الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت سیّدہ اُمِّ دا ؤد صالحہ بیگم صاحبہ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ سیدہ حمیدہ بانو صاحبہ اورمکرمہ فرح کاہلوں صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ صالحہ بیگم صاحبہؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔ آپؓ حضرت امّاں جا نؓ کے بھا ئی حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی اہلیہ اوربزرگ صوفی حضرت احمد جان صاحب لدھیانویؓ کی پوتی، حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ موجد ’’قاعدہ یسرناالقرآن‘‘کی بیٹی تھیں۔ آپؓ۱۲؍جنوری ۱۸۹۷ء کو دارالمسیح قادیان میں پیدا ہوئیں تو آپؓ کا نام صالحہ جان رکھا گیا۔شادی اور اپنے بیٹے محترم سید میر داؤد احمد صاحب کی پیدائش کے بعد عرف عام میں چھوٹی ممانی جان یا اُمِّ داؤد کے نام سے پہچانی جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹیوں اور تین بیٹوں سے نوازا۔ تینوں بیٹوں کو زندگی وقف کرنے کی توفیق ملی۔

آپؓ کی ابتدائی تعلیم حضرت مسیح موعودؑ کے زیر سایہ ہوئی پھر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے شرف شاگردی بھی حاصل رہا۔ حضرت پیرصاحبؓ اپنی اس بیٹی کو قاعدہ پڑھاتے جا تے تھے اور مشہور زمانہ قاعدہ تصنیف کرتے جا تے تھے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بھی انہی ایّام میں حضرت پیر صاحبؓ سے پڑھا کرتی تھیں۔ ۱۹۰۶ء میںآپؓ کا نکاح بھی حضرت مسیح موعودؑ کے ایک رؤیا کے نتیجہ میں ہوا۔حضور اقدسؑ کے ارشاد پر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اعلانِ نکاح فرمایا۔ ۱۹۱۱ء میں آپؓ کی شادی کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک نظم بھی تحریر فرما ئی ؎

میاں اسحٰق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو

ہر اک منہ سے یہی آواز آتی ہے مبا رک ہو

حضرت سیّدہ صالحہ صاحبہؓ کوحضرت میر صاحبؓ جیسی جلیل القدر ہستی،علم دوست مُحَدِّث اورجیّد عالم کی رفاقت ملی، جنہوں نے ہمیشہ آپؓ کی مدد اور حوصلہ افزائی کی۔ازدواجی ذمہ داریوں کی ادا ئیگی کے ساتھ ساتھ آپؓ حصول علم کے پاکیزہ نصب العین کے لیے جان و دل سے کو شاں رہیں۔اکتساب علم کی خوا ہش کے علاوہ خزانہ ٔعلم کوبانٹنے اور تقسیم کرنے کا جذبہ قدرت نے آپؓ کی فطرت میں فراوانی سے ودیعت کیا تھا۔حضرت سیّدہ صالحہ صاحبہؓ کو حدیث و قرآن سیکھنے اور سکھانے کا عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔

کم گو، متانت و بردباری کا پیکر تھیںلیکن خاموش طبع اور وقار کے باوجود مہذب مزاح کو پسند کرتیں اور لطف اٹھاتی تھیں۔خدمت خلق کا انمول جذبہ بدرجۂ اتم آپؓ میں موجود تھا۔ مستحقین کی مدد خاموشی سے کرتیں۔ یتیم بچوں کی خدمت کا آپؓ کو خا ص خیال رہتا۔آپؓ کے ہر کام میں سلیقہ، باقا عدگی اور نفاست ہوتی تھی، پابندیٔ وقت ہمیشہ ملحوظ رہتی۔

۱۹۱۴ء کے جلسہ سالانہ میں خواتین نے پہلی بار تقاریر کیں۔ حضرت اُمِّ داؤد صاحبہؓ نے بھی اپنا مضمون سنایا۔ تقاریر کے علاوہ مضامین لکھنے اور عورتوں کی تدریس کا کوئی موقع ہاتھ سے جا نے نہ دیتی تھیں۔ ۱۹۲۲ء میںحضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی تو پہلی چودہ ممبرات میں ساتویں نمبر پر آپؓ کا نام ہے۔ پھرتاحیات لجنہ کی سرگرم اور فعّال عہدیدار رہیں۔ سالہاسال عورتوں کی منتظم جلسہ سالانہ کے طور پر ہزاروں عورتوں کے قیام وطعام کا انتظام آپؓ کے سپرد ہوتا۔ یہ خدمت تاوفات سرانجام دی۔

۱۹۲۴ء کی مجلس شوریٰ کی رپورٹ کے مطابق آپؓ کے پاس ۱۰لڑکیاں اور عورتیںعربی، فارسی، صرف و نحو، قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر اور دیگر کئی مضامین پڑھ رہی تھیں۔ قرآن کریم سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کا بےحدشوق تھا۔ آپؓ کے قرآن مجید کے نسخے میں سادہ صفحات تھے جن پر نوٹس لکھتی رہتیں۔ رمضان میں مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم کا درس باقاعدہ بڑی توجہ سے سنتیں اور نوٹس لیتی رہتیں۔بےشمار عورتوں اور بچیوں کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھایا۔

فارسی آپؓ کے والدین کی زبان تھی جو گھر میں بولی جاتی تھی۔ عربی زبان سیکھنے کے لیے آپؓ نے ۱۹۲۸ء میں مولوی کلاس کا امتحان دیا اور اوّل آئیں۔ دینی خدمات کے ساتھ ساتھ ازدواجی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی پورا کیا۔ تربیتِ اولاد کے اہم ترین فرض کو انتہائی کمال تک پہنچایا۔عہدے یا نام کی خواہش کبھی نہیں کی بلکہ درپردہ خاموشی سے خدمت کرکے راحت محسوس کرتی تھیں۔

۱۹۴۵ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی ہدایت کے مطابق لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی تشکیل کی گئی تو آپؓ نائب صدر مقرر ہوئیں اورتا حیات تمام فرائض کما حقہٗ ادا کیے۔

فروری۱۹۴۶ء کا الیکشن مسلمانوں کے لیے بہت اہم تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خواہش تھی کہ ’’قادیان اور قرب وجوار کے دیہات میں کوئی بالغ عورت ایسی نہ ہو جو لکھناپڑھنا نہ جانتی ہو اور ووٹ دینے سے محروم رہ جائے۔‘‘ اس کام کی نگران آپؓ مقرر ہوئیں۔ آپؓ نے بڑی محنت سے انتہائی کو شش کرکے اس کام کو انجام دیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ہر عورت کو لکھنا پڑھنا، سو تک گنتی لکھنا اور اپنے دستخط کرنا سکھا دیا گیا۔ ۸؍فروری ۱۹۴۶ء کے خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے اس کام پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا: ’’مردوں کے مقا بلے میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں جو روح ہماری عورتوں نے دکھا ئی ہے اگر وہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جا ئے تو ہمارا غلبہ سو سال پہلے آجائے۔ اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہوجا ئے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے تو ہماری فتح کا دن بہت ہی قریب آجائے۔‘‘

تقسیم ملک کے بعد قادیان کی مہاجر ممبرات کی صدر حضرت سیّدہ اُمِّ داؤد صاحبہؓ تھیں۔آپؓ نے ایسا بھرپور کام کیا کہ لجنہ اماءاللہ لاہور میں بھی بیداری کی لہر دوڑگئی۔

۳۱؍مئی۱۹۵۰ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے دفتر لجنہ اماءاللہ ربوہ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تو حضرت امّ المومنینؓ اور حضرت اُمّ ناصرؓ صدر لجنہ اماءاللہ کے بعد حضرت سیدہ اُمّ داؤدؓ نائب صدر نے اینٹیں رکھیں۔ حضرت سیّدہ امۃالحی صاحبہ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی یادگار ’’امۃالحی لائبریری‘‘ قائم کرنے کی تجویز بھی آپؓ کی ہی تھی۔

۱۹۵۱ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر گردونواح کے علاقہ جات میں تبلیغی وفود بھیجنے کا پروگرام بنایا گیا۔ سیدہ اُمّ دائود صاحبہؓ نے باوجود پیرانہ سالی اور کمزوریٔ صحت کے کئی وفود کی قیادت کی۔مارچ ۱۹۵۲ء میں ایک وفد حضرت سیدہ اُمّ متین صاحبہ کی سرکردگی میں محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ سے ملا اور اُن کی خدمت میں انگریزی ترجمہ قرآن پیش کیا گیا۔اس وفد میں سیدہ اُمّ دائود صاحبہؓ بھی شامل تھیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی اہلیہ حضرت امّاں جی صغریٰ بیگم صاحبہؓ آپؓ کی پھوپھو جان تھی۔ یہ تعلق بہت ہی گہری محبت لیے ہوئے تھا۔حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ساتھ بھی عقیدت وارادت درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔منصب خلافت کے احترام و اطاعت کا لافانی جذبہ آپؓ کے دل میں موجزن تھا۔ حضرت اُمّ المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے ساتھ بہت محبت تھی۔بیماری اور ضعیفی میں آپؓ نے حضرت امّاں جانؓ کی بہت خدمت کی اور اس بات کواپنے لیے باعث ِافتخار جانا۔ غرض آپؓ کے محاسن، اقا مت دین کے لیے آپؓ کی مساعی، احیائے دین کے سلسلہ میں آپؓ کی محنت و کوشش یاد رہنے والے کا رنامے ہیں۔

مکرمہ امۃالقیوم ناصرہ صاحبہ بیان کرتی ہیںکہ قیام پاکستان کے بعد ہم ہجرت کرکے رتن باغ لاہور آگئے تو ایک دن حضرت اُمّ داؤد صاحبہؓ نے ہمیں بلاکر حضرت ابراہیمؑ کی دعائیں پڑھ کر سنائیں۔نیز فرمایا کہ آج آپ سب نے ربوہ جانا ہے اور سارے راستہ یہ دعائیں پڑھتے ہوئے جانا ہے اور جب ربوہ کی حدود میں داخل ہوں تب بھی پڑھنی ہیں۔ چنانچہ ہم ٹرین میں روانہ ہوئے۔ ایک لمبے سفر کے بعد ٹرین رات کو ایک خالی جگہ ٹھہرگئی۔ کسی خادم نے بتایا کہ ربوہ آگیا ہےآپ سب اُتر آئیں۔ہم نیچے اترگئے۔ نیچے خالی میدان تھا۔نہ کوئی کمرہ تھا نہ کوئی روشنی تھی اور نہ ہی کسی اسٹیشن کا نشان تھا۔ہاں چودھویں کے چاند کی سفید چاندنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ گاڑی رخصت ہوئی اور ہم حیران پریشان کھڑے تھے کہ اچانک پیچھے سے حضرت مصلح موعودؓ کی آواز آئی۔ حیرانی سے مُڑکے دیکھا توحضور اقدسؓ خدام کے ساتھ بالکل پاس ہی کھڑے تھے۔مَیں نے سلام کیا۔ حضورؓ نے پوچھا کہ آپ کا کونسا سامان ہے؟ سامان کیا تھا، تھوڑا بہت بستر وغیرہ تھے۔میں نے بتایا تو حضورؓ نے خدام کو فرمایا:اٹھا لو۔پھر ہمیں فرمایا کہ ان کے ساتھ ساتھ چلے جائو۔ تھوڑے سے فاصلہ پر ایک دروازے کے سامنے خدام نے سامان رکھ دیا۔ جب ہم اندر داخل ہوئے اور سلام کیا تو کسی جانی پہچانی آواز نے جواب دے کر پوچھا: سفر خیریت سے گزرا؟ چاند کی روشنی میں غور سے دیکھا تو وہی ہنستا مسکراتا ہوا پیارا سا چہرہ حضرت ممانی جانؓ، محترمہ آپا بشریٰ بیگم صاحبہ اور صاحبزادی امۃالنصیر صاحبہ ہمارا استقبال فرما رہی تھیںجن کو ہم اپنے خیال میں لاہور چھوڑ آئے تھے، وہ شاید موٹر میں ہم سے پہلے آگئی تھیں۔ ان کو دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی۔ ساتھ چند لڑکیاں جو احمدنگر سے آئی تھیں کھڑی ہوئی تھیں۔انہوں نے دروازے سے ہمارا سامان اٹھالیا۔ آگے آگے حضرت ممانی جان تیز تیز قدم اٹھاکر چلتی ہوئی ہمیں ایک خالی کچی بیرک میں لے گئیں۔سامان وہاں رکھواکر ہم سب کو فرمایا:آپ لوگ یہاں آرام کریں ابھی کھانا آتا ہے تو بھجواتی ہوں۔ ہم چٹائیوں پر لیٹ گئے۔ کافی رات گئے کھانا آیا۔ آپؓ خود ساتھ آئیں، سب کو کھانا تقسیم کیا اور ہمارے پاس بیٹھی رہیں۔ صبح پتا چلا کہ یہ کھانا لنگرخانہ سے حضرت مصلح موعودؓ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے تقسیم فرما کے بھجوایا تھا۔

حضرت ممانی جانؓ رات گئے تک وہاں رہیں اور دوسری صبح پھر تشریف لائیں۔ بڑے پیار سے ہم سب کو جلسہ پر ڈیوٹیاں دینے کی تحریک فرمائی اور فرمایا کہ اب آپ لوگوں نے جلسہ پر آنے والوں کی مہمان نوازی کرنی ہے۔ یہ ربوہ کا پہلا جلسہ سالانہ تھا جو ۱۲؍اپریل ۱۹۴۸ء کو منعقد ہوا تھا۔ کچھ کچے کمرے تھے باقی مہمانوں کے لیے کیمپ نصب کیے گئے تھے۔ اس وقت دفتر لجنہ اماءاللہ کی بنیادیںکھودی گئی تھیں۔ خاکسار آپؓ کے ساتھ معائنہ کے لیے بھی جاتی تھی۔ آپؓ سب کی بہت زیادہ نگرانی فرماتیں۔ بعض اوقات رات کو معائنہ کے لیے چل پڑتیں۔مَیں آپؓ کی کمزوری کو دیکھتی اور پھر آپؓ کی ہمت کو دیکھتی تو سخت حیران ہوتی کہ نہ جانے آپؓ کے اندر کونسی مقناطیسی قوت تھی جو آپؓ اتنا تیز چلتیں اور مجھے بھاگنا پڑتا۔ آپؓ رات کے اندھیرے میںا ن بنیادوں کو پھلانگتی جاتیں۔ مجھے خوف آتا کہ کہیں پائوں نہ پھسل جائے۔آپؓ سب کمروں اور کیمپوں میں جاکر پوچھا کرتیں کہ کھانے یا کسی اَور چیز کی ضرورت تو نہیں؟آپؓ وہیں ایک چھولداری میںرہتیں۔سخت سردی ہوتی تھی۔ رات گئے تک جاگتیںاور صبح ہم سے پہلے اُٹھی ہوتیں۔ آپؓ کے ساتھ کام کرنے کا کچھ اَور ہی مزا تھا۔آپؓ کے جذبہ کا دوسروں پر بھی اثر تھا۔ سب شوق اور لگن سے بھاگ بھاگ کر ڈیوٹیاں دیتے تھے۔ جلسہ کے اختتام سے ایک روز پہلے کسی نے شرارت سے کہا کہ ہم اتنے دنوں سے دال کھارہے ہیں آج تو کچھ اَور کھانے کو دل چاہتا ہے۔ساتھ والی بیرک حضرت ممانی جانؓ کی قیام گاہ تھی۔درمیان میں دیوار چھوٹی تھی ساری آواز اُدھر سنائی دے رہی تھی۔آپؓ نے مجھے بلایا اور مسکراتے ہوئے پوچھا: کیا بات ہے؟ مَیں نے عرض کی: لڑکیاں ویسے ہی مذاق کررہی تھیں ہمیں تو دال اچھی لگتی ہے۔ آپؓ نے فرمایا:تم نے اتنے دن بتایا کیوں نہیں۔کچھ اَور پکوادیتی۔اچھا یہ اچار اور جام لے جائو۔ میرے انکار کے باوجود مجھے دونوں بوتلیں تھمادیں۔ دوسرے دن آپؓ نے سالن پکوا کر بھجوایا اور ساتھ ہی پوچھا:کسی اَور چیز کی ضرورت تو نہیں۔

حضرت ممانی جانؓ بہت زیادہ مستعدی سے ڈیوٹی انجام دیتیں اور ہم سب بھی سارا دن بھاگ بھاگ کر بڑے جوش و جذبہ سے کام کرتے۔ پاؤں زخمی ہوجاتے۔رات کو ہم پاؤں پہ سرسوں کاتیل لگاتے تھے۔اگلی صبح پھر خوشی خوشی کام کررہے ہوتے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ کے بعد ہم سب ڈیوٹی کرنے والوں سے ملاقات کی اور جلسہ کی تقریر میں اس بات پہ خوشی کا اظہار فرمایا کہ جولوگ مہمان تھے، وہی میزبان تھے۔

خاکسار اور آپؓ کی بیٹی آنسہ صاحبہ آپؓ سے قرآن مجید کا ترجمہ اور حدیث شریف پڑھتی تھیں۔ آپؓ کی صحت خراب تھی مگر پھر بھی باقاعدگی سے ہمیں پڑھاتی تھیں۔ ایک مرتبہ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جب مَیں شادی ہوکر آئی تو مَیں نے سوچا کہ اپنے سب کاموں کے لیے ایک ٹائم ٹیبل بنالیتی ہوںتاکہ ہر کام وقت مقررہ پر کروں۔ چنانچہ مَیں نے چارٹ بنا کر اپنے کمرہ میں لٹکا دیا۔ایک دن ایک غریب خاتون آئی اور کہنے لگی بی بی میرے کپڑے سی دو۔میں نے اس سے کہا کہ اچھا مَیں ابھی تمہیں بتاتی ہوں۔ مَیں نے کمرے میں جاکر اپنا چارٹ دیکھا تو اس میں کوئی وقت خالی نہ تھا۔ مَیں نے اس کو آکر کہا کہ میرے پاس کوئی وقت خالی نہیںمَیں تمہارے کپڑے نہیں سی سکتی۔ وہ بےچاری چلی گئی۔بعد میں مجھے بہت افسوس ہوا کہ یہ میں نے اچھا نہیں کیا۔ غریب عور ت تھی مجھے اس کے کپڑے سی دینے چاہیے تھے۔میں نے جاکر وہ ٹائم ٹیبل پھاڑ دیا اور سوچا جب میں اس کے مطابق ایک نیکی کا کام بھی نہ کرسکوں تو مجھے کیا فائدہ ۔ پھر اس کو بلوا کر اس کے کپڑے سی دیے۔

جوا نی میں ہی آپؓ سنگرینی کی بیماری میں مبتلا ہوگئی تھیں اس وجہ سے طبیعت اکثر کمزوررہتی تھی لیکن آپؓ نے اپنی خرابیٔ طبیعت کو اپنے اوپرغالب نہیں آنے دیا اور قوت ارادی کے ساتھ جس انہماک اور جس جانفشانی کا مظا ہرہ کرتیں دیکھنے وا لی ہر آنکھ آپؓ کی بلند ہمتی اور جماعت کے ساتھ محبت و خلوص پر حیران رہ جا تی۔ اس تکلیف سے آپؓ مکمل طور پر صحت یاب کبھی نہیں ہوئیں۔ ایک وقت آیا کہ خوراک کی نالی بند ہوگئی اور آپریشن کروانا پڑا۔انتہائی صبر سے وقت گزارا۔ دعاؤں میں مصروف رہتیں۔ قریباً آٹھ ماہ تک مسلسل بستر علالت پر رہیں اور ۸؍ستمبر۱۹۵۳ء کو وفات پاگئیں۔ آپؓ موصیہ تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سندھ میں تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ کی چاردیواری میںمدفون ہو ئیں۔

ملک نذیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں: مَیں ان کے شفقت بھرے سلوک کی وجہ سے ہمیشہ ہی ان کو امی جان کہتا رہا ہوں ۔ جب میں قادیان حصول تعلیم کی غرض سے آیا اور علم کے ابتدائی مراحل طے کرتا ہوا جامعہ میں پہنچا تو جس ذات گرامی نے اپنے موہ لینے والے اخلاق اور حیرت انگیز علمی تفوق سے میرے دل کی گہرائیوں میں احترام کے غیرفانی نقوش چھوڑے وہ حضرت علامہ میر محمد اسحاق صاحبؓ تھے۔مجھے تو اس اعزاز پر بجا ناز ہے کہ مجھے آپ کے ہاں گھر کے فرد کی حیثیت سے نوازا گیا۔ اب بھی جب اس زمانہ کا تصور کرتا ہوں تو تشکّر وامتنان کے جذبات سے میرا روآں روآں ان کے تمام خاندان کے لیے دعائوں اور عقیدت کے پھول نچھاور کرنے لگتا ہے۔ قادیان میں رمضان المبارک میں حضرت میر صاحبؓ کی ہدایت کے ماتحت مَیں مسجد اقصیٰ کے درس القرآن میں شریک ہوتا اور کاپی میں اس کے نوٹس لیتا۔واپسی پر جب حضرت میر صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپؓ مجھے مردانہ میں ایک طرف بٹھاکر پاس خود تشریف فرماہوتے اور زنانہ کمرے کی کھڑکی کے پاس حضرت امی جانؓ قرآن لے کر بیٹھ جاتیں۔ مجھے فرماتے تم پڑھو۔ امی جان سنتی جاتیںکئی مقامات پر میری اصلاح فرماتیں اور بعض دفعہ تو ایسے عجیب اور اچھوتے نکات بیان فرماتیں کہ روحانی حظ حاصل ہوتا اور بےاختیار مرحبا کے الفاظ نکل جاتے اب تک میرے لوح قلب پر ان کے گہرے مطالعے اور علوم دینیہ کے عبور پر پائیدار نقوش مُرتسِم ہیں۔

………٭………٭………٭………

بچوں کے بہانے سے نماز ضائع نہ کیا کرو

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں یہ روایت شائع ہوئی ہے کہ حضرت امّاں جانؓ نہ صرف خود نمازوں کی پابندی کرتیںبلکہ دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتی رہتیں۔کوئی خاص بات ہوتی،چاہے وہ اپنے لیے ہو یا کسی اَور کے لیے،تو سب سے دعا کرواتیں،خاص طور پر بچوں سے ضرور دعا کرواتیںاور فرمایا کرتی تھیں کہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے خدا بچوں کی دعا بہت سنتا ہے۔

خان بہادر چودھری ابو الہاشم خان صاحب کی بیوی نے بیان کیا کہ مَیں اپنی پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد حضرت امّاں جان ؓکے پاس دعا کے لیے کہنے گئی۔نماز کا وقت ہو گیا اور جب امّاں جانؓ نماز پڑھ کر واپس آئیںتو پوچھا: ’’لڑکیو!کیا تم نے نماز پڑھ لی؟‘‘ مَیں نے جواب دیا کہ بچے نے پیشاب وغیرہ کیا ہوا ہے گھر جا کر پڑھیں گے۔اس پر فرمایا: ’’بچوں کے بہانے سے نماز ضائع نہ کیا کرو اس طرح بچے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ بنتے ہیں۔بچہ تو خدا کا انعام ہے۔‘‘

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button