حاصل مطالعہ

حاصل مطالعہ

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

متقیوں کی ہر دعا قبول ہوتی ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ متقیوں کی بھی بعض دعا قبول نہیں ہوتی۔نہیںاُن کی تو ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ ہاں اگر وہ اپنی کمزوری اور نادانی کی وجہ سے کوئی ایسی دعا کر بیٹھیں جو ان کے لئے عمدہ نتائج پیدا کرنے والی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس دعا کے بدلہ میں اُن کو وہ چیز عطا کرتا ہے، جو اُن کی شے مطلوبہ کا نعم البدل ہو۔ ‘‘ (ملفوظات جلد ۱صفحہ ۳۷۹، ایڈیشن۲۰۲۲ء)

بدیوں سے بچنے کے مجرب نسخے

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’انسان اگر اپنے دل میں خیال رکھے کہ خدا میرے ساتھ ہے۔ چلتے پھرتے پورا خیال رکھے کہ خدا مجھے دیکھتا ہے۔ تو چونکہ یہ امر انسان کی فطرت میں ہے کہ بڑے کے سامنے بدی نہیں کرتا۔ پھر محسن مقتدر خدا کے سامنے کیونکر کر سکتا ہے؟ پس اللہ پر ایمان لانا بدی سے بچاتا ہے۔ اللہ حاکم ہے مربی ہے نیکوں اور نیکیوں کو پیار کرتا ہے۔ بدی اور بدوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ یہ ساری باتیں ایمان میں داخل ہوں تو بدیوں سے بچ جاوے۔ بدیوں سے بچنے کے واسطے ایمان بالآخرۃ بھی ایک مجرّب نسخہ ہے۔ اگر انسان یہ [کہے ]کہ میرے ہر فعل کا نتیجہ ضرور ہے۔ نیکی کا بدلہ نیک ملے گا اور بدی کا بدلہ بد۔ تو ضرور بدیوں سے بچتا رہے گا۔‘‘(ارشاداتِ نور جلد ۱صفحہ ۶۷)

سورۃ الفاتحہ

قرآن کریم کی قوتوں اورطاقتوں کا نچوڑ ہے

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ الحجر آیت ۸۸ وَلَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَالۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:مثانی کے معنے…کسی شے کی قوت اور طاقت کے بھی ہوتے ہیں اور سورہ فاتحہ کو مثانی کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اس میں قرآن کریم کی قوتوں اور طاقتوں کا نچوڑ ہے۔ یعنی ہیں تو سات مختصر آیات لیکن سارے قرآن کریم کے مطالب اجمالاً اس میں آگئے ہیں۔

قرآن عظیم سے مراد بقیہ قرآن بھی ہو سکتا ہے اور مراد یہ ہوگی کہ سورہ فاتحہ بھی دی جو اجمالی قرآن ہے اور تفصیلی قرآن بھی دیا۔ اور اس سے مراد خود سورہ فاتحہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں اس سے یہ مطلب ہوگا کہ سورہ فاتحہ قرآن کریم کا ایک بڑا مہتم بہ حصہ ہے۔ اور قرآن سے سارا قرآن نہیں بلکہ حصہ قرآن مراد لیا جائے گا اور یہ عام محاورہ ہے کہ کبھی جزو کے لئے کُل کا لفظ بول دیا جاتا ہے جیسے عام طور پر لوگ کہتے ہیںقرآن سناؤ اور اس سے مراد سارا قرآن سنانا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا کچھ حصہ سنانا مطلوب ہوتا ہے۔ پس الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْم کا لفظ سورہ فاتحہ کے متعلق اس اظہار کے لئے ہے کہ وہ قرآن عظیم کا حصہ ہے اس سے باہر نہیں…احادیث میں بھی سورۃ فاتحہ کا نام قرآن عظیم بتایا گیا ہے۔ چنانچہ مسند احمد بن حنبل میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ھِیَ اُمُّ القُراٰنِ وَ ھِیَ السَّبْعُ المَثَانِی وَ ھِیَ القُراٰنُ العَظِیمُ (مسند احمد حنبل جلد ۲، صفحہ ۴۴۸) یعنی سورۃ فاتحہ اُمُّ القرآن بھی ہے اور سبع المثانی بھی ہے اور قرآن عظیم بھی ہے۔ (تفسیر کبیر جلد ۴، صفحہ ۱۱۱، مطبوعہ قادیان ۲۰۱۰ء)

خدا تعالیٰ کی رضا اور محبت

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا:’’مختلف طبیعتیں ہیں۔ مختلف تربیتی دوروں میں سے انسان گزرتا ہے اور خلیفہ وقت اور امام وقت کا یہ کام ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت کو تربیت کے مقامات میں سے درجہ بدرجہ آگے ہی آگے لئے جاتا چلا جائے تاکہ وہ خدا تعالیٰ کی رضاء کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والی ہو اور اللہ تعالیٰ کی محبت انہیں بہت زیادہ مل جائے۔‘‘(خطباتِ ناصر جلد ۲ صفحہ ۱۳۳)

خلیفۂ وقت کی زبان کا غیر معمولی اثر

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:’’خلافت کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض دفعہ بظاہر نصیحت عمل نہیں کر رہی ہوتی لیکن جب خلیفہ ٔوقت کی زبان سے وہی نصیحت نکلتی ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی اثر پیدا کر دیتا ہے۔‘‘(خطبات طاہر جلد ۲ صفحہ ۲)

قبولیت ِدعا کا اعجازی نشان

حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم اے اپنی کتاب سیرت المہدی میں ایک واقعہ کا ذکر تے ہیں کہ’’منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص شملے میں رہتا تھا۔ اور اس کی بہن احمدی تھی۔ وہ شخص بڑ اعیاش تھا۔ اس کی بہن حاملہ تھی اور حالات سے وہ سمجھتی تھی کہ اس دفعہ میں ایام حمل میں بچنے کی نہیں۔ کیونکہ اسے تکلیف زیادہ تھی۔ اس نے اپنے بھائی کو مجبور کیا کہ اسے قادیان پہنچادے۔ چنانچہ وہ اسے قادیان لے آیا،اور کچھ دنوں کے بعد جب بچہ پیدا ہونے لگا تو پیروں کی طرف سے تھوڑا نکل کر اندر ہی مرگیا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت ام المومنینؓ روتی ہوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس آئیں۔ اور فرمایا: عورت مرنے والی ہے اور یہ حالت ہے۔ آپؑ نے فرمایا: ہم ابھی دعا کرتے ہیں۔ اور آپ بیت الدعا میں تشریف لے گئے۔ دو چار ہی منٹ کے بعد وہ بچہ خود بخود اندر کو جاناشروع ہوگیا۔ اور پھر پلٹا کھا کرسر کی طرف سے باہر نکل آیااور مرا ہوا تھا۔ وہ عورت بچ گئی اور اس کا بھائی توبہ کر کے اسی وقت احمدی ہوگیا۔ اور بعد میں صوفی کے نام سے مشہور ہوا۔‘‘(سیرۃ المہدی، جلد ۲، صفحہ ۷۲،مطبوعہ قادیان ۲۰۰۸ء)

ارشادِ امام

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’ہم احمدی کہلانے والوں کی اب دوہری ذمہ واری ہے کہ ایک تو اپنے پاک ہونے اور اس کتاب پر عمل کرنے کی طرف مستقل توجہ دیں۔ دوسرے اس پیغام کو ہر شخص تک پہنچانے کے لئے ایک خاص جوش دکھائیں تاکہ کسی کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ ہم تک تو یہ پیغام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آج سوائے احمدی کے کوئی نہیں جس کے سپرد امت مسلمہ کے سنبھالنے کا کام کیا گیا ہے…جو انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے اس کو جاری رکھنا جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے۔ نہیں تو ہم بھی اسی طرح گناہگار ٹھہریں گے جس طرح پہلے ایمان کو ضائع کرنے والے ٹھہرے تھے۔ لوگ تو انشاء اللہ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس پیغام، کتاب اور تعلیم کو اپنے پر لاگو بھی کریں گے لیکن ہم میں سے ہر فرد کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ کبھی اس تعلیم سے روگردانی کرنے والے نہ ہوں اور کبھی اپنے دلوں کی پاکیزگی کو ختم کرنے والے نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم فروری ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍فروری ۲۰۰۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button