آسٹریلیا (رپورٹس)

آسٹریلیا میں شہد کی مکھیوں پر لاک ڈاؤن: منظر و پس منظر

(ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

قارئین کرام، سکول کے زمانہ میں ہماری ذہانت کا امتحان لینے کے لیے ایک شعربطور پہیلی سنایا جاتا تھا کہ

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

ناحق خون پروانے کا ہو گا

یہ شعرنامعلوم شاعر کا ہے،جبکہ اکثر میرتقی میرؔ وغیرہ سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مگس یعنی شہد کی مکھی باغ میں پھولوں کا رس اکٹھا کرکے شہد تیار کرتی ہے تو اس کے ساتھ موم بھی بناتی ہے جس سے تیارکردہ شمع جب روشن کی جاتی ہے تواس کے شعلے پرعاشق پروانے جل کرمرجاتے ہیں۔ چنانچہ معصوم پروانے کی جان بچانا مقصود ہے تو اس کا واحد طریق یہی ہے کہ مگس کو باغ میں ہی نہ جانے دیا جائے۔ موم بنے گا نہ ہی پروانے کا خون ہوگا!

آج سے کوئی سو سال قبل جس شاعرنے بھی یہ شعرکہا ہوگا اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ اکیسویں صدی میں آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملک کے سائنسی ماہرین اسی اچھوتے خیال کو عملی جامہ پہنا کرایک دن سچ مچ مگس کو ادھرادھر کے باغوں میں جانے سے روکنے کے لیے اس پرلا ک ڈاؤن نافذ کردیں گے۔

لیکن مگس پر عائد کردہ یہ لاک ڈاؤن پروانے کا نہیں، خود مگس کا ناحق خون روکنے کی خاطرنافذ کرنا پڑگیا ہے۔ اورمگس یعنی شہد کی مکھیوں پہ ترس بھی اس لیے کہ شہد اور اس سے وابستہ لگ بھگ ۱۴ بلین ڈالرسالانہ کی انڈسٹری کو تباہی سے بچانا مقصود تھا۔ واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق آسٹریلیا میں اوسطاً سالانہ ۱۶ تا ۳۰ ہزار ٹن کئی اقسام کا شہد تیار ہوتا ہے جو دنیا بھر کو سپلائی کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ تقریباً ۷۰ ملین ڈالر سالانہ کی زرعی اجناس کی فصلوں کی بارآوری (Pollination) کے لیے بھی شہد کی مکھیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جس کی کچھ تفصیل آگے چل کر بیان کی جائے گی۔

لاک ڈاؤن کا پس منظر اور مقصد

پس منظر اس لاک ڈاؤن کا کچھ یوں ہے کہ چند دہائیوں سے اکثر ممالک میں شہد کی مکھیوں پہ ایک جوں نما پیراسائٹ ویرؤآ (VARROA)نامی کیڑے(mite) نے وبا کی صورت حملہ کردیا ہوا ہے۔اس کا بڑا شکار کمرشل بنیادوں پر شہد تیار کرنے والی یورپی نسل کی شہد کی مکھیاں(APIS MELLIFERA) بنیں، جو پوری دنیا میں زیادہ شہد پیدا کرنے والی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔

بقیہ دنیا سے الگ تھلگ ہونے اور یہاں پر عائد انتہائی سخت غذائی اور حیاتیاتی قوانین کی موجودگی کی وجہ سے ۲۰۲۲ء تک آسٹریلیا کی شہد کی مکھیاں اس کیڑے سے محفوظ رہیں۔ لیکن بدقسمتی سے مال بردار بحری جہازوں سے چمٹ کر کچھ ایسی شہد کی مکھیاں نظر بچا کر براعظم آسٹریلیا میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئیں جن کے جسموں پر یہ پیراسائٹ بھی جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔

راقم نے جو ان مکھیوں کے لیے ’’نظر بچا کر‘‘داخل ہونے کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو یہ محاورتاً نہیں بلکہ سچ مچ استعمال کیے ہیں۔ کیونکہ آسٹریلیا کے تمام انٹرنیشنل ائیرپورٹس اور بندرگاہوں،اور اسی طرح مصروف ساحلی علاقوں میں ہر قسم کے حشرات الارض بشمول مکھیوں مچھروں پرباقاعدہ نظر (Surveillance) رکھی جاتی ہے کہ کون آیا اور کون گیا۔ بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر شہد کی مکھیوں کو پالنے والے ڈبے رکھے جاتے ہیں جن کی باقاعدہ جانچ پڑتال کی جاتی ہے کیونکہ کنٹینر وغیرہ سے چمٹ کر آنے والی شہد کی مکھیاں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان کا ہی رخ کرتی ہیں اور پھر وہاں ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘کی طرح دھر لی جاتی ہیں۔اس مقصد کے لیے پورٹس کے نواحی اور دیگرساحلی علاقوں میں بھی روزانہ کی بنیاد پراسی طرح کی کارروائی ہورہی ہوتی ہے۔

جب ۲۰۰۷-۸ء میں انگلستان اور یورپ میں ویرؤآ کی وبا پھیلی توآسٹریلیا میں نگرانی کا یہ نظام اور بھی سخت کردیا گیا تھا تاہم جون ۲۰۲۲ء میں کچھ ویرؤآ یہاں کی ریاست نیوساؤتھ ویلز میں مقامی شہد کی مکھیوں کی کالونیوں میں اپنے قدم گاڑنے میں کامیاب ہو گئے جو مبینہ طور پر یورپی شہد کی مکھیوں پہ سوارہوکریہاں پہنچے تھے۔

اس کے نتیجے میں ریڈ الرٹ جاری کرکے مگس بانوں اور زمینداروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی مکھیوں کا ٹیسٹ کریں اور اگر ان کے چھتوں میں ویرؤآ کی موجودگی ثابت ہو توپھرمتاثرہ مکھیوں کو تلف کردینا لازمی ہو گا۔اس کے نتیجے میں کئی ملین شہد کی مکھیاں تلف کردی گئیں جو اس وبا سے نمٹنے کا ایک ظالمانہ طریق تھا۔

شہد کی متاثرہ مکھیوں کو تلف کردینے کے ساتھ اندرون ملک ان کی نقل وحرکت پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ انفرادی طور پر مکھیوں پرتو لاک ڈاؤن نہیں لگایا جا سکتا البتہ پرائیویٹ اور کمرشل، ہر دو قسم کےمگس بانوں پر اس لاک ڈاؤن کا اطلاق کیا گیا کہ وہ پالتوشہد کی مکھیوں کے ڈبے اپنے علاقوں سے باہر نہ لے کر جائیں تاکہ وبا کو محدود رکھا جا سکے۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا، آسٹریلیا میں شہد کئی بلین ڈالر سالانہ کی انڈسٹری ہے۔کمرشل بنیادوں پر کروڑوں شہد کی مکھیاں یہاں کے فارموں میں پالی جاتی ہیں۔ بعض اقسام کا شہد صرف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہی تیار ہوتا ہے۔اس انڈسٹری کو ایپی کلچر(Apiculture) کہا جاتا ہے۔

شہد،موم،پروپولس،رائل جیلی وغیرہ حاصل کرنے کے علاوہ ان مکھیوں سے ایک اور انتہائی اہم زراعتی کام بھی لیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ مختلف اقسام کی فصلیں خصوصاً بادام، آواکاڈو(Avacado)،سیب، خربوزہ اور بعض مقامی ادویاتی جڑی بوٹیوں کی فصلوں سے زیادہ سے زیادہ اور اعلیٰ قسم کی پیداوارحاصل کرنے کے لیے انہیں شہد کی مکھیوں سے بارآور (Pollination) کروایا جاتا ہے کیونکہ یہ باغوں اور فصلوں میں جب رس اکٹھا کرنے جاتی ہیں تو اپنے پیروں سے چپکے ہوئے نر اور مادہ زردانے (Pollen) بھی ایک پھول سے دوسرے پھول پر منتقل کرتی ہیں،جس سے ان کا ملاپ ہوکر فروٹ اور بیج تیار ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوا، اس مقصد کے لیے زمیندار (Agriculturist) مگس بانوں (Apiculturist) کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ شہدکی مکھیوں کوموسمی فصلوں کے مطابق ان کے علاقے میں لے آئیں۔ اس کے عوض مگس بانوں کو باقاعدہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔بعض بڑے بڑے زرعی فارم تو ان مکھیوں کو لاکھوں کی تعداد میں ’’لیز‘‘یعنی کرایہ پر حاصل کرتے ہیں۔ اس سے زمینداروں کو تو فائدہ ہوتاہی ہے،ساتھ مگس بانوں کو بھی ان کی شہد کی مکھیوں کے لیے مفت میں نت نئے پھولوں کی اقسام کے رس وافر مقدار میں حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ آم کے آم،گٹھلیوں کے دام !

بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بظاہرخشخاش کے دانے یا تل جتنے پیراسائٹ ویرؤآ کی وجہ سے بیچاری مگس پہ لگنے والے لاک ڈاؤن کے سبب مذکورہ انڈسٹری کو کتنا بڑا نقصان ہورہا ہے۔

ویرؤآ کیا ہے اورکیسے حملہ آور ہوتا ہے؟

ویرؤآ آٹھ ٹانگوں والاایک سرخی مائل ننھامنا کیڑا (mite) ہے جس کی لمبائی محض ۱.۱ ملی میٹر اور چوڑائی۱.۵ یا ۲ ملی میٹر ہوتی ہے۔اس کی ۸ ننھی منی ٹانگیں ہوتی ہیں جواسے مگس کے جسم خصوصاً پیٹ پہ چمٹنے میں مدد دیتی ہیں،جہاں یہ اس کا خون (Haemolymph) چوسنا شروع کردیتا ہے۔ واضح رہے کہ زیادہ تر بالغ مادہ ویرؤآ یہ کام کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے شہد کی مکھیاں لاغر ہوجاتی ہیں۔اس کے علاوہ ان کے کاٹنے سے مختلف قسم کے وائرس بھی مکھیوں کے جسم کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اور انہیں بیمار کردیتے ہیں۔ اس کا اثر ان کی شہد تیار کرنے کی صلاحیت پر بھی پڑتا ہے اور ان کی عمر بھی کم ہو جاتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ جب مادہ ویرؤآ شہد کے چھتے کے اندرہر آٹھ دن بعدبہت سے انڈے دیتی ہے تو ان سے نکلنے والے بچے شہد کی مکھیوں کے لارووں اور پیوپا پہ پلنے لگتے ہیں۔اس کے نتیجے میں پیدائشی طورپر معذور لولی لنگڑی اور مڑے تڑے پروں والی شہد کی مکھیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔کیونکہ ویرؤآ کے بچوں کی وجہ سے ان کی نارمل افزائش میں خلل واقع ہو چکا ہوتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ یہ معذور مکھیاں کہاں تک اڑان بھرسکتی ہوں گی اورپھولوں وغیرہ سے کتنا رس اکٹھاکرسکنے کے قابل ہوتی ہوں گی۔ بعض تو محض رینگنے پر مجبور ہوتی ہیں اور چھتے کے اندر ہی رہتی ہیں۔ مزید برآں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ انڈے نرمکھیوں کے لارووں اور پیوپا کے خانوں میں دیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ملکہ مکھی کو افزائش نسل کے لیے نرساتھیوں کی کمی کا سنگین خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور چھتے میں نئی مکھیوں،خصوصاً ورکر مکھیوں کی تعداد کم سے کم ترہوتی چلی جاتی ہے۔ ان سب عوامل کی وجہ سے چھتے میں شہد کی پیداوار میں چالیس تا ساٹھ فیصد کمی واقع ہو جاتی ہے۔

کمزور مدافعت والی مگس

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتنا خوفناک اور تباہ کن ویرؤآ آیا کہاں سے اور اس کے آگے شہد کی یہ مکھیاں اتنی بے بس کیوں ثابت ہورہی ہیں؟۔ محققین کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں یہ معلوم ہوا تھا کہ ایشیائی ممالک میں پائی جانے والی شہد کی ’’چھوٹی‘‘مکھی (Apis Cerana) میں ویرؤآ عام طور پر پایا جاتا ہے۔ لیکن اس مکھی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ طبعاً بہت حساس،سگھڑ اور سلیقہ شعار واقع ہوئی ہے۔اپنا بناؤ سنگھار بھی کرتی ہے اور گھر یعنی چھتے کو بھی باقاعدگی سے صاف کرتی رہتی ہے۔ جب ویرؤآ اس پرچمٹتا ہے تواسے یہ خوداپنی ٹانگوں سے پکڑ کریا ساتھی مکھیوں کی مدد سے سالم یا کاٹ کرباہر پھینک دیتی ہیں۔ اسی طرح یہ مکھیاں اپنے ان لارووں اور پیوپا کو بھی چھتے سے نکال کر تلف کردیتی ہیں جن میں ویرؤآ کے انڈوں یا بچوں کی موجودگی کا انکشاف ہوتا ہے۔ اس طرح سے یہ ویرؤآ کی تعداد کو محدود کرکے اسے وبا ئی شکل اختیار کرنے سے روکے رکھتی ہیں۔

روس میں پائی جانے والی شہد کی ایک مکھی بھی قدرت کی طرف سے انہی عادات و خصائل سے متصف ہے۔

افسوس کہ یورپ میں پائی جانے والی مگس(Apis Mellifera) جوزیادہ شہد بنانے کی وجہ سے کمرشل بنیادوں پہ دنیا بھر میں پالی جاتی ہے، وہ مندرجہ بالا صفات سے بڑی حد تک عاری ہوتی ہیں۔ غالباً زبان حال سے اپنے مادہ پرست مالکوں کو پیغام دے رہی ہوتی ہیں کہ میں تو تمہارے نام نہاد ’’ بزنس‘‘ میں کمرشل جاب کرتی ہوں، مجھ سے گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی یا ہمہ وقت بناؤ سنگھارکی توقع ہرگز نہ رکھنا !

چنانچہ جب ساٹھ کی دہائی میں ایشیائی ممالک میں لائی گئی ان یورپی مکھیوں پر ویرؤآ حملہ آور ہوا،اور پھر وہاں سے یورپ اور امریکہ پہنچا تو ان مکھیوں کی طرف سے کوئی خاص مدافعانہ کارروائی دیکھنے میں نہ آئی نتیجۃً موجودہ دور میں اس نے تشویش ناک حد تک ایک وبائی شکل اختیار کرلی ہے۔

خطبہ جمعہ میں خصوصی ذکر،احمدیوں کوتحقیق کی دعوت اورامید افزاء پیغام

ہمارے پیارے روحانی باپ اور مذہبی راہنما سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خود بھی ایگریکلچر سائنٹسٹ ہیں۔ مسند خلافت پہ متمکن ہونے سے قبل آپ کی اس شعبہ سے وابستگی کی اجمالی طور پربشاراتِ ربانیہ میں نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ (بحوالہ الفضل آن لائن:

https://www.alfazlonline.org/17/06/2022/62881/

آپ نے اپنے ایک خطبہ میں ویرؤآ کی اس وبا کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’آج کل شہد کی مکھیوں کے چھتوں پر ایک خاص قسم کے کیڑے کا بھی حملہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے شہد پر ریسرچ کرنے والے بڑے پریشان ہیں یا پالنے والے بھی پریشان ہیں اور یہ دنیا میں بڑے وسیع پیمانے پر ہوا ہے کسی خاص ملک میں نہیں۔ یہ کیڑے کا حملہ ہے جو شہد کی مکھیوں کی موت کا باعث بن جاتا ہے اور شہد کی مکھی کے چھتے میں باوجود بہت ساری حفاظتی روکیں ہوتی ہیں۔ داخل ہونے سے پہلے اینٹی بایوٹک کی قسم کی ایک چیز ان کے سوراخوں میں لگی ہوتی ہے اور جن سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو صاف کر رہی ہوتی ہیں اس کے باوجود ان روکوں سے گزر کر یہ کیڑا حملہ کر رہا ہے اور مکھیوں کی موت کا باعث بن جاتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کی وجہ سے مکھیاں پالنے والے بھی اور ریسرچ والے بھی بڑے پریشان ہیں۔ اس پر بڑی تحقیق ہو رہی ہے کہ اس کیڑے کو کس طرح ختم کیا جائے اور پھراس بیماری سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر یہی حال رہا تو چند سالوں میں شہد کی مکھی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ یا بعض جگہوں پر بالکل ختم ہو جائے گی۔ مَیں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے یہ اندازے غلط ہیں کہ مکھی ختم ہو جائے گی یا شہد ختم ہو جائے گا کیونکہ یہ مثال جو قرآن کریم نے دی ہے یہ مثال ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ ختم نہیں ہو گا۔ جس طرح قرآن کریم نے رہتی دنیا تک رہنا ہے۔ یہ چیزیں بھی ساتھ ساتھ چلیں گی جن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ شفاء بھی ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت دکھانے کے لیے اور انسان کے بڑھتے ہوئے شرک کی وجہ سے سزا کے طور پر اس میں کمی کر دے۔ احمدیوں کو بھی ریسرچ میں آنا چاہئے۔ کیونکہ شہد کی مکھی کا سلسلہ بھی وحی کے سلسلے سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا جو وحدانیت اور وحی سے خاص طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے میں احمدیوں کو کہہ رہا ہوں کہ احمدیوں کو شہد کی مکھی کی ریسرچ میں آکر اس وجہ کو تلاش کرنا چاہئے جس سے باہر کے کیڑے نے آکر شہد کے چھتوں میں یہ فساد پیدا کیا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس وقت کوئی احمدی اس فیلڈ میں ہے کہ نہیں اگر کوئی ہے تو مجھے اس بارہ میں بتائیں ‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ دسمبر ۲۰۰۸ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل جلد ۱۶ شمارہ ۲ مورخہ ۹جنوری تا ۱۵ جنوری ۲۰۰۹ء صفحہ ۷ )

آسٹریلیا کا ’’پلان بی‘‘(Plan Bee) کیا ہے؟

آسڑیلیاسمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں ویرؤآ پر تحقیق جاری ہے۔ان میں عام مگس بان بھی شامل ہیں، اور زوآلوجسٹ نیزماہرین حشرات (Entomologist) بھی۔ ماہرین ماحولیات و زراعت بھی شامل ہیں اور ماہرین مگس بانی (Apiculturists)بھی۔ اور اسی طرح جراثیم کش سپرے اور کیڑے مار ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں بھی۔ چنانچہ جس طرح ہنگامی صورتحال سے نمٹنےکے لیے سٹریٹیجک طور پر’’پلان بی‘‘(Plan B) تیار کیا جاتا ہے، اسی طرح شہد کی مکھی کے حوالہ سے آسٹریلیا میں ایسے ہی منصوبہ کو’’Plan-Bee‘‘کا نام دے کر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے جو چند سالوں سے جاری ہیں۔

طوالت کی وجہ سے اس پلان کی جملہ تفصیلات اس مضمون میں بیان نہیں کی جاسکتیں، بہرحال:

٭…ان میں آسٹریلیا کی مقامی شہد کی مکھیوں کی باقاعدہ افزائش نسل کا منصوبہ شامل ہے جو ایک اندازہ کے مطابق ڈیڑھ،بلکہ دو ہزار اقسام کی بتائی جاتی ہیں۔ آسٹریلین طوطوں کی طرح یہ بھی مختلف خوشنما رنگوں اور سائز کی ہوتی ہیں۔ کوئی مچھر سے بھی چھوٹی تو کوئی دو انچ بڑی!۔ ان میں سے بعض اقسام بغیر ڈنک کے ہوتی ہیں۔

ایک خاص نسل کی آسٹریلین مگس درختوں وغیرہ پہ نہیں بلکہ زمین میں بل بنا کررہتی ہے۔اور شہد سے بھرے ننھے منے کنویں تیار کرتی ہے، جو خود انہی کے کام آتے ہیں۔

فصلوں کی پولی نیشن کے لیے بھی مقامی مگس مفید پائی گئی ہے،اوران میں ویرؤآ کے آثار بھی نہیں پائے گئے۔

٭…کامیاب امریکی تجربہ کے مطابق یورپی نسل کی بجائے روسی نسل کی شہد کی مکھی کو مقامی مگس بانوں میں متعارف کروانا بھی منصوبہ میں شامل ہے۔

٭…اسی طرح یہ تجربہ بھی کامیاب رہا ہے کہ اگر یورپی نسل کی مگس کو افریقہ لے جاکر رکھا جائے تو ان میں مدافعانہ صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کا جذبہ بیدار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔گویا ماحولیاتی تبدیلی کا بھی ممکنہ کردارواضح ہوا ہے۔

٭…اگلی چند دہائیوں تک یورپی نسل (Apis Mellifera) میں جینیاتی تبدیلی کی توقع بھی کی جارہی ہے یعنی ان میں سے جو مکھیاں وبا کو کامیابی سے سہ سکیں گی ان کی نسلیں ممکنہ طورپر آگے چل کر ویرؤآ کے خلاف قدرتی اور مؤثر مدافعت کی حامل ہو سکیں گی۔(Survival of the fittest کا قانون قدرت )۔

٭…امریکہ میں شہد کی مکھیوں کوجراثیموں سے محفوظ رکھنے کے لیے بعض بڑے بڑےفارموں میں اینٹی بائیوٹکس پلائے جاتے ہیں، دیکھا جا رہا ہے کہ کیا ایسا کرنے سے ان کی اپنی قدرتی مدافعت تو متأثر نہیں ہو جاتی جو کہ پھر ویرؤآ جیسی وباؤں کے پھیلنے پر منتج ہوتی ہے۔

٭…ویرؤآ کے لیے سم قاتل مگر شہد کی مکھی اورشہد کھانے والوں کے لیے بے ضرر قسم کی کیڑے مار ادویات کے سپرے وغیرہ تیار کرنے کے تجربات بھی جاری ہیں۔

پلان بی پر عمل اس لحاظ سے بھی ناگزیر ہوچکا ہے کہ حکومت آسٹریلیا کی طرف سے عندیہ دیا جا رہا ہے کہ وہ شہد کی مکھیوں پرطویل المدت لاک ڈاؤن کے نفاذ کی متحمل نہیں ہو سکتی نہ ہی مگس بانوں کے لیے اب یہ قابل قبول ہے جن کے نزدیک لاک ڈاؤن کا حربہ رفتہ رفتہ غیر مؤثرہوتا جا رہا ہے۔ بقول شخصےانہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ؎

مگس کو باغ میں اب جانے دیجو

وگرنہ خون انسانوں کا ہو گا!

یہ جدید پہیلی اتنی مشکل تونہیں !۔ فِیہِ شِفآءٌ لِّلنَّاس۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button