متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ ہشتم)

ریویو آف ریلیجنز کی نمائش میں حضور انور کی تشریف آوری

حضور انور کا قافلہ جلسہ گاہ کی جانب بڑھا جہاں اس وقت ہزاروں احمدی کھانا کھا رہے تھے یا مختلف نمائشوں اور سٹالز کا دورہ کر رہے تھے۔ حضور انور کی گاڑی جلسہ گاہ سے آگے بڑھی اور جونہی میں نے یہ دیکھا تو میں نے مکرم مبارک احمد ظفر صاحب کو مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ حضور انور ریویو آف ریلیجنز کی نمائش ملاحظہ فرمانے جا رہے ہیں۔ میرا خیال اس وقت درست ثابت ہوا جب گاڑیاں ریویو کی مارکی کے باہر رک گئیں۔

ادارہ ریویو آف ریلیجنز نے نہایت دلچسپ نمائش کا انعقاد کیا ہوا تھا جس میں Shroud of Turin (کفنِ مسیح ؑ)کے چربہ کے علاوہ القلم پراجیکٹ اور مکرم رضوان بیگ صاحب کی ذاتی کولیکشن پر مشتمل اسلامی تبرکات شامل تھے۔ جب حضور انور، ریویو آف ریلیجنز کی نمائش ملاحظہ فرمانے کے لیے تشریف لائے تو یہ مارکی لجنہ اماء اللہ کی ممبرات سے بھری ہوئی تھی۔ چند خواتین القلم پراجیکٹ میں حصہ لے رہی تھیں جبکہ بعض دیگر لجنات نمائش کے دوسرے حصوں کو دیکھ رہی تھیں۔

ممبرات لجنہ اماء اللہ کے جذبات

حضور انور کے نمائش میں تشریف لانے کے متعلق ریویو آف ریلیجنز کے چیف ایڈیٹر مکرم عامر سفیر صاحب کو بھی علم نہ تھا۔ یوں حضور انور کی نمائش کی مارکی میں آمد کے ساتھ ہی لجنہ کی ممبرات جذبات سے مغلوب ہو گئیں۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ ایک ناقابل فراموش منظر تھا اور اس نے مجھے حضور انور کے ۲۰۰۸ء کے دورۂ گھانا کی یاد تازہ کروا دی۔ جلسہ گھانا کے موقع پر اسی طرح ایک دن فجر کے بعد حضور انور نے جلسہ سالانہ کے انتظامات کا معائنہ فرمایا اور جب اس حصہ میں داخل ہوئے جہاں خواتین کھانا پکا رہی تھیں تو وہ آپ کو دیکھ کر خوشی اور مسرت کے جذبات سے مغلوب ہو گئیں۔

بعد ازاں چند احمدی خواتین نے مجھے بتایا جو اس نمائش کے موقع پر موجود تھیںکہ انہیں اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ حضور انور کو یوں دیکھ سکیں گی۔ عام طور پر وہ حضور انور کو جلسہ سالانہ یا اجتماعات کے سیشنز میں دیکھتی ہیں۔ مگر یہاں آپ ان کی موجودگی میں نمائش کا معائنہ فرما رہےتھے اور احباب سے گفتگو بھی فرما رہے تھے۔ یہ چند لمحات نہایت جذباتی اور خوشکن تھے۔

احمدیوں کا جمِ غفیر

ریویو آف ریلیجنز کی نمائش کے معائنہ کے اختتام پر حضور انور مخزن تصاویر کی نمائش کی طرف روانہ ہوئے ۔ اس دوران ہزاروں احمدی دونوں اطراف سے قریب آگئے جو حضور انور کی موجودگی سے بے حد خوش تھےاورحضور انور کی تشریف آوری پر پُر جوش بلند نعرے بلند کر رہے تھے۔

مخزنِ تصاویر کی نمائش ملاحظہ فرمانے کے بعد حضور انور اپنی گاڑی میں تشریف فرما ہوئے اور قافلہ چند میٹر آگے بڑھا۔ اگرچہ یہ فاصلہ کم تھا تاہم گاڑیوں کو آگے بڑھنے میں چند منٹ لگے کیونکہ احمدی احباب گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بلکہ ان کے درمیان بھی بھاگ رہے تھے۔

مکرم مبارک احمد ظفر صاحب اور خاکسار کی گاڑی اس جمِ غفیر میں کہیں گم ہو گئی تھی اس لیے ہم ایک جیپ میں جا بیٹھے جس کو ڈیوٹی پر مامور ایک خادم چلا رہا تھا۔ وہاں سے ہمیں گاڑیوں کے دونوں اطراف لوگوں کا ایک سمندر دکھائی دیا جنہوں نے اپنے موبائل فون نکالے ہوئے تھے تاکہ اس قیمتی لمحہ کی تصویر اور ویڈیو بنائیں۔ اس وقت کے روحانی ماحول کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

جلسہ کے اختتام کے معاً بعد کے لمحات

حضور انور نے دعا کے ساتھ شام چھ بج کر پچپن منٹ پر جلسے کا اختتام فرمایا۔ بعد ازاں حضور انور نے اعلان فرمایا کہ امسال ۳۸؍ ہزار سے زائد لوگوں نے جلسہ میں شمولیت اختیار کی ہے جو ۲۰۱۵ء کی نسبت تین ہزار زائد ہے۔

حضور انور جلسہ کے اختتام کے بعد مزید پندرہ منٹ تک جلسہ گاہ میں رونق افروز رہے جس دوران حضور انور نعرے اور مختلف گروپس کی طرف سے پیش کیے جانے والے ترانے سماعت فرماتے رہے۔اس دوران آپ ہر جلسہ میں شامل ہونے والے کے چہرے پر جذبات کی عکاسی خوب اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔

خاکسار نے کئی ممالک کے دورہ جات پر حضور انور کی معیت کی سعادت پائی ہے تاہم پھر بھی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جلسہ سالانہ برطانیہ کے اختتامی لمحات جیسی روحانیت اور جوش کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔

ابھی ترانے جاری تھےکہ مجھے خیال آیا کہ انتظامیہ نے جامعہ احمدیہ کے طلبہ کے ترانےکو پروگرام میں شامل نہیں کیا۔ حضور انور جامعہ سے خاص محبت اور شفقت کا سلوک فرماتے ہیں اس لیے آپ نے اس تبدیلی کو فورا ًمحسوس کر لیا۔ یوں سٹیج پرسے ہی نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ حضور انور نے فرمایا کہ انہوں نے جامعہ کی پہچان ختم کرنے کی کوشش کی ہے،لیکن ختم نہیں ہو سکتی ۔

چند لمحات کے بعد حضور انور سٹیج سے تشریف لے گئے اور ایم ٹی اے کی ترجمانی کی مارکی کی جانب روانہ ہوئےجہاں جملہ رضاکاران کو شرف ملاقات بخشاجنہوں نے جلسہ کی کارروائی کا چودہ مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا تھا۔جب حضور انور ما رکی سے تشریف لے جانے لگے تو ایک چھوٹا بچہ جس کی عمر تین سال سے زیادہ نہ ہوگی اونچی آواز سے پکارا حضور!حضور! حضورانور اس بچے کی طرف متوجہ ہوکر مسکرائے اور ہاتھ ہلاکر اس کو جواب دیا۔ یہ چھوٹا بچہ بہت خوش تھا۔ وہ اپنے ایک ساتھی کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ حضور نے میری طرف ہاتھ ہلایا ہے اور مجھے دیکھا!

اس کے ساتھ ہی حضور انور اپنی گاڑی میں تشریف فرما ہوئے اور حدیقۃ المہدی میں اپنی رہائش گاہ تشریف لے آئے۔ آپ کے تشریف لے جانے سے قبل محترم امیر صاحب یوکےاور افسرجلسہ سالانہ دونوں احباب حضور انور سے ملے اور کامیاب جلسہ کی مبارکباد پیش کی۔

حضور انور کی مصروفیات کا جاری رہنا

کئی لحاظ سے یہ جلسہ بہت بابرکت ثابت ہوا۔ ذاتی طور پر میں مطمئن تھا کہ میڈیا کوریج بہت اچھی رہی اور گذشتہ سالوں کی نسبت امسال کافی بہتری تھی۔ تقریباً فوراً ہی جلسے کا wind up شروع ہو گیا۔ مارکیاں اور خیمے اترنے لگے جبکہ ہزاروں لوگوں نے اپنے گھروں کو واپسی کا سفر شروع کر دیا۔

لوگ واپس جا رہے تھے تاہم حضور انور کی مصروفیات جاری تھیں اور واپس تشریف لانے کے بعد صرف چند منٹ اپنی رہائش گاہ پر گزار کر ہی حضور انور اپنے دفتر میں تشریف لائے تاکہ مختلف ممالک سے آئے ہوئے وفود کو شرف ملاقات بخشیں۔

Cayman Islands کے ابتدائی احمدی

حضور انور نے Cayman Islands کے ابتدائی احمدیوں کو ملاقات کا شرف بخشا۔ ایک نو مبائع کو مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور نے نہایت شفقت سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ ابتدائی احمدی ہیں اور آپ کا نام احمدیت کی تاریخ میں لکھا جائے گا اور اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے لوگوں میں اسلام کے پیغام کی تبلیغ کریں۔

ایک خوش کن تبصرہ

ایک میٹنگ کے اختتام پر جب مہمانان حضور انورکے دفتر سے باہر جا رہے تھے تو حضور انور نے خاکسار کی طرف دیکھا اور تبسم فرماتے ہوئے کہا کہ عابد، تم نے آج اس قدر تبلیغ سن اور دیکھ لی ہے کہ تم تو نئے سرے سے احمدی ہو گئے ہوگے۔

خاکسار حضورِ انور کے الفاظ سن کر بہت محظوظ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور انور کے الفاظ میں اس قدر سچائی تھی کہ حضور انور کو اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش کرتے سننا اور اس کے مہمانان پر اثرات دیکھنا یقیناً ایمان افروز تھا۔

جماعت کے لیے حضور انور کی محبت

ایک جرنلسٹ نے جو یونان سے تشریف لائے ہوئے تھے،تبصرہ کیا کہ حضور انور پر جلسہ کے دوران تھکن کے آثار معلوم ہو رہے تھے لیکن اب خوب تازہ دم لگ رہے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے یہ بات اچھی نہ لگی کہ انہوں نے کہا کہ حضورانور تھکے ہوئے لگ رہے تھے اور یہ تبصرہ بہت غیر موزوں اور سوئے ادب محسوس ہوا۔ تاہم حضور انور کے جواب سے احباب جماعت کے لیے آپ کی محبت خوب عیاں تھی۔

اس تبصرہ کے جواب میں حضور انور نے فرمایاکہ جلسہ کے ایام میں بہت مصروفیت ہوتی ہے اور عام حالات سے کافی کم سوتا ہوں کیونکہ میں ہمہ وقت یہاں پر موجود ہر احمدی کی حفاظت اور خیریت سے رہنے کے لیے فکر مند رہتا ہوں۔ دراصل جلسہ کے دوران مجھے روزانہ احمدیوں کی صحت کے متعلق رپورٹس موصول ہوتی ہیں اور یہ بھی کہ کوئی بیمار تو نہیں ہے۔حضور انور کے یہ الفاظ سن کر میں بہت جذباتی ہو گیا۔ اس جواب نے حضور انور کی ہر احمدی کی خیریت سے ہونے کی فکر کو خوب اجاگر کر دیا۔(جاری ہے)

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button