حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

شیطان کے قدموں پر نہ چلو

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:

قرآن کریم میں چار پانچ مختلف جگہوں پر یہ حکم ہے کہ شیطان کے قدموں پر نہ چلو، ان پر چلنے سے بچتے رہو۔ کبھی عام لوگ مخاطب ہیں اور بعض جگہ مومنوں کو مخاطب کیا گیاہے۔ تو ایمان لانے والوں کو یہ تنبیہ کی ہے، مومنوں کو یہ تنبیہ کی ہے کہ یہ نہ سمجھوکہ ہم ایمان لے آئے اس لئے ہمیں اب کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔ فرمایا کہ نہیں۔ تمہیں فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ جہاں تم ذرا بھی لا پرواہ ہوئے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری توجہ ہٹی تو تمہارا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔ کیونکہ شیطان گھات میں بیٹھا ہے۔ اس نے تو آدم کی پیدائش کے وقت سے ہی کہہ دیاتھا کہ اب مَیں ہمیشہ اس کے راستے پر بیٹھا رہوں گااور شیطان نے اپنے پر یہ فرض کر لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ جو بھی آدم اور اس کی اولاد کے لئے نیک راستے تجویز کرے گا وہ ہر وقت ہر راستے پر بیٹھ کر ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور شیطان نے یہ کہا کہ مَیں ان کے د لوں میں طرح طرح کی خواہشات پیدا کروں گا تاکہ وہ سیدھے راستے سے بھٹکتے رہیں۔ مختلف طریقوں سے انسانوں کو ورغلانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ اگر ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل بھی جائیں تو مَیں لگاتار حملے کرتارہوں گا کیونکہ مَیں تھک کر بیٹھنے والا نہیں ہوں۔ مَیں دائیں سے بھی حملہ کروں گا، مَیں بائیں سے بھی حملہ کروں گا، پیچھے سے بھی حملہ کروں گا، سامنے سے بھی حملہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کو اس نے ایک طرح کا چیلنج دیاتھاکہ ایسے ایسے طریقوں سے حملہ کروں گا کہ ان میں سے بہتوں کو تُوشکرگزار نہیں پائے گا۔ تو خیر وہ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جواب دیا لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ناشکرگزارلوگ ہوتے ہیں تو واضح ہوگیا کہ وہ شیطان کے قدموں پر چلنے والے ہیں۔ اور شیطان کے قدموں پر حکم بھی ہے کہ نہ چلو تو اس کا حکم کیاہے۔ جیساکہ واضح ہے کہ شیطان کا راستہ اختیار نہ کرو۔ ان باتوں پر عمل نہ کرو جو شیطان کے رستے کی طرف لے جانے والی ہیں۔ جب انسان مومن بھی ہو، پتہ بھی ہو کہ شیطان کا راستہ کون سا ہے اور پھر یہ بھی پتہ ہو کہ شیطان کا راستہ انتہائی بھیانک راستہ ہے۔ یہ مجھے تباہی کے گڑھے کی طرف لے جائے گا توپھر کیوں ایسا شخص جو ایک دفعہ ایمان لے آیاہو شیطان کے راستے کو اختیار کر ے گا اور اپنی تباہی کے سامان پیدا کرے گا۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍دسمبر۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴؍فروری۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button