دورہ جرمنی اگست؍ ستمبر ۲۰۲۳ء

سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۹؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ) (قسط دوم۔ آخری)

(رپورٹ:عبدالماجد طاہر۔ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد)

٭… مسجدنور Frankenthal کے افتتاح کے حوالہ سے خصوصی تقریب میں شامل مہمانان کے تاثرات

تقریب میں شامل مہمانوں کے تاثرات

آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔ یہاں بعض مہمانوں کے تاثرات پیش کیے جاتے ہیں۔

٭…ایک مہمان کاتھرین بِلیٹْس کے (Kathrin Blitzke) صاحبہ جن کا تعلق Grüne پارٹی سےہے وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:حضور کا خطاب بہت اچھا تھا۔ حضور نے نہایت ضروری باتیں بیان کیں جو کہ دیگر مذہبی پیشواؤں سے کم سننے کو ملتی ہیں۔

٭… گیرٹس مان (Gerstmann) صاحب جو مسجد کے ہمسائے ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں : حضور کی شخصیت نہایت پیاری اور خاموش طبع دکھائی دیتی ہے نیز حضور کا پیغام بھی پُر امن اور بہت پیارا تھا۔

٭… بنیامین شروڈر ( Benjamin Schröder) صاحب جو پیشہ کے لحاظ سے ایک مؤرخ ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں : آپ کے خلیفہ نے بہت اعلیٰ انداز میں خطاب فرمایا۔ موجودہ سیاسی حالات کو بھی پیش نظر رکھا۔ ایک مؤرخ ہمیشہ اس زعم میں رہتا ہے کہ اس نے بہت کچھ دیکھ لیاہے، بہت سی باتوں سے آشناہے۔ لیکن آپ کے خلیفہ نے مجھے اس کا الٹ ثابت کر دیا ہے۔ میں نے آج بہت کچھ سیکھا ہے۔ آپ کی دعوت کا بہت شکریہ۔

٭…پیٹر(Peter) ۔ صاحب CDU پارٹی کے سیاست دان ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات نے مجھ پر ایک مثبت اثر چھوڑا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے میں بہت سے تحفظات کا شکار تھا لیکن حضور کے خطاب کے انداز سے بہت متاثر ہوں۔ مجھے اچھا لگا کہ حضور نے ممکنہ تیسری جنگ عظیم کا ذکر فرمایا کیونکہ میرے نزدیک بھی یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ بات بھی اچھی اور ضروری لگی کہ حضور نے مذہبی معاملات کے ساتھ ساتھ دنیوی معاملات کا ذکر بھی فرمایاہے۔

٭…وِنفریڈ کونِگ (Winfried König) صاحب ریڈ کروس (DRK) سے آئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: مجھ پر اس بات نے گہرا اثر چھوڑا ہے کہ جماعت احمدیہ کم تعداد ہونے کے باوجود پورے جرمنی میں کس قدر کامیاب جماعت ہے۔ خواہ مساجد کی تعمیر ہو یا فلاحی کام ہوں، جماعت احمدیہ پیش پیش ہے۔

٭… Professor Doc. Michael Rauch صاحبHof University میں ماسٹر پروگرام انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں۔ کام کے سلسلہ میں بنگلہ دیش بھی جاتے رہتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں: حضور کا پیغام مجھے نہایت درست اور ضروری لگا۔ ہمسایوں کے حقوق کے حوالے سے بیان کردہ تعلیمات نیز اپنے وطن سے محبت کرنے کی تعلیمات کے متعلق جو خلیفہ نے بیان کیا، ان باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ آپ لوگوں کا ایمان بنگالی مسلمانوں کی نسبت بہت پختہ ہے۔

٭…کینان یلماس (Kenan Yilmaz) صاحب ایک Businessman ہیں، وہ کہتے ہیں: حضور کو دیکھتے ہی میں نے ایک نور دیکھا جو حضورکے وجود سے ظاہر ہو رہا تھا۔

٭…پیٹرس صاحبہ ( Peters)جو ایک سیاست دان کی اہلیہ ہیں کہتی ہیں: مجھے بہت اچھا لگا کہ حضور نے کس قدر پیارے انداز میں اور وضاحت سے بات کی۔ حضور کی شخصیت نے اور سارے احمدیوں نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔

٭… پیٹرا چشٹولسلے (Petra Stoelzle)صاحبہ جن کا تعلقBernd-Jung-Stiftung سے ہے، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: حضور کا خطاب سننے کے بعد مجھے اس بات نے حیران کر دیا کہ اسلام اور قرآن وہی تعلیمات پیش کرتا ہے جو کہ بائبل بھی پیش کرتی ہے۔

٭… ایلن صاحبہ (Ellen) کا تعلق Grüne پارٹی سے ہے۔ وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں : اگر میں حضور کے پیغام کا مختصر خلاصہ نکالوں تو وہ ایک لفظ میں محبت ہو گا۔حضور کے ساتھ ملاقات کر کے بہت خوشی ہوئی اور یہ میرے لیے ایک نہایت ہی خاص لمحہ تھا۔

٭… رالف زِیب ( Ralf Zeeb) صاحب جن کا تعلق Protestant Church سے ہے وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : خلیفۃ المسیح ایک پُر سکون اور با رعب انسان ہیں۔ امام جماعت احمدیہ نے اس بات پر زور دیا کہ جماعت کا یہ فرض ہے کہ Societyکو کچھ دینا ہے اور یہ نقطہ ایمان کا حصہ ہے اور قرآن میں بھی اس کا ذکرموجود ہے۔ یہ ایک ایسی نئی چیز تھی جسے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ اوراحمدی جس ملک کے رہائشی ہوں اس ملک کا شکر گزار بننا یہ بھی صرف ایک عام بات نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کا ایک حصہ ہے۔

٭…ڈاکٹر گابری ایلے سیٹ ہان ( Dr Gabriele Ziethan) صاحبہ کا جماعت کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے۔ موصوفہ نے جلسہ سالانہ پر بھی شمولیت اختیار کی اور تینوں دن جلسہ سالانہ پر ہی گزارے۔ ان کی خواہش تھی کہ آپ باجماعت تہجد کی نماز ادا کریں اس وجہ سے آپ ہوٹل میں بھی نہیں گئیں۔وہ بھی اس تقریب میں شامل تھیں۔ کہتی ہیں: جلسہ سالانہ کے دوران جو امن اور سکون وہاں محسوس کیا، بعد میں اس کی بہت کمی محسوس ہوتی رہی لیکن اس تقریب میں شامل ہوکر دوبارہ وہی امن و سکون ملا ہے۔

حضورانور کی شخصیت سے بہت متاثر تھیں اور انہوں نے حضور انور کی خدمت میں ایک تحفہ بھی پیش کیا۔ حضور انور کے خطاب کے متعلق کہنے لگیں کہ خلیفۃ المسیح نے اپنے خطاب میں اسلام کے جو بھی اوصاف بیان فرمائے ہیں وہ یقیناً جماعت احمدیہ میں موجود ہیں۔

٭…مسٹر اور مسز یےکل(Mr&Mrs Jekel) کا تعلق University of Mannheim سے ہے۔ ان کے خاوند پہلی بار کسی جماعتی تقریب میں شامل ہوئے۔وہ بیان کرتے ہیں: یہ خلیفہ وقت کی خوبی ہے کہ انہوں نے دوسرے خطاب کرنے والوں کو اتنا وقت دیا۔ حضور انور کے الفاظ دل میں گھر کر گئے۔ اب یوکے جا کر حضور انور سے ملاقات بھی کریں گے۔

٭… ایک اور مہمان، بیرنڈ فلڈمت (Bernd Feldmeth) بیان کرتے ہیں: مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ایک ایسی اسلامی تنظیم سے ملنے کی توفیق ملی جو کہ ہر لحاظ سے امن پسند اور تشدد کے خلاف ہے۔ ہمسایوں کے حقوق کے متعلق خلیفۃ المسیح نے جو تعلیم بیان فرمائی وہ مجھے بہت پسند آئی۔ احمدیت دوسرے مسلکوں سے جدا ہے اور یہ ایک بہت خوش کن بات ہے۔

آپ لوگ بہت اچھے ہیں۔ آپ کے پاس امن ہے، آپ دنیا کی بہتری کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔حضور کی باتوں سے اس چیز کا احساس ہوا کہ ہم اکیلے دنیا کے امن کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اور میرے خیال میں اہلِ جرمنی کے لیے یہ بہت اچھا پیغام ہے جو لوگوں کے لیے پُر امید اور مدد کرنے والا ہے۔جب آپ دوسروں کو اچھے کام کرتے دیکھتے ہیں تو پھر آپ خود بھی ا چھائی کی طرف آتے ہیں۔ شاید آپ لوگ بھی اسی طرح لوگوں کو اپنی طرف قائل کر سکتے ہیں۔

٭…ایک مہمان ولف (Wolf) صاحب کہتے ہیں کہ Darmstadtمیں ہر کوئی جماعت احمدیہ کو جانتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہر کوئی محبت کرتا ہے۔ بہت حیرانی کی بات تھی کہ Parkingسے لے کر بیٹھنے اور کھانا کھانے تک ہر ایک کارکن بہت خوش اخلاقی سے پیش آیا اور اپنی مدد پیش کرتا رہا۔ میں اپنے کام کے سلسلہ میں بہت سے پروگراموں میں شامل ہوتارہتاہوں لیکن ایسے احساس کرنے والے اور مدد کرنے والے کارکن کہیں اَور نہیں دیکھے۔

٭…ویردے مان(Wirdemann) صاحب لوکل شہر کے پولیس ہیڈ ہیں، وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: جماعت کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ میں حضور کے وجود سے بہت متاثر ہوا ہوں، آپ کا خطاب بہت سے موضوعات پر تھا اور آپ نے دوسرے مقررین کی تقریر پر نوٹس بھی لیے تھے۔ مجھے آپ کی شان داخل ہوتے ہی محسوس ہونے لگ گئی۔

٭… یِیتوا رک ( Yitvarek) صاحبہ کہتی ہیں کہ خلیفۃالمسیح کے الفاظ اس دور کے عین مطابق تھے اور مجھے بہت حیرت ہوئی کہ آپ کے ماننے والے آپ سے کتنی محبت اور آپ کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ اتنی عزت جرمن اپنے چانسلر کی بھی نہیں کرتے جتنی آپ کے ممبرانِ جماعت اپنے خلیفہ کے لیے کرتے ہیں۔ حضرت صاحب امن اور محبت پر خطاب کر رہے تھے اور یہ باتیں بہت ضروری ہیں۔

٭…ہانس شیرر(Hans Scherer)صاحب جو کہ ایک وکیل ہیں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: میرے جماعت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور میں آپ کی قربانیوں پر داد دیتا ہوں۔ حضرت صاحب کا خطاب پُرحکمت تھا اور میں آپ کی رائے کو بہت اچھا سمجھتا ہوں۔ میری بھی یہی رائے ہے کہ اگر ہم آگے اسلحہ بھیجتے رہیں گے تو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے اور ایک عالمی جنگ کا خدشہ ہے۔ آپ کے خلیفہ دنیا کو تبدیل کرنے والے انسان ہیں جیسے گاندھی یا دلائی لاما کام کرتے ہیں۔ اور آپ کا خطاب دنیا کے لیڈروں کو سنانا چاہیے۔

٭…ٹورسٹن سیسکو (Torsten Sziesko) صاحب ایک Businessman ہیں۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: خلیفۃ المسیح کا وجود بہت حیران کن ہے۔ آپ کے خطاب سے مجھے پردہ کے حکم کی سمجھ آئی ہے اور میں اس بات کو بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں کہ مجھے آپ کا قرب ملا۔ آپ کا وجود بہت متاثر کرنے والا ہے اور میرے لیے ایک inspiration ہے۔

٭…ہانس ڈروپ مان (Hans Dropman) صاحب کہتے ہیں : حضرت صاحب کا وجود مجھ پر بہت اثر کرنے والا ہے۔ آپ کا خطاب امن سے پُر تھا اور میں نے یہ سیکھا ہے کہ اسلام کا مطلب امن ہے۔

٭…ہانس یرگن وللانڈ ( Hans Jürgen Welland) صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب ایک باعزت اور بارعب انسان ہیں اور آپ کا خطاب بہت اہم ہے۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور یہ بات میں آج یہاں سے سیکھ کر اپنے گھر لے کر جارہا ہوں۔

٭…مس گیبر ( Ms. Geber) صاحبہ ایک پادری خاتون ہیں اوراپنے خیالات کےاظہار میں کہتی ہیں کہ جب خلیفۃ المسیح ہال میں تشریف لائے تو سارا ماحول بدل گیا۔ آپ کے وجود سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک روحانی وجود ہیں۔ آپ کا خطاب بہت دلچسپ تھا اور مجھے یہ بات بہت پسند آئی کہ آپ نے ہمسائے کی تشریح بتائی کہ ہمارے گردو نواح کے ۴۰؍ گھر وں کا شمار ہمسایوں میں ہی ہوتاہے۔

٭…روتھ روزینوس (Ms. Ruth Rosinus) صاحبہ جوکہ سوشل ورک کرتی رہی ہیں وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں : میں عیسائی ہوں مگر خلیفۃ المسیح کا وجود مجھے ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا مذہبی لیڈر ہو۔ آپ کے خطاب نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ہم مل کر دنیا میں امن قائم کر سکتے ہیں۔ آپ ایک بہت پیار کرنے والے اور نرم مزاج انسان معلوم ہوتے ہیں اور میں سمجھتی ہوں خلیفۃ المسیح ہمارے پوپ سے بھی بہتر انسان ہیں۔ باقی مسلمانوں میں ایسے خلیفہ ہوتے تو ان کے اندر بھی ایک اچھا نظام قائم ہوجاتا۔

٭…ایک مہمان استیمیر (Istimir) صاحب بیان کرتے ہیں: جاتے ہوئے میں نےحضرت صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا تو آپ کے چہرے سے نور ہی نور نظر آرہا تھا اور آپ کو دیکھنے کے بعد میرے اندر خوشی اور مسرّت پیدا ہوگئی جس سے ساری تکالیف اور دکھ دُور ہوگئے۔

٭…باربرا میگن (Barbara Migen) صاحبہ جن کا تعلق Grüne پارٹی سے ہے، اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں خلیفۃ المسیح کے خطاب سے بہت متاثر ہوئی ہوں اور جو بھی آپ نے فرمایا وہ سچ ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کی جماعت کی مخالفت کیوں ہوتی ہے اور آپ کی مساجد کو کیوں توڑا جاتا ہے؟ جبکہ یہ جماعت امن پسند اور دوسروں کا خیال رکھنے والی ہے۔ایسی جماعت کی مخالفت نہیں ہونی چاہیے۔ اب میں آپ کی مسجد بھی دیکھنا چاہوں گی۔

٭…ڈینس (D(Dennis State Secretary صاحب ہیں اور وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس بات سے بہت متاثر ہوں کہ خلیفہ وقت نے حالات حاضرہ کے متعلق خطاب فرمایا۔ خلیفہ وقت کے وجود سے ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ زندگی کے مسائل سے خوب آشنا ہیں اور آپ نے اپنے خطاب کے ذریعہ سے لوگوں کو بھی اس سے مطلع کیا۔

٭…بہلول اےمرے بیلیچی (Behlül Emre Bilici)صاحب جو نقشبندی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں خلیفہ وقت کے وجود سے بہت متاثر ہوئے اور خاص طور پر حضور انور کے رعب کا ذکر کیا۔انہوں نے اپنی خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ خلیفہ وقت کو دیکھیں اور آپ کی اقتدا میں نماز پڑھیں۔

٭…ڈنس ماردو (Dennis Mardo) صاحب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں حضور انور کے وجود اور جھلک سے بہت متاثر ہوں۔ حضور انور کے خطاب کی یہ بات کہ حُب الوطنی ایمان کا حصہ ہے بہت پسند آئی۔مجھے تقریب کے دوران اس بات کا بھی احساس ہوگیا تھا کہ روحانی راہنمائی کیوں اتنی ضروری ہے۔

٭…ایک مہمان شٹارک ( Stark) صاحب نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضور انور کا خطاب بہت متاثر کن تھا۔ حضور انور نے نہ صرف آج کی تقریب کے مناسب حال خطاب فرمایا بلکہ حالات حاضرہ کے متعلق بھی گفتگو فرمائی۔ آج حضور انور کے خطاب سے اسلام کے متعلق کافی زیادہ نئی معلومات ملیں خاص طور پر قرآنی تعلیمات کے متعلق علم میں بہت اضافہ ہوا۔

٭…ایک مہمان نے بیان کیا کہ خلیفۃ المسیح کی شخصیت سے بہت متاثر ہوں۔ خلیفۃ المسیح کی مجلس میں شمولیت باعث عزت تھا۔

٭…ایک خاتون مہمان اُرسُلا ہیرتیے (Ursula Hertje) نے کہا: اگر مذہب کو صحیح اہمیت دی جائے تو سب امن میں رہ سکتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے آج ایسا نظر نہیں آتا۔ جو خلیفۃ المسیح نے بیان فرمایا اس کا سیاست سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہے۔مجھے یہ بات اچھی لگی کہ خلیفۃ المسیح نے ایمان اور قرآن کے بارہ میں بات کی، جو حقیقت میں بنی نوع انسان کی ہدایت چاہتے ہیں۔ لیکن بعض مسلمان ایسے ہیں جو قرآنی احکامات پر عمل نہیں کرتے۔

خلیفۃ المسیح بہت تعلیم یافتہ اور صاحبِ تجربہ ہیں۔ بہت اچھی شخصیت کے مالک ہیں اور ایک خاص کرشمہ نظر آتا ہےجو کسی ایسے شخص میں ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جس نے اپنا دین پھیلانا ہو۔

میں فرانکن تھال کی رہنے والی ہوں اور بہت سے اسلامی فرقوں کو جانتی ہوں۔ کچھ وقت پاکستان میں اور سعودیہ میں گزارا اور بہت فرقوں سے واسطہ پڑا۔ آپ کے بارہ میں research کی اور آپ کی جماعت کی activitiesکے بارہ میں جانا اور میں آپ کی covidکے دوران کی خدمات کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی۔

٭…ایک مہمان Juanنامی جو integration کے شعبے میں کام کرتے ہیں نے کہا : خلیفۃ المسیح نے مجھ پر بہت مثبت اثر چھوڑا۔ آپ کا خطاب ایسا تھا گویا آپ ہمیں امن کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس خطاب کے اس قدر ممتاز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ تمام مذاہب اور لوگوں کے ساتھ احترام سے پیش آنے کی تلقین فرما رہے ہیں۔ یہ ایک عالمی پیغام ہے جو صرف کسی خاص ملک یا قوم سے تعلق نہیں رکھتا۔ سب کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے اپنے خطاب میں پوری انسانیت کو مخاطب فرمایا ہے۔

میں ہدایت اللہ ہیو بش صاحب کو بھی جانتا تھا اور ہمارا اچھا تعلق ہوا کرتا تھا۔ خلیفہ ایک بہت با وقار شخصیت ہیں۔ آپ کا امن کا پیغام ذاتی طور پر میرے لیے بہت اہم تھا۔آپ نے پوری دنیا کو امن کی طرف بلایا اور یہ بات مجھے بہت پسند آئی۔ میرے لیے یہ ایک بہت نایاب موقع تھا اور میں نہیں جانتا کہ مجھے اپنی زندگی میں خلیفہ کو دیکھنے کا دوبارہ موقع ملے گا یا نہیں۔

٭…فرانکن تھال کے مئیر مارٹن ہیبِش (Martin Hebisch) صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں خلیفۃ المسیح سے بہت متاثر ہوا۔ آپ کے الفاظ روحانی اور حکمت سے پُر تھے۔ آپ کا پیغام امن اور خدمتِ انسانیت کا ہے۔ مجھے یہ بات اچھی لگی کہ حضور نے اس بات پر زور دیا کہ ہم سب مل کر امن قائم کریں کیونکہ اس وقت امن خطرے میں ہے۔

٭…ایک مہمان نےاپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: خطاب بہت متاثر کن تھا۔ اس میں مذہبی گہرائی اور روحانیت تھی۔ ایک چیز جو مجھے خاص طور پر اچھی لگی وہ یہ ہے کہ خلیفہ نے اکٹھا رہنے پر زور دیا۔ مجھے آپ کی جماعت کے بارہ میں علم نہیں تھا لیکن اس خطاب کے ذریعہ آج آپ لوگوں کے بارہ میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

٭…ایک مہمان لُوکاس کالنِک (Lukas Kalnik) نے کہا: خلیفہ کا خطاب سننا میرے لیے بہت بڑےاعزاز کی بات ہے۔ میرے نزدیک آپ کا خطاب زبردست تھا۔ میرے لیے خلیفہ سے ملاقات کا یہ پہلا موقع تھا۔ آپ کے خطاب میں سے ایک بات خاص طور پر قابلِ ذکر تھی اور وہ یہ کہ آپ نے بہت باتیں اس بارہ میں کہیں کہ اس دنیا کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے اور یہی میرے نزدیک آپ کے خطاب کا مرکزی نکتہ تھا۔ میں نے سیکھا ہے کہ اسلام کی تعلیم پُر امن ہے۔ خلیفہ اپنی شخصیت کے اعتبار سے بہت عظیم اور زبر دست ہیں اور ایک رعب ہے جو آپ میں نظر آتا ہے۔

٭…ایک مہمان خاتون پیترا شٹولسلے (Petra Stölzle) نےاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں حضور کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ جب حضور ہال میں داخل ہوئے تو سارے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ میں نے آپ کی باتیں بہت غور سے سنیں۔ میں نے پہلی دفعہ کسی مسلمان کا خطاب سنا اور آپ کے الفاظ نے میرے دل کو چُھو لیا ہے۔ خاص طور پر جب آپ نے فرمایا کہ ہم بڑے امن پسند لوگ ہیں۔

٭…ایک مہمان خاتون نےاپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: مجھے حضور کا خطاب بہت متاثر کن لگا۔خاص طور پر آپ کا ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک اور روحانیت کے تصوّر کا بیان بہت اچھا تھا۔جنگوں کے بارہ میں آپ کا پیغام مجھے بہت پسند آیا۔ پہلی بار آپ کے ساتھ ۲۰۱۵ء میں ملاقات ہوئی۔ آپ کے خطاب میں سے یہ بات کہ سب کے لیے آزادی ہونی چاہیے مجھے بہت زبردست لگی۔میں سمجھتی ہوں کہ آزادی آپ کے مذہب کا بنیادی خاصہ ہے۔ یہ بات بھی مجھے اچھی لگی کہ امن ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی حاصل کرنا چاہیے۔

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ خلیفۃ المسیح اس چھوٹے سے شہر میں تشریف لائے۔ پَوپ شاید ایسے چھوٹےشہر میں کبھی نہ آتے۔ اس لیے مجھے یہ بات بڑی غیر معمولی لگی کہ خلیفۃ المسیح یہاں تشریف لائے۔ میرے خیال میں آپ ایک بہت بڑے لِیڈر ہیں جو متعدد مشہور شخصیات کو مل چکے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ نے ہمارے شہر میں آنے کے لیے وقت نکالا۔ میں پہلی نہیں ہوں جو اس خلیفہ کے لیے باوقار کا لفظ صفت کے طور پر استعمال کر رہی ہوں۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جن موضوعات پر آپ نے گفتگو فرمائی اُن کے بارہ میں بات کرنا بڑا ضروری ہے۔سب نے بڑے انہماک سے آپ کا خطاب سنا۔ ایک بہت ہی عمدہ شخصیت ہیں اور ایک عجیب پُر کشش شخصیت ہیں۔

٭…ایک مہمان مانفرَید گرائف(Manfred Gräf) نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ایک بہت دلچسپ شام تھی۔ ہم بہت سوالات لے کر آئے تھے اور ہمیں ان کے جوابات بھی ملے۔ میں نے خلیفۃ المسیح سے بہت کچھ سیکھا۔ تشدد کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ محبت کو نہ صرف جماعت احمدیہ بلکہ ہر مذہب کو اپنے اندر سمونا چاہیے ۔

خلیفۃ المسیح کی شخصیت بہت حیران کن تھی۔ وہ جو کہتے ہیں کرتے بھی ہیں۔ میں ان کا موازنہ پَوپ فرینسس یا دلائی لاما سے کرنا چاہوں گا۔ مطلب یہ کہ آپ لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کافی فکر مند ہیں۔

٭…ایک مہمان مسٹر شٹانسل (Stanzel) نے کہا: میں مہمان نوازی پر بہت حیران ہوالیکن اس سے بھی زیادہ خلیفہ کے خطاب سے۔ آپ نے ایک ایسے دور میں خطاب فرمایا جب عمومی طور پر مذہبی باتیں نہیں ہوتیں۔ گویا مذہب کے بارہ میں بات کرنا ممنوع ہے۔ مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ اِدھر ایک مذہبی عبادت گاہ بنائی گئی ہے۔ جماعت احمدیہ کا ماٹَو سینکڑوں سال پہلے ہی دوسرے مذاہب کے فرقوں میں بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا۔

٭…شہر کے میئر نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: مجھے حضور کا خطاب بہت متاثر کن لگا اور مجھے وہ موضوعات جن کے بارہ میں آپ نے گفتگو کی بہت اچھے لگے۔اور یہ کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ میں ایک میئر ہوں اور میرا واسطہ ہر قسم کے لوگوں سے پڑتا رہتا ہے اور اس خطاب میں ہر مسئلہ کا حل ہے۔ میری تمنا ہے کہ کاش میں حضور کے ساتھ تصویر کھنچوا سکوں۔

٭…مسجد کے ہمسائے تھورستن باد وِگ (Torsten Badewig) نے کہا: آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ اصل اسلام کیا ہے۔ ورنہ تو میڈیا اسلام کو خطرے کے طور پر دکھا رہا ہے۔ آج مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم سب اکٹھے ہیں خواہ کوئی مسلمان ہے یا غیر مسلم۔ مجھے خاص طور ہمسایوں کے بارہ میں خلیفۃ المسیح کی باتیں بہت پسند آئیں۔ یہ بات کہ تمہیں اپنے ہمسائے کی اُسی طرح عزت کرنی چاہیے جس طرح تم اپنی فیملی سے عزت سے پیش آتے ہو۔ جرمن معاشرے میں اکثر اوقات خود غرضی پائی جاتی ہے لیکن اسلام میں معاملہ بالکل اَور ہے اور یہ بات مجھے کافی اچھی لگی۔حضور ایک با رعب اور متاثر کرنے والی شخصیت ہیں جن کی باتیں آپ ہر روز سن سکتے ہیں۔

٭…ایک مہمان ڈاکٹر مِشائیل راؤخ (Dr. Michael Rauch) نےاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ایک بہت اچھی شام تھی۔ اس تقریب میں شامل ہونا میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ میں خلیفۃ المسیح کے خطاب کو سراہتا ہوں۔ مجھے جو سب سے ضروری باتیں لگیں وہ یہ کہ آپ نے ہمسایوں کے حقوق کے بارہ میں اور معاشرے میں امن و سلامتی اورایک دوسری کی مدد کرنے کے بارہ میں بات کی۔ مجھے جماعت کے بارہ میں بھی اچھا تاثر ملا۔ محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنی کہی ہوئی باتوں پر خود عمل بھی کرتے ہیں۔ آپ کے اندر ایسے خلیفہ کی موجودگی آپ کے لیے باعثِ فخر ہونی چاہیے۔

٭…ایک مہمان آندریاس حیلمان (Andreas Helman) نے کہا: ایک بہت دلچسپ خطاب تھا۔ میں نے خلیفہ کے بارہ میں کافی سنا تھا لیکن پہلی بار دیکھا ہے۔ ایک ایسا شخص ہے جس پرآپ اعتماد کر سکتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کو اپنا پیغام پہنچانے کا بہت زبردست ملکہ ہے۔

٭…ایک مہمان خاتون آنتھیے وَیکسلر (Antje Wechsler) نے کہا کہ میں خلیفہ کے بہت قریب بیٹھی تھی۔ آپ نے اپنے سے پہلے آنے والے مقررین کے نکات بڑی گہرائی میں سمجھ کر ان کے مطابق اپنا خطاب فرمایا۔مجھے یہ بات بڑی حیران کن لگی۔اس کے علاوہ رواداری کا نقطہ بہت اچھا لگا۔میں اس مسجد کے سنگِ بنیاد کی تقریب میں بھی شامل تھی اور اُس وقت کا ماحول بھی مجھے بہت پسند آیا۔آپ کی باتیں سن کر مجھے محسوس ہوا کہ اسلام کی تعلیمات سخت نہیں ہیں۔ عام طور پر لوگوں میں اسلام کے بارہ میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ لیکن خلیفہ کے خطاب نے سب تحفظات دور کر دیے۔مجھے نہیں پتا تھا کہ اسلام کی تعلیمات اتنی خوبصورت ہیں۔

٭…ایک مہمان کارستن زائفرٹ (Carsten Seifert) نے کہا: اب میں آپ کے عقائد کو بالکل اَور نظر سے دیکھتا ہوں۔میرا حضورِ انور کے بارے میں تاثربہت مثبت رہا۔انہوں نے مجھےواقعتاً بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔میں عجیب کیفیت میں ہوں۔میں ضرور دوبارہ مسجد آؤں گا۔میں نے محسوس کیا کہ عیسائیت اور اسلام میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ہمیں اسلام کے بارے میں بہت کچھ وضاحت کی ضرورت ہے۔ہمارے عقائد بہت ملتے جلتے ہیں۔اسلام کے بارے میں بہت کچھ سننے کو ملتا ہے جو بالکل سچ نہیں۔

٭…ایک مہمان خاتون آندریا سِلوا (Andrea Silva) نےاپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: حضورِ انور کی شخصیت نے مجھ پر بڑا گہرا اثر چھوڑاہے۔جس سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔میں حضور کے ایک طرف بیٹھی ہوئی تھی اور جب وہ میرے پاس سے گزرے تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی شخصیت بہت با رعب اور محبت کرنے والی ہے۔وہ لوگوں کےحالات سے واقف اور بہت سنجیدہ تھے۔ان کی تقریر نہ صرف ہمارے وقت کے لیے مفید ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔

٭…ایک مہمان خاتون لِتھرا شٹُلسے(Litra Stulze)نے کہا: میں حضور کے خطاب سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ امن کا پیغام مجھے بہت پسند آیا ہے۔آپ کے خطاب میں سب سے نمایاں چیز انسانیت سے محبت تھی۔اسلام کے بارے میں میڈیا میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔لیکن جب میں یہاں آئی تو مجھے بالکل نئی چیزوں کے بارے بتایا گیا۔مجھے یہ بہت پسند آیا۔میں نے خلیفۃ المسیح کو دیکھا اور میں نے ان کے اندر ایک عاجزی محسوس کی۔

٭…ایک مہمان ڈاکٹر مہمت ییلسین D(Dr. Mehmet Yelsin)n نے کہا: حضور سکون کا ایک بہت بڑا احساس ظاہر کرتے ہیں۔آپ پر ذمہ داری کا بہت بڑا بوجھ ہے لیکن پھر بھی آپ ایک بہت ہی معزز شخصیت اور بہت باوقار ہیں۔آپ کو دیکھ کر سکون ملتا ہے اور جب بھی آپ کسی ہال میں داخل ہوتے ہیں تو سارا ہال پر سکون ہو جاتا ہے۔جب آپ سے ملتے ہیں تو ہم اپنے اندر سکون محسوس کرتے ہیں۔ ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے۔

مجھے یہ بات اچھی لگی کہ آپ نے اسلام کی خوبیوں کے بارے میں بات کی کہ اسلام امن ہے اور لوگوں کو یاد دلایا کہ ہمیں معاشرے میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button