حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اصل چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍مئی ۲۰۱۷ء)

…اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننے کے لئے ایک درد اور کوشش ہونی چاہئے۔ کہنے والے تو کہہ دیں گے کہ ہم تو نمازیں بھی پڑھتے ہیں، عبادتیں کرتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں اگر ان کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے؟ ایک تو عبادتوں میں اخلاص و وفا ہونا چاہئے۔ یہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری عبادتیں بھی اخلاص و وفا والی ہونی چاہئیں۔ دوسرے نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق بھی ادا کرنے چاہئیں۔ ہمارے ہاں کیا ہے؟ ملکوں کے بادشاہ سیروں پر جانے کے لئے جہازوں کا بیڑا ساتھ لے کے جاتے ہیں۔ بڑےبڑے سازو سامان ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ کئی ملین ڈالر کے اخراجات ان کے اوپر ہوتے ہیں۔ اور اپنے ملک کے غریب ایسے بھی ہیں جن کو بعضوں کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے مل رہی ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دُوری ہے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ کا نام لینا اور دوسرے اس کا نام لے کر پھر اس کے جو حکم ہیں ان سے انکار کرنا، یہ پھر اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بناتا ہے۔ اور یہ لہو و لعب ہے۔ ظاہری کھیل کود ہے اور ظاہری زینت اور تفاخر ہے۔ اپنے مال کا ناجائز اظہار ہے۔

اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 420۔ ایڈیشن 1984ء)

اور ایسے لوگوں کی نمازوں کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ (الماعون:5) کہ ایسے نمازیوں پر ہلاکت ہو۔ اور حقیقت میں تو اللہ تعالیٰ ایسی عبادتیں اور ایسے کام ہم سے چاہتا ہے جو ہماری روحانی حالت میں بہتری پیدا کرنے والے ہوں۔ بندوں کے حقوق اس جذبے کے تحت ہم ادا کرنے والے ہوں جو ہمارے اندر درد پیدا کریں، نہ کہ ہم کسی پر احسان کر رہے ہوں۔ اور ایسی عبادتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو پھر جذب کرنے والی بنتی ہیں اور ایسی دولت بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بناتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ مَیں نے کہا دنیا کی مال و دولت اور دنیا کمانے سے منع نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں یقیناً مومنوں کے لئے جائز ہیں بشرطیکہ جائز ذریعہ سے حاصل کی جائیں اور وہ دین کے راستے میں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کے راستے میں روک نہ بنیں۔ عبادتوں میں روک نہ بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمّت سے متعلق اس بات کی فکر تھی کہ جو پاک انقلاب آپؐ نے صحابہؓ میں پیدا کیا اور انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی روح کو جس طرح سمجھا وہ آئندہ آنے والے مسلمانوں میں مفقودنہ ہو جائے، ختم نہ ہو جائے۔ چنانچہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں اپنی امّت کے بارے میں جس بات کا سب سے زیادہ اندیشہ کرتا ہوں (مجھے خطرہ ہے، خوف ہے یا فکر ہے۔ خوف تو نہیں فکر ہے) وہ یہ ہے کہ میری امّت خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے گی اور دنیاوی توقعات کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے میں لگ جائے گی اور ان خواہشات کی پیروی کے نتیجہ میں وہ حق سے دُور چلی جائے گی۔ دنیا کمانے کے منصوبے آخرت سے غافل کر دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! یہ دنیا رختِ سفر باندھ چکی ہے اور آخرت بھی آنے کے لئے تیاری پکڑ چکی ہے۔ دونوں طرف سے سفر شروع ہے۔ دنیا اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ آخر قیامت آنی ہے اور آخرت میں بھی حساب کتاب ہونا ہے وہاں بھی تیاری شروع ہے۔ اَور فرمایا کہ اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ غلام اور بندے ہیں۔ دنیا کے بھی کچھ غلام ہیں۔ کچھ آخرت کی فکر کرنے والے بھی ہیں۔ فرمایا پس اگر تم میں استطاعت ہو کہ دنیا کے بندے نہ بنو تو ضرور ایسا کرو۔ تم اس وقت عمل کے گھر میں ہو اور ابھی حساب کا وقت نہیں آیا۔ مگر کل تم آخرت کے گھر میں ہو گے اور وہاں کوئی عمل نہیں ہو گا۔ (بحار الانوار از الشیخ محمد باقر مجلسی الجزء التاسع والستون کتاب الایمان والکفر حدیث 63صفحہ 263-264 مطبوعہ الامیرۃ بیروت 2008ء)

جو عمل ہونے ہیں جن کا نتیجہ ملنا ہے وہ اسی دنیا میں ملنا ہے۔ اس لئے اپنے اعمال ٹھیک کرو۔

پس یہ دنیا عمل کا گھر ہے اس دنیا کے اعمال اگلے جہان میں جزا یا سزا کا ذریعہ بنیں گے۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ کی اس بات کو یاد رکھیں کہ یہ دنیا محض لہو و لعب ہے اور زینت کے اظہار اور ایک دوسرے پر اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے فخر کرنا ہے۔ اور اس کی حیثیت کیا ہے؟ کسی سوکھے ہوئے گھاس پھوس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ جو خشک ہوتا ہے اور چُورا چُورا ہو جاتا ہے اور ہوائیں اس کو اڑا کر لے جاتی ہیں۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے اور یہی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے کہ نیک عمل کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنو۔

صحابہ رضوان اللہ علیہم ہر وقت اس بات کی تلاش میں رہتے تھے کہ کس طرح اور کون سے ذریعہ سے ہم سیکھیں اور سمجھیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنائیں اور نیک عمل کرنے والے بنائیں۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھتے بھی تھے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button