حضرت مصلح موعود ؓ

تحریک جدید الٰہی تصرف کے ماتحت ہوئی تھی (قسط اوّل)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۷؍نومبر ۱۹۳۶ء)

۱۹۳۶ءکےاس خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک جدید کے تیسرے سال کا اعلان کرتے ہوئے قربانی کے فلسفہ پر روشنی ڈالی اور اس بات کا ذکر فرمایا کہ یہ وقت خدا کی راہ میں قربانیاں کرنے کا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ جمعہ شائع کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

باوجود طبیعت کی ناسازی اور بخار کے میں نے آج جمعہ کا خطبہ اس لئے کہنے کا ارادہ کیا ہے کہ تا تحریک جدید کے سالِ سوم کی تحریک کا اعلان کرسکوں۔ آج سے دو سال پہلے جب میںنے تحریک جدید کی ابتدا کی تھی اُس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ تحریک آئندہ کیا رنگ اختیار کرنے والی ہے۔ شاید آج بھی لوگ اس کے نتائج سے ناواقف ہوں گے لیکن میں جانتا ہوں کہ

درحقیقت یہ تحریک الٰہی تصرف کے ماتحت ہوئی تھی۔

ہماری جماعت ان سہولتوں کی وجہ سے جو مؤلّفۃ القلوب کے حق میں خداتعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں اُس بیداری اور قربانی سے محروم ہوتی جارہی تھی جس کے بغیر کوئی روحانی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ درحقیقت ہمارے کام ایک منظم انجمن کی صورت اختیار کرتے جارہے تھے جس کا کام لوگوں سے کچھ رقوم حاصل کرنا اور انہیں بعض تمدنی یا علمی ضرورتوں پر خرچ کرنا ہوتا ہے اور وہ اصل غرض یعنی اپنے دل کو خدا کی محبت میں فنا کردینا اور دنیا میں ہوتے ہوئے اُس سے جدا رہنا اور دنیا کماتے ہوئے دین میں ترقی کرنا اور بنی نوع انسان میں رہتے ہوئے خد اکے قریب رہنا اور جسمانی سانس لیتے ہوئے اپنے اوپر ایک موت وارد کرلینا اور اپنے قدم ہمیشہ اطاعت کے لئے بڑھاتے چلے جانا اِس کی طرف سے غفلت پید اہورہی تھی تب خدانے چاہا کہ اُس کی رحمت اور اُس کا فضل زمین پر نازل ہو اور اِس کام میں زندگی پیدا کرے جسے خداتعالیٰ دنیا میں جاری کرنا چاہتاہے۔ جس طرح بچوں کے لباس سے بڑوں کے لباس کا فرق ہوتا ہے اسی طرح مؤلّفۃ القلوب والی حالت اور کامل حالت میں فرق ہوتا ہے۔ بچے کبھی ننگے بھی پھر لیتے ہیں اور کبھی کپڑے بھی پہن لیتے ہیں نہ ان کی ایک حالت کو لوگ سراہتے ہیں نہ ان کی دوسری حالت کو قابلِ ملامت قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح روحانیت کی ابتدائی حالتوں میں الٰہی جماعتوں کوکچھ سہولتیں دی جاتی ہیں یہاں تک کہ وقت آجاتا ہے کہ کمزوراور طاقتور میں امتیاز کیا جائے اور منافق اورمومن میں فرق کیا جائے تب خدا کی مشیّت ان سہولتوں کو واپس لے لیتی ہے اور دین اپنی کامل شان کے ساتھ دنیا میںقائم کردیا جاتا ہے۔ قرآن کریم تمام کمالات کی جامع کتاب ہے اور اس کا نازل کرنے والا کوئی بندہ نہیں بلکہ علّام الغیوب خدا ہے جس کے علم میں ہرشَے خواہ ماضی، خواہ حال، خواہ مستقبل، غرض کسی زمانہ سے بھی تعلق رکھتی ہو محفوظ ہے اس کے لئے ابد بھی وہی حیثیت رکھتا ہے جو ازل، نہ اس کے لئے کوئی گزشتہ زمانہ ہے نہ آئندہ ہے ہر چیز اس کی نظر کے سامنے حاضر ہے خواہ وہ ہوچکی اور گزر گئی اور خواہ وہ آئندہ ہونے والی اور پوشیدہ ہے۔ اس کے لئے کیا مشکل تھا کہ سارا کاسارا قرآن کریم ایک ہی وقت میں نازل فرمادیتا۔اُسے نہ سوچنے کی ضرورت تھی نہ تدبر کی، نہ تصنیف میں اُس کا کوئی وقت صرف ہوتا تھا کہ اُس نے قرآن کریم کوآہستہ آہستہ تئیس ۲۳ سال کی مدت میں اُتارا۔ اس میں یہی حکمت تھی کہ آہستہ آہستہ تعلیم اترے اور ایمان کی پہلی حالتوں میں مومنوں پر یکدم بوجھ نہ پڑ جائے۔ دو دو چار چار آیتوں پر مومن عمل کرتے گئے جب ان کے عادی ہوگئے توپھر اَور آیتیں نازل ہوگئیں۔ حکم پر حکم، ہدایت پر ہدایت، فرمان پر فرمان نازل ہوتا گیا یہاں تک کہ وہ دن آگیا جب محمد ﷺ نے ایک وسیع مجمع میں حج کے ایام میں ایک اونٹنی پر سوار ہوکر دنیا کو یہ خوشخبری سنائی کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(المائدۃ: ۴)۔میں نے آج تمہارے لئے دین مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے۔ گویا یہ اس امر کا اعلان تھا کہ مومنوں کے ایمان پختہ ہوگئے، ان کے روحانی جسم کی ہڈیاں مضبوط ہوگئیں اور کمر قوی ہوگئی تب خداتعالیٰ نے اپنی امانت کا سارا بار انسان کی پیٹھ پر لاددیا کیونکہ ایک لمبے امتحان کی زندگی میں سے گزر کر انسان نے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ بوجھ جس کو اُٹھانے سے پہاڑ بھی لرزتے تھے وہ ظلوم وجہول بن کر اور عاشقانہ جوش کے ساتھ اس بوجھ کواپنی پیٹھ پر اُٹھالینے کے لئے تیار ہوگیا تھا۔

شاید بعض لوگ خیال کریں کہ اس لمبے عرصہ میں قرآن کریم کے اترنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ کئی صحابہؓ جو اخلاص میں زندہ رہنے والوں سے کم نہ تھے خدا کی راہ میں شہید ہوگئے اور کامل کتاب کے دیکھنے کا ان کو موقع نہ ملا اور شاید اس طرح ان کا ایمان نامکمل رہا۔ یہ اعتراض قرآن کریم میں بھی مذکور ہے شاید آج بھی بعض لوگوں کے دلوں میں یہی خیال پیدا ہو سو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایمانی تکمیل دو راہوں سے ہوتی ہے۔ ایک عمل کے کمال کے ساتھ اور ایک ایمان کے کمال کے ساتھ۔ جن لوگوں کو ایمانی کمال حاصل ہوجاتا ہے ان کے لئے عملی کمال ایک طبعی عمل ہوجاتا ہے اور وہ اس ایمانی کمال کے ماتحت اپنے اعمال کو بغیرخارجی تحریک کے آپ ہی آپ ایسے سانچے میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں جو خداتعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی قبولیت کو حاصل کرتا ہے۔ عملی تفصیلات درحقیقت کمزور انسانوں کی تقویت کے لئے ہوتی ہیں اور کامل انسان شکرگزاری کے لئے ان پر عمل کرتا ہے اور خدائی حکم کامل انسانوں سے اس لئے ان احکام پر عمل کرواتا ہے تا کمزور انسان ان کی نقل کرکے عمل نہ چھوڑیں۔ پس گو عملی تفصیلات جاری ہوتی ہیں کامل اور کمزور دونوں پر مگر ان کی اِجراء کی حکمتیں دونوں صورتوں میں مختلف ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ کو ایک موقع پر اِس طرف توجہ دلائی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گزشتہ و آئندہ ذنوب کو معاف فرمادیا ہے آپ عبادت پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایاکہ اے عائشہؓ! اَفَلا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًاکیا میں شکرگزار بندہ نہ بنوں (بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الفتح باب قولہ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا) یعنی لوگ تو عمل اِس لئے کرتے ہیں تا ان کی امداد سے کامل ہوجائیں اور میں عمل اس لئے کرتا ہوں کہ خدا نے جو مجھے کامل بنایا ہے تو اُس کا شکر ادا کروں۔ پس اس حدیث نے اعمال کی حقیقت کو واضح کردیا ہے خودقرآن کریم کی یہ آیت جسے حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا اور جو روحانی اندھوں کے نزدیک ہمیشہ قابلِ اعتراض رہی ہے اس کا یہی مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی حصولِ کمال کے لئے عمل نہیں کرتا کیونکہ عملوں نے جو کچھ پید اکرنا تھا وہ تو خدا نے خود ہی اُس کے لئے پیدا کردیا اب وہ جو کچھ کرتا ہے اظہارِ شکر کے طور پر کرتا ہے۔

اِس مسئلہ کی وضاحت اس امر سے بھی ہوجاتی ہے کہ نبی، نبی پہلے بنتا اور شریعت پر بعد میں عمل کرتا ہے او رعام مومن عمل پہلے کرتا ہے اور روحانی درجے اسے بعد میں حاصل ہوتے ہیں پس یہ اعتراض کہ وہ صحابہؓ جو اس عرصہ میں فوت ہوگئے کیا ان کے درجے کی تکمیل نہ ہوئی کیونکہ کامل شریعت ان کے زمانہ میں نہیں اُتری تھی اِس حقیقت سے جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں دُور ہوجاتاہے۔

یہ امر واضح ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی راہ میں مارے گئے وہ کمال کو کمالِ ایمان سے حاصل کرچکے تھے اور ان کا دل شدتِ ایمان سے وہ سب کچھ حاصل کرچکا تھا جو تفصیلی احکام سے دوسروں نے حاصل کرنا تھا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو مُردہ کہنے سے روکا ہے اور انہیں دائمی زندہ قرار دیا ہے یعنی ان کی حالت وفات کے ساتھ ایک جگہ پر قائم نہیں ہوجاتی بلکہ ان کی تکمیل اسی طرح ہوتی چلی جاتی ہے جس طرح دنیا میں رہ کر عمل صالح کرنے والوں کی۔

غرض انسانی ترقی کے لئے خاص قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن انسانی کمزوری ابتداء میں بعض سہولتوں کی بھی طالب ہوتی ہے اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ تکمیلِ شریعت ایک دن میں ہی نہیں کرتا بلکہ ایک لمبے عرصہ میں احکام کے سلسلہ کوختم کرتاہے۔ یہ تو ان لوگوں کی حالت ہے جو اُن انبیاء کے زمانہ میں ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ شریعت نازل کرتا ہے۔ جو انبیاء بغیر شریعت کے آتے ہیں اور جو پہلی کتابوں کی تکمیل کرتے ہیں یعنی ان کے مضامین کو دنیا میں قائم کرتے ہیں ان کی جماعتوں کی کمزوری کا اللہ تعالیٰ ایک اور طرح لحاظ کرلیتا ہے چونکہ شریعت تو پہلے سے مکمل ہوتی ہے احکام کے متعلق تو ان سے کوئی سہولت نہیں کی جاسکتی۔ پس مجاہدات اور قربانیوں میں ان سے سہولت کا معاملہ کیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان پر بوجھ لادا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ دن آجاتا ہے کہ خداتعالیٰ ان کے سامنے یہ شرط پیش کردیتا ہے کہ یا کُلّی طور پر اپنے آپ کو میرے سپرد کردو یا مجھ سے بالکل جُدا ہوجائو جس قدر مہلت تمہارے لئے ضروری تھی وہ میں دے چکا اب میری رحمت اپنے فضلوں کی تکمیل کے لئے بے تاب ہورہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں چُن لوں اور اسی طرح چُن لوں جس طرح کہ تم سے ماسبق جماعت کوچنا جاتا تھا اور تمہارے دلوں کو اپنے غیر کی محبت سے صاف کردوں خواہ وہ وطن کی محبت ہو، خواہ وہ اولاد کی محبت ہو، خواہ وہ بیویوں کی محبت ہو، خواہ وہ آسائش کی محبت ہو، خواہ وہ کھانے پینے کی محبت ہو، خواہ وہ پہننے کی محبت ہو، خواہ ماں باپ کی محبت ہو، خواہ عزت و رتبہ کی محبت ہو، خواہ مال کی محبت ہو، جو شخص اس مطالبہ کو پورا کرتاہے وہی خداتعالیٰ کی برکتوں سے حصہ لیتاہے اور دوسرا شخص جو کمزوری دکھاتا ہے اور شرطیں لگاتا ہے اسے خدا کی درگاہ سے باہر نکال دیا جاتاہے کیونکہ اس کی پہلی روحانی حالت محض ایک نمونہ کے طور پر تھی۔ جس طرح ایک مٹھائی والا گاہک پیداکرنے کے لئے تھوڑی تھوڑی مٹھائی لوگوں کو کھلاتا ہے اور اُس کے بعد امید کرتا ہے کہ لوگ اسے پیسے دے کر خریدیں گے اسی طرح ایسی جماعتوں کے ابتدائی فیوض اور ابتدائی مدارج بطور اس نمونہ کے ہوتے ہیں جو مٹھائی فروش گاہک کو چکھاتا ہے او رجسے پنجابی میں ’’وندگی ‘‘کہتے ہیں۔ جو شخص ساری عمر اسی طرح نمونہ کی مٹھائی لے کرکھانا چاہے دکاندار کبھی اُسے قریب بھی آنے نہیں دیں گے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اُن اشخاص کو جو نمونہ دیکھ کربھی چیز کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے دھتکار دیتا اور اپنی درگاہ سے نکال دیتا ہے۔

ہماری جماعت کے ہرفرد نے جس نے اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ احمدیت کو قبول کیاہو اپنے نفس میں تجربہ کیا ہوگا کہ احمدیت کے قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس پر خاص فضل نازل فرمایا اور روحانیت کی بعض کھڑکیاں اُس کے لئے کھول دیں۔ تمام احمدیوں کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ حالت ان کی وہ نمونہ تھی جو خداتعالیٰ نے اس لئے ان کے سامنے پیش کیا تا انہیں روحانی عالَم کی قیمت معلوم ہوجائے اور وہ اس کی لذت سے آشناہوجائیں۔ اب اگر وہ چاہتے ہیں کہ مزا قائم رہے اور لذت بڑھے اور جس چیز کی لذت سے ان کی زبان آشنا ہوئی تھی اس سے ان کا معدہ بھی پُر ہوجائے اور وہاں سے خونِ صالح پیدا ہوکر ان کے دماغ اور ان کے دل اور ان کے تمام جوارح کو طاقت بخشے تو اِس کے لئے انہیں وہی قیمت ادا کرنی ہوگی جو ان سے پہلے لوگوںنے اداکی اس کے بغیر کوئی راہ ان کے لئے کھلی نہیں۔

قربانی ہی ایک راہ ہے جس سے لوگ اپنے یار تک پہنچتے ہیں اور موت ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اپنے محبوب تک پہنچاتا ہے پس اس موت کے لئے تیار ہوجائو اور ان کے اعمال کو اختیار کرو جو انسان کو موت کے لئے تیار کرتے ہیں ہر کام کے کمال کے لئے ابتدائی مشق کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کامل قربانی کے لئے نسبتاً چھوٹی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک جدید کے پہلے دَورنے ان چھوٹی قربانیوں کی طرف جماعت کوبلایا ہے وہ جو ان چھوٹی قربانیوں پرعمل کرنے کے لئے تیار ہوں گے خداتعالیٰ بڑی قربانیوں کے لئے توفیق عطا فرمائے گا اور وہ خدا کے بر ّے ہوجائیں گے جس طرح یسوعؑ اور موسیٰؑ اور دائودؑ اور سلیمانؑ اوراَورہزاروں کامل بندے خدا کے بر ّے قرار پائے اور انہوں نے خدا کی محبت کی چھری کو خوشی سے اپنی گردن پر پھروالیا۔دنیا کی تمام شوکتیں اُن کے پائوں پر قربان ہیں، دنیا کی تما م عزتیں اُن کی خدمت پر قربان ہیں، دنیا کی تمام بادشاہتیں اُن کی غلامی پر قربان ہیں، وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا ہے۔ آج ایک زندہ اور باجبروت اور قاہر اور خبردار اور منتظم بادشاہ کو گالی دے کر ایک انسان سزا سے بچ سکتا ہے، اُس کی گرفت سے بھاگ سکتا ہے لیکن یہ لوگ جو انسانوں جیسے انسان تھے اوّل تو فقیری میں انہوں نے عمر گزاردی اور اگر بعض بادشاہ بھی ہوئے تو ان کی بادشاہتیں اپنی دُنیوی عظمت کے لحاظ سے بہت سے دُنیوی بادشاہوں سے کم تھیں لیکن آج جبکہ وہ منوں مٹی کے نیچے دفن ہوئے ہیں اور بعض کی نسلوں کا بھی کوئی پتہ نہیں ہے اور بعض کی اُمتیں بھی مٹ چکی ہیں کوئی زبردست سے زبردست بادشاہ بھی بے ادبی سے ان کا نام لے تو وہ ذلّت اور رُسوائی سے بچ نہیں سکتا کیونکہ خدا میں محو ہوجانے کی وجہ سے خدا کی بادشاہت میں ان کی بادشاہت شامل ہے اور جس طرح خدا کی بادشاہت کبھی فنانہیں ہوتی اُن کی بادشاہت بھی کبھی فنا نہیں ہوسکتی۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button