متفرق مضامین

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اسلام کے دفاع اور ناموس رسالت کے قیام کے لیے غیرت اور جماعت کو زرّیں نصائح (قسط دوم)

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

رسول اللہﷺ کے لیےغیرت

مسلم امہ کے دنیاوی لیڈران غیرت کے جوش میں آکر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ جبکہ ایک احمدی جو کسی بھی نبی کی توہین کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی غیر کی جانب سے توہین کے وقت بھی خداتعالیٰ سے مدد مانگتاہے جیسا کہ زمانے کے امام ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔ حضور فرماتے ہیں کہ ’’ایک سچے مسلمان کے لئے جو حضرت آدمؑ سے لے کر آنحضرتﷺ پر ایمان لاتا ہے اس کے لئے سخت بے چینی کا باعث ہے کہ کسی بھی رسول کی، کسی بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی اہانت کی جائے اور اس کی ناموس پر کوئی حملہ کیا جائے۔ اور جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ذات کا سوال ہو جنہیں خداتعالیٰ نےافضل الرسل فرمایا ہے تو ایک حقیقی مسلمان بے چین ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی گردن تو کٹوا سکتا ہے، اپنے بچوں کو اپنے سامنے قتل ہوتے ہوئے تو دیکھ سکتا ہے، اپنے مال کو لٹتے ہوئے دیکھ سکتا ہے لیکن اپنے آقا و مولیٰ ؐکی توہین تو ایک طرف، کوئی ہلکا سا ایسالفظ بھی نہیں سن سکتا جس میں سے کسی قسم کی بےادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو…آج کل یہ مغربی یا ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک پریس میں مسلمانوں کو اور اسلام کو ایک بھیانک، شدت پسند، عدمِ برداشت سے پُر گروہ اور مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں اور دنیا میں پاکستان، افغانستان یا بعض اور مسلم ممالک کی مثالیں اس حوالے سے بہت زیادہ دی جانے لگی ہیں۔ بہر حال مَیں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑ رہا کہ ناموسِ رسالت کے قانون کی مسلمانوں کے نزدیک کتنی اہمیت ہے؟ اور اس کی کیا قانونی شکل ہونی چاہئے؟ یا اس حوالے سے غیر مسلم دنیا کیا فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ اور بعض حالات میں مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے۔

مَیں تو آج صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی عزت و ناموس پر اگر کوئی ہاتھ ڈالنے کی ہلکی سی بھی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے اس فرمان کہ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ(الحجر: ۹۶) یقیناً ہم استہزاء کرنے والوں کے مقابل پر تجھے بہت کافی ہیں، کی گرفت میں آجائے گا اور اپنی دنیا و آخرت برباد کر لے گا۔ میرے آقائے دو جہانؐ کا مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کی عزت و مرتبے کی ہر آن اس طرح حفاظت فرما رہا ہے کہ جس تک دنیا والوں کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔ آپ کے مقام، آپ کے مرتبے، آپؐ کی عزت کو ہر لمحہ بلند تر کرتے چلے جانے کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں فرمایا ہے۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ (الاحزاب: ۵۷) یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے سارے فرشتے نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں۔ پس یہ ہے وہ مقام جو صرف اور صرف آپؐ کو ملا ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی اَورنبی کی شان میں استعمال نہیں ہوئے۔‘‘

اپنے عمل سے دشمن کو مزید موقع نہ دیں

پھر فرمایا کہ ’’…یہ ہے آنحضرتؐ کی ناموسِ رسالت کہ غیر کا منہ بند کرنے کے لئے ہم اسوہ رسولؐ پر عمل کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑائیں اور غیر کو اپنے اوپر انگلی اٹھانے کا موقع دیں۔ اور صرف اپنے اوپر ہی نہیں بلکہ اپنے عملوں کی وجہ سے اپنے پیارے آقا سید المعصومینؐ کے متعلق دشمن کو بیہودہ گوئی یا کسی بھی قسم کے ادب سے گرے ہوئے الفاظ کہنے کا موقع دیں۔ اگر مخالفینِ اسلام کو ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے آپﷺ کے بارے میں کچھ بھی کہنے کا موقع ملتا ہے تو ہم بھی گناہگار ہوں گے۔ ہماری بھی جواب طلبی ہو گی کہ تمہارے فلاں عمل نے دشمن کو یہ کہنے کی جرأت دی ہے۔ کیا تم نے یہی سمجھا تھا کہ صرف تمہارے کھوکھلے نعروں اور بے عملی کے نعروں سے رسول اللہﷺ سے پیار کا اظہار ہو جائے گا یا تم پیار کا اظہار کرنے والے بن سکتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کو یہ پسندنہیں۔ اللہ تعالیٰ تو عمل چاہتا ہے۔ پس مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑا خوف کا مقام ہے۔ باقی جہاں تک دشمن کے بغضوں، کینوں اور اس وجہ سے میرے پیارے آقاﷺ کے متعلق کسی بھی قسم کی دریدہ دہنی کا تعلق ہے، استہزاء کا تعلق ہے اُس کا اظہار، … اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر فرما دیا ہے کہ ان لوگوں کے لئے مَیں کافی ہوں۔ آنحضرتﷺ کے مقام کے بارے میں ہمیں حضرت مسیح موعودؑ نے وہ روشنی دکھائی ہے کہ جس کے لئے ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی شکر گزار ہے اور ہونا چاہئے۔ اگر آپؐ ہمیں صحیح راستہ نہ دکھاتے تو ہمارا بھی آنحضرتﷺ سے تعلق کا اظہار صرف ظاہری قانونوں اور جلسے جلوسوں تک ہی ہوتا۔ اس درود میں جب ہم آلِ محمدؐ کہتے ہیں تو آنحضرتؐ کے پیارے مہدی کا تصور بھی ابھرنا چاہئے جس نے اس زمانے میں ہماری رہنمائی فرمائی۔‘‘

خطبات کا سلسلہ

حضور انور نے اس سے قبل کے واقعات کے ذکر میں فرمایا:’’۲۰۰۵ء میں جب ڈنمارک میں آنحضرتﷺ کے متعلق بیہودہ تصاویر بنائی گئیں تو ڈنمارک مشن نے بھی اور مَیں نے بھی خطبات کے ذریعہ اس کا جواب دیا۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے کارروائیاں بھی کیں۔ ہالینڈ کے ممبر آف پارلیمنٹ کی طرف سے قرآنِ کریم پر حملہ ہوا، اسلام پر حملہ ہوا توان کے جوابات دئیے گئے۔ تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے غیرت کا مظاہرہ ہے جو ایک حقیقی مسلمان کا سرمایہ ہے۔ قانون سے باہر نکل کر ہم جو بھی عمل کریں گے وہ آنحضرتﷺ سے صدق و وفا کا تعلق نہیں ہے۔‘‘

ناموس رسالت کے قانون کا اپنے مفاد میں استعمال بھی توہین ہے

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناموس رسالت کے قوانین کے غلط استعمال کو بھی توہین رسالت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ’’اصل چیز جو اس صدق و وفا کے تعلق کو جاری رکھنے والی ہے وہ آپؐ کا پیغام ہے۔ اگر مسلمان اس پیغام کی حقیقت کو سمجھتے ہوں، اس خوبصورت پیغام کے پہنچانے کا حق ادا کرنے والے بن جائیں تو آج یہ حالات نہ ہوں۔ اگر وہ حقیقت میں اس رسولﷺ کے اسوہ پر عمل کر رہے ہوتے تو دشمن کا منہ خود بخود بند ہو جاتا۔ اور اگر مسلمانوں میں سے چند مفاد پرست قانون کی آڑ میں ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہوتے بھی یا فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرتے تو قانون ان کو مجرم بنا کر اس مفاد پرستی کی جڑ اکھیڑ دیتا۔ لیکن یہ سب کام تقویٰ کے ہیں۔ پس مسلمان اگر ناموسِ رسالت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو اس تقویٰ کو تلاش کریں جو آنحضرتﷺ ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں غیرت رسولﷺ کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ ایک خطبہ میں تو ان کا ذکر نہیں ہو سکتا۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ چند خطبوں میں بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم نے اسلام اور آنحضرتﷺ کی ذات کو ہر قسم کے اعتراضوں اور استہزاء سے پاک کرنا ہے تو کسی قانون سے نہیں بلکہ دنیاکو آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے لا کر کرنا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے فساد اس وقت ختم ہوں گے جب ہم آنحضرتﷺ کی اصل تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں گے اور دنیا کو آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے لائیں گے۔ لیکن اگر صرف قانون بنا کر پھر اس قانون سے اپنے مفاد حاصل کر رہے ہوں گے تو ہم بھی توہینِ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہوں گے۔

… کاش کہ آج بھی ہر مسلمان یہ بات سمجھ جائے کہ اگر حقیقت میں کوئی فتنہ ہے تو قانون ظاہری فتنے کا علاج کرتا ہے، دل کا نہیں۔ اوّل تو یہی تحقیق نہیں ہوتی کہ فتنہ ہے بھی کہ نہیں؟ مسلمان کے لئے حقیقی خوشی اس وقت ہو گی اور ہونی چاہئے جب دنیا کے دلوں میں آنحضرتؐ کی محبت قائم ہو جائے گی۔ آج احمدیوں کا تو یہ فرض ہے ہی جس کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اگر دوسرے مسلمان بھی سختی کے بجائے عفو اور پیار کا مظاہرہ کریں اور وہ نمونہ دکھائیں جو آنحضرتؐ نے دکھایا تو پھر یہی اسلام کی خدمت ہو گی۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۱؍ جنوری ۲۰۱۱ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍فروری۲۰۱۱ء)

معصوم احمدی بچہ بھی توہین کا سوچ نہیں سکتا

مسلمانوں کے بغض اور از خود توہین کر کے دوسروں پر الزام لگانے کے فعل کی مذمت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’زمانے کے فساد کی حالت میں آنے کی تمام نشانیاں پوری ہو چکی ہیں۔ دنیا کی ہوا و ہوس زیادہ ہے اور خدا تعالیٰ کا خوف کم ہو چکا ہے۔ اس کی انتہا یہاں تک ہو چکی ہے کہ یہ نام نہاد مولوی اور اُن کے چیلے اپنی گراوٹوں کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ اس حد تک گر چکے ہیں کہ احمدیوں پر ظلم ڈھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم اور اُس کے رسولؐ کی ہتک سے بھی باز نہیں آتے اور پھر کہتے ہیں کہ یہ تو قادیانیوں نے کیا ہے۔ خود قرآنِ کریم کے پاکیزہ اور بابرکت اوراق کو، صفحوں کو، زمین پر یا نالی میں پھینک دیں گے، کوڑے کے تھیلوں میں ڈال دیں گے اور پھر کسی احمدی کا نام لگا دیں گے اور احمدی کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اُسے تو اُس وقت پتہ چلتا ہے جب پولیس اُس کے گھر اُس کو پکڑنے کے لئے آ جاتی ہے یا اُس کے خلاف ان گندہ دہنوں کے جلوس سڑکوں پر نکل رہے ہوتے ہیں۔ یا پھر ان کا یہ بھی طریق ہے کہ سکولوں میں دیواروں پر، غلط جگہ پر، غلط طریقے سے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ جن کی عزت و ناموس پر ہر احمدی اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ اپنی اولاد کو بھی قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے، آپؐ کا نام لکھ کر پھر سکول کے احمدی بچوں کا نام لگا دیا جاتا ہے اور اس وجہ سے بچوں کو سکول سے نکال دیا جاتا ہے، اُن پر ظلم کئے جاتے ہیں، اُن کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ بلکہ ان معصوم بچوں پر ہتکِ رسول کے مقدمات قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہے اور سزا بھی انتہا کی ہے۔ ایسی حرکت ہمارے احمدی معصوم بچوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے جس کے متعلق وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ پس جب اخلاقی گراوٹ اس حد تک چلی جائے، جب خدا تعالیٰ کا خوف دلوں سے بالکل ہی غائب ہو جائے، جب گھٹیا اور ذلیل حرکتوں کی انتہا ہونے لگے تو پھر مظلوموں کی آہیں اور فریادیں اور پکاریں بھی اپنا کام دکھاتی ہیں۔ پس آجکل خاص طور پر پاکستان میں جو حالات ہیں، جن سے احمدی وہاں گزر رہے ہیں اس حالت میں جیسا کہ میں اکثر پہلے بھی کئی مرتبہ توجہ دلا چکا ہوں ہمیں اپنی دعاؤں کا محور صرف اور صرف احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی کو بنانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی جلد پکڑ کرے جو خدا اور اسلام کے نام پر ظلموں کی انتہا کئے ہوئے ہیں۔ خدا، اسلام اور حضرت محمد رسول اللہﷺ کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں ان دعاؤں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ ان میں سے جو نیک فطرت ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ زمانے کے امام کو آنحضرتﷺ کا سلام پہنچانے والے بنیں۔‘‘(خطبہ جمعہ ۹؍ دسمبر ۲۰۱۱ء۔ الفضل انٹرنیشنل۳۰؍دسمبر۲۰۱۱ء)

دل آزار امریکن فلم پر غیرت کا اظہار

آنحضرتﷺ کے بارے میں امریکہ میں جوانتہائی دلآزار فلم بنائی گئی تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر عشق رسولؐ کےاظہارکا حقیقی طریقہ سکھانے کے لیے متعدد خطبات میں احمدیوں کی راہنمائی فرمائی۔ ۲۰۱۲ء میں جب رسول اللہﷺ کے بارےمیں اس فلم کا چرچا تھا اور مسلم امہ میں غم وغصہ کی لہردوڑ رہی تھی۔ متعصب علماء اور عوام کالانعام کا جاہلانہ ردِّ عمل تو مغرب کے دعوئوں کا مصدّق تھا۔ حضور انور نے احمدیوں کی راہنمائی فرمائی کہ کس طرح حقیقی طور پر رسول اللہﷺ سے عشق کا اظہار کرنا ہے اور اسلام کا حقیقی چہرہ مغرب کو دکھانا ہے۔ فرمایا کہ ’’آجکل مسلم دنیا میں، اسلامی ممالک میں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی اسلام دشمن عناصر کے انتہائی گھٹیا، گھناؤنے اور ظالمانہ فعل پر شدید غم و غصّہ کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ اس غم و غصہ کے اظہار میں مسلمان یقینا ًحق بجانب ہیں۔ مسلمان تو چاہے وہ اس بات کا صحیح ادراک رکھتا ہے یا نہیں کہ آنحضرتﷺ کا حقیقی مقام کیا ہے، آپﷺ کی عزت و ناموس کے لئے مرنے کٹنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ دشمنان اسلام نے آپﷺ کے متعلق جو بیہودہ اور لغو فلم بنائی ہے اور جس ظالمانہ طور پر اس فلم میں آپﷺ کے متعلق اہانت کا اظہار کیا گیا ہے اس پر ہر مسلمان کا غم اور غصّہ ایک قدرتی بات ہے۔

سب سے بڑھ کر ایک احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی

… اس عظیم محسنِ انسانیتؐ کے بارے میں ایسی اہانت سے بھری ہوئی فلم پر یقیناً ایک مسلمان کا دل خون ہونا چاہئے تھا اور ہوا اور سب سے بڑھ کر ایک احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی کہ ہم آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں۔ جس نے ہمیں آنحضرتﷺ کے عظیم مقام کا اِدراک عطا فرمایا۔ پس ہمارے دل اس فعل پر چھلنی ہیں۔ ہمارے جگر کٹ رہے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدلہ لے۔ اُنہیں وہ عبرت کا نشان بنا جو رہتی دنیا تک مثال بن جائے۔ ہمیں تو زمانے کے امام نے عشق رسولﷺ کا اس طرح ادراک عطا فرمایا ہے کہ جنگل کے سانپوں اور جانوروں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہﷺ، حضرت خاتم الانبیاءؐ کی توہین کرنے والے اور اُس پر ضد کرتے چلے جانے والے سے ہم صلح نہیں کر سکتے۔

درود شریف سے اپنے ملکوں، اپنے علاقوں، اپنے ماحول کی فضاؤں کو بھر دیں

…اس وقت تو آزادیٔ اظہار کے نام پر سیاستدان بھی اور دوسرا طبقہ بھی بعض جگہ کھل کر اور اکثر دبے الفاظ میں ان کے حق میں بھی بول رہا ہے اور بعض دفعہ مسلمانوں کے حق میں بھی بول رہا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اب دنیا ایک ایسا گلوبل ویلیج بن چکی ہے کہ اگر کھل کر برائی کو برائی نہ کہا گیا تو یہ باتیں ان ملکوں کے امن و سکون کو بھی برباد کر دیں گی اور خدا کی لاٹھی جو چلنی ہے وہ علیحدہ ہے۔…جو دوسرے مسلمان ہیں، ان مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ ردّ عمل دکھانا چاہئے کہ درود شریف سے اپنے ملکوں، اپنے علاقوں، اپنے ماحول کی فضاؤں کو بھر دیں۔ یہ ردّعمل ہے۔

….پس دنیا کے پڑھے لکھے لوگ اور اربابِ حکومت اور سیاستدان سوچیں کہ کیا ان چند بیہودہ لوگوں کو سختی سے نہ دبا کر آپ لوگ بھی اس مفسدہ کا حصہ تو نہیں بن رہے۔ دنیا کے عوام الناس سوچیں کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر اور دنیا کے ان چندکیڑوں اور غلاظت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملا کر آپ بھی دنیا کے امن کی بربادی میں حصہ دار تو نہیں بن رہے؟

….یہ لوگ جن کے دین کی آنکھ تو اندھی ہے، جن کو انبیاء کے مقام کا پتہ ہی نہیں ہے، جو حضرت عیسیٰ ؑ کے مقام کو بھی گرا کر خاموش رہتے ہیں، اُن کو تو مسلمانوں کے آنحضرتﷺ کے لئے جذبات کا اظہار بچوں کی طرح کا ردّعمل نظر آئے گا۔ لیکن بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ ۲۰۰۶ء میں بھی میں نے توجہ دلائی تھی کہ اس طرف توجہ کریں اور ایک ایسا ٹھوس لائحہ عمل بنائیں کہ آئندہ ایسی بیہودگی کی کسی کو جرأت نہ ہو۔ کاش کہ مسلمان ملک یہ سن لیں اور جو اُن تک پہنچ سکتا ہے تو ہر احمدی کو پہنچانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ چار دن کا احتجاج کر کے بیٹھ جانے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

بین الاقوامی وکلاء کوئی اَورراستہ نکالیں

….پھر یہ تجویز بھی ایک جگہ سے آئی تھی، لوگ بھی مختلف تجویزیں دیتے رہتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان وکلاء جو ہیں یہ اکٹھے ہو کر پٹیشن (Petition) کریں۔ کاش کہ مسلمان وکلاء جو بین الاقوامی مقام رکھتے ہیں اس بارے میں سوچیں، اس کے امکانات پر یا ممکنات پر غور کریں کہ ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں یا کوئی اَورراستہ نکالیں۔ کب تک ایسی بیہودگی کو ہوتا دیکھتے رہیں گے اور اپنے ملکوں میں احتجاج اور توڑ پھوڑ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ اس کا اس مغربی دنیا پر تو کوئی اثر نہیں ہو گا یا اُن بنانے والوں پر تو کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اگر ان ملکوں میں معصوموں پر حملہ کریں گے یا تھریٹ (Threat) دیں گے یا مارنے کی کوشش کریں گے یا ایمبیسیز پر حملہ کریں گے تو یہ تو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اس صورت میں تو آنحضرتﷺ کی ذات پر خود اعتراض لگوانے کے مواقع پیدا کر دیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۱؍ ستمبر ۲۰۱۲ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍اکتوبر۲۰۱۲ء)

جماعت احمدیہ نے ہی صحیح اسلامی ردّ عمل دکھایا

مذکورہ بالا خطبہ پر مغربی میڈیا نے جہاں حضور انور کے موقف کو سراہا وہیں بعض نے اپنے تعصّب و کینہ پروری کے سبب بے جا تنقید بھی کی۔ لیکن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اگلے ہی خطبہ جمعہ میں جہاں تحمل کا حسین مظاہرہ کرتے ہوئے مثبت ردعمل پر شکر یہ اد اکیا وہیں ان لوگوں پر ایک بار پھر حقیقت کو واضح کیا۔ فرمایا:’’انٹرنیٹ پر اور بعض اخباروں کی ویب سائٹ پر مختلف تبصرہ کرنے والوں نے اور ایک پاکستانی انگلش اخبار نے خطبہ کے حوالے سے، پریس میٹنگ کے حوالے سے جماعت احمدیہ مسلمہ کے مؤقف کو دنیا پر خوب ظاہر کیا کیونکہ اکثر نے اس بات پر بڑے تعریفی کلمات لکھے تھے۔ لیکن انٹرنیٹ پر بعض تبصرے ایسے بھی تھے کہ مرزا مسرور احمدنے کونسی ایسی خاص بات کر دی ہے؟ بعضوں نے یہ بھی لکھا کہ انہوں نے جو بات کہی ہے ہر عقل مند انسان یہی بات کرتا ہے۔ لیکن ایک احمدی نے مجھے لکھا کہ مَیں نے سارے تبصرے سنے، ساری خبریں دیکھیں۔ علماء کے بھی اور ان کے لیڈروں کے بھی ساروں کے بیانات دیکھے۔ بہت باتیں کی ہیں لیکن کسی نے یہ توجہ نہیں دلائی کہ آنحضرتﷺ پر درود بھیجو۔ تو یہ توجہ بھی صرف جماعت احمدیہ کی طرف سے ہی دلائی گئی ہے کہ اس کا ایک ردّعمل یہ بھی ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ آپﷺ پر درود بھیجا جائے۔ بعض نے یہ بھی لکھا کہ ان لوگوں نے ہی صحیح اسلامی ردّعمل دکھایا ہے جن کو تم غیر مسلم کہتے ہو۔ بہرحال اس کی خوب تشہیر ہوئی ہے۔ اس طرح دنیا کے سامنے ایک حقیقی مسلمان کا حقیقی ردّعمل بھی آ گیا۔ اسلام کی حقیقی تعلیم جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے، اُس کا بھی دنیا کو پتہ چل گیا۔ دنیا کو اور عالم اسلام کو یہ پیغام بھی مل گیا کہ ایک حقیقی مسلمان کا صحیح ردّعمل کیا ہوتا ہے اور کیا ہونا چاہئے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اُس کی تائید تھی کہ اس طرح کوریج ہوئی ورنہ اگر ہم اپنی کوشش بھی کرتے تو صحیح اسلامی مؤقف جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے، دنیا کو اس کا پتہ نہ چلتا، یا ہم وسیع طور پر دنیا تک نہ پہنچا سکتے۔ اب اس کو آگے بڑھانا، اس کوریج سے فائدہ اُٹھانا ہرجگہ کی جماعت کا اور ہر احمدی کا کام ہے‘‘۔

درود پڑھنے اور سیرت کا مطالعہ کرنےکی تلقین

اسی خطبہ میں ایک بار پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے درود پڑھنے کے ساتھ ساتھ سیرت النبیﷺ کے مطالعہ اور اس پر عمل کی تلقین کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’مخالفینِ اسلام کو یہ سب کچھ کرنے کی جرأت اس لئے ہے کہ مسلمان ایک ہو کر نہیں رہتے لیکن ہم احمدی مسلمان جن کو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی موعود کے ہاتھ پر جمع کر دیا ہے، ہمارا بہرحال کام ہے کہ دنیا کو ہدایت کے راستے دکھائیں، امن اور سلامتی کے طریق بتائیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اس پیغام کو جو میں نے پڑھا ہے، اس کی خوب تشہیر کریں تا کہ دنیا کو حقیقی اسلامی تعلیم کا پتہ چل سکے۔ دنیا داروں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ آنحضرتﷺ کا مقام ہمارے دل میں اور حقیقی مسلمان کے دل میں کیا ہے؟ آپﷺ کی تعلیم اور آپؐ کا اسوہ حسنہ کس قدر خوبصورت ہے اور اس میں کیا حسن ہے؟ ایک حقیقی مسلمان کو آپﷺ سے کس قدر عشق اور محبت ہے، اس کا یہ لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ آپﷺ سے محبت و عشق کا اظہار آج سے چودہ سو سال پہلے صرف حسان بن ثابت نے ہی اپنے اس شعر میں نہیں کیا تھا کہ ؎

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ

مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ

یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تُو تو میری آنکھ کی پُتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھ اندھی ہو گئی۔ اب تیرے مرنے کے بعد کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ میں تو تیری موت سے ہی ڈرتا تھا۔

… پس ہمیں تو آنحضرتﷺ سے عشق و محبت کے یہ سبق سکھائے گئے ہیں اور یہ دنیا دار کہتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے؟ ہلکا پھلکا مذاق ہے۔ جب اخلاق اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اخلاق کے معیار بجائے اونچے جانے کے پستیوں کو چھونے لگیں تو تبھی دنیا کے امن بھی برباد ہوتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے، ہمارا کام ہے کہ زیادہ سے زیادہ کوشش کر کے آنحضرتﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اس کے لئے مختصر اور بڑی جامع کتاب Life of Muhammad یا دیباچہ تفسیر القرآن کا سیرت والا حصہ ہے، اس کو ہر احمدی کو پڑھنا چاہئے۔ اس میں سیرت کے قریباً تمام پہلو بیان ہو گئے ہیں یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ضروری پہلو بیان ہو گئے ہیں۔ اور پھر اپنے ذوق اور شوق اور علمی قابلیت کے لحاظ سے دوسری سیرت کی کتابیں بھی پڑھیں اور دنیا کو مختلف طریقوں سے، رابطوں سے، مضامین سے، پمفلٹ سے آنحضرتﷺ کے حسن و احسان سے آگاہ کریں۔ اللہ تعالیٰ اس اہم کام اور فریضے کو سرانجام دینے کی ہر احمدی کو توفیق عطا فرمائے اور دنیا کو عقل عطا فرمائے کہ اس کا ایک عقلمند طبقہ خود اس قسم کے بیہودہ اور ظالمانہ مذاق کرنے والوں یا دشمنیوں کا اظہار کرنے والوں کا ردّ کرے تا کہ دنیا بدامنی سے بھی بچ سکے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچ سکے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۸؍ ستمبر ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍اکتوبر۲۰۱۲ء)

میلاد النبیﷺ پر مسلمانوں کا وطیرہ

۱۲؍ربیع الاول کے حوالے سے حضور انور نے خدشات ظاہر فرمائے اور مسلم امہ کے غلط طرزِ عمل کا ذکر فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا کہ ’’اب آج یہ لوگ بڑے جلوس نکال رہے ہیں۔ میلادِ نبی کی خوشیاں منا رہے ہیں تو حقیقی خوشی جشن منانے میں تو نہیں ہے بلکہ آنحضرتﷺ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے میں، آپ کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے میں ہے۔ آپؐ پر درود بھیجنے میں ہے۔ …آنحضرتﷺ کا خوبصورت چہرہ آج حضرت مسیح موعودؑ کے علاوہ اور کوئی نہیں جو دکھا سکے اور نہ کوئی ہے جو دکھا رہا ہے۔ اور یہی آپ کی جماعت کا کام ہے۔ پس اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے۔… پس ہمارا بھی کام ہے کہ آج اور ہمیشہ اپنی زبان کو آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے سے تَر رکھیں اور اس میں ترقی کرتے چلے جائیں۔ اسی طرح آپ کے اُسوہ پر عمل کرنے والے ہوں اور اس میں بھی ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آج جلسے بھی بڑے ہو رہے ہیں، جلوس نکل رہے ہیں، آنحضرتﷺ کی ولادت منائی جا رہی ہے لیکن وہاں آپ کی تعلیم کا اظہار نہیں ہو رہا۔ ربوہ میں تو شاید اس وقت جو جلوس نکل رہے ہوں اُن میں سوائے حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں ہو رہا ہو گا۔ آنحضرتﷺ کی سیرت بیان نہیں ہو رہی ہوگی بلکہ صرف اور صرف حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دی جا رہی ہوں گی۔ جماعت کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جا رہی ہوگی۔

پس ایک طرف تو یہ ان لوگوں کا سلوک ہے جو دنیا دار ہو چکے ہیں۔ مسلمان کہلانے کے باوجود اسلام سے دور ہٹ چکے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا سلوک جو صحابہؓ کے ساتھ تھا کہ اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ کو حضرت مسیح موعودؑ کے وجود میں ظاہر کر رہا ہے، اُن کو دکھا رہا ہے، اُن کی تسلی کرا رہا ہے اور آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ اسی طرح کے نظارے اپنے نیک فطرت اور سعید لوگوں کو دکھا رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ جماعت میں آ رہے ہیں، قبول کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی میں بیعت میں آکر آنحضرتﷺ کی حقیقی غلامی کو اختیار کر رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ لوگ جو مخالفین ہیں ان کی بھی آنکھیں کھلیں اور بجائے یہ نام نہاد مسلمان کہلانے کے حقیقی مسلمان بننے والے ہوں اور جو خدا تعالیٰ کی آواز ہے اُس کو سننے والے ہوں۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۵؍ جنوری ۲۰۱۳ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۵؍فروری۲۰۱۳ء)

مسلم امہ کے لیے دعا کی تلقین

اگلے خطبہ میں ان خدشات کے پورے ہونے پر فرمایا کہ’’گزشتہ سے پچھلے جمعہ بارہ ربیع الاول تھی تو آنحضرتﷺ کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مَیں نے بتایا تھا کہ پاکستان میں میلاد النبیؐ کے جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہیں۔ جن میں خاص طور پر پاکستان میں سابقہ تجربہ کی بنا پر میں نے کہا تھا کہ یہ قوی امکان ہے کہ سیرت اور عشقِ رسولؐ کا کم ذکر ہو اور خاص طور پر ربوہ میں حضرت مسیح موعودؑ اور جماعت کے خلاف مغلّظات اور دریدہ دہنی کا زیادہ اظہار ہو گا۔ چنانچہ جو رپورٹس آئیں، وہی کچھ ہوا۔ جلسے کئے گئے، ربوہ کی گلیوں میں جلوس نکالے گئے اور مغلّظات بکی گئیں۔ اُن کو سب کچھ کہنے کی آزادی ہے۔ احمدیوں کواللہ اور رسول کا نام لینے کی بھی آزادی نہیں۔ بہر حال یہ علماءِ سُوء کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ قوم پر بھی رحم فرمائے کہ ان نام نہاد علماء کے چنگل سے آزاد ہوں۔ یہ گالیاں بکنا تو ان نام نہاد علماء کا کام ہے، یہ بَکتے رہیں گے۔ اور یہ بات کہ یہ گالیاں بکیں یا روکیں ڈالیں، جماعت کی ترقی میں یہ روکیں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں بلکہ ہر مخالفت جماعت کی ترقی کے قدم پہلے سے آگے بڑھاتی ہے۔‘‘

ان مخالفین کے رویّہ کے باوجود حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی امت کے لیے دعا کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’… آخر میں پھر اُمّتِ محمدیہؐ کے لئے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ بیشک یہ ہمیں جو مرضی کہتے رہیں، سمجھتے رہیں، اکثریت ان میں سے لاعلمی کی وجہ سے اور علماء کے خوف کی وجہ سے ہماری اس جماعت کی مخالفت کرتی ہے۔ لیکن کیونکہ یہ اپنے آپ کو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں اس لئے اس وقت ان کی حالتِ زار کے بارے میں ہمیں دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس حالت سے نکالے۔ اکثر مسلمان ممالک جو ہیں مشکلات کا شکار ہیں۔ اندرونی فسادوں اور جھگڑوں نے اُنہیں تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور یہ اس سے باہر آئیں۔ ان کے سیاستدانوں اور لیڈروں میں بھی خوفِ خدا اور انصاف نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ان میں وہ پیدا کرے۔ اور ان کے عوام جو ہیں وہ بھی غلط لیڈروں کے پیچھے چل کر اپنے ملک سے محبت کا جو اظہار ہے اُس کا غلط رنگ میں اظہار کر کے اُس محبت کو ضائع کر رہے ہیں، بلکہ ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی انصاف سے وطن سے محبت کا اظہار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ورنہ بہت خوفناک حالات پیدا ہونے والے ہیں جو بظاہر نظر آ رہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو یہ جو تھوڑی بہت آزادی ان لوگوں کی ہے، یہ کہیں مکمل طور پر بعض ملکوں میں محکومیت میں نہ بدل جائے۔ اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اسلام کے نام پر جو غلط تنظیمیں قائم ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ اور آنحضرتﷺ کے نام کو بدنام کرنے والی ہیں، اسلام کو بدنام کرنے والی ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بھی جلد اُمّت کو چھٹکارا دلوائے، دنیا کو چھٹکارا دلوائے۔ اب تو یہ دنیا کے لئے بھی خطرہ بن چکی ہوئی ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اسلام کے خوبصورت چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری جماعت کی جو کوششیں ہیں وہ تو اس لئے ہیں کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ظاہر کی جائے۔ جب یہ کوششیں ہماری طرف سے ہو رہی ہوتی ہیں تو سامنے ان کی مکروہ کوششیں کھڑی ہو جاتی ہیں جو پھردوسرے جو اسلام کے مخالف ہیں وہ پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی ہماری جلد جان چھڑائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عشقِ رسول میں بڑھائے اور اپنے فرائض اور حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ یکم فروری ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍ فروری ۲۰۱۳ء)

ہمیں دائرہ اسلام میں شامل ہونے کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں

اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہﷺ کی رسالت پر یقین رکھنے والا مسلمان کہلاتا ہے۔ حضور انور نے مسلمان کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس تعریف کے ہوتے ہوئے کسی سند کی ضرورت نہیں۔ فرمایا’’ہمیں نہ تو ان دنیاوی حکومتوں سے کسی بھلائی کی امید ہے اور نہ رکھنی چاہئے اور نہ ہمیں دائرہ اسلام میں شامل ہونے کے لئے یا مسلمان کہلانے کے لئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے، کسی سند کی ضرورت ہے۔ اصل مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مسلمان ہے۔ وہ مسلمان ہے جو اعلان کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں اور ایمان لاتا ہوں اور آنحضرتﷺ کو آخری شرعی نبی مانتا ہوں، خاتم الانبیاء یقین کرتا ہوں۔ اور اس تعریف کے مطابق احمدی مسلمان ہیں اور عملاً بھی اور اعتقاداً بھی دوسروں سے بڑھ کر مسلمان ہیں۔ پس اس اعلان کے بعد ہمیں زبردستی غیرمسلم بنا کر کچھ بھی ظلم یہ آئینی مسلمان ہم پر کریں یا وہ مسلمان جو آئین کی رو سے مسلمان ہیں، ہم پر کریں، یا حکومتیں اور اُن کے وزراء کی اشیر باد پر ان کے کارندے ہم پر کریں، یہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار بن رہے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لا رہے ہیں۔ ان کی یہ حرکتیں یقیناً ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے والی ہونی چاہئیں۔ ہر احمدی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اور خدا تعالیٰ کا یہ قرب اور اس قرب میں مزید بڑھنا یہی الٰہی جماعتوں کا شیوہ ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ یہاں ابھی میں نے آئینی مسلمان کہا تو جن کو اس بات کا پوری طرح پتہ نہیں اُن کے علم کے لئے بتا دوں کہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ احمدی آئینی اور قانونی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے بلکہ مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک جمہوری سیاسی اسمبلی اور جمہوری سیاسی اسمبلی کا دعویٰ کرنے والی اسمبلی اور حکومت مذہب کے بارے میں فیصلہ کر رہی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۴؍ جون ۲۰۱۳ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍جولائی۲۰۱۳ء)(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button