منظوم کلام حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام
اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے
وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار
اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار
اَے مکذّب کوئی اِس تکذیب کا ہے انتہا
کب تلک تُو خوئے شیطاں کو کرے گا اختیار
مِلّت احمدؐ کی مالک نے ڈالی تھی بِنا
آج پوری ہو رہی ہے اے عزیزان دیار
گلشنِ احمدؐ بنا ہے مسکن باد صبا
جس کی تحریکوں سے سنتا ہے بشر گفتارِ یار
ورنہ وہ ملّتؔ وہ رَہؔ وہ رسمؔ وہ دیں چیز کیا
سایہ افگن جس پہ نورِ حق نہیں خورشیدوار
دیکھ کر لوگوں کے کینے دل مرا خوں ہو گیا
قصد کرتے ہیں کہ ہو پامال دُرِّ شاہوار
ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف
وہ بلاتے ہیں کہ ہو جائیں نہاں ہم زیر غار
نورِ دل جاتا رہا اک رسم دیں کی رہ گئی
پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلح دیں کیا بکار
راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں
وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلافِ شہریار
(در ثمین اردو صفحہ ۱۵۰-۱۵۱)