متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ نہم)

ایک روحانی تبدیلی

میری ملاقات ناروے کی رہائشی نومبائعہ مکرمہ Saleha Solveig Khan سے ہوئی وجبکہ ان کی چند منٹ قبل حضور انور سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان سے ملاقات کے دوران خاص طور پر ان کی ملاقات اور احمدیت کی طرف سفر کا احوال سننا نہایت دلچسپ تھا۔ چند لمحات قبل حضور انور سے ملاقات کے بارے میں مکرمہ صالحہ صاحبہ نے بتایا کہ ۲۰۰۸ء میں ا حمدیت قبول کرنے کے بعد سے میں خلافت کی عظیم برکات سے مستفیض ہورہی ہوں۔ حضور انور ہی وہ وجود ہیں جن پر ہم پوری طرح اعتماد کر سکتے ہیں اور جن کو ہم اپنی پریشانیاں بتا سکتے ہیں۔ آج حضور سے ملنے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے اور مجھے فکر نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ جیسے حضور انور کے دفتر کے باہر مَیں کوئی اَور وجود تھی اور پھر ملاقات کے بعد میں یکسر ایک نیا اور بہتر وجود بن چکی ہوں۔

اس بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہ اسلام نے ان کو کیا دیا ہے مکرمہ صالحہ صاحبہ نے بتایا کہ مجھے یقین ہے کہ احمدیت قبول کرنے کا میرا فیصلہ بالکل درست ہے کیونکہ اسلام نے مجھے یکسرتبدیل کر دیا ہے۔اس نے مجھے بچا لیا ہے۔ ایک احمدی بننے سے قبل میں روحانی اور جسمانی طور پر بیمار تھی لیکن اسلام نے مجھے پاک کر کے شفا عطا کی ہے۔

صالحہ صاحبہ نے مزید بتایا کہ اسلام نے مجھے حیا کا سبق دیا ہے اور یوں ایک مسلمان بننے کے بعد میں نے پہلی مرتبہ اپنے جسم کو ڈھانپنا شروع کیا ہے اور تب سے ہی مجھے عزت اور وقار کا احساس ہوا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ حجاب میرے لیے امن کا ایک ذریعہ ہے اور ایک برکت ہے۔ دراصل ہر اسلامی تعلیم نے مجھے کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچایا ہے جس کو بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں۔

پھر موصوفہ نے مجھے احمدیت قبول کرنے سے پہلے کی زندگی کے بارے میں بتایا کہ اسلام قبول کرنے سے قبل میری طبیعت ایسی تھی کہ میں کوئی نہ کوئی ایڈونچر کرنا چاہتی تھی اور جب بھی کوئی ایک ایڈونچر کر چکتی تو اس سے بڑے کی طرف متوجہ ہو جاتی۔مثال کے طور پر میں پیراشوٹ سے چھلانگ لگانا چاہتی تھی محض اس لیے کہ میرے لیے اس میں ایک سنسنی پائی جاتی تھی۔

محض اسی سنسنی خیز تفریح کی خاطر میں نے بہت زیادہ مقدار میں شراب پینی شروع کر دی اور نشہ شروع کر دیا۔ میں اس حالت تک پہنچ چکی تھی کہ سارا جسم اور روح سیاہ اور بودہ محسوس ہوتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ جب میں نہایت نچلے درجہ پر تھی تو اللہ نے مجھے بچایا اور مجھے احمدیت مل گئی،مجھے امن حاصل ہوا، مجھے محبت کا ادراک ملا اور مجھے اطمینان حاصل ہوا۔ آج مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ سیاہ روح پھر سے سفید ہو گئی ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ بیمار وجود اب شفا پا چکا ہے۔

صالحہ صاحبہ کی پہلی زندگی کے بارے میں سن کر میں حیران رہ گیا کیونکہ جس وجود کو میں مل رہا تھا وہ نہایت صلح جُو اور اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم وجود تھا۔ یہ ایک اعلیٰ مثال تھی کہ کس طرح اسلام اور قرآن کریم کی تعلیمات کسی وجود کی زندگی کو بدل سکتے ہیں۔

فیملی کے ساتھ وقت گزارنا

۱۵؍اگست بروز سوموار، نماز مغرب وعشاء کے بعد میں اپنے سسرالی رشتہ داروں کو لے کرTooting میں ایک ریستوران پر گیا۔ میرے سسرالی رشتہ دار ایک ہفتے سے لندن میں تھے اور بدھ کو واپس اپنے گھر امریکہ لوٹ رہے تھے اور جلسہ کی مصروفیت کے باعث مَیں شاذو نادر ہی ان کے ساتھ کچھ وقت گزار سکا۔ اس لیے مجھے خیال آیا کہ وہ شام ایک اچھا داماد بن کر دکھانے کا بہترین موقع ہے۔ جب ہم ٹوٹنگ پہنچے تو میں نے معمول سے کچھ زیادہ کھانا آرڈر کیاجوبہت لذیذ تھا ۔شکر ہے کہ میرے سسرالی رشتہ داروں کو بھی بہت پسند آیا تھا۔

گھر واپسی پر میری اہلیہ مالا نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے اس قدر کھانا کیوں آرڈر کیا تھا؟ اس پر میں نے جواب دیا کہ ایک روز قبل حضور انور نے ایک نہایت دلکش انداز میں اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ ہمیں اپنے والدین کا خیال رکھنا چاہیے اور یہ بات چونکہ میرے ذہن میں تازہ تھی اس لیے مجھے خیال آیا کہ میں کم ازکم آج تو آپ کے والدین کو عمدہ کھانا کھلاؤں۔

احمدیوں کے جذبات

وفود کے ساتھ ساتھ حضور انور کی احمدیوں کے ساتھ ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ہر ملاقات کے بعد باہر نکلنے والا جذبات سے مغلوب ہوتا اوراس کے چہرے پر خوشی خوب عیاں ہوتی۔ میری ملاقات ایک افریقی امریکی احمدی دوست مکرم جنید لطیف صاحب( عمر۴۱؍سال)سے ہوئی جنہوں نے کہا کہ حضور انور سے اس شام ملاقات ایک زبردست ہفتے کا عمدہ اختتام تھا۔

مکرم جنید صاحب نے بتایا کہ جلسہ میں بے انتہا مصروفیت کے باوجود آج جب میں حضور انور سے ملا تو حضورانور تازہ دم تھے اور آپ کو میرا اور میری فیملی کا کس قدر خیال تھا۔ صرف ایک مرد خدا ہی، ہر کسی سے اس قدر محبت سے مل سکتا ہے۔ حضور انور سے ذاتی ملاقات ہی سب سے بڑا تحفہ ہے اور میں صرف الحمدللہ ہی کہہ سکتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں کمزور ہوں لیکن میرا پختہ ایمان ہے کہ حضور انور کی دعاؤں سے اب مجھے اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہو گی۔

میری ملاقات مکرم اسراء صدیق صاحب (عمر ۳۷؍ سال )سے ہوئی جن کا تعلق کیلیفورنیا سے تھا۔ان کی پیدائش اور پرورش امریکہ میں ہوئی مکرم اسراء صاحب نے ۲۰۰۲ء میں احمدیت قبول کی۔

حضور انور سے ملاقات کے بارے میں مکرم اسراء صاحب نے بتایا کہ حضور انور سے ملاقات نہایت خوش کن ہوتی ہے کیونکہ آپ امام مہدی کی سچائی کا ایک نشان ہیں جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کی تھی۔ آپ کی خلافت کا ہر دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت ہے۔

مکرم اسراء صاحب نے مزید بتایا کہ اگر کوئی شخص جھوٹ بولے یا بہتان باندھے تو اللہ تعالیٰ جلد اس کی حقیقت کو ظاہر فرما دیتا ہے تاہم حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت اور (حضرت) خلیفۃ المسیح روز افزو ں ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہیں۔

اگر خلافت احمدیہ نعوذ باللہ سچی نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ خود اس کی حقیقت ظاہر فرما کر اس کو ختم کر دیتا۔قبول اسلام سے قبل میں نے دوسرے لوگوں کے متعلق پڑھ رکھا تھا جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور ان سب کی حقیقت کھل گئی اور الگ الگ طریق سے انہیں ذلّت نصیب ہوئی جبکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا بابرکت درخت روز افزوں ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہے۔

مکرم اسراء صاحب نے مزید بتایا کہ ہم کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ہم اس دَور میں زندگی بسر کر رہے ہیں، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دَور کی برکات دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دَور کے بعد سے کبھی نہیں دیکھیں۔ مجھے ذاتی طور پر خیال آتا ہے کہ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ میں اور لاکھوں دیگر احباب اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچ چکا ہے۔

ایک نوجوان خادم کے جذبات

اس دن میں نے کچھ وقت مکرم مرزا نور الدین ( عمر بیس سال )کے ساتھ بھی گزارا جو صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید کے بیٹے ہیں جن کو ۱۹۹۹ءمیں پاکستان میں شہید کر دیا گیا تھا جب حضور انور ربوہ میں ناظر اعلیٰ تھے۔

عزیز م نورالدین جلسہ میں شمولیت کی غرض سے ایک ماہ کے لیے لندن تشریف لائے تھے اپنے قیام کے دوران انہیں متعدد مواقع پر حضور انور سے ملاقات کا شرف میسر آیا تھا۔ اکثر ملاقاتیں شام کے وقت حضور انور کے گھر میں ہوئی تھیں جب حضور انور اپنے فیملی ممبران اور عزیزرشتہ داروں سے ملاقات فرماتے ہیں۔ ان کی ایک ملاقات حضور انور کے ساتھ دفتر میں بھی ہوئی تھی اور انہوں نے مجھے ان تجربات کے بارے میں بتایا۔

عزیز م نورالدین نے بتایا کہ جب آپ حضور انور کی قربت میں ہوتے ہیں تو محض حضور انور کو دیکھنا ہی آپ کے جملہ مصائب اور پریشانیوں کو بھلا دیتا ہے جن کا آپ کو سامنا ہوتا ہےاور امن اور سکون کی کیفیت آپ کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔حضور انورذاتی ملاقات کرنے کے بعد حقیقتاًخلافت کے بغیر زندگی کا تصور کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ حضور انور سے آپ کے دفتر میں ملاقات ایک خوابیدہ تجربہ تھا۔یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے دفتر میں اکیلے آپ سے ملاقات کی اس لیے میں بہت زیادہ گھبراہٹ کا شکار تھا۔ تاہم جب میں داخل ہوا تو حضور انور کو دیکھتے ہی ایک اطمینان کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ آپ اس قدر وجیہ لگ رہے تھے اور چہرہ پر اس قدر نور تھا کہ آپ کی طرف براہ راست دیکھنا مشکل تھا۔

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button