از مرکز

مشرقِ وسطیٰ میں جاری حالیہ کشیدگی کے پیش نظر دعا کی تحریک

(اسلام آباد، ٹلفورڈ، ۱۳؍اکتوبر۲۰۲۳ء)امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۳ء میں دنیا کے موجودہ حالات، حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی خطرناک صورت حال اور مظلومین کے لیے خصوصی دعاؤں کی تحریک فرمائی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ

اس وقت میں جو آجکل کے دنیا کے حالات ہیں ان کے بارے میں ایک دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ گذشتہ چند دنوں سے حماس اور اسرائیل کی جنگ چل رہی ہے جس کی وجہ سے اب دونوں طرف کے شہری عورتیں، بچے، بوڑھے بلا امتیاز مارے جا رہے ہیں یا مارے گئے ہیں۔

اسلام تو جنگی حالات میں بھی عورتوں بچوں اور کسی طرح بھی جنگ میں حصہ نہ لینے والوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا اور اس بات کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے ہدایت بھی فرمائی ہے۔

دنیا یہ کہہ رہی ہے اور حقائق بھی کچھ ہیں ایسے کہ اس جنگ میں پہل حماس نے کی اور اسرائیلی شہریوں کے بلا امتیاز قتل کے مرتکب ہوئے۔ قطع نظر اس کے کہ اسرائیلی فوج اس طرح پہلے کتنے معصوم فلسطینیوں کو قتل کرتی رہی ہے مسلمانوں کو بہرحال اسلامی تعلیم کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اسرائیل کی فوجوں نے جو کیا وہ ان کا فعل ہے اور اس کے حل کرنے کے اَور طریقے تھے۔ اگر کوئی جائز لڑائی ہے تو فوج سے تو ہو سکتی ہے، عورتوں بچوں اور بے ضرر لوگوں سے نہیں۔ بہرحال اس لحاظ سے

حماس نے جو قدم اٹھایا وہ غلط تھا۔ اس کا نقصان زیادہ ہوا فائدہ کم۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ جو بھی تھا اس کی سزا یا جنگ حماس تک ہی محدود رہنی چاہیے تھی۔ اصل جرأت اور بہادری تویہ ہے کہ یہ ردّ عمل ہوتا لیکن اب جو اسرائیل کی حکومت کر رہی ہے وہ بھی بہت خطرناک ہے اور اب لگتا ہے کہ یہ معاملہ رکے گانہیں۔ معصوم لوگوں اور عورتوں اور بچوں کی کتنی جانی بے حساب ضائع ہوں گی اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اسرائیلی حکومت کا تو یہ اعلان تھا کہ ہم غزہ کو بالکل مٹا دیں گے اور اس کے لیے انہوں نے بےشمار ،بے تحاشا بمبارمنٹ کی۔راکھ کا ڈھیر ہی کر دیا شہر کو۔ اب نئی صورت یہ پیدا ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک ملین سے زیادہ لوگ غزہ سے نکل جائیں۔کچھ اس میں سے نکلنے شروع بھی ہو گئے ہیں۔

اس پر شکر ہے کہ مری مری آواز سے ہی سہی لیکن کچھ آواز تو،یواین والوں کی طرف سے نکلی ہے کہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے اور یہ غلط ہو گا اور اس سے بہت مشکلات پیدا ہوں گی اور اسرائیل کو اپنے اس حکم پہ سوچنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ سختی سے اس کو کہیں کہ یہ غلط ہے ،ابھی بھی درخواست ہی کررہے ہیں۔

بہرحال ان معصوموں کا کوئی قصور نہیں جو جنگ نہیں کر رہے۔ اگر دنیا اسرائیلی عورتوں بچوں اور عام شہری کو معصوم سمجھتی ہے تو یہ فلسطینی بھی معصوم ہیں۔ ان اہلِ کتاب کی تو اپنی تعلیم بھی یہ کہتی ہے کہ اس طرح قتل و غارت جائز نہیں ہے۔

مسلمانوں پر اگر الزام ہے کہ انہوں نے غلط کیا تو یہ لوگ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔ بہرحال ہمیں بہت دعا کی ضرورت ہے۔

فلسطین کے سفیر نے یہاں ٹی وی میں غالباً بی بی سی کو انٹرویو دیا اور سوال کرنے والے کے جواب میں کہا کہ حماس ایک ملٹنٹ (militant)گروپ ہے،حکومت نہیں ہے اور فلسطین کی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا اور ان کی یہ بات درست ہے کہ

اگر حقیقی انصاف قائم کیا جاتا تو یہ باتیں نہ ہوتیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ

اگر بڑی طاقتیں اپنے دوہرے معیار نہ رکھتیں یا نہ رکھیں تو اس قسم کی بدامنی اور جنگیں دنیا میں ہو ہی نہیں سکتیں۔ پس ان دوہرے معیاروں کو ختم کرو تو جنگیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔

یہی باتیں مَیں اسلام کی تعلیم کی روشنی میں ایک عرصہ سے کہہ رہا ہوں لیکن سامنے تو یہ کہتے ہیں ٹھیک ہے،لیکن عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

اب تمام بڑی طاقتیں یا مغربی طاقتیں انصاف کو ایک طرف کر کے فلسطینیوں پر سختی کے لیے اکٹھی ہو رہی ہیں اور ہر طرف سے فوجوں کے بھجوانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور مظلوموں کی تصویریں دکھائی جاتی ہیں کہ اس طرح ظلم ہو رہا ہے ،اس طرح ہو رہا ہے۔ میڈیا میں غلط رپورٹیں دکھائی جاتی ہیں۔ایک دن یہ خبر آتی ہے کہ اسرائیلی عورتوں اور بچوں کا یہ حشر ہو رہاہے، ان کی یہ بری حالت ہو رہی ہے، اگلے دن پتا چلتا ہے کہ وہ اسرائیلی نہیں وہ تو فلسطینی تھے لیکن اس کی میڈیا میں کوئی معذرت نہیں ہوتی اور کوئی ہمدردی کا لفظ ان کے لیے نہیں کہا جاتا۔ یہ لوگ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل کرتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت ہے ان کے آگے ہی انہوں نے جھکنا ہے۔

اگر جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جنگ کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے اسے بھڑکانے پر تُلی ہوئی ہیں ۔ یہ لوگ جنگ ختم نہیں کرنا چاہتے۔

حضورِ انور نے لیگ آف نیشنز کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جنگوں کے خاتمے کے لیے بڑی طاقتوں نے لیگ آف نیشنز بنائی لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اپنی برتری قائم رکھنے کی وجہ سے یہ ناکام ہو گئی اور دوسری جنگ عظیم ہوئی اور سات کروڑ سے زیادہ جانیں کہتے ہیں ضائع ہوئیں۔ اب یہی حال یواین کا ہو رہا ہے، بنائی تو اس لیے گئی تھی کہ دنیا میں انصاف قائم کیا جائے گا اور مظلوم کا ساتھ دیا جائے گا، جنگوں کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی لیکن ان باتوں کا دور دور تک پتا نہیں۔اپنے مفادات کو ہی ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔ اب

جو اس بے انصافی کی وجہ سے جنگ ہو گی اس کے نقصان کا تصور ہی عام آدمی نہیں کر سکتا اور یہ سب بڑی طاقتوں کو پتا ہے کہ کتنا شدید نقصان ہو گا لیکن پھر بھی انصاف قائم کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے اور توجہ دینے پر کوئی تیار بھی نہیں ہے۔

حضورِ انور نے مسلمان ممالک کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ

ایسے حالات میں مسلمان ملکوں کو کم از کم ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔

اپنے اختلافات مٹا کر اپنی وحدت کو قائم کرنا چاہیے۔

اگر مسلمانوں کو اہل کتاب سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہے کہ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ، اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو مسلمان جن کا کلمہ مکمل طور پر ایک ہے کیوں اختلافات ختم کر کے اکٹھے نہیں ہو سکتے؟

پس سوچیں اور اپنی وحدت کو قائم کریں اور یہی دنیا سے فساد دور کرنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے اور پھر ایک ہو کرانصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے مظلوم کے حقوق ہر جگہ قائم کرنے کے لیے بھرپور آواز اٹھائیں۔

حضورِ انور نے اہلِ اسلام کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ

ایک ہوں گے،وحدت ہو گی تو آواز میں بھی طاقت ہو گی۔ورنہ معصوم مسلمانوں کی جانوں کے ضائع ہونے کے یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے ،مسلمان حکومتیں ذمہ دار ہوں گی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے ،اور یہ ان طاقتوں کا کام ہے رکھیں،کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔پس اس اہم بات کو سمجھیں۔

اللہ تعالیٰ مسلمان حکومتوں کو بھی عقل اور سمجھ دے اور ایک ہو کر انصاف قائم کرنے والے بنیں اور دنیا کی طاقتوں کو بھی عقل اور سمجھ دے کہ دنیا کو تباہی میں ڈالنے کی بجائے دنیا کو تباہی سے بچانے کی کوشش کریں اور اپنی اناؤں کی تسکین کو اپنا مقصد نہ بنائیں۔ ہمیشہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تباہی ہوگی تو یہ طاقتیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔بہرحال ہمارے پاس تو دعا ہی کا ہتھیار ہے اسے ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر استعمال کرنا چاہیے۔

غزہ میں بعض احمدی گھرانے بھی گھرے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی محفوظ رکھے اور سب معصوموں، مظلوموں کو وہ جہاں بھی ہیں محفوظ رکھے۔

اللہ تعالیٰ حماس کو بھی عقل دے اور یہ لوگ خود اپنے لوگوں پر ظلم کرنے کے ذمہ دار نہ بنیں اور نہ کسی پر ظلم کریں۔ اسلامی تعلیم کے مطابق جو ہے حکم اس کے مطابق اگر جنگیں کرنی بھی ہیں تو اس طرح کریں۔ کسی قوم کی دشمنی بھی ہمیں انصاف سے دور کرنے والی نہ ہو،یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ دونوں طرف انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے امن قائم کرنے والی بنیں۔یہ نہیں کہ ایک طرف جھکاؤ ہو جائے اور دوسری طرف کا حق مارا جائے۔ ظلم و زیادتی میں بڑھنے والی نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دنیا میں امن و سلامتی دیکھنے والے ہوں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button