انصاف اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا(النساء :۱۳۶)
اس کاترجمہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلوتہی کر گئے تو یقیناً اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو قرآن کریم میں جن اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ اقدار کو اپنانے کی طرف توجہ دلائی ہے، ان میں سے ایک انصاف اور عدل ہے۔ جس پر عمل کرنا، جس پر قائم ہونا اور جس کو چلانا مومنوں پر فرض ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا کہ جو مرضی حالات ہو جائیں جیسے بھی حالات ہو جائیں تم نے انصاف اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانے میں ایک دفعہ عیسائیوں نے یہ اعتراض کیا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اور آیتوں کے علاوہ اس آیت کوبھی پیش فرمایا کہ اس کے بعد تم کس منہ سے یہ دعویٰ کر سکتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہو گا۔ نیز یہ بھی فرمایا انعام کا چیلنج دیا اور عیسائیوں کو للکارا کہ جس طرح سچ بولنے اور انصاف پر قائم رہنے کی تلقین قرآن کریم میں ہے، عیسائی اگر انجیل میں سے دکھا دیں تو ایک بڑی رقم آپؑ نے فرمایا میں انعام کے طور پر پیش کروں گا۔ لیکن کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ مقابلے میں آئے تو یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی اس نے توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں قرآن کریم کی چھپی ہوئی حکمت کی باتوں اور براہین کا ہمیں ہتھیار دیا۔ لیکن یہ ہتھیار صرف غیروں کے منہ بند کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حسین تعلیم ہے اس کو ہم نے اپنے اوپر لاگو کرنا ہے، اگر اپنے گھر کی سطح پر، اپنے محلہ کی سطح پر اپنے ماحول میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا یہ عدل کا نظام قائم نہ کیا تو ہمارے دنیا کی رہنمائی کے تمام دعوے کھوکھلے ہوں گے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ۵؍مارچ۲۰۰۴ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۹؍مارچ۲۰۰۴ء)