حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

انصاف ہی قیام امن کا ذریعہ ہے

(انتخاب از خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع نیشنل پیس سمپوزیم یوکے فرمودہ ۹؍ مارچ ۲۰۱۹ء)

اسلامی نقطہ نظر یہی ہے کہ اتحاد ہی قیامِ امن کا بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ متحدہونے کی بجائے ہم لوگ تفرقہ کا شکارہورہے ہیں اور دنیا کے مشترکہ مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ میرایقین ہے کہ اس قسم کی پالیسیاں آئندہ آنے والے وقتوں میں بلکہ اس وقت بھی دنیا کے امن و امان کو کمزور کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں امن کے قیام کاایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ قومیں ایک دوسرے کے ساتھ عدل کا سلوک روا رکھیں۔

اگر بعض ممالک کو مسائل کا سامنا ہوتو دوسری قوموں کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کی بے نفس ہوکر مدد کریں اور اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال دیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم میں آتاہے کہ اگر دو فریقوں کے درمیان جنگ یا اختلاف ہے تو دوسری قوموں کو چاہیے کہ وہ بغیر کسی ایک فریق کی طرفداری کرنے کےثالثی کا کرداراداکریں اور مسائل کا پُرامن حل تلاش کریں۔ہاں، اگر ایک فریق ناانصافی پر قائم رہے اور پُرامن حل پر آمادہ نہ ہو تو پھر دوسری اقوام کوچاہیے کہ وہ ظالم قوم کو ظلم سے بازرکھنے کے لیے متحدہوجائیں۔ جب ظلم کرنے والا فریق اپنی زیادتیوں سے باز آجائے تو پھر ایسی صورت میں اسلام واضح طور پر حکم دیتاہے کہ غیرمنصفانہ پابندیاں لگا کر یا اس قوم کے وسائل کو لوٹ کر اس سے بدلہ ہرگز نہ لیا جائے۔

لیکن بعض ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو جنگ سے متاثرہ قوموں کے علاقوںمیں مداخلت کرتے ہیں یاامن کے نام پر ان پسماندہ ممالک کی امدادکرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی مختلف بہانوں سے ان کے وسائل پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ طاقتور قومیں بجائے اپنی دولت اور وسائل پر مطمئن رہنے کے اپنی طاقت کے بل بوتے پر غریب ممالک کو اپنے زیر نگیں کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

جیساکہ میں کہہ چکاہوں کہ اس بے چینی اور اس کے نتیجہ میں پیداہونے والے بد اثرات کی بنیادی وجہ، خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب ، معاشی ناانصافیاں ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوموں اور ملکوں کے بیچ معاشی تفریق کو کم کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں کی جائیں ۔ پھر یہ کہ ہرقسم کی انتہا پسندی اور تعصّب خواہ وہ مذہبی بنیاد پر ہو، یا نسلی یا کسی بھی قسم کا ، اس کے خاتمہ کے لیے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔

جن ممالک کے بارہ میں یہ بات واضح ہے کہ وہاں کے لوگ تکلیف میں ہیں اور ان کے رہنما ان کے حقوق کی حفاظت نہیں کررہے وہاں امن کے قیام کے لیے قائم کی جانے والی عالمی تنظیموں بالخصوص اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے امن پسند شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور معاشرہ میں امن اور انصاف کے قیام کے لیے جائز اور مناسب دباؤ ڈالیں ۔

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ مسلمان ممالک تو خود کئی سال سے اختلافات اور عدم استحکام کا شکار ہیں تو پھر اسلام امن کے قیام کے حوالہ سے ہمیں کیا سکھا سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان مسلمان ممالک کی یہ افسوسناک حالت اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دُور ہونے کی وجہ سے ہی ہے۔

اسلامی طرز حکومت و قیادت کی اصل تصویر دیکھنے اور حقیقت جاننے کے لیے ہمیں بانی اسلام حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکے عہد مبارک پر نظر ڈالنی ہوگی۔ مدینہ ہجرت کرنےکے بعد آپؐ نے یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق مسلمان اور یہودی شہریوں کے باہم امن کے ساتھ اور آپس میں ہمدردی، رواداری اور مساوات کی روح کو قائم رکھتے ہوئے مل جل کر رہنے پر زور دیا گیا۔

یہ معاہدہ انسانی حقوق کی حفاظت اور منصفانہ طرز حکومت کاعظیم الشان منشور ثابت ہوا اور اس نے مدینہ میں مقیم مختلف اقوام کے درمیان امن کو یقینی بنایا۔ اس کی شرائط کے مطابق تمام لوگوں پر ، ان کے مذہب اور ان کی قومیّت سے قطع نظر ، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا فرض تھا ۔مذہبی آزادی اور آزادیٔ ضمیر اس معاہدہ کی بنیادی اکائی تھی ۔

اتحاد اس معاہدہ کی بنیاد تھا کیونکہ اس کے مطابق مدینہ پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں اور یہودیوں کا متحد ہو کر مدینہ کا دفاع کرنا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ ہر قوم کو یہ حق بھی حاصل تھا کہ اپنے اندرونی معاملات کو اپنے اپنے عقائد اور رواج کے مطابق حل کریں ۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ نبی اکرم ﷺ اس معاہدہ کی ہر شرط پر پوری طرح کاربند رہے۔

مہاجرین کی حیثیت میں مسلمانوں نے اس نئے معاشرہ کی ترقی میں مثبت کردار ادا کیا اور مدینہ کے شہریوں کے حقوق کا خیال رکھا ۔ چنانچہ یہ معاشرہ مختلف قوموں کے اتحاد اور ثقافتوں کی ہم آہنگی کی نہایت عمدہ مثال بنا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button