حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

شرائط بیعت کی صحیح پابندی

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍اگست ۲۰۱۷ء)

ہر احمدی جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل کرتا ہے وہ روحانی اخلاقی علمی اعتقادی بہتری کے لئے ایک عہد کرتا ہے اور اس دور میں جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی نعمت سے نوازا ہوا ہے اور جماعتی پروگرام جلسے، خطبات اور سب سے بڑھ کر بیعت کے حوالے سے عالمی بیعت میں تو ایم ٹی اے اور انٹرنیٹ کے ذریعہ لاکھوں احمدی شامل ہوتے ہیں اس لئے ہر وہ احمدی جو پیدائشی احمدی ہے یا خود بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوا ہے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں تو بیعت کے عہد کا پتا نہیں ہے۔

پس اگر ضرورت ہے تو اس چیز کی کہ ہم بیعت کرنے کے بعد اس کی تفصیلات جاننے کی کوشش کریں اور بیعت کے عہد کو سامنے رکھیں۔ اگر ہم بیعت کی شرائط میں بیان کردہ اخلاقی بہتری کی شرائط کو ہی سامنے رکھیں تو ہمارے اخلاقی معیار، معاشرتی تعلقات، کاروباری معاملات اور روزمرّہ کے لین دین کے معاملات، گھریلو اور عائلی معاملات، ان سب میں ایک غیر معمولی بہتری اور بلندی پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ان معیاروں سے بھی بہت دُور ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس تعلق سے اپنی شرائط میں جن باتوں کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ مثلاًکہ جھوٹ نہیں بولنا، ظلم نہیں کرنا، خیانت سے بچنا ہے۔ نفسانی جوشوں سے مغلوب نہیں ہونا۔ عام دنیا کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں کی وجہ سے ہاتھ یا زبان سے تکلیف نہیں دینی۔ تکبر نہیں کرنا۔ عاجزی اختیار کرنی ہے۔ ہمیشہ خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی بسر کرنی ہے۔ عموماً بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی ہے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563-564)

ہم اگر ان باتوں پر توجہ دیں تو جیسا کہ مَیں نے کہا ہم نہ صرف اخلاق کے اعلیٰ معیار حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ان کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔ اپنے اخلاق کے معیار بڑھا سکتے ہیں، اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو ہمارے اندر بھی ایک قابل فکر تعداد ایسی ہے جو باوجود بیعت کے عہد کے ان باتوں پر عمل نہیں کرتی۔ جب تک ہم ذاتی طور پر ایسی صورتحال سے نہیں گزرتے جہاں ہمیں اپنے حقوق قربان کر کے یا اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر اپنے اعلیٰ اخلاق کو اختیار کرنا ہو، ہم بڑے زور و شور سے یہ کہتے ہیں کہ یقیناً ان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہمیں کرنا چاہئے اور جو یہ نہیں کرتا وہ بڑا ظلم کرتا ہے۔ لیکن جب ہم براہ راست متأثر ہو رہے ہوں تو ہم میں سے اکثریت ان اخلاق کو بھول جاتی ہے۔ اگر ضرورت پڑتی ہے تو اپنی بات کو اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں کہ اس میں سچائی نہیں رہتی بلکہ وہ جھوٹ کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ اپنے حق کے حاصل کرنے کے لئے بعض دفعہ ظلم بھی کر جاتے ہیں۔ بعض لوگ بعض دفعہ خیانت کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور جھوٹی گواہیاں اپنے آپ کو خیانت سے بچانے کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔ اگر ہاتھ سے نہیں تو زبان سے تو اکثر اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے دوسروں کو تکلیف دے دیتے ہیں۔ عاجزی دکھانے کی بجائے اَنا غالب آجاتی ہے اور بسا اوقات تکبر کا کم یا زیادہ اظہار بھی ہو جاتا ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ قضا کے بعض معاملات جب میرے سامنے آتے ہیں تو جھوٹ اور سچ کو ثابت کرنے کی بجائے، حق لینے کی بجائے، ہٹ دھرمی اور ضد کا ایسا اظہار ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ کاروباروں میں سچائی پر بنیاد کی بجائے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی طرف زیادہ توجہ رہتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ فریقین نے جو وکیل کئے ہوتے ہیں وہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت دکھانے کے لئے اور اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں ایسی غلط بیانیاں کرتے ہیں جو جھوٹ ہوتا ہے۔ چاہے وہ لین دین کے معاملات ہوں یا میاں بیوی کے جھگڑے کے یا کسی بھی قسم کے معاملات ہوں وکیلوں کی وجہ سے طُول پکڑ جاتے ہیں۔ پس احمدی وکیلوں کو بھی چاہئے اور فریقین کو بھی کہ وہ اپنے عہد بیعت اور اللہ تعالیٰ کے خوف کو اپنے مفادات پر ترجیح دیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جھگڑے ہوتے ہی اس وقت ہیں جب صحیح طور پر یا غلط، جائز یا ناجائز شکوے اور شکایتیں پیدا ہونی شروع ہوتی ہیں، بدظنیاں پیدا ہونی شروع ہوتی ہیں، ایسے وقت میں ایک مومن کا کام ہے کہ جھگڑوں کو طُول دینے کی بجائے، اپنی ضدوں پر اَڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے اندر نرمی پیدا کر کے جماعتی نظام یا قضا میں اپنے معاملات لائیں اور کوشش یہ ہو کہ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہم نے ان غلط فہمیوں یا جائز ناجائز شکایتوں کو دُور کر کے آپس میں پیار اور محبت سے زندگی گزارنی ہے۔ لیکن اگر جس کے ذمہ حق بنتا ہے اور جس کا حق بنتا ہے دونوں ضدّی طبیعت کے مالک ہوں تو پھر چاہے جماعتی نظام ہے یا قضا ہے یا ملکی عدالت بھی ہے یہ سب جیسے بھی انصاف پر مبنی فیصلہ کریں کبھی بھی معاملہ انجام کو نہیں پہنچتا۔ ایک عدالت کے بعد دوسری عدالت میں اپیلیں ہوتی رہتی ہیں اور پھر اگر قضا میں آئے ہوئے فریق کا پانچ رکنی قضا کا بورڈ بھی فیصلہ کر دے تو پھر بھی جس کے ذمہ حق بنتا ہے بعض دفعہ وہ حق مار جاتا ہے اور حق نہیں دیتا یا فیصلہ تسلیم نہیں کرتا ہے یا پھر مجھے لکھ دیتے ہیں کہ ہم پر بڑا ظلم ہوا ہے آپ خود اس معاملے کو دیکھیں۔ اور یہ شکوے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اور حقیقت میں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ اظہار اَنا اور ضد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پس اگر جھگڑوں کو ہم نے احسن رنگ میں نپٹانا ہے تو ضدوں کو چھوڑنے کی ضرورت ہے بلکہ بعض اوقات جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے حق اگر بنتا بھی ہے تو اس حق کے لینے میں دوسرے فریق کو سہولت دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض دفعہ کچھ حد تک حق چھوڑنا بھی پڑ جاتا ہے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ(البقرۃ:281) اور اگر کوئی تنگ حال ہو کر آئے تو آسائش ہونے تک اسے مہلت دینی چاہئے اور اگر تم اپنے قرض معاف کر دو، خیرات کر دو تو یہ بہت اچھا ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ تمہیں پتا ہونا چاہئے کہ تم پر بھی ایسے حالات آ سکتے ہیں جب مجبوریاں ہوں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے بہت سے معاملات میں چھوٹ دیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ جو تمام طاقتوں کا مالک ہے ہمیں ہمارے معاملات میں پکڑنے لگ جائے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہ رہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے معاملات میں نرمی اور سہولت کا سلوک کریں۔ یہ ایک اصولی ہدایت ہے روزمرہ کے معاملات میں بھی، کاروباروں کے معاملات میں بھی، قرضوں کے لین دین کے معاملات میں بھی یہ چیزیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مومنوں کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ تم دنیا میں رحم اور نرمی سے کام لو تو آسمان پر خدا تعالیٰ بھی تم سے رحم کا سلوک کرے گا۔ (سنن ابو داؤد کتاب الأدب باب فی الرحمۃ حدیث 4941)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button