حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

جنگ بدر کے موقع پر آنحضرتﷺ کی متضرعانہ دعائیں

بدر کے دوران جب کہ دشمن کے مقابلے میں آپ ﷺ اپنے جاں نثار بہادروں کو لے کر کھڑے ہوئے تھے۔ تائید الٰہی کے آثار ظاہر تھے۔ کفار نے اپنا قدم جمانے کے لئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑ دی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کردیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہوگئی۔ اسی طرح اَور بھی تائیدات سماویہ ظاہر ہو رہی تھیں ۔ لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا آنحضرت ﷺ پر غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بے تاب ہوکر اس کے حضور میں دعا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح ہو۔ آپؐ یہ دعا کر رہے تھے اور اس الحاح کی کیفیت میں آپؐ کی چادر بار بار کندھوں سے گرجاتی تھی کہ اے میرے خدا! اپنے وعدے کو، اپنی مدد کو پورا فرما۔ اے میرے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔

اس وقت آپؐ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپؐ سجدے میں گر جاتے اور کبھی کھڑے ہوکر خدا کو پکارتے تھے اور آپؐ کی چادر آپؐ کے کندھوں سے گرپڑتی تھی۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے لڑتے آنحضرت ﷺ کا خیال آتا اور مَیں دوڑ کے آپؐ کے پاس پہنچ جاتا تو دیکھتا کہ آپؐ سجدے میں ہیں اور آپؐ کی زبان پر یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ کے الفاظ جاری ہیں ۔ حضرت ابوبکرؓ جوش فدائیت میں آپؐ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہوجاتے اور عرض کرتے:’’یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ گھبرائیں نہیں ۔ اللہ ضرور اپنے وعدے پورے کرے گا۔‘‘مگر اس مقولے کے مطابق کہ ’’ہرکہ عارف تراست ترساں تر‘‘، برابر دعا و گریہ و زاری میں مصروف رہے۔ آپؐ کے دل میں خشیّت الٰہی کا یہ گہرا احساس مضمر تھا کہ کہیں خدا کے وعدوں میں کوئی ایسا پہلو مخفی نہ ہو جس کے عدم علم سے تقدیر بدل جائے۔ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ؓ صفحہ ۳۶۱ طبع جدید)

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍جون ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۸؍اگست ۲۰۰۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button