متفرق مضامین

کیا اسلام ’’یہود دشمنی‘‘ کا درس دیتا ہے؟

(آصف محمود باسط)

Antisemitism کی اصطلاح سے عرفِ عام میں یہود سے نفرت و دشمنی مراد لی جاتی ہے اور گذشتہ چند دہائیوں سے یہ اصطلاح دنیا بھر میں اس قدر مخصوص اورمعروف ہوچکی ہے کہ ہر ایک ایسا بیان، لفظ، حتیٰ کہ کنایہ اور اشارہ بھی اس کے دائرے میں آگیا ہے۔یوں Antisemitismکی اصطلاح دنیا بھر میں یہودی برادری کے خلاف کسی بھی نوع کی ممکنہ نفرت کوہوا دینے یا اظہار کرنے کا استعارہ بن چکا ہے۔

گو دنیا میں بعض دیگر اصطلاحات، جیسا کہ Islamophobia وغیرہ بھی پچھلی دو دہائیوں میں ظاہر ہوکر معروف ہوچکی ہیں، لیکن کسی بھی اور اصطلاح کو مذکورہ بالااصطلاح کی طرح عالمی سطح پر مقبولیت کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا۔

ان دنوں حماس اور اسرائیلی افواج ایک بار پھر مدمقابل ہیں اور دونوں طرف سے تشدد کا مظاہر ہورہا ہے اور مسلسل تباہی کا منظر ہے۔ ایسے ماحول میں ایک بار پھر یہ سوال دہرایا جارہا ہے کہ کیا دین اسلام antisemitismیا یہود دشمنی کی تعلیم دیتا ہے؟

اصل سوال

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن مجید اور کتب احادیث یہودیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتے ہیں؟ یایہ کہ کیا اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود سے دشمنی اور نفرت ہے؟

اس سوال کا یک لفظی جواب تو یہی ہےکہ نہیں!یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود کو اہلِ کتاب کے نام سے موسوم کیا ہے، ان کے اچھے اعمال کا ذکر کرتے ہوئے ساتھ ہی ان خطاؤں کا بھی ذکر کیا ہے جو ان میں سے بعض افراد سے سرزد ہوئیں، اور ان کے کفر کا بھی جب باقی تمام بنی نوع انسان کی طرح یہود کی طرف بھی اللہ تعالیٰ کی آخری اور کامل شریعت لےکر حضرت محمدﷺ کا ظہور ہوا۔

یہود کے بارے میں اسلام کے مؤ قف کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن کریم ان کی درجہ بندی کس طرح کرتا ہے۔

قرآن کریم میں یہود کا ذکر

قرآن کریم میں یہودیوں کا ذکرمختلف اصطلاحات سے کیا گیا ہے: بنی اسرائیل، یہود اور اہلِ کتاب، ’اہلِ کتاب‘ میں یہود کے ساتھ مسیحی بھی شامل ہیں۔

قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے طور پرذکر کرتے ہوئے زیادہ تر یہود پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات کا تذکرہ ہے۔جیسا کہ ان کا مقام و مرتبہ دیگر اقوام کی نسبت زیادہ بلند کیاگیا وغیرہ۔اور اسی طرح کی دیگر آیات میں یہود کی تاریخ کا بھی بیان ہے جو کم و بیش بائبل میں مذکور تاریخ کا ہی خلاصہ اور حاصلِ مطلب ہے۔ جبکہ قرآن کریم جہاں ان کا ’’اہلِ کتاب‘‘ کے طور پر ذکر کرتا ہے تو وہاں زیادہ تر اُس پیغام کاذکر ہوتا ہے جو اِن کو اپنے پہلے نبیوں کے ذریعہ ابتدائی صحائف میں ملاتھاجس کی تجدید اور تکمیل حضرت بانی اسلام محمد مصطفیٰﷺ کے ذریعہ ہوئی۔اور ایسی آیات میں یہود کی توجہ اسلام کے پیش کردہ عقائد اور ان کی مشترک بنیادوں کی طرف بھی مبذول کروائی گئی ہے تا یہود غور کرسکیں کہ انہوں نے اسلام کا انکار کیوں کیاہے؟

قرآن کریم کی جن آیات میں یہود کے اپنی اصل تعلیم سے انحراف کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے آخری پیغام سے بیزاری کاذکر ہے، وہاں ان بعض سزاؤں کا بھی ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پرنازل ہوں گی مثلاً سورۃ البیّنہ کی ابتدائی آیات میں اُن کفار کا ذکر ہے جن کے پاس خدا تعالیٰ کی طرف سے واضح دلیلیں آ چکی تھیں۔ اس آیت کا آخری حصہ خاص طور پر قابل توجہ ہے لیکن اس کی طرف ہم بعد میں لوٹیں گے۔ اس سورت کی آخری آیت میں یہودکے اہلِ کتاب ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ کے اس پیغام کو قبول کرنے سے انکار کا ذکرہے، یوں ان کاتذکرہ مشرکین کے ساتھ کرتے ہوئے انہیں شَرُّ البَرِیَّةِ یعنی بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے۔یہاں یہ امر بطور خاص توجہ طلب ہے کہ یہود کے کفرو ایمان کے معاملے میں اللہ تعالی ٰنے سزا کو اپنے ذمہ لیا ہے اورنوعِ انسانی میں سے کسی کو بھی یہود پر کوئی سزا یا تعزیر عائد کرنے کا ذمہ دار نہیں بنایا گیا ہے۔

اسی طرح بعض دیگر مقامات پر مثلاً سورة المائدہ کی آیت ۶۹، ۷۰ میں حضرت رسول کریمﷺ کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا زندگی بخش پیغام ملنے کے باوجود اہلِ کتاب میں سے بعض کے باغی اور کافر ہوجانے والوں کے لیے غمگین نہ ہوں۔ ان کی سرکشی اور کفر کی حالت پر رنجیدہ نہ ہونے کی وجوہات اگلی آیت سے سمجھی جا سکتی ہیں جس میں کہا گیا ہے:قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰٮۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ لَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًاۚ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِـُٔوۡنَ وَ النَّصٰرٰی مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔ (سورة المائدہ آیات۶۹-۷۰)ترجمہ: کہہ دے اے اہلِ کتاب! تم کسی بات پر بھی نہیں جب تک تورات اورانجیل کو اور اسے قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے ربّ کی طرف سے اتارا گیا۔ اور وہ جو تیرے ربّ کی طرف سے تیری طرف اتارا گیا ہے اُن میں سے کثیر تعداد کو یقیناً بغاوت اور کفر میں بڑھائے گا۔ پس تُو کافر قوم پر افسوس نہ کر۔ یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صابی اور نصرانی جو بھی اللہ پر ایمان لایا اور یومِ آخر پر اور نیک عمل بجا لایا اُن پر کوئی خوف نہیں اور وہ کوئی غم نہیں کریں گے۔

پس ایک بار پھر، اللہ تعالیٰ نے یہود کے کفر پر سرزنش کرنے کی ذمہ داری خود لی ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلایا ہے کہ اہلِ کتاب میں سے نیک لوگ جب تک اللہ، یوم آخرت اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، آخرت کے غم اور خوف سے محفوظ رہیں گے اور اعمالِ صالحہ بجا لائیں گے۔

مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے فقہا اور متکلمین نے اس آیت کویہود کے قبول ِاسلام کی ضروری شرط پوری کیے بغیر نجات کا سختی سے انکار کیا ہے۔ جبکہ بعض دوسرے مفسرین نے آیت میں مذکور ’’عملِ صالح ‘‘ کو قابلِ تشریح رکھا ہے۔نیز مفسرین کے ایک گروہ مثلاً علامہ طبرسی نے اس آیت کو حضرت ابن عباس ؓکی روایت پر بنا کرتے ہوئے سورۂ آل عمران کی مندرجہ ذیل آیت سے منسوخ شدہ بتایا ہے:وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ۔ اور جو بھی اسلام کے سوا کوئی دین پسند کرے تو ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا۔ (ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

حالانکہ اسی مضمون کی درج ذیل آیت آنحضورﷺ پر نزولِ قرآن کے آخری برسوں میں مندرجہ بالا آیات کے بعدبھی اتری:اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِـُٔوۡنَ وَ النَّصٰرٰی مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡن۔ (سورة المائدہ آیت ۷۰) ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صابی اور نصرانی جو بھی اللہ پر ایمان لایا اور یومِ آخر پر اور نیک عمل بجا لایا اُن پر کوئی خوف نہیں اور وہ کوئی غم نہیں کریں گے۔

یوں ناسخ منسوخ کی بحث اپنی بنیاد کھو چکی، لہٰذا ہم قرآن کریم کی ایسی آیات کے اصل معانی و مفہوم کی تلاش کا سفر جاری رکھتے ہیں۔

قرآن کریم کے مفسرین کے دیگر طبقات میں ہمیں دو بڑے مکاتبِ فکر نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک وہ گروہ ہے جو اس آیت کا اطلاق ظہورِاسلام سے پہلے گزر چکے اہلِ کتاب پر کرتا ہے، جبکہ دوسرے علماء وہ ہیں جو اس آیت کی آفاقیت کو برقرار رکھتے اور اسے پہلے اور بعد میں آنے والے تمام زمانوں پر لاگو قراردیتے ہیں۔موخر الذکر اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پرایمان کے لیے حضرت نبی کریم محمدمصطفیٰﷺ پر بھی ایمان لانا شرط ہے، یوں ان کے نزدیک نجات صرف ان لوگوں کے لیے محدود ہے جو اہلِ کتاب میں سے اسلام قبول کرلیتے ہیں۔

لیکن اس صورت میں بھی اس آیت کی آفاقیت کا عنصر محض جزوی طور پر لاگو ہوتاہے۔

جماعت احمدیہ اورنجات کا تصور

قرآن کریم کے متعلق جماعت احمدیہ کا نظریہ ہے کہ اس کی کوئی ایک بھی آیت محض اس وجہ سے منسوخ نہیں ہےاورنہ ہی کبھی منسوخ ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ تبدیل کرلیاہے، کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی صفتِ عالم الغیب والشہادہ پر سنگین سوال اٹھتا ہے۔

جماعت احمدیہ کااسی تسلسل میں یہ بھی پختہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم بنی نوع انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لیے آخری صحیفہ کے طور پر نازل ہوا اور صرف قرآن کریم ہی اب ابد تک قابلِ عمل اور تمام ضروری اور درکار ہدایات کا جامع اور مأخذ رہے گا۔ پس زیرِ بحث آیت کا اطلاق ان تمام اہلِ کتاب پر ہوتا ہے جو زمین پر کبھی زندہ موجود رہے ہیں، یاآئندہ کبھی ہوں گے۔ یعنی قرآن کریم ہی سب کے لیے کتابِ ہدایت قرار پائی۔

اس تعلق سے جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں یہ آیت تمام اہلِ کتاب کا ذکر لیے ہوئے ہے، اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کے معانی و مفاہیم جتنے جامع ہیں اتنے ہی بے نظیر بھی ہیں۔

بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فہمِ قرآن کے لیے ایک اصول اور قاعدہ بیان کرتے ہوئے، محکمات و متشابہات کا ذکر کیاہے: ’’قرآن کریم میں عادت اللہ ہے کہ بعض جگہ تفصیل ہوتی ہے اور بعض جگہ اجمال سے کام لیا جاتا ہے اور پڑھنے والے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مجمل آیتوں کے ایسے طورسے معنی کرے کہ آیات مفصّلہ سے مخالف نہ ہوجائیں۔ مثلاًً خدا تعالیٰ نے تصریح سے فرمادیا کہ شرک نہیں بخشا جائے گا مگر قرآن شریف کی یہ آیت کہ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا(الزمر، آیت ۵۴) اس آیت سے مخالف معلوم ہوتی ہے جس میں لکھا ہے کہ شرک نہیں بخشا جائے گا۔ پس یہ الحاد ہوگا کہ اس آیت کے وہ معنی کئے جائیں کہ جو آیاتِ محکمات بینات کےمخالف ہیں۔ ‘‘(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۷۳، حاشیہ)

یعنی محکمات ایسی آیات ہوتی ہیں جن کا پیغام اور منطوق بالکل واضح اور کھول کر بیان کردیا جاتا ہے، جب کہ مؤخرالذکر ایسی آیات ہیں جن میں محکمات کی تفصیلات بیان ہوتی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے زیر بحث آیت کو متشابہات میں شمارفرمایا ہے اور بتایا ہے کہ اس آیت کا مکمل مفہوم اُس آیت سے اخذ کرنا چاہیے جو واضح طور پر محکمات میں سے ہے:اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّ نَکۡفُرُ بِبَعۡضٍ ۙ وَّ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا۔ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ حَقًّاۚ وَاَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنً۔ (سورۃالنساء:۱۵۱-۱۵۲)ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کر دیں گے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ کی کوئی راہ اختیار کریں۔ یہی لوگ ہیں جو پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے رُسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

اب اگر ہم حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی تفسیر کی روشنی میں ان دونوں آیات کو یکجائی نظر سے دیکھیں تو یہ بات واضح تر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی ایسے لوگوں کو سزا دینے کا حق خود اپنے لیے مخصوص رکھا ہے۔

تاہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کے منطوق کو غیر معمولی حالات کے ساتھ واضح فرمارہے ہیں جہاں حضرت نبی کریم محمدﷺ کا پیغام کسی فرد کو اتمام حجت کے درجہ تک اور مناسب طریق پر پہنچایا گیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو اُس کا انکار کفر کے مترادف ہو گا جو اسے نجات کے حق سے محروم کر دے گا۔ تاہم، کسی پر حجت تمام ہوچکی یا نہیں،اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

دوسری طرف یہ بھی نظر آتا ہے کہ اکثر مفسرین حضرت محمدﷺ کے پیغام کی تبلیغ کو مناسب اورمعقول طریق پر پہنچانے کی ذمہ داری محض مبلغ پر ڈالتے ہیں، لیکن حضورؑ جس شخص پر اتمام حجت کی جا رہی ہے اُس شخص کی ذہنی صلاحیت کا تذکرہ کرکے ایک نہایت بے مثال نکتہ نظر پیش فرمارہے ہیں، فرمایا:’’…ہاں عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ چونکہ لوگ مختلف استعداد اور مختلف فہم پر مجبول ہیں اس لیے اتمام حجت بھی صرف ایک ہی طرز سے نہیں ہوگا۔

پس جو لوگ بوجہ علمی استعداد کے خدا کے براہین اور نشانوں اور دین کی خوبیوں کو بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور شناخت کرسکتے ہیں وہ اگر خدا کے رسول سے انکار کریں تو وہ کفر کے اول درجہ پر ہوں گے اور جو لوگ اس قدر فہم اور علم نہیں رکھتے مگر خدا کے نزدیک اُن پر بھی اُن کے فہم کے مطابق حجت پوری ہوچکی ہے اُن سے بھی رسول کے انکار کا مؤاخذہ ہوگا مگر بہ نسبت پہلے منکرین کے کم…‘‘(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۸۵)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بحث کوسمیٹتے ہوئے، نجات کے معاملےمیں بشریّت کے پہلو کا یوں تذکرہ فرمایا ہے: ’’بہرحال کسی کے کفر اور اس پر اتمام حجت کے بارہ میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ اُس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے۔‘‘(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵)

جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے نجاتِ حقیقی کی اس اہم بحث میں قرآن مجید پر ہی مکمل بنا کی ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ جس کسی نے صحیح اور مناسب طریقے سے پیغام حق نہ دیا ہو، یا جس کی علمی صلاحیتیں ہی اس کے لیے سمجھنے اور قبول کرنے میں رکاوٹ ہوں، وہ اس بابت اصطلاحاً کافر ہی ٹھہرے گا۔لیکن آپؑ نے یہ بھی فرمایاہے : ’’جس پر خدا کے نزدیک اتمامِ حجت نہیں ہوااوروہ مکذّب اور منکر ہے تو گوشریعت نے (جس کی بناظاہر پر ہے) اُس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اُس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا قابلِ مواخذہ نہیں ہوگا۔…‘‘(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۱۸۶)

خلفائے احمدیت اور مسئلہ نجات

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا نظام جماعت احمدیہ میں قرآن کریم کی درست تفہیم کو برقرار رکھنے کے لیے اور ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق ان کے مطالب کرنے کے لیےقائم ہے۔

زیرِ نظر آیت پرحضرت مصلح موعود، خلیفة المسیح الثانی ؓ نے نجات کے لیےحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو قبول کرنے کی شرط پر زور دیتے ہوئے اس استثنائی پہلو کی مزید وضاحت کی ہے، فرمایا: ’’ہم تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جہنم اُن لوگوں کو ملے گی جو کہ دیدہ دانستہ شرارت سے سچائیوں کا انکار کرتے ہیں۔ کلمہ منہ سے پڑھنا تو انسان کو صداقت سے بہت کچھ قریب کردیتا ہے۔ جو شخص انبیاء و کتب کا بھی منکر ہے، اس کا انکار بھی اگر دیانتداری کے ساتھ ہے اور اس پر خدا کی حجت تمام نہیں ہوئی تو ہمارے نزدیک تو وہ شخص رحم کا مستحق ہے۔…

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍمیری رحمت ہر چیز کو ڈھانپے ہوئے ہے اور فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔ میں نے سارے انسانوں کو اپنا مثیل ہونے کےلیے بنایا ہے اور اپنا عبد ہونے کے لیے بنایا ہے اور اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔وَادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔ جو میرے عبدہوں وہ میری جنت میں داخل ہوجاتے ہیں۔

مسلمان اس دنیا میں باقی مذاہب کے مقابلہ میں تیسرا یا چوتھا حصہ ہیں۔ پھر ان میں سے ہزار میں سے ایک یا اس سے بھی کم بقول مودودی صاحب اسلام سے قطعی طور پر ناواقف ہیں اور رسوماتِ کفر میں مبتلا ہیں۔تو گویا دنیا کی کل آبادی میں سے چالیس ہزار آدمی اسلام سے واقف ہے۔ پھر ان میں سے بھی معلوم نہیں سچے مسلمان کتنے ہیں اور دکھاوے کے کتنے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں اسلام پر عمل کرنے والے لوگ ہزار میں سے کوئی ایک ہے۔

اگران سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں جانا ہے تو رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ کے کیا معنی ہیں اور مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِکے کیا معنی ہیں؟ پھر تو خدا ہارا اور شیطان جیتا…

ہم نے کبھی کفر کا لفظ ان معنوں میں استعمال نہیں کیا جن معنوں میں مولوی (مودودی صاحب)استعمال کرتے ہیں۔ ہم تو خدا کو رحیم و کریم سمجھتے ہیں۔ اس کی بخششوں کو روکنے والا کون انسان ہے۔‘‘(مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ۔ انوارالعلوم۔ جلد ۲۳صفحہ۳۵۱۔ ۳۵۲)

ایک اَور جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے زیر نظر معاملہ پر یوں روشنی ڈالی ہے، فرمایا:’’جنت صرف منہ کے اقرار کا نتیجہ نہیں۔ جنت بہت سی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ اسی طرح دوزخ صرف منہ کے انکار کا نتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کا شکار بننے کےلیے بہت سی شرطیں ہیں۔

کوئی انسان دوزخ میں نہیں جاسکتا جب تک اس پر حجت تمام نہ ہو۔ خواہ وہ بڑی سے بڑی صداقت کا ہی منکر کیوں نہ ہو۔‘‘(احمدیت کا پیغام، انوارالعلوم، جلد ۲۰صفحہ ۵۶۹)

اسی طرح جماعت احمدیہ کے چوتھے امام حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نےزیرنظر آیت کے وسیع تر معانی پر روشنی ڈالی ہے، حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ’’اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کاحل‘‘ میں ’’نجات پر کسی ایک مذہب کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:’’انسان کی حقیقی نجات کا بظاہر سیدھا سادا سا مسئلہ بھی مذہبی دنیا کےامن کے لیے ایک خطرہ بن سکتا ہے۔ خصوصاً جب یہ دعویٰ کیا جائے کہ جو شخص شیطان سے بچنے اور نجات کے لیے ایک خاص مذہب کو اختیار نہیں کرے گا وہ ابدی جہنم کا وارث ہوگاتو اس کا نتیجہ سوائے بدامنی کے اور کیا ہوسکتا ہے۔

ایک مذہب کو نجات اور گناہ سے رہائی کا ذریعہ قرار دینا اَور بات ہے لیکن ساتھ ہی یہ فتویٰ صادر کر دینا کہ جو شخص حصولِ نجات کے لیے اس مذہب میں داخل نہ ہوگا وہ ضرور جہنم میں ڈالا جائے گا یہ ایک بالکل مختلف بات ہے۔

بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کریں، اپنے خالق اور اس کی مخلوق سے کتنا ہی پیار کیوں نہ کریں اور کیسی ہی نیکی اور پارسائی کے ساتھ زندگی کیوں نہ گزاریں وہ بہر حال جہنم رسید ہوں گے۔

ان کا قصور اگر ہے تو صرف اتنا کہ وہ نجات کے لیے اس خاص مذہب میں داخل نہیں ہوئے۔ جب ایسے کٹر اور تنگ نظری اور عدم رواداری پر مبنی نظریہ کا اشتعال انگیز پیرایہ میں اظہار کیا جائے جیسا کہ مذہبی متشدّد لوگ عام طور پر کیا کرتے ہیں تو اس سے سخت فتنہ وفساد کا دروازہ کھل جاتا ہے۔…

میں اپنے قارئین کرام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اسلام کی طرف ایسے کٹر نظریہ کو منسوب کرنے کا ہرگز کوئی جواز موجود نہیں۔

قرآن کریم اس ضمن میں یکسر مختلف نظریہ پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم کی رُو سے نجات پر کسی ایک مذہب کی اجارہ داری نہیں۔ وہ لوگ جنہیں اپنے آباءو اجداد سے غلط نظریات ورثہ میں ملے ہیں مگر وہ عام طور پر سچائی اور خلوص کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نجات سے محروم نہیں کیے جا سکتے۔ اسی طرح وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ کی نئی شریعت کا علم ہی نہیں ہوا اور وہ جانتے ہی نہیں کہ ہدایت کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے ان پر بھی نجات کا دروازہ بند نہیں ہوگا بشرطیکہ ان کی لاعلمی اپنی کو تا ہی یا غلطی کے باعث نہ ہو۔

نجات کے متعلق اس نکتہ کی وضاحت قرآن کریم کی یہ آیت کرتی ہے: لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا ہُمۡ نَاسِکُوۡہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الۡاَمۡرِ وَ ادۡعُ اِلٰی رَبِّکَ ؕ اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسۡتَقِیۡمٍ۔ (سورۃ الحج:۶۸)ہر ملت کے لیے ہم نے قربانی کا طریق مقرر کیا ہے جس کے مطابق وہ قربانی کرتے ہیں۔ پس وہ اس بارہ میں تجھ سے ہرگز کوئی جھگڑا نہ کریں اور تو اپنے ربّ کی طرف بلا۔ یقیناً تو ہدایت کی سیدھی راہ پر (گامزن) ہے۔

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اہلِ کتاب کے متعلق قرآن کریم کی بعض دیگر آیات پیش کرتے ہیں اور اپنے اس استدلال کی تائید میں قرآن کریم کے حوالہ سے فرماتے ہیں:لَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیۡلِ وَ ہُمۡ یَسۡجُدُوۡنَ۔ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔ وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ۔ (سورہ آل عمران آیات ۱۱۴ تا ۱۱۶)ترجمہ: وہ سب ایک جیسے نہیں۔ اہلِ کتاب میں سے ایک جماعت (اپنے مسلک پر) قائم ہے۔ وہ رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ سجدے کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور یومِ آخر پر اور اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی ہیں وہ جو صالحین میں سے ہیں۔ اور جو نیکی بھی وہ کریں گے تو ہرگز اُن سے اس کے بارہ میں ناشکری کا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔

یاد رہے کہ حضرت مرزا طاہر احمدخلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا دورخلافت ۱۹۸۲ءسے ۲۰۰۳ء تک محیط تھا۔حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مشرقِ وسطیٰ کے بحران نیز اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کا نہایت قریب سے بغور مشاہدہ فرمایا اور اس اہم مسئلے کے گرد عالمی جغرافیائی سیاست کے تانے بانے دیکھتے ہوئے اس موضوع پر خطبات کا ایک سلسلہ ارشادفرمایا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی اس خطہ پر سیاسی و جغرافیائی لحاظ سےخاص گہری نظر آپ کے بیان فرمودہ نظریہ نجات سے بھی عیاں ہے، فرمایا: ’’یہ خیال غلط ہے کہ اسلام کے نزدیک تمام یہود جہنمی ہیں۔یہ تصور اس دور میں یہودیوں اور مسلمانوں کی باہمی سیاسی کشمکش کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے۔

قرآن کریم کی جو آیات میں بیان کرچکا ہوں ان کی روشنی میں ایسا خیال غلط ثابت ہوجاتا ہے میرے اس مؤقف کی مندرجہ ذیل آیت بھی تائید کرتی ہے:وَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰۤی اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡن۔ (سورۃ الاعراف:۱۶۰) اور موسیٰ کی قوم میں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو حق کے ساتھ (لوگوں کو) ہدایت دیتے تھے اور اُسی کے ذریعہ سے انصاف کرتے تھے۔‘‘(ایضاً صفحہ ۲۲تا ۲۷)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہونے والے قدرت ثانیہ کے پہلے مظہرحضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ، جن کی قرآن دانی کا زمانہ گواہ تھا، نے مذکورہ بالا آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہودمیں سے بعض نیک اعمال کرنے والوں کے ذکر میں فرمایا: ’’کیونکہ اللہ کو متقین کا علم ہے۔ پس ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ ہمیں رائے زنی کا کوئی حق نہیں۔‘‘(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ ۵۲۳)

تاہم، حضور رضی اللہ عنہ نے یہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ کا حقیقی خوف ہی، مثالی حالات میں، کسی فردکے اسلام کے ذریعے حقیقی ایمان کو قبول کرنے کا نتیجہ ہوجاتا ہے۔

سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی نجات کے مسئلہ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طرح واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’گو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو تمام انسانیت کے لیے مبعوث فرمایا ہے اور وہ جو تعلیم لائے اسے قبول کرنے کا ہر ایک کو حکم ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس رسولﷺ پر ایمان لانا ہی نجات کابھی باعث ہے۔ لیکن اگر کسی پر اتمام حجت نہیں ہوا اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی بات کا مکلّف نہیں بناتا اس لیے وہ شخص قابل مؤاخذہ نہیں ہو گا جس پر اتمام حجت نہیں ہوا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ مئی ۲۰۰۹ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍ جون ۲۰۰۹ء )

مندرجہ بالا بحث واضح طور پربتارہی ہے کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک حضرت محمدﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو قبول کرناضروری ہے، لیکن ساتھ ہی ہم اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ استثنا کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا جیسا کہ دنیا کے کسی بھی اصول اور قانون میں ہوتا ہے۔ الغرض جماعت احمدیہ نجات پر صرف اسلام اور مسلمانوں کی اجارہ داری کی قائل نہیں ہے، جیسا کہ اوپر تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے۔

اب ہم دوبارہ اپنے اس مضمون کے ابتدائی حصے کی طرف لوٹتے ہیں جہاں ہم نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں یہودمیں سے مختلف گروہوں کا ذکر کیا تھا۔

ابتدائے اسلام کا سیاسی منظر نامہ

ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائے اسلام سے لے کر جدید دنیا تک یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین باہمی تنازعات سیاسی مسائل کے گرد گھومتے رہے ہیں۔ جہاں قرآن کریم نے ایمان لانے کے معاملے میں ان کی سرکشی کا ذکر کیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے عذاب دینے کا معاملہ سراسر اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔لیکن جہاں تک جہاں بانی اور سیاسی اور انتظامی امور کا تعلق تھا، وہاں حضرت نبی کریمﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ دنیاوی اصولوں کے مطابق یہود سے معاملہ کریں۔ یعنی جیسا کہ کسی بھی ریاست میں کیا جاتا ہے۔

حضرت نبی کریمﷺ اپنے زمانہ نبوت کے آخری برسوں میں فرائضِ نبوت کی بجاآوری کے ساتھ ایک ریاست کے سربراہ بھی تھے،جہاں مدینہ کی ریاست کے امور چلانا آپؐ کے سپرد تھا۔ آپﷺ نے اپنے اسی دور میں بعض ایسے فیصلے بھی فرمائے اور اقدامات بھی کیے جن کو آپﷺ کی ناگزیر سیاسی اور ریاستی ذمہ داریوں کے تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔

تاریخ اور روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ حضرت نبی کریمﷺ کے یہودیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے جن کا ایک خاص اظہار مکہ سے مدینہ ہجرت کے زمانہ میں نظر آتا ہے۔ جب مدینہ میں آباد بڑے قبائل اوس اور خزرج اور ان کے یہودی حلیفوں نے ہجرت مدینہ سے طویل عرصے قبل سے چلی آ رہی خون ریز دشمنیوں کےحل کے لیے آپﷺ کی ثالثی قبول کی۔

ہجرت کے بعدمدینہ پہنچتے ہی حضرت نبی کریمﷺ نے فوری طور پر ایک ریاست کے قیام کے لیے اقدامات فرمائےجو معاشرے میں قیامِ امن کے ضامن ٹھہرے،ایک ایسی ریاست جہاں بسنے والے قبائل باہم دست و گریبان نہ ہوں، جنگ و جدل اور خون ریزی کا ماحول نہ ہو، بلکہ تمام باہمی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا رجحان ہو۔آپﷺ کی تدابیر بارآور ٹھہریں اور ایک صحیفہ جسے عرفِ عام میں میثاقِ مدینہ کہا جاتا ہے، پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اوراس صحیفہ پرمدینہ کے شہریوں میں سے مسلمان مہاجرین و انصار کے ساتھ ساتھ مقامی یہودی قبائل نے بھی دستخط کیے۔

(The Constitution of Medina by RB Serjeant, in The Islamic Quarterly, VIII (Jan-Jun 1964), p 3; Muhammad at Medina by M Watt, p 225)

روایات کے مطابق، قریش مکہ کو ہجرت اور مدینہ پہنچ کر وہاں کے مقامی ماحول میں مسلمانوں کی پرامن آبادکاری پر اول اول تو یقین نہیں آیا، اور جب آیا تو روائتی سازشوں میں جُت گئے کہ کسی طرح مدینہ میں قائم ہونے والے پُرامن معاشرہ کو بھی بد امنی کا شکار کردیں۔ بدر کی جنگ میں قریش کی غیر متوقع شکست نے ان کی انا کو جب مزید مجروح کردیا تو یہ اہل قریش ریاست مدینہ میں خانہ جنگی بھڑکانے کی راہیں تلاش کرنے لگے جہاں مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت یہودیوں اور بت پرستوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی سے آباد تھی۔

اسی طرح بدرکے میدان میں ملنے والی فتح عظیم نے حضرت نبی کریمﷺ اور آپ کے متبعین کی ظاہری برتر ی کا بھی اعلان کردیا تو مدینہ میں آباد کچھ یہودی حلقے مسلمانوں کے ساتھ اپنے امن معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں جنگ کی دعوت دینے لگے، اس نئی مبارزت کا واحد مقصد ان یہود کامدینہ میں پھر سے اپنی سابقہ برتری کو ثابت کرنا تھا۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الخراج، باب کیف کان اخراج الیہود۔ نیز سیرت لابن ہشام)

اسی طرح کے بعض دیگر عوامل نے بنو قینقاع کے ساتھ تعلقات کو بدامنی میں بدل دیا، جس کے نتیجہ میں ان کے ساتھ ایک جنگ ہوئی۔ یوں یہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدۂ امن پر دستخط کرکے اسے توڑنے والا پہلا یہودی قبیلہ ٹھہرا۔ (طبقات ابن سعد)

یہاں اپنے قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ مدینہ کی تمام اکائیوں، بشمول یہودی قبائل نے حضرت نبی کریمﷺ کو اپنے باہمی جھگڑوں کی صورت میں بطور ثالث اور ریاستِ مدینہ کے متفقّہ حاکم کے طور پر قبول کیا تھا۔ بنو قینقاع کی بغاوت اور بعد میں دیگر یہودی قبائل کی شوریدہ سری کو بہر طور ایک قائم شدہ ریاست کے خلاف غداری کے طور پر دیکھا جاتا تھا نہ کہ محض یہودیوں کے ساتھ مذہبی یا مسلکی اختلاف کا نتیجہ۔

اور یقیناً یہی حقیقت اسماء بنت مروان اور کعب بن اشرف جیسے افراد کے ساتھ پیش آمدہ معا ملات میں بھی نظر آتی ہے، جنہیں محض ان کے عقائد کی وجہ سے نہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کی تحریک چلانے پر قرار واقعی سزا دی گئی تھی۔(صحیح البخاری، قتل کعب بن اشرف نیز سنن ابو داؤد، کتاب الخراج)

اس دور میں تو یہ حقیقت تمام متعلقہ حلقوں کو سمجھ آگئی تھی لیکن بعد کے زمانوں میں بعض انتہاپسند اسلامی گروہوں نے محض پراپیگنڈے کی خاطر مذکورہ بالا افراد کے قتل کو حضرت نبی کریمﷺ کی گستاخی کی سزا کی مثال کے طور پر پیش کیا۔ جبکہ دین اسلام کی خوبصورت اور پُرامن تعلیم کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والوں نے ایسی ہی غلط تشریحات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان واقعات کو اسلام کے خلاف استعمال کیا اور آج تک کرتے ہیں۔ تاہم یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ دونوں افرادہی تب ریاست کے خلاف خود غداری کرنے اور دوسروں کو بغاوت پر اکسانے میں ملوث تھے، نہ کہ گستاخی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اور نہ ہی یہ واقعات کسی صورت میں بھی اسلام کو ’’یہود دشمنی‘‘ کا علمبردار بناتے ہیں۔

قبائلِ یہود میں سے بنو نضيراور بنوقريظہ کے ساتھ جنگ کی نوبت تک پہنچانے والے واقعات بھی صاف ظاہر کرتے ہیں کہ قریشِ مکہ نے ان یہودی قبائل کو ریاست مدینہ کے خلاف اتحادی بننے کی دعوت دی اورسیاسی سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود یہ دونوں قبائل قریش کے ساتھ سازشوں میں شامل ہوگئے۔ یہودی قبائل کے ساتھ پیش آنے والے معرکے ریاست کے خلاف بغاوت اور امن معاہدوں کی خلاف ورزی کا نتیجہ تھے۔(صحیح البخاری، کتاب النضير)

بعض مستشرقین اگرچہ یہ بحث اٹھاتے رہے ہیں کہ ان یہودی قبائل کے ساتھ کیا گیا سلوک کیا واقعی جائز تھا، یا اس معاملہ میں ان یہودکو ملنے والی سزا حقیقت میں قرار واقعی تھی یا نہیں، مگر اس حقیقت پر مسلمان یا غیر مسلم مؤرخین یکساں متفق ہیں کہ مذکورہ بالا یہودی قبائل کو حضرت نبی کریمﷺ نے ریاست کے ساتھ معاہدوں کی خلاف ورزی اور ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی پاداش میں سزا دی تھی۔

ہم اپنی اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ قرآن کریم واضح طور پر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی فرد کے مذہبی عقائد اور کسی مرسل من اللہ کے پیغام کا انکار کرنے والوں کا معاملہ اور اس پر سزا کی تعیین کا فیصلہ سراسر آخرت کےلیے رکھ چھوڑا ہے۔ تاہم، ریاست کے اموراور معاشرتی زندگی کے معاملات میں حضرت نبی کریمﷺ کے لیے ایسے لوگوں کو سرزنش کرنے اور سزائیں جاری کرنے کی ہدایت کی گئی جو ریاست کے خلاف سازش کے مرتکب ہوتے تھے۔ جیسا کہ آج کے جدید دور میں بھی ہر ریاست اپنے باغیوں کے ساتھ کرتی ہے۔

لیکن ساتھ ہی اس امتیازکو سمجھنابھی نہایت ضروری ہے کہ دین اسلام میں کسی بھی دوسرے مذہب یا عقیدے کے خلاف محض ان کے عقیدے یا کفر کی وجہ سے نفرت یا تشدد کی تعلیم سرے سے موجود نہیں ہے، اور نہ ہی یہودیوں کے لیے اسلام کی دیگر مذاہب کے لیے باہمی ہم آہنگی کی خوبصورت اور منفرد تعلیم میں کوئی استثنا مذکور یا موجود ہے۔

آخری زمانے سے متعلق احادیث میں یہود کا ذکر

ایک بار جب یہ حقیقت قائم ہو جاتی ہے کہ کسی کے عقیدے کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور صرف وہ ہی ایسے معاملات میں سزا دینے یا معاف کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے، تو اس کی روشنی میں بعض ایسی احادیث کی وجہ سے اسلام کی طرف منسوب ’’یہود دشمنی‘‘ کے الزامات کو دُور کرنا مزید آسان ہو جاتا ہے جو آخری زمانہ کی خبروں کے ضمن میں آئی ہیں۔

اس زیر نظر مسئلے کو آسان بنانے کے لیے، ہم ایسی احادیث میں سے صرف دو بطور مثال پیش کرتے ہیں: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، – يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ – عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم قَالَ ’’ لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللّٰهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ. إِلاَّ الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الفتن و اشراط الساعة، حدیث نمبر: ۲۹۲۲) یعنی حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کر دیں یہاں تک کہ یہودی درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا۔اے مسلمان!یہ یہودی میرے پیچھے ہے آؤ اور اسے قتل کر دو، سوائے درخت غرقد کے کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔

اسی طرح روایت ہے کہ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم قَالَ ’’لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا الْيَهُودَ حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ وَرَاءَهُ الْيَهُودِيُّ يَا مُسْلِمُ، هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ ‏‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الجہاد والسیر، باب قتال الیہود، حدیث نمبر: ۲۹۲۶) یعنی حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک یہودیوں سے تمہاری جنگ نہ ہو لے گی اور وہ پتھر بھی اس وقت بول اٹھیں گے جس کے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہو گا کہ اے مسلمان! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اسے قتل کر ڈالو۔

ہم نے یہاں دونوں احادیث جو بظاہر یکساں معنی رکھتی ہیں، الگ الگ اس لیے درج کی ہیں تاکہ ان احادیث میں استعمال ہونے والے استعارے اور آخری زمانہ کےمتعلق ان کی تمثیلی نوعیت سامنے آجائے۔ یہاں صاف نظر آرہاہے کہ گو دونوں جگہ موضوع مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین جنگ کاہی ہے، لیکن ایک جگہ یہودی کی نشاندہی درخت انسانی زبان میں کر رہا ہے اور دوسری جگہ یہی کام پتھر کر رہا ہے۔

پس ہم یہاں درخت یا پتھر کے ذریعے کسی راز کے انکشاف کو محض ایک غیر جاندارچیز کے انسانوں کی طرح بات چیت کرنے کےطور پرنہیں لے سکتے بلکہ اسے جدید ہتھیاروں یا surveillance ٹیکنالوجی کے حوالے سے دیکھااور سمجھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح مسلمان حملہ آوروں سے چھپنے والے یہودی کو کسی قوم یا فرد کی تمثیل اور علامت کے طور پر زیادہ بہترطور پر سمجھا جاتا ہے، یعنی وہ لوگ جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں حضرت نبی کریمﷺ کے ساتھ عہدشکنی کی، خواہ ان کا مذہب اور عقیدہ جو بھی تھا،یا جدید دنیا میں لادینیت کے رجحان کو دیکھتے ہوئے، یہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کاسرے سے کوئی مذہبی عقیدہ ہی نہ ہو۔

اختتام پر اس بات کا اعادہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانہ میں یہودیوں کے ساتھ تنازعات خالصتاً سیاسی تھے، اسی طرح آج بھی ہیں۔ اور آج فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کی جو شکل ہے، یہ اسی کا تسلسل ہے اور یہ بالضرور مسلمانوں اوریہودیوں کا تصادم نہیں بلکہ عرب اور اسرائیل کی جنگ ہے جسے مذہبی عقائد کے تصادم کا رنگ دیا جارہا ہے، جبکہ اصل لڑائی جغرافیائی اورسیاسی بنیادوں پر جاری ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button