متفرق مضامین

علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست

(محمد کولمبس خاں۔ مہدی آباد، جرمنی)

پچپن سال پہلے گولبازار ربوہ میں محترم سید ولی اللہ شاہ صاحب کے جنرل سٹور نیروبی ہاؤس کے کاؤنٹر کے شیشے کے نیچے اقبال کے درج ذیل شعر پر مشتمل ایک اخباری کٹنگ پڑی ہوئی دیکھی تھی:

علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست

وائے محرومی! خزف چینِ لبِ ساحل ہوں میں

اس کا پہلا مصرعہ اس مضمون کا عنوان بننے کی وجہ سائنس کی دنیا میں ایک تازہ مگر نہایت اہم واقعہ کا رونما ہونا ہے جس کی عمومی پذیرائی کے لیے سائنس سے تھوڑی نہیں بلکہ زیادہ آگاہی کی ضرورت ہے۔

جب سے انسان نے کائنات پر غور کرکے اسے سمجھنے اور مشاہدات و تجربات کی تدوین کی کوشش شروع کی ہے قدرتی سائنس دن بدن ترقی کر رہی ہے۔ پہلے انسان اس مادی دنیا کو پانی، مٹی، آگ اور ہوا چار عناصر پر مشتمل سمجھتا رہا۔ جوں جوں اس کی مادی اور ذہنی رسائی کی پرواز بلند ہوتی گئی، پرانے نظریات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جا نے لگا تو یہ چار عناصر مرکبات ثابت ہوئے اور اس کے بعداب تک ایک سو اٹھارہ عناصر دریافت ہو چکے ہیں۔ ایک طرف انسان کائنات کی وسعت میں پھیلے ہوئے نظام شمسی سے باہر کے اجسام کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف مادی عناصر کے ذرات کے اندر کی دنیا کا کھوج لگا رہا ہے۔ ایک قطرہ پانی میں ایک’’ارب x ارب ‘‘ایٹم ہائیڈروجن کے اور اس کے نصف یعنی پچاس کروڑ آکسیجن کے ہوتے ہیں۔ کل تعداد ’’ایک ارب پچاس کروڑ ضرب ارب ‘‘ایٹم بنتے ہیں۔ اس ایک ایٹم کے اندر کی دنیا پر تحقیق کے کام کا اندازہ لگانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔البتہ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت اور حالات کی سازگاری عطا کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو ایٹم کی اندرونی ساخت میں موجود چار قوتوں کو تین ثابت کرنے پر نوبیل انعام کا مستحق سمجھا گیا۔ اب ڈیجیٹل ترقی نے مزید سہولتیں فراہم کر دی ہیں اور ایٹم کے ’’باطن‘‘سے گہر تلاش کرنے کی مہم تیز تر ہو چکی ہے۔ جرمنی میں DESY، سوئٹزرلینڈ میں CERN، امریکہ میں SLAC اور اسی طرح جاپان میںKEK لیبارٹریز کے نام پر علم کے دریا بہتے چلے جا رہے ہیں۔ اس ’’باطن‘‘سے گہر تلاش کرنے کے لیے جن آلات کی ضرورت ہے ان میں بھی بڑی نفاست پیدا کی جارہی ہے۔

جاپان کی لیبارٹری KEKمیں ایٹم کے باطن کو بہتر طور پر مشاہدے کے لیے جس ’’آنکھ‘‘کی ضرورت تھی وہ بون یونیورسٹی میں تیار کرکے جاپان لے جائی گئی ہے۔ اس آنکھ کو سائنس کی زبان میں پکسل ڈیٹیکٹر کہا جاتا ہے۔ پکسل ایک پیمانہ ہے جس سے ایک مکعب سنٹی میٹر رقبہ میں نکتوں کی تعداد معیّن کی جاتی ہے۔ اچھی سکیننگ مشین کی قابلیت چھ سو پکسل ہوتی ہے۔ لیکن آپ کے موبائل فون میں پکسل ہی میگا بائیٹ کی اکائی میں فون کیمرہ کی کوالٹی کے مظہر ہوتے ہیں۔ لیکن مذکورہ تجربہ گاہوں میں یہ موبائل کے پکسل کی اتنی بڑی تعداد بھی کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ایٹم کے باطن کی تحقیق کے لیے ایسے ڈیٹیکٹر (آنکھ) درکار ہے جو پانی کے ایک قطرہ کے ڈیڑھ سو ارب ضرب ارب حصّہ یعنی ایک ایٹم کا اسی طرح مطالعہ کر سکیں جیسے آپ ان سطور کو ملاحظہ فرما رہے ہیں۔

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور جناب فیض احمد فیضؔ کےدوستانہ مراسم تھے۔ ایک شعر فیض صاحب نے ایسا کہا جو ڈاکٹر صاحب کی تحقیق پر منطبق ہوتا ہے؎

کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا

مگر یہ چشم حیراں جس کی حیرانی نہیں جاتی

ذرے ذرے یعنی ایٹم کا جگر چیرنا اعلیٰ درجہ کے فن اور علم کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ نے ایٹمی توانائی کا تو سُن رکھا ہے۔ انہی ایٹموں کے ایک منظّم اور خاص انداز میں ٹوٹنے پر توانائی پیدا ہوتی ہے جسے آگے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ہمارے لیے خوشخبری کی بات ہے کہ جس طرح ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور ان کے ساتھیوں کی دریافت سے ایٹم کے باطن پر تحقیقات کا ایک نیا دروازہ کھلا اسی طرح نیا پکسل ڈیٹیکٹر PXD،بنانے والی بون یونیورسٹی کی ٹیم میں ہماری بیٹی عزیزہ منیر ہ بنت مکرم لطف اللہ خاں (جوخان میر خاں صاحب پہریدار حضرت مصلح موعودؓ کے پوتے ہیں)بھی شامل ہے۔خبرمیں بون یونیورسٹی نے یہ اعلان کیا ہے

نیا عالمی ریکارڈ

’’اب تک کا سب سے پتلا پکسل ڈیٹیکٹر نصب۔ایک بین الاقوامی ٹیم نے جاپان کے KEK ریسرچ سنٹر میں بیلے II کے تجربے کے بنیادی عنصر کو فٹ کیا ہے۔ جاپانی تحقیقی مرکز KEK میں بیلے II تعاون کا منصوبہ پوری دنیا کے محققین کو پارٹیکل فزکس میں نئے مظاہر کی تلاش میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ ایک ٹیم کے جاپان میں اپنے آخری مقام پر ایک نیا پکسل ڈیٹیکٹر کامیابی سے نصب کرنے کے بعد بین الاقوامی تجربہ اب ایک اہم سنگ میل تک پہنچ گیا ہے‘‘۔

یہ نیا ڈیٹیکٹر میکس پلانک سیمی کنڈکٹر لیبارٹری میں تیار کردہ ڈی ای پی ایف ای ٹی ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ اور یہ فی سیکنڈ ۵۰,۰۰۰ ہائی ریزولیوشن تصاویر فراہم کرتا ہے۔ B mesons کے decay Products، جو SuperKEKB ایکسیلیریٹر میں الیکٹران اور پوزیٹران کے ٹکرانے پر بنتے ہیں، ان کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ بیلے II(جاپان میں ہونے والے ایک تجربے کانام جہاں یہ ڈیٹیکٹر نصب کیا گیا ہے ) ہمیں اس بارے میں اور بھی زیادہ درست سمجھنے میں مدد دے گا کہ مادّہ اور ضد مادّہ (Matter & antimatter)کیوں مختلف طریقے سے برتاؤ کرتے ہیں اور کیا ابھی تک دریافت نہ ہونے والے ذرات یا قوتیں بھاری کوارکس (Quarksایٹم کے اندر وہ اینٹیں جن سے پروٹان اور نیوٹران وغیرہ کے محلات تشکیل پاتے ہیں) کے زوال میں کردار ادا کرتی ہیں۔ عزیزہ منیرہ خاں بنت لطف اللہ خاں صاحب کا تعلق جماعت احمدیہ Bad Segeberg سے ہے۔اللہ تعالیٰ عزیزہ کو مزید ترقیات سے نوازے اور بنی نوع انسان کے لیے مفید دریافتوں کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

انگریزی اور جرمن میں تفاصیل ذیل کے لنک پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔

https://www.uni-bonn.de/en/news/139-2023?set_language=en

https://www.uni-bonn.de/de/neues/139-2023?set_language=de

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button