پیدا کرے۔ ایک بجلی، ایک چمک تھی جو دنیا کو روشن کرتی ہو ئی چلی جا تی ہے۔ ایک بارش کی باریک پھوا ر تھی جو زمین کے اندر دھنس کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اوّل الذکر ان خوش قسمتوں میں سے تھیں جو اپنی چمک سے لو گوں کی توجہ کو کھینچ لیتے ہیں۔ ثانی الذکر اُن لو گوں میں سے تھیں جو خاموشی سے اپنا خون درخت کی جڑ میں ڈال دیتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے فراموش کردیے جاتے ہیں۔ اوّل الذکر ایک بڑے باپ کی بیٹی اس کے شا گردوں کے حلقہ میں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے وا لی تھی۔ ثانی الذکر اپنے وطن سے دُور اپنے جان پہچان کے لو گوں سے علیحدہ اجنبیوں میں زندگی بسر کرنے کے لیے آئی اور خاکساری سے اس نے اپنے دن پورے کردیے۔

٭…حضرت سیّدہؓ خواتین احمدیت کی دینی اور تعلیمی ترقی کی خشتِ اوّل تھیں۔لجنہ اماءاللہ کے قیام سے وفات تک آپؓ جنرل سیکرٹری رہیں۔ آپؓ ہی کی کو ششوں سے جلسہ سا لانہ پر عورتوں کے لیے علیحدہ اور باقا عدہ قیام و طعام اور تقریروں کا انتظام رہا۔ آپؓ جلسہ سالانہ پر تقریر بھی کرتی رہیں اور لجنہ کے رسائل میں مضامین بھی لکھتی رہیں۔ آپؓ نے خدمت کرتے ہو ئے کبھی بیماری کی پروا نہیں کی۔

اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو ایک بیٹے صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب اور دو بیٹیوں سے نوازا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button