متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ دہم)

سیکیورٹی کے اعلیٰ انتظامات

اس دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات میں خاکسار نے حضور انور کو اس گفتگو کے بارے میں بتایا جو جلسہ کے دوران صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساتھ خاکسار کی ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے ایک واقعہ کے بارے میں بتایا جس کا تعلق ڈاکٹر مرزا مغفور احمد صاحب کے ساتھ تھا جو حال ہی میں امیر جماعت احمدیہ امریکہ مقرر ہوئے تھے۔

محترم صدر صاحب نے مجھے بتایا کہ محترم امیر صاحب جماعتی پروگرامز کی سیکیورٹی کے انتظامات میں بہتری لائے ہیں اور ایک مرتبہ ایک خادم سے اس بات پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا کیونکہ اس نے چند ہفتے قبل جلسہ سالانہ کے معائنہ کے دوران انہیں ایک چیک پوائنٹ سے بغیر ان کا رجسٹریشن کارڈ چیک کیے گزرنے دیا۔ وہ خادم چونکہ محترم امیر صاحب کو پہچانتا تھا اس لیے آپ سے badgeکے بارے میں پوچھنے کو سوءِادب خیال کرتا تھا تاہم محترم امیر صاحب یہی چاہتے تھے کہ اُن سمیت ہر ایک کوچیک کیا جائے۔

یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور مجھے یاد کروایا کہ اسی سال ڈنمارک میں لجنہ کی سیکیورٹی ٹیم نے میجر محمود صاحب کو چیک کیا تھا اگرچہ وہ حضور انور کی سیکیورٹی کے انچارج ہیں اور حضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ کے سامنے بھی جلسہ سے قبل اس واقعہ کو بطور مثال بیان فرمایا تھا۔

ایک جذباتی تبصرہ

ملاقات کے دوران حضور انور نے ایک یورپی نو مبائعہ کا ذکر فرمایا جو گذشتہ روز آپ سے ملنے کے لیے آئی تھیں۔ جب وہ حضور انور سے ملیں تو وہ بے حد افسردہ تھیں اور انہوں نے بتایا کہ وہ بہت پریشان ہیں کیونکہ ان کے شوہر جو پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور پیدائشی احمدی ہیں وہ جماعت سے دور ہورہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر کا جماعت اور خلافت سے جو تعلق ہونا چاہیے ویسا نہیں ہے۔

حضور انور نے فرمایاکہ آج یہ حال ہو گیا ہے کہ احمدی نو مبائعین،پیدائشی احمدیوں کی تربیت کے لیے پریشان اور فکرمند ہیں۔

جہاں حضور انور نو مبائعین کے ایمان اور وفا پر خوش تھے، یہ بات بالکل واضح تھی کہ آپ کو اس بات کی شدید تکلیف اور درد تھا کہ بعض پیدائشی احمدی ایسے ہیں جو جماعت سے دُور ہوتے جا رہے ہیں۔

افریقی لوگوں کے لیے حضور انور کی محبت

میں نے حضور انور کو بتایا کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس دن کے پہلے حصہ میں حضور انور سے ملاقات کرنے والی سیرالیون سے تشریف لائی ہوئی ایک خاتون نے بہت خوب تبصرہ کیا ہے۔ میں اس خاتون کی بات کر رہا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ حضور انور کے خطاب کو سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا:کیا تم نے غور کیا ہے کہ عموماً افریقی لوگ کس عمدہ انداز میں کلام کرتے ہیں؟ ان کی انگریزی زبان میں بات کرنےکا معیار بہت بلند ہے اور ان کی فصاحت کمال کی ہے۔

حضور انور نے یقیناً بجا فرمایا تھا تاہم پھر بھی میں حضور انور کے الفاظ کی خوبصورتی سے فرطِ حیرت میں ڈوب گیا۔افریقی لوگوں کے لیے آپ کی محبت اور ان پر اور ان کی صلاحیتوں پر آپ کا اعتمادواضح دکھائی دیتا تھا۔

افسوس ہے کہ دنیا میں اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو افریقی لوگوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن ہمارا خلیفہ ایسا وجود ہے جو یقین رکھتے ہیں کہ افریقی لوگ دنیا کی قیادت کرنے کی قابلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔

پہلے Maori احمدی سے ملاقات

۱۷؍اگست ۲۰۱۶ءکی صبح حضور انور کی مختلف وفود سے اور گروپس سے ملاقاتیں جاری رہیں۔ حضور انور نے پہلی ملاقات ایک نو مبائع سے فرمائی جو نیوزی لینڈ سے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے سفر کر کے تشریف لائے تھے۔ اس نو مبائع کو Maori قبیلہ میں سے پہلا احمدی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اورحضور انور نے ان کو ذاتی مہمان کے طور پر جلسہ میں مدعو کیا تھا۔

Maori رسم و رواج کےمطابق حضور انور اس نومبائع سے ناک کے ساتھ ناک ملا کر ملے۔یہ حضور انور کی کمال عاجزی کی ایک مثال ہےکہ آپ نے نہ صرف ناک کے ساتھ ناک ملانے کے طریق سے ایک Maori باشندہ سے نیوزی لینڈ میں ملاقات فرمائی بلکہ جب ایک Maori احمدی سے (بطور میزبان)اپنے گھر لندن میں ملاقات فرمائی تو بھی ان کی روایات کو نظرانداز نہیںکیا۔

اس ملاقات کے دوران اس نو مبائع نے حضور انور سے درخواست دعا کی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ Maori قبیلہ میں سے احمدیت قبول کر لیں۔اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایاکہ میں دعا کروں گا۔اب یہ آپ کا فرض ہے کہ اپنے قبیلہ کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ احمدیت میں داخل کریں۔ آپ کو قرآن کریم کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کا Maori اور انگریزی ترجمہ پڑھنا چاہیے اور ساتھ ساتھ اس کے عربی متن کو بھی سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ ایسے Maori لوگ جو اسلام قبول کریں ان کے لیےاپنے تمام رسم و رواج چھوڑنا ضروری نہیں۔جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام قبول کرنے والوں کو متحد ہو کر ایک مسلم امت بننا چاہیے وہاں ساتھ ساتھ انہیں اپنی قبائلی شناخت بھی برقرار رکھنی چاہیے اور ایسی رسوم پر عمل جاری رکھنا چاہیے جواسلام کے خلاف نہ ہوں۔اپنے قبیلہ کے لوگوں تک آپ کو یہ پیغام پہنچانا چاہیے۔

اس Maori احمدی نے بتایا کہ انہوں نے بعض دیگر Maori لوگوں کو تبلیغ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی کوششوں کا جواب دشمنی اور غصہ سے ملا ہے۔ یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے فرمایا کہ اگروہ آپ کی تبلیغ سننے کو تیار نہیں ہیں تو پھر آپ کو اپنے الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے اخلاق اور بلند کردار سے تبلیغ کرنی چاہیے۔ انہیں آپ میں صرف اچھائی نظر آنی چاہیے اور آپ کے اخلاق بہت اعلیٰ ہونےچاہئیں۔ یہ کام کافی وقت لے گا، ہفتے یا مہینے نہیں بلکہ کئی سال اور اس دوران آپ کو صبر و تحمل اور وسعت حوصلہ کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ یہ آپ کا فرض ہے کہ اپنے قبیلے میں اسلام کا بیج بوئیں اور اس کی نگہداشت، پیار و محبت سے کریں۔ بالآخر یہ پھوٹے گا اور ایک کمزور پودے کی شکل اختیار کرتا ہوا ایک تناور درخت بنے گا جو ایک دن ان شاءاللہ ثمر آورہو گا۔

حضور انور کی خوبصورت تشبیہ سننے پر وہ Maori احمدی کہنے لگےکہ دراصل میں ایک بہت اچھاباغبان ہوں۔

اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ مجھے اندازہ تھا کہ آپ ایک اچھے باغبان ہوں گے اس لیے میں نے آپ کو درخت کی مثال دی تھی۔

بعدازاں حضور انور نے مکرم ماجد صاحب سے استفسار فرمایاکہ عالمی بیعت میں اس Maori احمدی دوست کو پہلی صف میں کیوں نہیں بٹھایا گیا؟

پہلی صف میں بیٹھنے والے دنیا کے مختلف حصوں کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں اپنے ہاتھ حضور انور کے دست مبارک کے نیچے رکھنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔

مکرم ماجد صاحب نے بتایا کہ جماعت کو اس نو مبائع کی تشریف آوری کے متعلق تاخیر سے اطلاع موصول ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ بیعت کے موقع پر ان کو پہلی صف میں جگہ نہیں مل سکی۔ کمال شفقت سے حضور انور نے اس Maori نومبائع کو مخاطب کر تے ہوئےفرمایا کہ میری خواہش تھی کہ آپ میرے ہاتھ پر بیعت کر تے اور اپنے مخصوص انداز میں جلسہ پر بہت سارے احمدیوں سے ملتے تاکہ ہر ایک کو معلوم ہوتا کہ جلسہ سالانہ یوکے پر Maori قبیلہ کا کوئی مہمان آیا ہوا ہے۔

بہرحال اگلے سال جب آپ آئیں تو ان شاءاللہ بیعت کے لیے پہلی صف میں بیٹھیں گے تاکہ آپ موری قبیلے اور اس علاقے کے مقامی باشندوں کے دیگر قبائل کی نمائندگی کر سکیں گے۔

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button