حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

انفاق فی سبیل اللہ کے فضائل اور برکات

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کو مختلف طریقوں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلاتاہے اور اس کے طریقے بھی بتاتا ہے۔ کہیں فرماتاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہترہے۔ کہیں فرمارہاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ روک کر کہیں اپنے اوپر ہلاکت وارد نہ کرلینا۔ کبھی فرماتاہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تم ذاتی طورپر بھی تباہی سے محفوظ رہوگے اور اگر قوم میں قربانی کا جذبہ ہے اور قوم قربانی کر رہی ہے توقوم بحیثیت مجموعی بھی مجھ سے تباہی سے بچنے کی ضمانت لے۔ پھر فرمایاہے کہ اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو تاکہ اس میں اور برکت پڑے۔ چھپا کر بھی خرچ کرو اور اعلانیہ بھی خرچ کرو۔ غریبوں کا بھی خیال رکھو، ان کی ضرورتیں بھی پوری کرو اور زکوٰۃ کی طرف بھی توجہ دوتاکہ قومی ضرورتیں بھی پوری ہوں اور غریبوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوں۔ اور جب تم خرچ کررہے ہو تو یاد رکھو کہ تم اپنے فائدے کا سوداکر رہے ہو اس لئے کبھی دل میں احسان جتانے کا خیال بھی نہ لاؤ۔ اورجب فائدے کا سودا کررہے ہو تو پھر عقل تو یہی کہتی ہے کہ بہتر ین حصہ جو ہے وہ سودے میں استعمال کیا جاتاہے تاکہ فائدہ بھی بہترین شکل میں ہو۔ تو اس سے مال میں جواضافہ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے تمہیں اس نیکی کا ثواب بھی ملناہے۔ اوراس لئے محبوب چیزوں میں سے خرچ کرو، جو تمہاری پسندیدہ چیزیں ہیں ان میں سے خرچ کرو، جو بہترین مال ہے اس میں سے خرچ کرو۔ اور جتنی کمزوری کی حالت میں یعنی وسعت کی کمی کی حالت میں خرچ کروگے اتناہی ثواب بھی زیادہ ہوگا۔ توفرمایا کہ بہرحال اللہ تعالیٰ تو ہراس شخص کو اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نوازتاہے اور نوازتا رہے گا جو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی راہ میں قربانی دیتے ہیں۔ اور ہر شخص اپنی ایمانی حالت کے مطابق خرچ کرتاہے۔ ہرکوئی اپنے مرتبے اور توکل کے مطابق خرچ کرتاہے اور اس لحاظ سے انبیاء کا ہاتھ سب سے کھلا ہوتاہے اور انبیاء میں بھی سب سے زیادہ ہمارے نبی اکرمﷺ کا ہاتھ سب سے زیاہ کھلا تھا۔ تبھی تو آپؐ نے ایک موقع پر فرمایاکہ میرا دل چاہتاہے کہ احد پہاڑ جتنا سونا میرے پاس ہو تو وہ بھی مَیں تقسیم کردوں۔ انبیاء کے بعد درجہ بدرجہ ہر کوئی اس نیک کام میں حصہ لیتاہے، اس کا اس کو ثواب بھی ملتاہے اور اس کے مطابق وہ خرچ بھی کرتاہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍نومبر ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲؍جنوری ۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button