حالاتِ حاضرہ

خبرنامہ (اہم عالمی خبروں کا خلاصہ)

٭… اسرائیل کے غزہ پر حملے پندرھویں روز بھی جاری رہے جہاں اسرائیلی بمباری سے غزہ میں جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد ۴ ہزار ۳۸۵ ہوگئی جن میں ۱۷۵۶ بچے اور ۹۷۶ خواتین شامل ہیں، جبکہ ۱۳ ہزار ۶۵۱ فلسطینی زخمی ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں امداد کی فراہمی پر اسرائیل کی ہٹ دھرمی بھی برقرار ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ جانے والی امداد میں ایندھن نہیں جائے گا۔فلسطینی وزارت صحت نے امداد میں ایندھن شامل نہ ہونے کو بیماروں، زخمیوں کی جانوں کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری اور مصر سے غزہ امداد میں ایندھن بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

٭…اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کےلیے جنگ جاری ہے، ہر قسم کی کوتاہی کی تحقیقات کی جائے گی۔ عرب میڈیا کے مطابق تل ابیب میں پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ حماس کے پاس اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اور حزب اللہ اسرائیل کے صبر کو آزمانے کی کوشش نہ کریں۔

٭…ترجمان ایرانی وزارت خارجہ ناصر کنعانی کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اسرائیل فلسطین تنازع کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ صیہونی ریاست کے مظالم کی امریکی حکومت قصور وار ہے۔ فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کے لیے امریکی حکومت صیہونی ریاست کی حمایت کر رہی ہے، اگر یہ غیرانسانی اقدامات جاری رہے تو صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں امریکی بحری بیڑہ بھیجنا مظلوموں کے بجائے ظالم کا ساتھ دینے کا مظہر ہے۔

٭…امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ غزہ پر قبضہ اسرائیل کی بڑی غلطی ہوگی۔امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا کہ حماس تمام فلسطینیوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ امریکی صدر نے فلسطینی صدر سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا، فلسطینی صدر کا حماس کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حماس کے اقدامات فلسطینیوں کی ترجمانی نہیں کرتے۔

٭…اسرائیل نے غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کی تردید کی ہے۔عرب میڈیا مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم کے آفس نے کہا ہے کہ غیر ملکیوں کے انخلاء کے بدلے غزہ میں فی الحال کوئی انسانی امداد اور جنگ بندی نہیں کی۔ اس سے قبل مصر کے سیکیورٹی ذرائع نے جنوبی غزہ میں صبح چھ بجے سے سیز فائر کے لیے امریکہ، اسرائیل اور مصر کے درمیان اتفاق ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔دوسری جانب حماس کا کہنا تھا کہ انسانی ہمدردی کے لیے جنگ بندی سے متعلق کوئی اطلاع نہیں۔

٭…امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے حملوں کا ایک مقصد سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو سبوتاژ کرنا تھا۔ایک فنڈ ریزنگ ایونٹ سے خطاب میں بائیڈن نے کہا کہ حماس کو پتا تھا کہ وہ جلد ہی سعودی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے پر بات کرنے والے تھے۔ صدر بائیڈن نے تصدیق کی کہ انہوں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں زمینی جنگ چھیڑنے کے عمل کو ملتوی کرے تاکہ مذاکرات کے نتیجے میں مزید یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوسکے۔

٭…مصر میں غزہ کی صورتحال پر قاہرہ میں امن اجلاس کے دوران عالمی راہنماؤں نے اسرائیل فلسطین تنازع کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ جیمز کلیورلی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت سے عالمی قانون کا احترام کرنے کا کہا ہے۔سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی غزہ کے لوگوں کی جبری بےدخلی کی کوششوں کو مسترد کرتے ہیں۔اٹلی کی وزیراعظم جارجیامیلونی نے قاہرہ امن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ تنازع میں پھیلاؤ نہیں ہونا چاہیے، عالمی برادری اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کا روڈ میپ بنائے۔یونان کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امن عمل بحال ہونا چاہیے، اسرائیل فلسطین تنازع کا حل دو ریاستی حل کی بنیاد ہونا چاہیے۔

٭… اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا غزہ سے جبری نقل مکانی کا حکم انسانیت کےخلاف جرم ہے اور بین الاقوامی فوجداری عدالت سزا دے سکتی ہے۔ اسرائیلی حکم غیر قانونی سمجھا جائے گا۔ روزانہ جنگی قوانین اور عالمی انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ اسرائیلی فوج کو شہریوں اور شہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے روکا جائے، غزہ پر اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی۔

برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک کا کہنا ہے کہ ہم برطانیہ میں مسلم کمیونٹی کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کو برداشت نہیں کریں گے۔ ممبر آف پارلیمنٹ افضل خان نے پارلیمنٹ میں مسئلہ فلسطین پر وزیرِ اعظم رشی سونک سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حماس اور اسرائیل کے مابین اختلافات شدت احتیار کر چکے ہیں، 6 سال کے فلسطینی مسلم بچے کو شکاگو میں قتل کر دیا گیا، گذشتہ چند دنوں میں برطانیہ میں بھی اسلاموفوبیا میں اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک کا کہنا ہے کہ ہم برطانیہ میں مسلم کمیونٹی کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کو برداشت نہیں کریں گے، ہم اس مشکل کی گھڑی میں تمام کیمونٹیز کے ساتھ کھڑے ہیں۔وزیرِ اعظم رشی سونک کا یہ بھی کہنا ہے کہ ۲۴ ملین پاؤنڈ برطانوی مسلم کمیونٹی، مساجد اور سینٹرز کے لیے مختص کر دیے ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button