حالاتِ حاضرہ

خبرنامہ (اہم عالمی خبروں کا خلاصہ)

٭…امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ۳؍نومبر۲۰۲۳ء میں تحریک جدید کے نوّے ویں سال کے آغاز کا اعلان فرمایا نیز تحریک جدید کے دفتر ششم کا کے آغاز کا اعلان فرمایا۔گذشتہ سال جماعت احمدیہ نے۱۷.۲۰؍ملین پاؤنڈز کی قربانی تحریک جدید میںپیش کی۔ گذشتہ سال سے یہ قربانی ۷؍لاکھ ۴۹؍ہزارپاؤنڈز زیادہ ہے۔

علاوہ ازیں حضور انور نے فلسطینیوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطینیوں کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھیں، انہیں نہ بھولیں۔ عورتیں اور بچے جس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے سامان فرمائے۔(مزیدتفصیلات کے لیے ملاحظہ کریں الفضل انٹرنیشنل۶؍نومبر۲۰۲۳ء)

٭… غزہ اور اسرائیلی نزاع کو ایک مہینہ ہو گیا ان حملوں کے بعد غزہ میں اموات کی تعداد ایک اندازے کے مطابق۹؍ہزار ۷۹۷؍ ہو گئی ہے۔غزہ کا ایک ماہ میں تیسری بار دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے، ٹیلی فون اور انٹر نیٹ کی سہولتیں معطل کر دی گئی ہیں۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ پر جارحیت میں ۸۸؍اہل کار جاں بحق ہو چکے ہیں، کسی بھی تنازع میں اقوامِ متحدہ کا یہ سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے ساٹھ اسرائیلی یرغمالی لاپتہ ہو گئے ہیں جبکہ ۲۳؍ملبے میں دب گئے ہیں۔

٭…بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں خطرناک حد تک فضائی آلودگی برقرار ہے۔دہلی کے ماحولیات کے وزیر گوپال رائے کی جانب سے دارالحکومت نئی دہلی میں فضائی آلودگی کے سبب ایک ہفتے کے لیے گاڑیوں کے استعمال پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔گوپال رائے کے مطابق پابندی کا اطلاق ۱۳ سے ۲۰؍نومبر کے درمیان ہو گا۔۱۲؍نومبر کو دیوالی کے بعد دہلی کی فضائی آلودگی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

٭… امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ کسی نہ کسی حد تک ہم سب اس میں شریک ہیں۔علاوہ ازیں امریکی سینیٹر اور سابق صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ فلسطینی بچے بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ اسرائیلی اور امریکی بچے۔غزہ کی تباہی جدید دور کے سب سے ہولناک لمحات میں سے ایک ہے۔ پناہ گزینوں کے کیمپوں اور ایمبولینسوں پر اندھا دھند بمباری سے ہزاروں مرد، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

٭…فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کےلیے نیویارک، لندن، پیرس، برلن، اوسلو اور بیونس آئرس سمیت دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں مظاہرے کیے گئے۔ امریکہ کا دارالحکومت فلسطینیوں کے حق میں نعروں سے گونج اٹھا۔ وائٹ ہاؤس کے باہر فلسطین کے حق میں اب تک کے سب سے بڑے احتجاج میں مظاہرین کی جانب سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔سینٹرل لندن میں بھی بڑا احتجاج کیاگیا۔ مسلسل چوتھے ہفتے ہونے والے احتجاج میں ایک لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے۔ برطانیہ میں درجنوں دیگر مقامات پر بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کیا گیا۔دوسری جانب اسرائیل میں ہزاروں افراد اپنے ہی وزیراعظم بن یامن نیتن یاہو کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین رکاوٹیں توڑتے ہوئے وزیراعظم کی رہائش گاہ پہنچ گئے اور استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔

٭… عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ کے تنازع کو فوری روکنے اور جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے ویٹی کن میں ہفتہ وار دعائیہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں لوگوں کی جانوں کے زیاں کی سنگین صورتحال ہے۔ آپ سے اللہ کے نام پر جنگ بند کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ غزہ میں انسانی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ بچوں کے بارے میں سوچو، جنگ کا شکار بچوں کا مستقبل ختم کیا جا رہا ہے۔

٭…پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک میں اتحاد، رواداری اور ہم آہنگی کے لیے ضابطۂ اخلاق جاری کیا ہے۔ ضابطۂ اخلاق کے مطابق پیغامِ پاکستان، قرآنِ پاک کے احکامات اور سنتِ رسول ﷺ آئینِ پاکستان کے مطابق متفقہ دستاویز ہیں، یہ دستاویز ریاستی اداروں، یونیورسٹیز اور تمام مکاتبِ فکر کے تعاون سے تیار کی گئی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ پیغامِ پاکستان پر ۱۸۰۰؍علمائے دین نے دستخط کیے ہیں، حکومت، فوج، سیکیورٹی اداروں کو غیر مسلم قرار دینا اسلام کی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ضابطۂ اخلاق میں حکومت، فوج، سیکیورٹی اداروں کے خلاف کارروائی کرنا اسلام کی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا ہے، یہ فعل بغاوت کے مترادف اور اسلامی احکام و شریعت کے مطابق ’حرام‘ ہے، تمام علمائے کرام مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔قوم افواجِ پاکستان اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کا اعلان کرتی ہے، تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے متفقہ رائے دیتے ہوئے خودکش بمباری کو شریعت کی روشنی میں ’حرام‘ قرار دیا ہے۔

ضابطۂ اخلاق کے مطابق ہر مسلک اور مکتبۂ فکر کو تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔ کسی فرد، مسلک یا ادارے کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی ممانعت ہے، کوئی عالمِ دین کسی کو غیر مومن قرار نہیں دے گا، یہ عدالت کا دائرہ اختیار ہے، پاکستان کی سر زمین دہشت گردی کے فروغ کی تربیتی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی، پاکستان کی سر زمین دنیا کے دیگر ممالک میں کسی مذموم کارروائی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔ علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی اقدار اور اسلامی اخوت پر مبنی اسلامی اداروں کا قیام وقت کی ضرورت ہے، اقلیتی برادریوں کو بھی مسلمانوں کی طرح حقوق حاصل ہیں، اقلیتوں کو اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق عبادت کی آزادی حاصل ہے، لاؤڈ اسپیکر، ٹی وی چینلز وغیرہ پر نفرت انگیز تقاریر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button