متفرق مضامین

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اسلام کے دفاع اور ناموس رسالت کے قیام کے لیے غیرت اور جماعت کو زرّیں نصائح (قسط سوم۔ آخری)

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

ناموس رسالت کے نام پر پشاور میں دلسوز واقعہ

دسمبر۲۰۱۴ء میں پشاور پاکستان کے آرمی پبلک سکول میں دہشتگردانہ کارروائی نے اسلام کے نام پر ایک دھبہ لگا دیا۔ درجنوں معصوم بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ ان کے اس عمل کو اسوہ رسولﷺ سے روگردانی قرار دیتے ہوئے حضورانور فرماتے ہیں کہ ’’ان بچوں کو اس لئے ظلم کا نشانہ بنایا گیا کہ پاکستان میں فوج سے ان نام نہاد شریعت کے نافذ کرنے والوں نے بدلہ لینا تھا۔ یہ کونسا اسلام ہے اور کونسی شریعت ہے۔ آنحضرتﷺ نے تو جنگ کی صورت میں غیرمسلموں کے بچوں اور عورتوں پر بھی تلوار اٹھانے کی سختی سے ممانعت فرمائی تھی۔ جنگ کے دوران ایک مشرک کے بچے کو قتل کرنے پر جب آپؐ نے اپنے صحابیؓ سے بازپُرس کی تو صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! یہ مشرک کا بچہ تھا۔ اگر غلطی سے قتل ہو بھی گیا تو کیا ہوا؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا وہ انسان کا معصوم بچہ نہیں تھا؟

پس یہ معیار ہیں جو ہمیں انسانیت کے تقدّس کو قائم کرنے کے لئے آنحضرتﷺ کے اُسوۂ حسنہ سے نظر آتے ہیں۔ یہ آنحضرتﷺ کا اُسوۂ حسنہ ہے اور اسلام کے نام پر ظلم کرنے والوں کے یہ عمل ہیں جو ہم عموماً دیکھتے رہتے ہیں۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اس سفّاکانہ ظلم پر ہر انسان نے دکھ کا اظہار کیا۔ چاہے وہ مسلمان تھے یا غیر مسلم تھے۔ یہاں دو دن پہلے چرچ آف انگلینڈ نے عورت کو اپنی پہلی بشپ بنایا۔ ان کی تقریب ہو رہی تھی تو انہوں نے بھی اپنی تقریب سے پہلے اس واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا۔ ایک منٹ کے لئے خاموشی اختیار کی۔ اپنے انداز میں دعائیں کیں۔ تو بہر حال کہنے کا یہ مقصد ہے کہ ہر انسان کو اس واقعہ سے تکلیف پہنچی قطع نظر اس کے کہ اس کا مذہب کیا تھا۔ لیکن ان مسلمان کہلانے والوں نے، ایک دو نہیں بلکہ تین چار تنظیموں نے اکٹھی ہو کربڑے فخر سے اس بات کا اعلان کیا کہ ہاں ہم ہیں جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے اور ہمیں اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑی سی شرافت رکھنے والے انسان نے بھی اس پر دکھ کا اظہار کیا، افسوس کیا اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ احمدیوں کے دل میں تو انسانیت کے لئے درد انتہائی زیادہ ہے۔ ہم تو انسانی ہمدردی کے لئے ہر وقت تیار رہنے والے ہیں۔ ذرا سا واقعہ ہو جائے تو ہمارے دل پسیج جاتے ہیں۔ مجھے کئی خطوط موصول ہوئے کہ اس واقعہ سے سارا دن ہم بے چینی اور تکلیف میں رہے اور یہ حقیقت ہے۔ میرا اپنا یہ حال تھا کہ سارا دن طبیعت پر بڑا اثر رہا اور جب ایسی کیفیت ہوتی ہے تو پھر ظالموں کے نیست و نابود ہونے کے لئے بددعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں اور بدبختوں سے جلد ملک کو پاک کرے بلکہ تمام اسلامی ممالک کو پاک کرے۔ یہ واقعات دیکھ کر احمدیوں پر ہوئے ظلموں کے زخم بھی تازہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان معصوموں کے لئے بھی شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی حوصلہ دے، صبر دے اور ان پر رحم فرمائے، ان کا کفیل ہو جن کے ماں باپ بھی اُن سے چھن گئے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۹؍ دسمبر۲۰۱۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍ جنوری ۲۰۱۵ء)

درود و سلام ایک حقیقی مسلمان کا کام ہے

چارلی ایبڈو (Charlie Hebdo) کی جانب سے خاکوں کی اشاعت اور اس پر مسلم امہ کے نامناسب رد عمل نے دنیا میں ہیجان پیدا کیا۔ تو حضور انور نے حقیقی رد عمل کی جانب توجہ دلائی اور رسول اللہﷺ اور اسلام کے حقیقی چہرہ سے دنیا کو روشناس کروایا۔ حضور انور نے فرمایا کہ ’’آپﷺ کے مخالفین نہ پہلے کبھی کامیاب ہو سکے، نہ اب کامیاب ہوسکتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اس لئے اس کی تو ایک حقیقی مسلمان کو فکر ہی نہیں ہونی چاہئے کہ اسلام کو یا آنحضرتﷺ کے مقام کو کوئی دنیاوی کوشش نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ہاں جو کام اللہ تعالیٰ نے حقیقی مسلمان کے ذمہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح وہ اور اس کے فرشتے اس نبی کے مقام کو اونچا کرنے کے لئے اس پر رحمت بھیج رہے ہیں تم اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے پیارے، کامل، مکمل اور آخری نبی پر بیشمار درود اور سلام بھیجو۔ پس یہ فرض ہے جو ایک حقیقی مسلمان کا ہے۔ اس نبیﷺ کے کام کو ترقی دیتے چلے جانے والوں میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی بات کے پیچھے چلتے ہوئے بیشمار درود اور سلام ہم آنحضرتﷺ پر بھیجیں۔

…. ایک حقیقی مسلمان کو اس سے بچنا چاہئے۔ معاملہ خداتعالیٰ پر چھوڑنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ جب میرے پاس لَوٹنا ہے تب ان کی حرکتوں کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہو گا۔ آخر ایک دن اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے تب اللہ تعالیٰ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔ آجکل دشمن اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے کے بجائے ایسے ہی گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کر کے اسلام کو، اسلام کی تعلیم کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر رحمت بھیجتے ہیں ایک اصولی بات بتا دی ہے کہ یہ حرکتیں نبیﷺ کے مقام کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ تمہارا کام ان لغویات میں پڑنے کے بجائے، اسی طرح جہالت سے جواب دینے کے بجائے نبیﷺ پر درود اور سلام بھیجنا ہے۔ یہ ایک حقیقی مسلمان کا کام ہے۔ اس کا حق ادا کرو تو سمجھو کہ تم نے وہ فرض ادا کر دیا۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ وہ لوگ جو اس بیہودہ رسالے کے خلاف تھے اس حملے کے بعد ان میں سے بہت سے اس کے حق میں بھی ہو گئے کہ آزادی رائے کا ہر ایک کو حق ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان لوگوں میں ایسے انصاف پسند اور عقلمند بھی ہیں جنہوں نے اس رسالے کے آنحضرتﷺ کے متعلق بیہودہ اظہار کو ناپسند کیا ہے اور ناپسند کرتے ہوئے اس کی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

…. درود شریف کو کثرت سے پڑھنا آج ہر احمدی کے لئے ضروری ہے تا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے مقصد کو بھی ہم پورا کرنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ کی آواز پر ہم لبّیک کہنے والے ہوں۔ اور آنحضرتﷺ سے عشق و محبت کے دعوے پر پورے اترنے والے ہوں۔ صرف نعروں اور جلوسوں سے یہ محبت کا حق ادا نہیں ہو گا جو غیر از جماعت مسلمان کرتے رہتے ہیں۔ اس محبّت کا حق ادا کرنے کے لئے آج ہر احمدی کروڑوں کروڑ درود اور سلام اپنے دل کے درد کے ساتھ ملا کر عرش پر پہنچائے۔ یہ درود بندوقوں کی گولیوں سے زیادہ دشمن کے خاتمے میں کام آئے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۵ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۶؍ فروری ۲۰۱۵ء)

مسلم امہ کے انتشار کا فائدہ کس کو؟

ترکی میں ہونے والی بغاوت کو اسلام کی تعلیم کے مخالف قرار دیا اور فرمایا کہ ان اختلافات کا مغرب کو فائدہ ہو رہا ہے اور دین اسلام کی بدنامی ہورہی ہے۔حضور انورایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’اب ترکی میں گزشتہ دنوں جو بغاوت ہوئی بیشک یہ بغاوت کسی طرح بھی اسلامی تعلیم کے مطابق justifiedنہیں ہے۔ لیکن اس کے نتیجہ میں حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں یا کر رہی ہے وہ بھی ظالمانہ ہیں کہ جتنے بھی حکومت کے سیاسی لحاظ سے مخالف ہیں چاہے وہ فساد میں شامل بھی نہیں ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ یہ دیکھ بھی چکے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں جلد یا کچھ عرصہ بعد ردّعمل ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال اگر ظلم جاری رہے تو ردّعمل ضرور ہوتا ہے اور پھر اس ردّعمل کو اسلام مخالف طاقتیں ہوا دیتی ہیں، اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بڑی طاقتیں اپنا اسلحہ بیچتی ہیں اور دونوں طرف کی ہمدرد بن جاتی ہیں۔ عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود مسلمان حکمرانوں کو سمجھ نہیں آتی۔ اگر قرآن کریم کی تعلیم پر ہی غور نہیں کرنا، اگر مسلمان بن کرنہیں رہنا تو عقل کا تو تقاضا یہ ہے کہ سوچ سمجھ کے اپنے قدم اٹھائیں۔ یہ دیکھیں کہ مسلمانوں کے اختلاف کا یا ان کے ملکوں میں بےچینی اور بدامنی کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے۔ لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی۔ پس ان مسلمان ممالک کے لئے ان دنوں میں بہت دعا کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔

پھر دہشت گرد تنظیموں نے ان مغربی ممالک میں معصوم جانوں کو قتل کرنے کے انتہائی بہیمانہ اور ظالمانہ عمل کر کے اسلام کو بدنام کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ یہ بھی بعیدنہیں کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اسلام مخالف طاقتیں ہی غیر مسلم ممالک میں ایسی حرکتیں ان لوگوں سے کروا رہی ہوں جس سے اسلام بھی بدنام ہو اور ان کو مدد کے نام پر، دنیا کو دہشت گردی سے بچانے کے نام پر ان ممالک میں اپنے اڈّے قائم کرنے کے لئے ایک وجہ ہاتھ آ جائے۔

اگر صحیح اسلامی تعلیم سے یہ لوگ آگاہ ہوں علم ہو تو ان کو پتا ہونا چاہئے کہ یہ کوئی اسلامی تعلیم نہیں ہے کہ معصوموں کی قتل و غارت کی جائے۔ ایئر پورٹوں پر، سٹیشنوں پر مسافروں کو اور بچوں کو، عورتوں کو، بوڑھوں کو، بیماروں کو قتل کر دیا جائے۔ چرچوں میں جا کر لوگوں اور پادریوں کو قتل کر دیا جائے۔ قتل تو دُور کی بات رہی آنحضرتﷺ تو جنگ میں جو فوج بھجواتے تھے اسے بھی ہدایت ہوتی تھی کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، راہبوں، پادریوں کو قتل نہیں کرنا۔ ہر شخص جو ہتھیار نہیں اٹھاتا یا کسی بھی شکل میں مسلمانوں کے خلاف جنگ کا حصہ نہیں بنتا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچانا۔

پس یہ نہ ہی قرآن کریم کی تعلیم ہے، نہ آنحضرتﷺ کی تعلیم۔ اور نہ ہی آپؐ کے اور آپ کے خلفاء راشدین اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے کسی عمل سے یہ ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین کا نام اسلام رکھا ہے اور یہ نام ہی دہشتگردی اور جبر و تشدد کو ردّ کرتا ہے اور امن و صلح اور آشتی کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام کے معنی ہی امن میں رہنا اور امن دینا ہے۔

(خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍اگست ۲۰۱۶ء)

یہ لوگ تو رسمی میلاد مناتے ہیں۔ہمارے دلوں میں آنحضرتﷺ کی محبت ہے

۲۰۱۶ء میں ایک بار پھر ناموس رسالت کے قیام کے نام پر پاکستان میں احمدیوں پر ظلم کا بازار گرم کیا گیا۔ سارا دن احمدیوں کو مسجد میں محبوس کردیا گیا اور مسجد کے سامان کو نذرِآتش کر دیا گیا۔ حضور انور ایدہ اللہ نے رسول اللہﷺ کے نام پر کیے جانے والے اس ظالما نہ فعل کی مذمت فرمائی اور ان کی ہدایت کے لیے دعا کی تلقین فرمائی۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ’’۱۲؍ربیع الاوّل کے حوالے سے ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے نام پر پاکستان میں چند دن پہلے (یہ چار دن پہلے تھا) دوالمیال میں اوباشوں اور مولویوں نے جمع ہو کر جلوس نکالا۔ ہماری مسجد پر حملہ کیا۔ مسجد کے اندر احمدی تھے۔ احمدیوں نے اندر آنے نہیں دیا۔ دروازے بند تھے۔ لیکن پولیس کے کہنے پر جب احمدیوں نے دروازے کھولے اور پولیس کی اس ضمانت پر دروازے کھولے کہ وہ مسجد کی حفاظت کریں گے اُس وقت یہ بلوائی مسجد میں داخل ہو گئے اور پولیس ایک طرف ہو گئی۔ اور پھر انہوں نے مسجد کا سامان باہر نکال کر جلایا اور یوں انہوں نے اپنے زعم میں اسلام کی بہت بڑی خدمت کی۔

بہرحال ہم نے قانون سے نہیں لڑنا نہ ہم لڑتے ہیں جہاں تک مادی چیزوں کا سوال ہے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ٹھیک ہے نقصان کیا، کر دیں۔ ہاں اپنے عقیدے اور آنحضرتﷺ پر کامل ایمان لانے کا اور توحید کو اپنے دلوں میں گاڑنے کا جہاں تک سوال ہے اس کے لئے ہم اپنی جانیں قربان کر سکتے ہیں لیکن اس سے ہٹنے والے نہیں اور ہمیشہ ہم یہی کہتے آئے ہیں اور اس کی خاطر قربانیاں بھی دیتے آئے ہیں کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے اعلان سے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

یہ لوگ تو رسمی میلاد مناتے ہیں، رسماً اکٹھے ہوتے ہیں۔ تقریریں کیں اور ان کی جو تقریریں ہیں وہ بھی اکثریت پاکستان میں سوائے احمدیوں کو گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں ہوتیں۔ یہ مغلّظات بک کر وقتی طور پر ایک جوش نکال لیتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی۔ لیکن جماعت احمدیہ نے اصل خدمت کا بیڑا پہلے تو اُس وقت اٹھایا تھا جب حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ کیا اور آپؑ نے یہی فرمایا کہ میں توحید کو اور آنحضرتﷺ کی عزت کو قائم کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اسلام کی نشأۃ ثانیہ میرے ذریعہ سے ہونی ہے۔

…پس دشمن ہمیں جو چاہے کہتا رہے۔ ہم پر جو بھی الزام لگاتے ہیں لگاتے رہیں۔ ہمارے دلوں میں آنحضرتﷺ کی محبت ہے اور ہمیں سب سے بڑھ کر آپؐ کے خاتم النبیین ہونے کا اِدراک ہے اور یہ سب ہمیں حضرت مسیح موعودؑ نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دشمن کے ہر حملے اور ہر ظلم کے بعد پہلے سے بڑھ کر اپنے ایمان میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور آنحضرتﷺ پر درود پہلے سے بڑھ کر بھیجنے والے ہوں تا کہ مسلمانوں کو بھی آپ کے اس مقام کا صحیح اِدراک حاصل ہو اور یہ بھٹکے ہوئے مسلمان بھی صحیح رستے پر آ جائیں اور دنیا میں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم؍ جنوری ۲۰۱۷ء)

مسلمان کہلانے کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں

پاکستانی پارلیمنٹ میں احمدیہ مخالف قوانین کی بحث نے جب منفی رنگ پکڑنا شروع کیا تو حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ’’ہم نے کسی غیر ملکی طاقت سے نہ ہی کبھی یہ کہا ہے کہ ہمیں پاکستانی اسمبلی کے آئین میں ترمیم کروا کر قانون اور آئین کی نظر میں مسلمان بنوایا جائے۔ نہ ہی ہم نے کسی پاکستانی حکومت سے کبھی اس چیز کی بھیک مانگی ہے۔ نہ ہی ہمیں کسی اسمبلی یا حکومت سے مسلمان کہلانے کے لئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے، کسی سند کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسولﷺ نے مسلمان کہا ہے۔ ہم کلمہلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھنے والے ہیں۔ ہم تمام ارکان اسلام اور ارکان ایمان پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے…ہم اس بات پر علی وجہ البصیرت قائم ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہﷺ خاتم النبیین ہیں بلکہ حضرت مسیح موعودؑ نے صاف صاف اور واضح لکھا ہے۔ متعدد جگہ اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جو ختم نبوت کا منکر ہے مَیں اسے بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ وہ نہ احمدی ہے، نہ مسلمان ہے۔ پس ہمارے خلاف یہ شورش پیدا کی جاتی ہے اور ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں اور نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے یہ نہایت گھٹیا اور گھناؤنا الزام ہے جو ہم پر لگایا جاتا ہے۔ یہ الزام حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے وقت سے جماعت احمدیہ پہ اور حضرت مسیح موعودؑ پہ لگایا جا رہا ہے اور وقتاً فوقتاً جب بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے ہوں جیسا کہ مَیں نے کہا ان لوگوں کو اس بارہ میں وبال اٹھتا رہتا ہے۔

اسی طرح احمدیوں پر یہ اعتراض کئے جاتے ہیں کہ یہ قوم کی خدمت نہیں کرتے۔ یہ قوم کے وفادار نہیں ہیں۔ لیکن مَیں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج پاکستان میں احمدی ہی ہیں جو حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَان پر یقین رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اپنا جان مال قربان کرنے والے ہیں اور کر رہے ہیں۔ سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے صرف تقریریں کرنے والے نہیں ہیں اور نہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق ہے۔ ہم مذہب کی خاطر جان دینے والے تو ہیں لیکن مذہب کے نام پر سیاست چمکانے والے اور مذہب کے نام پر خون کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین تو مانتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں اور آپ کی ناموس کی خاطر ہر قربانی دیتے ہیں اور دینے کے لئے تیار ہیں اور دے رہے ہیں اور انشاء اللہ دیتے رہیں گے۔ ہر پاکستانی احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ یہ دعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو جس کی خاطر احمدیوں نے بڑی قربانیاں بھی دی ہیں اور ابتدا سے لے کر اب تک قربانیاں دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ سلامت رکھے اور ظالم جابر لیڈروں اور مفاد پرست علماء سے اسے بچائے اور دنیا کے آزاد اور باوقار ملکوں میں پاکستان کا بھی شمار ہونے لگے۔‘‘(خطبہ جمعہ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء)

ناموس رسالت کے نام پر ظلم اور ذاتی مفادات

ناموس رسالت کے قیام کے لئے جلاؤ گھیراؤ کی ضرورت نہیں بلکہ اسوہ رسولؐ پر عمل کی ضرورت ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ’’ پاکستان میں اس خوف کے مارے کہ فتنہ و فساد کی آگ ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ چلی جائے بعض شہروں میں آج موبائل فون کی سروس بند کر دی گئی ہے۔ پولیس کی بھاری نفری ہر چوک اور ہر سڑک پر کھڑی ہے۔ کیا یہ اس نبی کی پیدائش کی خوشی منانے کا طریق ہے کہ ہر شریف آدمی خوفزدہ ہے اور حکومت قانون نافذ کرنے کے لئے، لاء اینڈ آرڈر کے لئے تحفّظات لئے ہوئے ہے۔ ہمارے پیارے آقا کے نام پر احمدیوں کے خلاف دریدہ دہنی کرنا اور مغلّظات بکنا تو روز کا معمول ہے لیکن آج کے دن کی خوشی میں آج اس میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ اپنے زعم میں یہ لوگ اس عمل سے اس عظیم نبی کی عزت و وقار کو بلند کر رہے ہیں۔ چند دن ہوئے پاکستان کے کئی شہروں میں جو گھیراؤ ہوا، محاصرہ ہوا، دھرنے ہوئے، اس نے ہر شریف شہری کو پریشان کر دیا تھا۔ کاروبار زندگی معطل ہو گیا تھا۔ کوئی مریض ہسپتال نہیں جا سکتا تھا۔ سکول بند کر دئیے گئے بلکہ دکانیں تک بند کر دی گئیں۔ کوئی شخص جس کے گھر میں کھانے پینے کا سامان نہیں تھا اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کا سامان نہیں لا سکتا تھا۔ کروڑوں اور اربوں روپوں کا قوم کو مالی نقصان بھی ہوا اور یہ سب کچھ ان نام نہاد علماء کے حُبِّ رسول کے نعرے کی وجہ سے ہوا۔ وہ رسول جو رحمۃٌ للعالمین ہے جس نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ راستوں کے حقوق ادا کرو۔ آپؐ نے فرمایا کہ بازاروں میں شور و غوغاکرنے سے بچو۔ آپؐ نے فرمایا کہ راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔

… لیکن یہ لوگ تو ناموس رسالت کے نام پر راستے بند کر کے لوگوں کو تکلیف میں ڈال رہے تھے۔ اس کے باوجود یہ لوگ اپنے زعم میں دین کے ٹھیکیدار ہیں اور اپنی مرضی کے معیار کے مطابق جس کو چاہیں کافر بنا دیں اور جس کو چاہیں مومن بنا دیں۔ بہرحال یہ تو اُن کے عمل ہیں جو ان کے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی تعلیم اور آپ کے اُسوہ سے ان چیزوں کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ لوگ جو چاہیں کرتے رہیں لیکن ہم احمدیوں کا کام ہے کہ ہم آپﷺ کے اُسوہ کے ہر پہلو کو دیکھیں اور اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اپنی تمام تر طاقتوں اور استعدادوں کے مطابق کوشش کریں۔

… پس آج اگر حقیقی خوشی منانی ہے تو پھرآپؐ کے اُسوہ پر عمل کر کے منائی جا سکتی ہے جہاں عبادتوں کے معیار بھی بلندہوں۔ جہاں توحید پہ بھی کامل یقین ہو اور اعلیٰ اخلاق کے معیار بھی بلند ہوں۔ اگر یہ نہیں تو ہم میں اور غیر میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ہم عمل نہیں کر رہےتو وہ لوگ جو بکھرے ہوئے ہیں اور عارضی لیڈر اور نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر لوگوں کے لئے تنگیوں کے سامان کر رہے ہیں ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا تقاضا یہی ہے کہ ہر کام میں آنحضرتﷺ کے اُسوہ کو سامنے رکھیں۔(خطبہ جمعہ یکم دسمبر ۲۰۱۷ء)

فرانس میں خاکوں کی اشاعت اور رد عمل کا طریق

۲۰۲۰ء میں فرانس میں ایک بار پھر خاکوں کی اشاعت سے مسلم امہ میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ فرانس کا بائیکاٹ کیا گیا۔ فرانس کے صدر نے جب اسلام کے خلاف بیان دیا تو حضور انور نے فوری اس بارہ میں عملی اقدام کیے۔ فرانس کے صدر کو خط لکھاا اور احمدیوں کو رسول اللہﷺ کی حقیقی تعلیمات پھیلانے اور درود پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ فرمایا :’’گذشتہ دنوں کھل کر اگر کسی مغربی لیڈر کا بیان آیا ہے، ویسے تو کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ سیاسی طور پہ لپٹے لپٹائے فقرات بیان کر کے یا اس طرح گول مول سے الفاظ میں بیانات آتے رہتے ہیں لیکن کھل کے کسی لیڈر کا بیان آیا تو وہ فرانس کا صدر تھا۔ اس نے اسلام کو کرائسس کا شکار مذہب قرار دیا ہے۔ کرائسس کا شکار اگر ہے تو خود ان کا اپنا مذہب ہے۔ اوّل تو وہ کسی مذہب کو مانتے ہی نہیں، عیسائیت کو بھی بھول بیٹھے ہیں۔ کرائسس کا شکار تو یہ ہیں۔ اسلام تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ مذہب ہے اور پھلنے پھولنے والا مذہب ہے اور پھل پھول رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں اس کی حفاظت کی ذمہ داری لیے ہوئے ہے۔

مسلمانوں میں ایکا نہیں ہے اس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کا ہر ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف ہے۔ فرقہ واریت نے باہر کی دنیا میں یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ہے۔ اگر دنیا کو پتہ ہو کہ مسلمان ایک ہیں، ایک خدا اور ایک رسول کے ماننے والے ہیں اور اس کی خاطر قربانیاں دینا جانتے ہیں تو کبھی غیر مسلم دنیا کی طرف سے ایسی حرکتیں نہ ہوں۔ کبھی کسی اخبار کو آنحضرتﷺ کے خاکے چھاپنے کی جرأت نہ ہو۔ چند سال پہلے بھی ڈنمارک میں بھی اور فرانس میں بھی جو خاکے چھپے تھے اس پہ وقتی شور مچا کر اور ان کی چیزوں کا بائیکاٹ کر کے، نہ خریدنے کا اعلان کر کے پھر خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ چند مہینوں کے بعد خاموشی ہو گئی۔ اُس وقت بھی جماعت احمدیہ نے ہی صحیح ردّ عمل دکھایا تھا اور ان کے سامنے آنحضرتﷺ کی خوبصورت سیرت پیش کی تھی جس کی بہت سے غیروں نے، پڑھے لکھے طبقے نے، لیڈروں نے، عوام الناس نے تعریف کی تھی اور پسند کیا تھا اور یہی کام ہم آج بھی کر رہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ چند سرپھرے لوگوں کے اسلام کے نام پر غلط عمل کو اسلام کا نام نہ دو۔ کسی ملک کے صدر کا یہ کام نہیں ہے کہ کسی شخص کے غلط عمل کو اسلام کی تعلیم اور مسلمانوں کے لیے کرائسس کا نام دے کر پھر اپنے لوگوں کو مزید بھڑکایا جائے کہ ان کے خلاف ہماری یہ لڑائی ہے اور یہ لڑائی ہم جاری رکھیں گے۔ اس شخص کو غلط عمل پر بھڑکانے والے بھی تو یہ خود ہی ہیں۔

فریڈم آف ایکسپریشن پر صحیح رد عمل کی ضرورت

میں نے پہلے بھی یہ بیان دیا تھا کہ یہ خاکے وغیرہ بنانا یا آنحضرتﷺ کی توہین کسی رنگ میں کرنا کسی بھی غیرت مند مسلمان کو برداشت نہیں ہے اور یہ حرکتیں بعض مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا سکتی ہیں اور بھڑکاتی ہیں اور پھر اگر کسی سے کوئی خلاف ِقانون حرکت سرزَد ہو جائے، اگر کوئی شخص قانون اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس کے ذمہ دار پھر یہ غیرمسلم لوگ ہیں، یہ حکومتیں ہیں یا نام نہاد آزادی ہے جس کو فریڈم آف ایکسپریشن کا نام، اظہارِ خیال کا نام دیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ غیر مسلم دنیا ان کے جذبات بھڑکاتی ہے۔ میں نے اس وقت بھی جب پہلی دفعہ یہ معاملہ اٹھا تھا خطبات کے ایک سلسلہ میں صحیح ردّعمل کی وضاحت کی تھی کہ ہمیں کس طرح صحیح ردّ عمل کرنا چاہیے اور کیا دکھانا چاہیے اور اس کا جیسا کہ میں نے بتایا کہ لوگوں پر اچھا اثر بھی ہوا تھا اور ابھی تک ہم مسلسل وہ کیے جا رہے ہیں اور اسی طریقے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پھر ہالینڈ کے سیاستدان نے جو ایک بیان دیا تھا تو اس وقت بھی ہالینڈ میں مَیں نے ایک خطبہ دیا تھا اور اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا تھا بلکہ اس پر اس نے ہالینڈ کی حکومت کو درخواست بھی دی تھی کہ اس نے مجھے موت کی دھمکی دی ہے اور میرے خلاف اس نے ہالینڈ کی حکومت کو یہ کہا تھا کہ اس کا یہاں آنا بین کیا جائے بلکہ اس پہ مقدمہ چلایا جائے۔ تو بہرحال ہم تو جہاں تک ہو سکتا ہے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلام اور آنحضرتﷺ کے مقام کے خلاف ہونے والی ہر حرکت کا جواب دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے اور اس کا اثر بھی ہوتا ہے اور یہی حل پیش کرتے ہیں کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر قدم ہمیں اٹھانا چاہیے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ پر درود بھیجنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے اور گذشتہ کئی خطبات میں مَیں اس بات کی تحریک کر چکا ہوں اور باوجود ہمارے بارے میں غیر احمدی علماء کے سخت بیان کے ہم اسلام کے دفاع میں اسلام کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں اپنا کام کرتے چلے جائیں گے اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت

…. دعا کریں کہ مسلمان ممالک کم از کم غیروں کے سامنے ایک ہو کر آواز اٹھائیں پھر دیکھیں کتنا اثر ہوتا ہے۔ ہم تو اپنا کام کیے جا رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ کہ مسیح محمدیؐ کے ماننے والوں کا یہ کام ہے، یہ فرض ہے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں۔ آنحضرتﷺ کے خوبصورت چہرے کو دنیا کو دکھائیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک تمام دنیا کو آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے نہ لے آئیں۔ دنیا کو بتائیں کہ تمہاری بقا اسی میں ہے کہ خدائے واحد کو پہچانو اور ظلموں کو ختم کرو۔ کچھ عرصہ پہلے کووڈ کے دوران میں نے چند سربراہانِ حکومت کو دوبارہ خط لکھے تھے۔ فرانس کے صدر کو بھی مَیں نے لکھا تھا اور اس میں حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ یہ عذاب اور آفات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظلموں کی وجہ سے آتے ہیں اس لیے تمہیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ظلموں کو ختم کرو اور انصاف کو قائم کرو اور حق پر مبنی بیان دو۔ ہم نے جو اپنا فرض تھا پورا کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ اب یہ کسی کی مرضی ہے کہ چاہے وہ اس کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن ہم نے بہرحال امّت مسلمہ کو دعاؤں میں نہیں بھولنا۔ (خطبہ جمعہ ۶؍ نومبر ۲۰۲۰ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍نومبر۲۰۲۰ء)

احمدی تو ناموس رسالتﷺ کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہیں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’توہین رسالت کے جس قانون کے تحت یہ لوگ احمدیوں پر ظلم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور احمدیوں کی اپنی تربیت کے لیے جو بھی ہمارے بعض ذرائع ہیں ہر ذریعہ پر پابندی لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کو اللہ تعالیٰ جلد ان سے دُور فرمائے اور ہمیں ان سے نجات دلائے۔ اصل میں تو رحمۃ للعالمین کے نام کو یہ بدنام کرنے والے لوگ ہیں۔ احمدی تو ناموس رسالتﷺ کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہیں۔ آج دنیا کو محمد رسول اللہﷺ کے جھنڈے کے نیچے لانے والے سب سے زیادہ کام بلکہ حقیقی کام احمدی کر رہے ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ اگر کوئی یہ کام کررہا ہے تو وہ صرف احمدی ہیں۔ پس یہ دنیا دار دنیاوی حکومت اور دولت کے بل بوتے پر ہم پر ظلم تو کر سکتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہم اس خدا کو ماننے والے ہیں جو نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ ہے۔ وہ خدا ہے جو نِعْمَ الْمَوْلٰی ہے اور نِعْمَ النَّصِیْرُ ہے۔ یقیناً اس کی مدد آتی ہے اور ضرور آتی ہے اور اس وقت پھر ان دنیاداروں اور اپنے زعم میں طاقت اور ثروت رکھنے والے جو لوگ ہیں ان کی پھر خاک بھی نظر نہیں آتی جب اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت آتی ہے۔ پس ہمارا کام ہے کہ دعاؤں سے اپنی عبادتوں کو مزید سجائیں اور اگر ہم یہ کر لیں گے تو پھر ہی ہم کامیاب ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ یکم جنوری ۲۰۲۱ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍جنوری۲۰۲۱ء)

احمدی توہین نہیں کرتے

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں جس نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ان کی یہ خرافات سن کر، دل آزاری والی باتیں سن کر اور نہ صرف یہ باتیں بلکہ ان کی عملی کوششیں بھی دیکھ کر، ان کا بھی سامنا کر کے صبر اور دعا سے تم نے کام لینا ہے۔ یہ ائمۃالکفر ہیں جنہوں نے معصوم مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے بارے میں غلط باتیں پھیلا کر بھڑکایا ہوا ہے۔ عوام الناس تو شاید کم علمی کی وجہ سےیہ سمجھتے ہیں کہ واقعہ میں احمدی آنحضرتﷺ کی نعوذ باللہ توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں اس لیے ان کے ساتھ یہ سلوک ضرور ہونا چاہیے، جو مولوی کہتا ہے وہ سچ کہتا ہے۔ یہ تو عوام الناس کی، عامۃ المسلمین کی حالت ہے لیکن جو علم رکھنے والے مولوی ہیں اور حقیقت میں علم رکھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کی کوئی ٹھوس بنیادنہیں ہے اور صرف یہ لوگ فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ ان کے منبر سلامت رہیں اور ان کو کوئی ان کی جگہ سے نہ ہلائے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ ہمارا کام تو جیسا کہ میں نے کہا دعا کرنا ہے اور جیسا کہ میں نے عید کے خطبہ میں بھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ دشمن کے لیے بھی دعا کرو۔ ‘‘(خطبہ جمعہ ۱۴؍ مئی ۲۰۲۱ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴؍جون ۲۰۲۱ء)

توہین کے وقت درود

ان دو دہائیوں کے طویل عرصہ میں جہاں مغرب نے اسلام اور رسول اللہﷺ کے بارےمیں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ خاکے بنائے گئے۔ تو دوسری جانب مسلم امہ کے ائمہ نے نامناسب ردعمل دکھا کر نفرت کی آگ کو مزید چنگاری دی۔ ناموس رسالت کے نام پر احمدیوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا۔ ناحق خون بہایا گیا۔ املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔لیکن جماعت احمدیہ نے ان تمام مشکلات کے باوجود اپنے امام کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کیا ور یہ خوف کےزمانے امن میں بدلتے چلے گئے۔

امام الزماں حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تمام عرصہ میں حقیقی ردعمل دکھانے کی تلقین کی اور وہ رد عمل صرف درود پڑھنا اور اسوہ رسولﷺ پر عمل کرنا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ نے کبھی مسلم امہ کے لیے بددعا کی تحریک نہیں کی۔ بلکہ مسلم امہ کی ہدایت اور ائمة الکفر کے چنگل سے آزاد ہونے کی تلقین فرمائی ہے۔ آخر میں حضرت مسیح موعوؑد کا ایک اقتباس پیش ہے جس میں مخالفین کی مخالفت اور ان کی جانب سے کی جانے والی توہین کا جواب درود سے دینے کی تلقین موجود ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پُر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرتﷺ کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا۔ مَیں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک درد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس زمانہ سے بڑھ کر اسلام پر گذرا ہے جس میں اس قدر سبّ و شتم اور توہین آنحضرتﷺ کی کی گئی ہواور قرآنِ شریف کی ہتک ہوتی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بیقرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں۔ کیا آنحضرتﷺ کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفینِ اسلام کے منہ بند کر کے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرتﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو اس توہین کے وقت اس صلوٰة کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی صورت میں کیا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۵صفحہ ۱۳-۱۴ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

اللہ کرے کہ مسلم امہ اس حقیقت کو سمجھے اور ہم احمدی ناموس رسالت کے حقیقی علمبردار بن کر دنیا کے کونے کونے میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہﷺ کی ناموس کی عظمت قائم کرنے والے ہوں۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button